بغاوت کے مقدمے تو بلوچ طلبہ کی آواز دبانے والوں پر ہونے چاہئیں جسٹس اطہر من اللہ

اسلام آباد ہائی کورٹ نے پولیس کو ایمان مزاری اور بلوچ طلبہ کے خلاف درج مقدمہ میں گرفتاریوں سے روک دیا

اسلام آباد ہائی کورٹ نے پولیس کو ایمان مزاری اور بلوچ طلبہ کے خلاف درج مقدمہ میں گرفتاریوں سے روک دیا

ISLAMABAD:
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ بغاوت کے مقدمے تو بلوچ اسٹوڈنٹس کی آواز دبانے والوں کے خلاف ہونے چاہئیں۔

چیف جسٹس نے نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے باہر احتجاج کرنے پر ایمان مزاری کیخلاف دائر مقدمہ کے خلاف درخواست کی سماعت کی۔


وفاقی وزیر شیریں مزاری کی بیٹی اور پٹیشنر وکیل ایمان زینب مزاری ذاتی حیثیت میں عدالت کے سامنے پیش ہوئیں۔ وکیل نے بتایا کہ قائداعظم یونیورسٹی کا بلوچ اسٹوڈنٹ لاپتہ ہوا جس کے خلاف نیشنل پریس کلب کے باہر احتجاج جاری تھا، احتجاج کے دوران پولیس آپریشن میں درجنوں طالب علم زخمی ہوئے۔ ایس ایس پی آپریشن نے بتایا کہ اس روز تین پولیس والے بھی زخمی ہوئے۔

چیف جسٹس ہائی کورٹ نے پولیس کو مقدمہ میں گرفتاریوں سے روکتے ہوئے کہا کہ ایس ایس پی صاحب یہ اس عدالت کے دائرہ اختیار کے اندر کیا ہو رہا ہے، بلوچستان کے طلبہ کی آواز سنی جانی چاہیے، یہاں پر کوئی آئین ہے ، عدالت اختلاف رائے اور تنقید کو دبانے کی اجازت نہیں دے گی، پولیس کسی کو ہراساں نہیں کرے گی، بلوچستان کے طلبہ کو تو سننا چاہیے ، بغاوت کے مقدمے تو ان پر ہونے چاہئیں جو ان کی آواز دبا رہے ہیں، اسلام آباد میں آوازوں کو دبانے کے لیے کسی کو اختیار سے تجاوز نہیں کرنے دیں گے، یہاں جمہوری حکومت ہے یہاں ملک کا آئین ہے؟۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے پولیس کو ایمان مزاری اور بلوچ طلبہ کے خلاف درج مقدمہ میں گرفتاریوں سے روکتے ہوئے سیکرٹری داخلہ اور آئی جی پولیس کو پیر کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا۔
Load Next Story