بُک شیلف

جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال

جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔ فوٹو: فائل

جنگل

مصنف: اپٹون سنکلیئر، مترجم: عمران الحق چوہان، قیمت:1500روپے

صفحات:304، ناشر:بک ہوم ، مزنگ روڈ ، لاہور (03014568820)



مزدور انسانی معاشرے کا وہ طبقہ ہے جس نے اس کی بنیاد قائم کرنے میں سب سے اہم کردار ادا کیا بلکہ یہ کہا جائے کہ انسانی معاشرے کی بنیادوں میں اس کا لہو شامل ہے تو غلط نہ ہو گا کیونکہ اس کی دن رات کی محنت نے اس بنیاد کو مضبوط کیا اور بدلے میں اسے زندگی کی بنیادی ضروریات بھی میسر نہ ہو سکیں اور یہ سلسلہ صدیوں سے چلا آ رہا ہے صرف اس کی شکلیں بدلتی رہی ہیں ۔

اپٹوں سنکلیئر نے مزدور کی زندگی کا بہت قریب سے مشاہدہ کیا ہے یوں لگتا ہے جیسے یہ آپ بیتی، جگ بیتی ہے جو اس نے ناول کی صورت میں بیان کی ہے ، جس کا ترجمہ بھی بہت شاندار ہے۔ زیر تبصرہ ناول امریکی ریاست شکاگو کے مزدوروں کی کہانی ہے جو ظالمانہ سرمایہ دارانہ نظام کے دونوں پاٹوں میں بری طرح پستے رہے۔

سرمایہ دار انھیں مشینوں کی طرح استعمال کر رہا تھا جو مزدور بدقسمتی سے کسی حادثے کا شکار ہو جاتا اسے کسی بے کار مشین کی طرح الگ کر دیا جاتا ، فرائض کی انجام دہی کے اوقات کار بہت طویل ، خوشی غمی میں بھی چھٹی کا کوئی تصور نہیں تھا ، چھٹی کرنے والے کی تنخواہ میں سے کٹوتی کر لی جاتی تھی، بعض اوقات نوکری سے ہی فارغ کر دیا جاتا تھا۔

کہنے کو آزاد تھے مگر ان کی زندگی ایک غلام سے بھی بدتر تھی ۔ جبر و استحصال کے اس نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے بالآخر وہ سڑکوں پر نکل آئے، سرمایہ دار بھی ان کیخلاف اکٹھے ہو گئے، مگر انھوں نے ہمت نہ ہاری اور اپنے حقوق حاصل کرنے کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، ان کی اسی قربانی کی یاد میں آج دنیا یوم مئی مناتی ہے ۔ ناول کا پلاٹ انتہائی شاندار ہے ، ماحول کی بہترین عکاسی کی گئی ہے۔

روزگار چھن جانے، بھوکوں مرنے کا خوف اور معمولی سی رقم کمانے کے لئے مشکل سے مشکل کام کرنا دل افسردہ کر دیتا ہے ۔ غرض مزدوروں اور ان کے خاندانوں کے مصائب کو بڑی دل گرفتگی سے بیان کیا گیا ہے۔

اس کی وجہ شاید مصنف کا خود اسی طبقے سے تعلق ہونا ہے جسے تھوڑے سے معاوضے کے لئے زیادہ سے زیادہ کام کرنا پڑتا تھا ۔ مترجم نے بھی حق ادا کر دیا ہے یوں لگتا ہے جیسے یہ ناول اردو میں ہی لکھا گیا ہے ، گویا ایک دور کی تاریخ مرتب کی گئی ہے ۔ نوجوانوں کو اس ناول کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ شکاگو کے مزدوروں کی جدوجہد سے آگاہی حاصل کر سکیں ۔ مجلد کتاب کو دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔

کلیات رضا
مصنف: صوفی شوکت رضا، قیمت:1600روپے، صفحات:639


ناشر:ادبستان ،پاک ٹاور،کبیر سٹریٹ ، اردو بازار، لاہور (03004140207)




صوفی شوکت رضا کی کتابیں بڑے تسلسل سے منصہ شہود پر آ رہی ہیں ۔ یوں لگتا ہے کہ علم کا ایک بحر ہے جسے وہ اپنے قاری کیلئے صفحات پر منتقل کر رہے ہیں ۔ ان کی کتابوں کی نمایاں خوبی روحانیت سے لگاؤ ہے ۔ وہ اپنی ہر تحریر کو کسی نہ کسی حوالے سے اس سمت میں لے جاتے ہیں ۔

زیر تبصرہ کلیات رضا میں انھوں نے تین کتابین جمع کی ہیں ، بانگ جرس، بال جبروت اور ضرب مومن ۔ ان کتابوں کے نام حضرت علامہ اقبال ؒ کے شاعری کے مجموعوں بانگ درا، بال جبریل اور ضرب کلیم سے ملتے جلتے ہیں ۔ اہم بات یہ ہے کہ انھوں نے اپنی شاعری میں انداز بھی ویسا ہی اپنایا ہے، جیسے

امید بہار شب و روز بیقرار رہتی ہے

بس یہی حب و سوز بار بارکہتی ہے

اب کے بار خوب گلشن کھلکھلائے گا

پرندوں میں یہی روز تکرار رہتی ہے

بلبل نے امید سے آشیاں تیار کیا

تنکا تنکا جوڑ یوں آستاں نکھار کیا

شگفتہ نرم و ملائم گوشہء آبیاری کو

رفتہ رفتہ شفقت سے مکاں سنگھار دیا

صوفی شوکت رضا اپنے قاری کو جو پیغام دینا چاہتے ہیں اس میں وہ کامیاب رہے ہیں ۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔

تحریک آزادی کے مجاہدین

مصنف: رئیس عباس زیدی، صفحات:


159ناشر: جناح رفیع فاؤنڈیشن، ایمپائر سنٹر، گلبرگ 2 لاہور، (04235712667)




پاکستان ہمیں کوئی تھالی میں رکھ کر نہیں دیا گیا ، اس کے پیچھے ایک طویل جدوجہد ہے ۔ ہمارے اکابرین کو ایک طرف تو ایسے خوشامدیوں کا مقابلہ کرنا تھا جو انگریز کے اقتدار کو دوام دینا چاہتے تھے دوسری طرف انگریز کے شکنجے سے نجات حاصل کرنے کے لئے بلاواسطہ جدوجہدکرنا تھی ، یوں تو اس جدوجہد کی کہانی بڑی طویل ہے مگر اصل آغاز 1857ء کی جنگ آزادی سے ہوا ۔

تب برصغیر کے عوام نے طے کر لیا تھا کہ انھوں نے انگریز سے آزادی حاصل کرنا ہے، ہر شعبہ زندگی کے مشاہیر نے اس کے لئے عوام کو متحرک کرنا شروع کر دیا ۔کسی نے سیاست کے میدان میں اپنی خدمات انجام دیں تو کسی نے تعلیم کے شعبے میں اپنا کردار ادا کیا اور کسی نے صنعت و حرفت میں، ایسے بھی تھے جنھوں نے طاقت کا استعمال کیا اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تاکہ آنے والی نسلوں کو آزادی کی نعمت میسر ہو سکے ۔

زیر تبصرہ کتاب میں ہمارے ایسے ہی اکابرین کا تذکرہ کیا گیا ہے جنھوں نے اس خطہ کو انگریز کے قبضہ سے نکالنے کے لئے خدمات سرانجام دیں ، جن میں قائداعظم محمد علی جناحؒ، علامہ اقبالؒ ، سرسید احمد خانؒ، مولانا محمد علی جوہرؒ ، نوابزادہ لیاقت علی خان ، محترمہ فاطمہ جناح،ایم رفیع بٹ ،سلطان ٹیپو شہید، بھگت سنگھ، سرگنگا رام، مولانا عبیداللہ سندھی، پرنس سر آغا خان ، مولانا حسرت موہانی اور دیگر شامل ہیں ۔

جناح رفیع فاؤنڈیشن کی کاوش انتہائی شاندار ہے، وہ نئی نسل کو تحریک آزادی کے مجاہدین سے متعارف کرانا چاہتی ہے ، نوجوان نسل کو اس کتاب کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ انھیں پتہ چل سکے کہ اس وطن کو بنانے میں ہمارے اکابرین کو کیسی کیسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا مگر انھوں نے ہمت نہ ہاری جس کا ثمر آج پاکستان کی صورت میں ہمارے سامنے ہے ۔

ون منٹ منیجر
مصنف: کین بلنکرڈ، ڈونالڈ کیریو،یونیسی پیریسی، مترجم:ریاض محمود انجم
قیمت:300 روپے، صفحات:112، ناشر:بک ہوم، مزنگ روڈ، لاہور (03014568820)





ہر فرد کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے پاس خوب مال و دولت ہو اور مال و دولت کمانے کا بہترین ذریعہ کاروبار ہے۔ دنیا بھر کے امیر ترین افراد کسی نہ کسی کاروبار سے ہی تعلق رکھتے ہیں ۔ انھوں نے اپنے کاروبار کو ترقی دینے کے لئے بہترین صلاحیتوں کو استعمال کیا اور کامیابی ان کے قدم چومتی چلی گئی ۔

اگر وہ اس معاملے میں غفلت برتتے تو جہاں سے چلے تھے وہیں کھڑے رہتے یعنی صفر ان کا مقدر بنتی یا پھر اپنا اصل سرمایہ بھی کھو دیتے اور غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزارنا ان کی مجبوری بن جاتا ۔ اپنے کاروبار کا انتظام و انصرام سنبھالنا اور اچھی ٹیم بنانا بھی بہت بڑا فن ہے ۔

تب جا کر اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا جا سکتا ہے ۔ ایک کامیاب کاروباری اور تجارتی ادارے کے لیے ٹیم ورک یعنی اجتماعی کارکردگی کا تصور آج کی اس جدید دنیا میں پہلے سے کہیں زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ اکثر منتظمین اپنے وقت کا نصف اپنی ٹیموں کے ساتھ صرف کرتے ہیں اور پھر ایک ذہین ، مستعد اور ماہر منتظم یہ بتاتا ہے کہ ایک ٹیم کس طرح زیادہ بہترین اور موثر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتی ہے۔

یہ کتاب اس بارے میں مکمل رہنمائی کرتی ہے کہ ٹیم ورک کے ذریعے بہترین کارکردگی کیسے دکھائی جا سکتی ہے ۔ زندگی میں آگے بڑھنے کا جذبہ رکھنے والوں کیلئے بہترین رہنما کتاب ہے انھیں اس کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے ۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔

اتصال
شاعر : اکرم جاذ ب



جدید شعری منظر نامے پر اکرم جاذب ایک اہم شاعر کی حیثیت سے اپنی جگہ بنا چکے ہیں ۔ جہاں ان کی شاعری نے باذوق اور سنجیدہ قارئین کو اپنی جانب متوجہ کیا ہے ، وہیں یہ کلام نقدونظر کا تقاضا بھی کرتا ہے ۔ اکرم جاذب کے فکروفن ، غزل جیسی معتبر اور مقبول صنفِ سخن میں ان کے سلیقۂ اظہار اور کلام کے محاسن و معائب پر بات کرنا اس لیے ضروری ہے کہ موجودہ دور میں سوشل میڈیا کی بدولت شعر اور شاعر تو مشہور ، معروف، نام ور اور مقبول کا درجہ پا لیتا ہے، لیکن ظاہر ہے داد و تحسین کا یہ شورکسی بھی شاعر کے ادبی قد و قامت کا تعین کرنے کا پیمانہ نہیںہے ۔ یہ تنقید کے میدان کی بات ہے اور ایک نقاد کا حق ۔

پیشِ نظر مجموعۂ کلام'' اتصال '' حال ہی میں زیورِ طباعت سے آراستہ ہوکر ہم تک پہنچا ہے ۔ یہ اکرم جاذب کی شاعری پر مشتمل تیسری کتاب ہے ۔ اس سے قبل ''امید'' اور ''امکان'' کے نام سے ان کے دو شعری مجموعے شایع ہو چکے ہیں ۔

منڈی بہاء ُ الدّین کے گاؤں کٹھیالہ خوردکے اکرم جاذب بسلسلۂ ملازمت اسلام آباد میں مقیم ہیں ۔ شعر و سخن سے رغبت نے انھیں اپنے خیالات کو نظم اور غزل کے سانچے میں باندھنے پر آمادہ کیا اور آج پختہ گو شاعر کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں ۔ جاذبؔ کی شاعری جدت و روایت کا نہایت خوب صورت امتزاج ہے ۔

ان کے اشعار پڑھ کر یہ احسا س ہوتا ہے کہ شاعر تروتازہ اور دل کش لہجے میں اپنی بات کہنا جانتے ہیں ۔ جاذب ؔ کے کلام کا ایک وصف ان کے الفاظ کا چناؤاور تراکیب ہیں ۔ عربی اور فارسی کی خوب صورت تراکیب، تشبیہات، استعارے کسی بھی کلام کا حسن ہوتی ہیں اور جاذب ؔ انھیں برتنا خوب جانتے ہیں ۔ الغرض جاذب کی غزل میں چاشنی بھی ہے اور دل فریبی بھی ۔ اردو غزل کو پُراثر لفظیات سے سجانے والے اکرم جاذب کسی بھی ادبی گروہ بندی کا شکار ہوئے بغیر اپنا تخلیقی سفر جاری رکھے ہوئے ہیں ۔

اس شعری مجموعے کا دیباچہ معروف شاعرفرحت عباس شاہ نے تحریر کیا ہے جب کہ فلیپ لکھنے والوں میں جناب شہزاد نیر اور ڈاکٹر نثار ترابی شامل ہیں ۔ جاذب کی شاعری کے حوالے سے ڈاکٹر نثار ترا بی نے لکھا ہے: جاذب کی غزلیہ آواز اظہار کی کومل سطح پر گنگناتی سنائی دیتی ہے ۔ اس کے بول سریلے ہیں اور اس کا آہنگ دلوں پر اثر بھی کرتا ہے ۔

چند اشعار ملاحظہ کیجیے ۔

کھل گئی آنکھ حسیں خواب مکمل نہ ہوا

رات اس زور سے آندھی میں بجا دروازہ

٭٭٭

ملے ہوئے ہیں بیک وقت یہ عروج و زوال

کہیں ابھر بھی رہا ہوگا ڈوبتا سورج

٭٭٭

معجزہِ دستِ ہنر کا نظر آئے جاذبؔ

اس کے انکار کو اقرار بنا کاغذ پر

٭٭٭

عجیب ٹیس ہے جاذب گھڑی کی ٹک ٹک میں

بتا رہی ہے کہ مہمان دو گھڑی کے ہیں

176 صفحات پر مشتمل اس شعری مجموعے کو رومیل ہاؤس آف پبلیکیشنز راولپنڈی نے دیدہ زیب سرورق کے ساتھ نہایت خوبصورتی سے زیورِ طبع سے آراستہ کیا ہے جب کہ ڈسٹری بیوٹر اشرف بک ایجنسی کمیٹی چوک راولپنڈی ہیں ۔ کتاب کے لیے اس نمبر 0515551519 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

ضمیر کے اسیر
مصنف: پروفیسر وارث میر، قیمت:1500روپے، صفحات:416
ناشر:تخلیقات 6۔ بیگم روڈ ، لاہور (0423723804)

زندگی کا سفرکہنے کو تو بڑا طویل ہوتا ہے مگر یہ دیکھتے ہی دیکھتے گزر جاتا ہے ، اسی لئے دانشور کہتے ہیں کہ زندگی کو ایسے گزارو کہ ہر لمحے کی قیمت صدیوں برابر ہو ۔ ایسے بہت کم فرد ہوتے ہیں جو حیات کار کی اس بلندی کو چھو لیتے ہیں ، ان کا ہر پل دوسروں کے لئے مہمیز کا کام کرتا ہے اور ان کے لئے رہنما کا کردار ادا کرتا ہے۔

وارث میر بھی ہمارے معاشرے کے ایسے ہی انمول فرد تھے۔ انھوں نے صحافت پر ایسا نقش چھوڑا جو رہتی دنیا تک قائم رہے گا ۔ ذہانت ، فطانت، سادگی، بصیرت، متانت، درویشی، پرہیزگاری غرض اللہ تعالیٰ نے انھیں بے شمار خوبیوں سے متصف کیا تھا ۔ جبر اور آمریت کے خلاف آواز بلند کرنے میں انھوں نے ہراول دستے کا کردار ادا کیا ۔ گزٹ آف پاکستان کے مطابق'' پروفیسر محمد وارث میر نے جنرل ضیاء الحق کے آمرانہ دور حکومت میں اپنی جرات مندانہ تحریروں کے ذریعے آواز حق بلند کی۔ اس دور کی حکومت نے پاکستان میں میڈیا کی آزادی اور جدوجہد کو پابند سلاسل کیا ہوا تھا ۔

پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات کے سربراہ ہونے کے علاوہ آپ نے یہاں تقریباً پچیس سال صحافت پڑھائی تھی ۔ جناب وارث میر ملک کے مشہور و معروف اخبارات میں بے باک مضامین اور فکر انگیز کالم لکھا کرتے تھے ۔ آپ نے ''سچائی کے لئے لکھو اور لوگوں کی آواز بن کر بولو'' کے مصداق ایک مشن کے ساتھ پاکستان کی عوام کی امنگوں کی ترجمانی کی حالانکہ جنرل ضیاء الحق کے آمرانہ دور میں کئی لوگوں نے راہ حق کو ترک کر دیا تھا ۔

بنیادی انسانی حقوق کے داعی ، آزادی اظہار اور سوچ کے علمبردار ہونے کے ناطے پروفیسر وارث میر نے اپنے لئے اس راہ کا انتخاب کیا جو ان کے ہم عصر ادیب اور صحافی نہ کر پائے ۔ دھمکیوں ، پابندیوں ، ذہنی اذیت اور تشدد برداشت کرنے کے باوجود آپ پختہ عزم کے ساتھ ظالم قوتوں کے سامنے ڈٹے رہے، ہمیشہ آمریت کی مخالفت میں اپنے اصولی موقف پر قائم رہے اور جمہوریت اور آزادی اظہار کی وکالت کی ۔'' پروفیسر کرار حسین کہتے ہیں '' پروفیسر وارث میر دراصل حریت فکر کے نقیب تھے۔

جنھوں نے جنرل ضیا ء الحق کے آمرانہ دور میں بھی حریت فکر کا علم بلند رکھا ۔ اپنی اس جدوجہد میں وہ موت و حیات کی فکر سے بے نیاز ہو چکے تھے ۔ پروفیسر وارث میر کی زندگی صحافت میں درویشانہ بے نیازی اور مجاہدانہ عزم کی جھلک تھی اور سچ تو یہ ہے کہ اس جھلک کے بغیر صحافت کیا اور ادب کیا ، سب ذہن و ضمیر کی سودے بازی ہے وہ نہ صرف حریت فکر کے راہی تھے بلکہ حریت فکر کے مبلغ بھی تھے ۔

پروفیسر وارث میر کے فکری رجحانات کی ایک اہم جہت حریت پسندی تھی ۔ یہ حریت فکر و نظر کی بھی تھی ، اظہار رائے کی بھی اور عقل و خرد کی بھی ۔ اسی لئے حریت فکر کے سلسلہ کے ان کے مضامین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ آج کے دور میں ہم لوگوں کو جذباتیت اور رومانیت سے نکل کر خود تنقیدی کی نظر پیدا کرنا ہو گی تاکہ دھندلکوں میں ٹامک ٹوئیاں مارنے کی بجائے مستقبل کے لئے کوئی راستہ روشن ہو سکے ۔''ممتاز صحافی و دانشور احمد بشیر کہتے ہیں '' بے باکی و حق گوئی کا دعوٰی کرنے والے دانشور ان گنت ہیں اور ہر دور میں گنبد افلاک میں غلغہ بلند کرتے رہے مگر ان کی بے باکی سابق حکمرانوں کے لتے لینے اور نئے حکمرانوں کی سرکاری سچائی کا ڈھول پیٹنے تک محدود رہی ۔

ان کے تن اجلے اور من میلے رہے اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ سچ جھوٹ کا امتیاز اٹھ گیا اور شرم وحیا نے برقعہ اتار دیا مگر دنیا حریت فکر کے مجاہدوں اور حق گوشخصیات سے کبھی خالی نہیں رہی ۔ اگلے زمانے میں ایک قلندر بلھے شاہ تھا اور ہمارے زمانے میں وارث میر نکلا ۔ دونوں نے اپنے حکمرانوں ، ان کے گماشتہ مولویوں اور زرخرید دانشوروں سے جسمانی اور روحانی گھائو کھائے ، ایک خدا تک پہنچا دوسرا خلق خدا پر قربان ہوا ۔

بات ایک ہی ہے اگر کوئی سمجھے ۔'' زیر تبصرہ کتاب میں وارث میر صاحب کے کالم شائع کئے گئے ہیں ۔ یہ کالم نہ صرف حریت فکر کے چراغ جلا رہے ہیں بلکہ یہ اس دور کے تاریخی حقائق کو بھی سامنے لاتے ہیں ۔ صحافی برادری کو بالخصوص اور نئی نسل کو بالعموم ان کا مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ انھیں پتہ چل سکے کہ جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق کیسے کہنا ہے اور صحافت کے تقاضے کیسے پورے کرنا ہیں ۔ وارث صاحب مشاہیر کی اس قبیل سے نسبت رکھتے ہیں جو ہمیشہ یادوں میں بستے رہتے ہیں۔ مجلد کتاب کے ٹائٹل کو وارث میر کے عکس سے مزین کیا گیا ہے ۔
Load Next Story