قصہ ہناڈسٹن کا

چھ بچوں سمیت 10افراد کی قاتل سفید فام خاتون جسے امریکیوں نے ہیرو بنانے کے لئے ہر حربہ اختیار کیا

چھ بچوں سمیت 10افراد کی قاتل سفید فام خاتون جسے امریکیوں نے ہیرو بنانے کے لئے ہر حربہ اختیار کیا ۔ فوٹو : فائل

گرینائٹ سے بنا پچیس فٹ طویل ایک مجسمہ، امریکی ریاست نیو ہمپشائر کے ایک چھوٹے سے جزیرے میں نصب ہے۔

یہ ' ہنا ڈسٹن ' کا مجسمہ ہے ۔ وہ پہلی امریکی خاتون ہیں جن کا یادگاری مجسمہ بنایا گیا ۔ ہنا ڈسٹن کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے1861ء سے 1879 ء کے درمیان، یعنی اٹھارہ برسوں کے دوران میں تین مجسمے مختلف جگہوں پر نصب کیے گئے ۔ ان میں سے مشہور ترین نیوہمپشائر والا 1874ء میں اور ہیورہل میساچوسٹس والا 1879 ء میں بنایا گیا ۔

ہنا ڈسٹن کے مجسمہ کے ایک ہاتھ میں مقامی انداز کی کلہاڑی اور دوسرے ہاتھ میں انسانی کھوپڑی ہے جو امریکہ کی اس سوچ کی عکاسی کر رہا ہے، جس کی بنیاد پر امریکہ نے صدیوں سے ساری دنیا پہ ظلم و جبر کے ذریعے قبضہ کرنے اور دنیا کا ٹھیکے دار بننے کی کوشش کی ہے ۔ آئیں ! تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھتے ہیں کہ امریکیوں کی خاتون ہیرو ' ہنا ڈسٹن ' کون تھی ؟ اس کا قصہ تاریخ نے کیسے محفوظ رکھا ؟

ہیورہل میساچوسٹس کی رہنے والی ہنا ڈسٹن1657ء میں پیدا ہوئی ۔ یہ اس زمانے کی کہانی ہے جب برطانیہ اور فرانس کا باہمی جھگڑا چل رہا تھا اور دونوں کینیڈا پہ اپنا اپنا تسلط قائم کرنے کی تگ و دو کر رہے تھے ۔ اس دوران میں امریکہ کے قدیم باشندے اپنی بقا کی جنگ نیو انگلینڈ میں لڑ رہے تھے۔

نیو انگلینڈ میں امریکہ کی چھ ریاستیں آتی ہیں ۔ میساچوسٹس، نیوہمپشائر، مین، ورمانٹ، روڈ آئی لینڈ اور کنیکٹیکٹ ۔ نیو انگلینڈ کینیڈا کے ساتھ لگتا ہے مگر یہاں کوئی زمینی سرحد بندی نہیں کی گئی ، نقشے پر آبی سرحدی لکیر دیکھی جا سکتی ہے ۔

بادشاہ فلپ نے 1675 ء تا 1676 ء کی جنگ میں نیو انگلینڈ کے ان انڈین قبائل کو شکست دی جو جنوب میں بستے تھے ۔ اس شکست کے نتیجے میں قدیم قبائلی باشندے اپنی سیاسی آزادی کے ساتھ ساتھ تقریباً 60 فیصد آبادی سے بھی محروم ہوگئے ۔ جو بچ گئے وہ زیادہ تر غلام بنا لیے گئے ۔

1680 کے اواخر میں بادشاہ ولیم کے نام سے منسوب جنگ کی شروعات ہوئی ۔ انڈین کے جنوبی قبائل کے بچے کچھے افراد نے ' ابیناکی ' قبیلہ اور دیگر شمالی علاقوں کے قبائل کے ساتھ اتحاد بنا کر فرانس کی مدد سے برطانیہ کے خلاف لڑائی شروع کر دی ۔ جنوبی اور مغربی علاقوں میں برطانیہ کے بڑھتے ہوئے قدم روکنے کے لیے ان قبائل نے چھاپہ مار کارروائیاں شروع کر دیں ۔

برطانوی سامراج کے نمائندگان کے گھروں پر حملہ کرنا ، انہیں قتل کرنا ، اغوا کر لینا ، گھروں کو جلا دینا ، اغواء کنندگان کو اپنے قیدی چھڑوانے کے لیے استعمال کرنا یا اغواء کنندگان کو اپنا غلام بنا لینا ان کی چھاپہ مار کارروائیوں کا حصہ تھا ۔

انہی کارروائیوں کے تناظر میں ' ابیناکی' قبیلہ کے چند افراد نے 15 مارچ 1697ء کو ہیورہل پہ حملہ کیا ۔ یہاں ان کا سامنا ' ہنا ڈسٹن' سے ہوا ، ہنا کا شوہر کچھ بچوں کو لے کر بھاگنے میں کامیاب ہو گیا مگر 40 سالہ ہنا اور اس کی پڑوسن ' میری' کو ابیناکی حملہ آوروں نے پکڑ لیا ۔ انڈینز نے دونوں عورتوں کو دیگر کچھ پڑوسیوں سمیت پکڑا اور پیدل ہی کینیڈا کی طرف چل پڑے ۔ ہنا کے بقول سفر کے شروع میں ہی اغوا کاروں نے اس کے ایک ہفتے کے بچے کو مار دیا ۔

اغواء کار تقریباً دو ہفتے کا پیدل سفر کر کے ہنا ڈسٹن اور میری کو ایک قبائلی خاندان کے پاس چھوڑ گئے جس میں دو مرد ، تین خواتین اور سات بچے تھے ۔ اس خاندان کے پاس پہلے سے ایک چودہ سالہ برطانوی بچہ بھی موجود تھا ۔ سیموئیل نامی اس بچے کو وورکیسٹر میساچوسٹس سے ڈیڑھ سال پہلے اغواء کیا گیا تھا ۔

سیموئیل چونکہ ڈیڑھ سال سے ان کے ساتھ تھا اس لیے خاندان کا اعتماد حاصل کرچکا تھا۔ ہنا ڈسٹن نے سیموئیل کو سمجھایا کہ ان مردوں سے مقامی کلہاڑی سے انسان کو قتل کرنے کا طریقہ سیکھو۔اس مخصوص کلہاڑی میں ایک طرف کلہاڑی کا پھل ہوتا ہے اور اس کے دوسری طرف نوکیلا سرا بنایا ہوتا ہے۔ سیموئیل نے اس کلہاڑی کا استعمال سیکھ کر ہنا کو دکھایا۔

ایک رات جب انڈین خاندان سورہا تھا ہنا ، میری اور سیموئیل نے 6 بچوں سمیت دس افراد کو مار کر ان کے سر کاٹ دئیے۔ ایک بوڑھی عورت زخمی ہوئی مگر وہ بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوگئی۔ ایک چھوٹا بچہ بھی اس ہنگامے میں بچ کر بھاگ نکلا۔ ڈسٹن اپنے دونوں ساتھیوں میری اور سیموئیل کے ساتھ ایک کشتی میں بیٹھ کر وہاں سے فرار ہوگئی۔

ہنا وہاں سے نکلتے ہوئے اس بدنصیب خاندان کے مقتولین کی کھوپڑیاں بھی ساتھ لے گئی۔ دریائے مریمک سے گزر کر کے ہنا ڈسٹن ہیورہل میساچوسٹس پہنچی۔ چند دن بعد ہنا ڈسٹن اپنے ساتھیوں کے ساتھ بوسٹن گئی اور میساچوسٹس کی جنرل اسمبلی میں اپنے ساتھ پیش آنے والا واقعہ سنایا اور ثبوت کے طور پر کھوپڑیاں پیش کیں۔ ہنا نے دعویٰ کیا کہ چونکہ اس کے ایک ہفتے کے نومولود کو مار دیا گیا تھا اس لیے اس نے ان قومی مجرموں کو قتل کر کے سرکار کا کام نبٹایا ہے، اس لیے اسے اس کا معاوضہ دیا جائے۔

میساچوسٹس ریاست نے ستمبر 1694 ء میں قانون پاس کیا تھا کہ قومی مجرموں کو مارنے والے کو 50 پاؤنڈ انعام دیا جائے گا مگر جون 1695ء میں اس میں تبدیلی کر کے انعامی رقم 25 پاؤنڈ کردی گئی تھی۔ بعدازاں دسمبر1696ء میں یہ انعامی رقم مکمل طور پر ختم کردی گئی ۔ چونکہ اس وقت نیو انگلینڈ میں بیوی کو قانونی حیثیت حاصل نہیں تھی تو ہنا ڈسٹن کے شوہر نے اس کا وکیل بن کر درخواست دی کہ اس کی موکلہ کو اپنے اغواء کاروں کو مارنے کے بدلے میں معاوضہ دیا جائے۔ اس معاملے پر عدالت میں ووٹنگ کی گئی اور آخر کار ہنا ڈسٹن اور اس کی ساتھی میری کو 25 پاؤنڈ انعام دیا گیا جو دونوں میں آدھا آدھا تقسیم ہوا۔


1698ء میں ہنا کے ہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی۔ 1704 ء سے 1707 ء کے درمیان ہیورہل پر ' ابیناکی ' قبیلہ نے فرانسیسی افواج کی مدد سے دوبارہ حملہ کیا۔ 1708 ء میں بھی ایک بار پھر ہیورہل پر حملہ ہوا۔ ہنا ڈسٹن کا انتقال 1736 ء سے 1738 ء کے درمیانی عرصہ میں ہوا۔

چودہ سالہ سیموئیل جو ان کے ساتھ بھاگا تھا ، وہ اپنے باپ کے پاس کنیٹیکٹ چلا گیا۔اس کا انتقال 1718ء میں ہوا تھا۔ ہنا کی ساتھی میری کا انتقال 1722ء میں ہوا۔ میری کی مذکورہ خدمات کے صلے میں اس کے بیٹے کو1739ء میں نیوہمپشائر میں دو سو ایکڑ زمین سرکار کی طرف سے دی گئی۔

ہنا ڈسٹن نے کبھی خود اپنی داستان نہیں لکھی۔ کاٹن میتھر نامی ایک تاریخ دان نے ہنا ڈسٹن کی کہانی پر تین کتابیں لکھیں اور نیو انگلینڈ کی تاریخ کے متعلق اپنی تحقیق میں بھی ہنا ڈسٹن کا ذکر کیا۔ میتھر چونکہ '' خالص مشن'' نامی عیسائی تحریک کا نمائندہ تھا چنانچہ اس نے انڈینز کو اپنی تحاریر میں ''خالص مشن'' کا دشمن قرار دیا، انڈینز کو شیطان کا ہتھیار اور انسانیت کا دشمن بتایا۔ میتھر نے اس زمانے میں لوگوں کو انڈینز کے خلاف بھڑکانے کے لیے ہنا ڈسٹن کی کہانی میں بہت مبالغہ آرائی سے کام لیا۔

میتھر کے بقول اغواء کاروں نے ہنا کے ایک ہفتے کے نومولود کا سر کچل کر اس کا بھیجہ باہر نکال دیا تھا۔ میتھر کا کہنا ہے کہ ہنا اور میری کا بالکل بھی ارادہ نہیں تھا کہ بھاگ جانے والے بچے کو قتل کر دیں، بلکہ اگر وہ بچہ بھاگتا نہ تو ہنا اسے اپنے ساتھ لے آتی۔ میتھر کی اس بات میں واضح تضاد نظر آئے گا جب ان چھ مرنے والے بچوں کا تذکرہ بھی خود میتھر کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہنا ڈسٹن اس بچے کو مارنے کا ارادہ نہیں رکھتی تو دیگر چھ بچوں کو قتل کیوں کیا؟

کاٹن میتھر نیو انگلینڈ کی برطانوی سرکار اور انڈینز کے درمیان جنگ کو خیر اور شر کی لڑائی سمجھتا تھا اسی لیے اس نے ہنا ڈسٹن کو شر کے خلاف ' ہیروئن ' بنا کر پیش کیا۔ 1702 کے بعد ہنا ڈسٹن بھلا دی گئی بلکہ اگر کہا جائے کہ ہنا ڈسٹن کو اس کی زندگی میں ہی بھلا دیا گیا تھا تو یہ غلط نہ ہوگا۔

ایک صدی کے بعد جب امریکہ نے ملک کے مغربی کنارے کی طرف آباد بچے کچھے انڈینز کو ختم کرنے کی مہم شروع کی تو اس وقت کے مشہور لکھاریوں نے ہنا ڈسٹن کا کردار دوبارہ زندہ کردیا۔ اس زمانے کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو تقریبا ہر رسالے ،بچوں کی کتب، مشہور امریکی شخصیات کا احوال اور دیگر تاریخی کتب میں ہنا ڈسٹن کا ذکر ملتا ہے۔اسی دور میں ایک پہاڑی کا نام بھی ڈسٹن سے منسوب کیا گیا۔ ہیورہل اور اطراف کی مقامی آبادی نے باقاعدہ چندہ اکٹھا کر کے ہنا ڈسٹن کے تین مجسمے تیار کروائے۔۔

1820 ء میں ہنا ڈسٹن کا ذکر اس کی وفات کے ایک سو سال بعد زندہ ہونا کوئی اتفاقی حادثہ نہیں تھا۔ ریاست جارجیا نے جب انڈینز کو جبراً نکالنے کی مہم شروع کی تو اپنے موقف کی تائید کے لیے ' ہنا ڈسٹن ' کا ذکر شروع کیا اور یہ سلسلہ 1890ء تک چلتا رہا۔ انیسویں صدی میں تمام سفید فام امریکی امریکہ کے اصل باشندوں انڈینز کو نکالنے کی مہم سے آگاہ تھے۔ امریکی حکام کے فسادی ذہن نے یہاں بھی فیمنزم والا پتہ استعمال کیا۔ ' ہنا ڈسٹن ' کی کہانی کو تڑکا مصالحہ لگا کر اس کی مظلومیت کا چرچا کر کے عوام کو اس بات پر اکسایا کہ انڈینز کے ظلم اور جبر سے خواتین کو بچانا ہے تو انہیں امریکہ سے نکال دینا چاہیے۔

تاریخ اس بات پر انگشت بدنداں ہے کہ انڈینز کو ان کے آبائی وطن سے جبراً نکالنے کے لیے سفید فام امراء اور نوابوں نے کس طرح پراپیگنڈا کر کے عوام کو اس جبر اور تسلط کی جنگ میں اپنا ساتھ دینے پر آمادہ کرلیا۔ عوام کے جذبات بھڑکانے کے لیے ایک ماں کی کہانی سب سے شاندار رہی جو اپنے نومولود کو اپنے سامنے قتل ہوتا دیکھ کر رہ نہ سکی اور اس نے اپنے نومولود کا بدلہ لے لیا۔

تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھیں تو امریکہ کا یہ شروع سے طرز عمل رہا کہ اس نے دشمن کے خلاف بھڑکانے کے لیے فیمنزم کارڈ استعمال کیا۔ حتیٰ کہ انیسویں صدی میں بھی انڈینز کے خلاف جذبات بھڑکانے کے لیے ایک صدی بعد ' ہنا ڈسٹن' کا کردار دوبارہ زندہ کردیا اور اس قصے کو مزید ایک صدی تک موضوع بحث رکھا۔

1823 کے زمانے کی ایک نصابی کتاب میں چارلس نامی مصنف نے انڈینز کے خلاف لکھتے ہوئے یہاں تک لکھ دیا کہ انڈینز ہی معصوم سفیدفام خواتین پر حملہ کے مرتکب ہوتے ہیں، وہ حاملہ خواتین کا قتل کردیتے ہیں تاکہ سفید فام نسل نہ بڑھ سکے اور کئی انڈینز تو سفید فام افراد کو پکڑ کر زندہ جلادیتے ہیں۔

اس سارے پروپیگنڈہ کے باوجود یہ سوال اب بھی باقی ہے کہ ایک معصوم سفید فام ماں جس کا اپنا بچہ مار دیا گیا ہو ، وہ کسی دوسرے کے معصوم بچوں کو کس بنیاد پر قتل کرسکتی ہے؟ جہاں میتھر مبالغہ آرائی کرتے ہوئے ' ہنا ڈسٹن ' کی صفائی میں کہتا ہے کہ بچ جانے والے بچے کو مارنے کا ان کا کوئی ارادہ نہیں تھا وہیں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ ممکن ہے دستور کے مطابق وہ بدقسمت خاندان بھی ہناڈسٹن کو کسی انڈین قیدی کے بدلے رہا کرنے کا ارادہ رکھتا ہو مگر ہنا ڈسٹن نے انھیں سوتے میں قتل کردیا۔ دوسری طرف یہ بات بھی ہنا ڈسٹن کی بربریت کا ثبوت پیش کرتی ہے کہ اس کے اصل اغواکار اسے چھوڑ کر جاچکے تھے اور جنہوں نے اس کا بچہ مارا، وہ یہ بدقسمت خاندان تھا ہی نہیں۔

امریکی فیمنزم پروپیگنڈہ کے تحت 1830ء کے بعد لکھی جانے والی تاریخی کتب میں ' ہنا ڈسٹن ' کی چھ بچوں کو مارنے والی بربریت کو نکال کر صرف ایک امریکی ہیروئن بناکر پیش کیا گیا۔1861 میں ہنا ڈسٹن کی پہلی یادگار بنائی گئی جو کچھ عرصے بعد ختم کردی گئی ، 1874 میں نیوہمپشائر میں اس کا گرینائٹ کا مجسمہ بنایا گیا جس کے ایک ہاتھ میں کلہاڑی اور دوسرے میں انسانی کھوپڑی ہے ، سراسر بربریت کا نمونہ پیش کرتا ہے۔ 1879ء میں ہیورہل میں اس کا دوسرا مجسمہ نصب کیا گیا جس میں کھوپڑی کو ہٹا کر ہاتھ کا اشارہ ملزم کی طرف اور دوسرے ہاتھ میں کلہاڑی تھمائی گئی۔ اس دوسرے مجسمے کے لیے مالی مدد کرنے والے نے اسے حب الوطنی اور بہادری سے تشبیہ دیا۔

جب تک سفید فام اور انڈینز کا تنازعہ چلتا رہا ہنا ڈسٹن بھی زیر بحث رہی۔ 1890ء میں جب انڈینز کی تعداد بہت کم رہ گئی تو سفید فام حکمرانوں نے اعلان کیا کہ انڈینز والا مسئلہ حل ہوگیا ہے اور جو باقی بچ گئے ہیں ، وہ اچھے شہری بن کر رہیں گے اس لیے ان کا قتل عام بند کیا جارہا ہے۔ جیسے جیسے انڈینز کے خلاف مہم جوئی ختم ہوتی گئی ، عوام کی دلچسپی ہنا ڈسٹن کی کہانی میں بھی ختم ہونے لگی حتیٰ کہ اسے نصابی کتب سے بھی حذف کردیا گیا۔

سال 2020 ء میں جب امریکہ میں کالے اور گورے کا جھگڑا عروج پر تھا تو مختلف تاریخی شخصیات کے مجسمے اور یادگاروں پر حملے ہوئے۔ اس دوران نیوہمپشائر اور ہیورہل میساچوسٹس میں ہنا ڈسٹن کے مجسمے بھی حملوں کی زد میں آئے۔ مختلف اوقات میں تاحال وقفے وقفے سے ان مجسموں پر رنگ پھینک کر نفرت کا اظہار کیا گیا۔ حتی کہ ہیورہل کی مقامی انتظامیہ کو اس پر اجلاس بلانا پڑا کہ کیا ہناڈسٹن کا مجسمہ شہر میں نصب رہے یا اسے کسی میوزیم کے حوالے کردیا جائے۔ تاحال یہ مجسمے موجود ہیں۔ اگست 2021ء اور نومبر 2021ء کے اواخر میں بھی ہیورہل میں موجود اس مجسمے پر سرخ رنگ پھینکا گیا۔

اس حوالے سے اب لوگ دو گروہوں میں بٹ چکے ہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ ہناڈسٹن نے بربریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے معصوم بچوں کو قتل کیا اس لیے اس کا مجسمہ کوئی فخر کی علامت نہیں۔ دوسری طرف یہ دلائل بھی دیے جاتے ہیں کہ ہنا ڈسٹن نے خود کو قید میں رکھنے والے انڈینز کو قتل کیا۔ اور یہ بہادری اور حب الوطنی کی علامت ہے۔
Load Next Story