مسافرانِ چولستان
چولستان و رحیم یار خان کے دورے کی دل چسپ روداد
جنوبی پنجاب یا سرائیکی وسیب کے علاقوں کا جب بھی ذکر کیا جاتا ہے تو اس سے مراد عموماً ملتان، بہاول پور اور ڈیرہ غازی خان کے علاقے ہوتے ہیں اور یہی وہ اضلاع ہیں جنہیں ہمیشہ ہائی لائیٹ کیا جاتا ہے۔
سیاحت کی بات کریں تو یہاں بھی وسیب کے دیگر اضلاع جیسے رحیم یار خان، راجن پور، لودھراں، لیہ، بھکر، خانیوال، وہاڑی اور بہاولنگر جیسے علاقوں کو نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ میں اپنے اکثر دوستوں (جو سیاحتی کمپنیاں چلاتے ہیں اور سیاحت سے براہِ راست منسلک ہیں) سے کہتا رہا ہوں کہ وہ چولستان جیپ ریلی کے علاوہ بھی یہاں اپنے ٹرپ لے کر آئیں اور سیاحوں کو بہاولپور سمیت دیگر علاقے بھی دکھائیں۔
میں نے حکومت پنجاب کے سیاحتی محکمے ٹورزم ڈیویلپمنٹ کارپوریشن پنجاب (TDCP) سے بھی کئی بار یہ گزارش کی کہ آپ سرمائی سیاحت کے نام پر ہونے والی اپنی تمام سرگرمیوں کا رخ صرف بہاولپور کی جانب نہ کریں بلکہ انہیں پورے وسیب تک لے جائیں۔ انہیں چولستان کے دیگر قلعے، اوچ شریف کے مقبرے، بھونگ مسجد، کوٹ مٹھن میں درگاہ خواجہ فریدؒ، مسجد سکینہ الصغریٰ اور پتن مینارہ جیسے مقامات بھی دکھائیں لیکن نہ جانے حکومت کا ملتان و بہاولپور سے ایسا کیا مفاد جڑا ہے جو وہ یہاں سے باہر نکلنا ہی نہیں چاہتے۔
میرا علاقہ رحیم یار خان تاریخ، روایات، ثقافت، ورثہ، لوک رنگ و داستان، ادب، روحانیت، بودوباش اور موسیقی سمیت ہر لحاظ سے زرخیز ہے۔ لیکن یہاں چند تعلیمی اداروں میں ہونے والے فنکشنز کے علاوہ کوئی ایسا بڑا پروگرام یا ایونٹ سرکاری سطح پر بھی نہیں ہوتا کہ جس سے یہاں کی سیاحت اور مہمان نوازی کو بھرپور طریقے سے دنیا کے سامنے پیش کیا جا سکے۔ اگرچہ کراس روٹ کلب و وسیب ایکسپلورر نامی بائیکر گروپ نے یہاں دو تین پروگرام ضرور کیے ہیں لیکن وہ بھی نجی سطح پر ہی محدود رہے اور حکومت نے ان میں کوئی خاص دل چسپی نہیں ظاہر کی۔
''اُٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے'' کے مصداق اب ناچیز نے اس کام کا بیڑا اٹھایا ہے کے نہ صرف ضلع رحیم یارخان، راجن پور و چولستان کے علاقوں میں سیاحت کو فروغ دینا ہے بلکہ اسی سیاحت کے ذریعے یہاں مذہبی ہم آہنگی، ثقافت کی ترویج اور مقامی فن کاروں کی مدد کے جذبے کو بھی فروغ دینا ہے، کیوںکہ میرا ماننا ہے کہ ایسی سیاحت کا فائدہ ہی کیا جس سے مقامی لوگوں خصوصاً فن کاروں کے حالات زندگی بہتر نہ ہو سکیں۔
خیر، مصنف کب سے کوشش میں تھا کہ ٹھنڈ کے اس موسم میں ملک کے دیگر حصوں سے دوست احباب یہاں کا رخ کریں اور فطرت کو قریب سے دیکھیں۔ میری کال پر سیاح دوستوں کے ایک گروپ ''مسافرانِ شوق'' نے لبیک کہا اور فروری کے پہلے ہفتے لاہور، گوجرانوالہ، گجرات، کراچی اور سرگودھا سے بیس دوستوں پر مشتمل ایک قافلہ میرا مہمان ہوا جس میں ایم بلال ایم (مشہور فوٹوگرافر)، ڈاکٹر کاشف علی (لیکچرار مطالعہ پاکستان و تاریخ، یونیورسٹی آف گجرات)، ڈاکٹر قیصر شہزاد درانی (ڈائریکٹر گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ)، رفیعہ کاشف (ڈراما نگار و مصنفہ)، عمران احسان مغل ( فوٹوگرافر و لیکچرار انگلش ایسپائر کالج گوجرانوالہ)، ذیشان رشید (لیکچرار گفٹ یونیورسٹی)، شجاعت علی (لیکچرار یو ای ٹی لاہور)، مس حنا ایمان (ٹور آپریٹر) محترمہ سدرہ عتیق خان (سیاح)، عثمان ضیاء (لیکچرار یونیورسٹی آف گجرات)، عمیر افضل (سنگر)، محمد حنظلہ (سیاح)، زین (سیاح) و دیگر شامل تھے۔
اس خطے میں سیاحت و تاریخی ورثے کو پروموٹ کرنے کے لیے یہ میری ایک ادنیٰ سی کوشش تھی جو بڑے عرصے کے انتظار کے بعد تکمیل تک پہنچی۔ چلیں آپ کو اس سفر کی داستان سناتا ہوں۔
4 فروری بروز جمعہ صبح سویرے مہمانوں کی آمد ہوئی۔ چائے اور آرام کے بعد خانپور سے دیسی و روایتی ناشتہ کر کے ہم سب براستہ ظاہر پیر بھونگ پہنچے جہاں ہم نے بھونگ مسجد، حویلی رئیس غازی خان اور گنیش مندر دیکھنا تھا۔
بھونگ مسجد؛ضلع رحیم یارخان کی تحصیل صادق آباد کے مغرب میں بھونگ نامی ایک قصبہ آباد ہے جس کی وجہ شہرت یہاں موجود وہ شاہ کار ہے جسے دیکھنے دور دور سے لوگ آتے ہیں۔
یہ رئیس غازی محمد کی بنائی گئی بھونگ مسجد ہے جو پچاس سال کے عرصے میں تعمیر ہوئی۔ اس مسجد کی تعمیر 1932 میں شروع ہوئی جب نواب آف بہاول پور کے دوست رئیس غازی محمد نے اپنی محل نما حویلی کے پاس ایک عالی شان مسجد بنوانے کا سوچا۔ رئیس محمد غازی، بھونگ کے رئیس، اعزازی طور پر مجسٹریٹ اور بہاولپور اسمبلی کے رکن بھی رہے۔ رئیس صاحب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آپ بہت اللہ لوک شخص تھے جن کی زندگی کا مشن عبادت و ریاضت، سماجی کاموں اور مختلف علاقوں میں مساجد کی تعمیر تھا۔
ایک دن وہ اپنے محل کے پاس چھوٹی سی مسجد میں نماز ادا کر رہے تھے کہ اچانک ان کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ میرا گھر اتنا شان دار اور خوب صورت ہے تو پھر اللہ تو اس سے کہیں زیادہ کا حق رکھتا ہے۔ بس یہی سوچ کر آپ نے یہاں ایک عالی شان مسجد تعمیر کروانے کا ارادہ کرلیا جو اُس محل سے بھی شان دار ہو۔
ماسٹر عبدالحمید کی زیرنگرانی مسجد تعمیر ہونا شروع ہوئی جس کے ایک ایک مرحلے پر رئیس صاحب نے ذاتی دل چسپی لی۔ مسجد کے ساتھ ساتھ بچوں کے لیے ایک مدرسہ اور رہائشی کمرے بھی تعمیر کیے جانے تھے۔ روایت ہے کہ اس مسجد کا کوئی باقاعدہ نقشہ نہیں بنایا گیا بلکہ ایک خاکہ رئیس غازی محمد کے ذہن میں تھا جس کے مطابق تعمیر کا آغاز کیا گیا (یہی بات ہمیں ان کے ایک جانشین نے بھی بتائی تھی)۔ رئیس غازی محمد باہر کے ممالک سے مساجد کا جو بھی ڈیزائن پسند کر کے لاتے اسی کے مطابق بھونگ مسجد میں تبدیلی کروا دیتے۔
سال 1950 میں جب سیم نے اس مسجد کی عمارت کو نقصان پہنچانا شروع کیا تو مرکزی عمارت کو شہید کر کے تقریباً 20 فٹ بلند ایک چبوترہ بنایا گیا اور اس پر مسجد کی تعمیر نئے سرے سے کی گئی۔ اس طرح مسجد کے ڈیزائن میں کئی بار تبدیلی کی گئیں جس کی وجہ سے پچاس سال یہ تعمیر ہوتی رہی۔ تعمیر کے لیے اٹلی، ہنگری اور آسٹریا سے سنگِ سرخ، سنگِ مرمر، سنگِ خارا، سنگِ سرمئی اور سنگِ سیاہ منگوائے گئے۔
ان پتھروں کو کاٹنے اور تراشنے، ٹائلوں پر پھول بنانے، میناکاری و خطاطی کرنے، صندل کی لکڑی پر باریک اور نفیس کام کرنے، گل کاری کرنے اور سونے کے پھول بنانے والے ہزاروں کاری گر کراچی، راجستھان اور برِصغیر کے دیگر حصوں سے بلوائے گئے۔ کہتے ہیں کہ بہت سے مزدور تو اتنے عمررسیدہ تھے کہ وہ تعمیر کے دوران ہی چل بسے لیکن ان کے بیٹوں اور پوتوں نے تعمیر کے کام کو جاری رکھا۔ماہرین نے اس مسجد کے ڈیزائن میں لاہور، ایران و ترکی کے طرزِتعمیر کو اسپین اور دیگر مغربی ممالک کے طرزتعمیر سے مِلا کر مشرق و مغرب کے بہترین اشتراک کی مثال قائم کی۔
روایتی تعمیراتی کرافٹ جیسے سنگِ مرمر، ساگوان ، ہاتھی دانت، سنگ سلیمانی، چمک دار ٹائل، استرکاری، شیشے کے کام اور کوزہ گری کو جدید و مصنوعی تیکنیکوں جیسے چپسی فرش (پتھر کی کنکریوں کو سیمنٹ میں ملا کر پچی کاری سے تیار کیا گیا فرش)، سیمنٹ کی رنگین ٹائل، خالص لوہے اور پتھر کی استرکاری سے ملا کر استعمال کیا گیا۔
اندرونی حصوں پر کمال کی نقش نگاری اور فریسکو کا کام کیا گیا۔ یہ بھی مشہور ہے کہ اندرونی محراب کے اوپر سونے و چاندی کا پانی چڑھایا گیا تھا۔
غازی صاحب کے خاندان کے ایک فرد نے بتایا کہ اُن دنوں بھونگ اور اطراف کے علاقوں میں پکی سڑک ناپید تھی سو بھاری مشینیں اور تعمیر کے دیگر لوازمات صادق آباد کے اسٹیشن سے چھکڑوں اور اونٹوں پہ لاد کر یہاں تک پہنچائے جاتے تھے۔ یہاں کے تمام کاری گروں کو ان کی مہارت اور تجربے کی بنیاد پر اْجرت دی جاتی تھی۔
1975 میں (مسجد بننے سے سات سال پہلے) رئیس غازی محمد کا انتقال ہو گیا تو ان کے ولی عہد رئیس شبیر محمد نے والد کے کام کو آگے بڑھایا۔
1982 میں اس مسجد کی تعمیر مکمل ہوئی اور اسے نمازیوں کے لیے کھول دیا گیا۔ مسجد میں ایک وسیع دارالمطالعہ، مدرسہ اور وہ حجرہ بھی موجود ہے جہاں رئیس غازی محمد عبادت کیا کرتے تھے۔
فی الحال یہاں تقریباً ڈھائی ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے۔ خواتین کے لیے بھی ایک چھوٹی مسجد علیحدہ موجود ہے جو جمعہ مسجد کہلاتی ہے۔
مشہد میں مزار امام احمد رضا کے صدر دروازے سے مشابہت رکھتا مرکزی دروازہ، سنگ مرمر کی سیڑھیاں اور فوارے اس مسجد کی خوب صورتی کو چار چاند لگانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اسی انفرادیت سے متاثر ہوکر بھونگ مسجد کو 1986ء میں تعمیرات کے شعبے میں آغا خان ایوارڈ بھی دیا گیا۔
2004 کو حکومت پاکستان نے اس مسجد کی تصویر والا ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا تھا۔ بھونگ مسجد رحیم یار خان سمیت وسیب کی سیاحت کا اہم حصہ ہے جہاں دور دور سے سیاح اسے دیکھنے آتے ہیں۔
حویلی رئیس غازی خان؛بھونگ مسجد دیکھ چکے تو اپنے دوست رئیس ارشد صاحب سے اجازت چاہی لیکن ہمارے گروپ کی خواتین کی شدید دل چسپی بھانپتے ہوئے رئیس صاحب نے حویلی کے دروازے ہم پر کھول دیئے اور ہمیں دیکھنے کی اجازت دے دی اس شرط پر کہ حویلی کی تصاویر سوشل میڈیا پر نہ جائیں۔
یہاں میں یہ بات بھی کہنا چاہوں گا کہ جب بھی آپ کہیں گھومنے جاتے ہیں تو اس علاقے کی روایات پر قائم رہنا آپ پر واجب ہوتا ہے۔ ایک اچھے سیاح کی یہی نشانی ہے کہ وہ جیسا دیس ویسا بھیس کے مصداق ہر جگہ اپنا وقار برقرار رکھتا ہے۔ اور مجھے نہایت خوشی ہے یہ بتاتے ہوئے کہ میرے تمام مہمانوں نے میرا بھرم رکھا اور تہذیب و طریقے سے رئیس صاحبان کی حویلی دیکھی اور ان سے اس کے متعلق سوالات بھی کیے۔
یہ حویلی نما محل جسے ''رئیس محل'' کہا جاتا ہے ایک وسیع رقبے پر رئیس غازی محمد نے بنوایا تھا۔ بھونگ مسجد کے بالکل عقب میں بنے اس محل میں زنان خانے و مردانہ حصوں کے علاوہ بڑے میدان، خوب صورت باغ اور گزرگاہیں بنائی ہیں۔ حویلی کی بناوٹ پرانے طرز کی ہے جس کے چاروں کونوں پر لکڑی کے جھروکے بنے ہیں۔ وسیع و عریض برآمدے پر پتھر کی جالیاں بنی ہیں جب کہ چھتوں پر خوب صورت شیشے کا کام کیا گیا ہے۔ یہ محل کاری گروں کی مہارت اور رہنے والوں کی نفاست کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
آخر میں یہاں فوٹوز بنوا کر ہم نے انہیں الوداع کہا اور اپنی اگلی منزل کی راہ لی۔
گنیش مندر؛فروری کا پہلا ہفتہ پاکستان بھر میں مذہبی ہم آہنگی کے طور پر منایا گیا تھا۔ اس حوالے سے ہمارے سیاح مہمانوں کے دورہ گنیش مندر کا واضح مقصد یہ تھا کہ ہم بطور مسلمان و پاکستانی اس بات پر کامل یقین رکھتے ہیں کہ اس ملک میں مذہبی آزادی ہر شخص کے لیے ہے اور وہ بغیر کسی دوسرے مذہب کی دل آزاری کیے، اپنی عبادت گاہیں بنانے اور ان میں عبادت کرنے کے لیے آزاد ہیں۔ ہمارے اس وفد کو بھونگ کی ہندو کمیونٹی نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور مندر سمیت اپنے گھروں کے دروازے بھی کھول دیے۔
''سِدھی وینائیک مندر'' یا شری گنیش مندر بھونگ کے تقریباً 120 ہندو خاندانوں کی مرکزی عبادت گاہ ہے جو اس ضلع بلکہ پورے بہاول پور خطے کا سب سے بڑا مندر ہے۔
یہ مندر مقامی لوگوں نے اپنے سرمائے اور اپنی مدد آپ کے تحت 2001 میں یہ سوچ کر بنایا تھا کہ یہاں ہماری بڑی آبادی کے باوجود کوئی عبادت گاہ نہ ہے جبکہ مذہبی شعور کے لیے اس کا ہونا ضروری ہے۔
پھر سوال کھڑا ہوا کہ مندر ہو تو کس دیوتا کا ہو؟؟
پاکستان کے پانچوں صوبوں میں مختلف دیوتاؤں کے مندر ملتے ہیں۔ ہندو خاندانوں کے گھروں میں بنے مندر اس کے علاوہ ہیں۔ مقامی لوگوں نے سوچا کہ ہماری پُرانی کتھاؤں (مذہبی داستانیں) کے مطابق پرَتھم پوجا (پہلی عبادت) کا منترِک شیو جی کے بیٹے گنیش کے منتر سے کرتے ہیں تو کیوں ناں اس قصبے میں گنیش جی کا مندر ہو اور یہاں قریب قریب سندھ و پنجاب میں ایسا کوئی مندر نہیں ہے۔
سو یہاں کے چند نوجوانوں نے ٹاؤن کے اندر ایک مخصوص جگہ کو صاف کر کہ میلہ منعقد کیا اور ایک چھوٹے مندر کی بنیاد رکھی جو دو سال میں تیار ہوا۔
آس پاس کے ہندو اسے دیکھنے آتے رہے اور اس کی اہمیت بڑھتی گئی۔ لوگوں کا رش زیادہ ہوا تو یہاں کے بڑوں نے ایک بڑا مندر بنانے کا سوچا۔ یہاں موجود ہندو دوکان داروں سے روزانہ دس روپے بطور چندہ لیا گیا جب کہ بھونگ کے دیگر ہندو خاندانوں نے بھی اس کے لیے دل کھول کہ دان کیا۔ پہلے جو پیسہ میلے میں لگ جاتا تھا اب وہ مندر کے لیے استعمال ہونے لگا جب کہ میلے کے لیے ارد گرد کے شہروں سے چندہ اکٹھا کیا جاتا رہا۔
مندر کی تعمیر شروع ہوئی۔ چنیوٹی لکڑی کے دروازے ، خوب صورت شیشے کے جھومر اور دیواروں پر رنگین شیشے کا کام کیا گیا، مورتیوں کے لیے شیشے کے بکس بنوائے گئے، حیدر آباد و کراچی کے ماہر کاری گروں نے مہینوں لگا کہ کئی مورتیاں تیار کیں، پتھر کا آرائشی فرش بنا اور روشنی کا بہترین انتظام کیا گیا۔
کئی سالوں کی متواتر محنت اور چندے کی مدد سے 2016-17 میں جب یہ مکمل ہوا تو یہ ایک پس ماندہ علاقے کا جدید مندر تھا جس کے افتتاح میں ایک بڑی بھیڑ دیکھنے کو ملی۔
یہاں ہندو مذہب کے مختلف بھگوانوں کی سات بڑی مورتیاں رکھی گئی ہیں۔ مندر میں ہندوؤں کے مقدس نشان اور اشیاء بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔
4 اگست 2021 کو رونما ہونے والے افسوس ناک واقعے نے اسے سوشل میڈیا اور بین الاقوامی سطح پر مشہور کردیا، جب ایک افواہ کو بنیاد بنا کر ہمارے مسلمان بھائیوں کے ایک جتھے نے مندر پر دھاوا بولا اور مورتیوں سمیت دیگر مقدس املاک کو نقصان پہنچایا۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے بروقت اس کا نوٹس لیا اور وزیراعظم کے حکم پر مندر کو آٹھ دس دنوں کے اندر دوبارہ مرمت کرکے بحال کردیا گیا۔
یہاں گنیش اْتسو (گنیش جنم دن)، ہولی، دیوالی، نوراتری، دسیہرا اور شیوراتری کے تہوار دھوم دھام سے منائے جاتے ہیں، جب کہ بھائی دوج، رکھشا بندھن اور مکر سکرانتی جیسے تہوار یہاں گھروں میں منائے جاتے ہیں۔
اگست کے واقعے کے بعد مندر کے باہر سخت سیکیورٹی دیکھنے کو ملتی ہے۔ میں رمیش کمار لیلوا جی کا مشکور ہوں جو کہ بھونگ سے تعلق رکھنے والے ہندی ٹیچر اور مذہبی اسکالر ہیں جنہوں نے میرے مہمانوں کے لیے مندر کے دروازے کھولے اور مذہبی ہم آہنگی کا پیغام لے کر آنے والے سیاحوں کے سوالات کے جواب بھی دیے۔
پتن مینارہ؛ رحیم یارخان سے جنوب میں ابوظبی محل روڈ پر تقریباً 15 کلومیٹر کے فاصلے پر پتن منارہ واقع ہے جسے تاریخ داں ایک قدیم بدھ خانقاہ قرار دیتے ہیں جب کہ بیت سے مؤرخین کا کہنا ہے کہ یہ ہندوؤں کی عبادت گاہ تھی جو قدیم ہندو دور میں بنائی گئی تھی۔
پتن مینارہ تاریخ میں پتن پور کے نام سے جانا جاتا تھا۔ بعض محققین کے مطابق پتن پور سکندراعظم نے تعمیر کروایا تھا اور یہاں ایک بہت بڑی درس گاہ تعمیر کی تھی، جب کہ کچھ کے نزدیک یہ شہر سکندراعظم کے زمانے سے بھی پہلے کا آباد تھا اور صحرائے چولستان میں سے گزرنے والا ایک قدیم دریا ''ہاکڑا'' یا ''گھاگھرا'' پتن پور کے قریب سے بہتا تھا۔ سکندراعظم نے اس شہر کو فتح کرنے کے بعد کچھ عرصہ اپنی فوج کے ساتھ یہاں قیام کیا تھا۔ اسی قیام کے دوران سکندراعظم نے یہاں ایک مینار تعمیر کروایا، جس کا نام پتن منارہ تھا۔
پتن پور موہن جوڈارو اور ٹیکسلا کی تہذیبوں کا امین رہا ہے، اور تاریخ میں ہندومت، بدھ مت کا خاص مرکز رہا ہے۔ شومئی قسمت کہ اس کے کنارے بہنے والا دریائے ہاکڑا موسمی تبدیلیوں کے باعث خشک ہوگیا۔ دریا خشک ہونے سے پتن پور کی عظمت رفتہ رفتہ ختم ہونے لگی۔ اور ایک وقت آیا کہ پورا علاقہ ویران ہوگیا۔ بعض روایات کے مطابق پتن منارہ کی حدود میں کوئی خزانہ دفن ہے۔ انگریزوں کے دور حکومت میں کرنل منچن نے اس خزانے کو تلاش کرنے کی ایک ناکام کوشش کی مگر کچھ ہاتھ نہ آیا۔
رحیم یار خان میں دریائے ہاکڑہ کے کنارے پر آباد پتن پور کے یہ کھنڈرات آج اپنی داستان بتانے سے بھی قاصر ہیں۔ اب یہ صرف اینٹوں کا مینار باقی رہ گیا ہے، جو کسی وقت بھی زمین بوس ہو سکتا ہے۔
یہاں پتن مینارہ پر میرے چولستانی دوست دھرمیندر کماروہاں کے ایک کامیڈین و لوکل موسیقار ''شری نرسنگھ بھگت'' کو لیے موجود تھے۔ نرسنگھ نے ایک خوب صورت سرائیکی گیت سے سب مہمانوں کا استقبال کیا۔
آویں آویں دلبر آویں
ہو روہی چولستان
قلعہ دیراوڑ شہر اساڈہ
ڈیکھڑں آیا جہان
آویں آویں دلبر آویں
آویں آویں ڈھولڑں آویں
تمام سیاحوں نے یہاں سورج غروب ہونے کا خوب صورت منظر دیکھا اور روایتی چولستانی ساز ''یکتارہ'' پر کچھ مقامی گیت اور مدھر دھنیں سنیں۔ گروپ فوٹو کے بعد ہم اپنی آخری منزل بستی امان گڑھ کو چل دیئے جہاں ایک چاند اور پروگرام ہمارا انتظار کر رہا تھا۔
بستی امان گڑھ؛کہنے کو تو یہ عام بستی ہے لیکن اس میں بہت کچھ خاص ہے۔ بستی امان گڑھ تحصیل رحیم یار خان میں موجود ہندو کمیونٹی کا ایک بڑا گاؤں ہے جو پتن مینارہ کے قریب واقع ہے۔ یہاں کی ہندو کمیونٹی میں کئی مشہور لوگ شامل ہیں
جن میں شری محبت رام داس جی، ان کے بیٹے جناب پریتم داس اور پوتے دھرمیندر کمار بالاچ شامل ہیں، اور یہی ہمارے میزبان تھے۔
دھرمیندر ایک سماجی کارکن، ایم اے اردو کے طالب علم، صحافی اور یہاں کی ہندو کمیونٹی کا ابھرتا ہوا نام ہیں جنہیں میں عرصہ چار سال سے جانتا ہوں۔ ہم دونوں نے چولستان میں عوامی فلاح و بہبود کے کچھ پروجیکٹس بھی ساتھ کیے ہیں۔ ان کے والد پریتم داس جی ایک لکھاری اور سماجی رہنما ہونے کے ساتھ ساتھ بہت اچھے مقرر ہیں جب کہ دادا محبت رام داس جی بھی ایک نام ور مصنف و شاعر ہیں۔ محبت رام داس جی کی پانچ تصنیفات ہیں جن میں ''مکتی مارگ'' ، بھگوت گیتا کا اردو ترجمہ، فقیرا بھگت کے حالات زندگی (سرائیکی زبان میں)، سانحہ کربلا اور اوتار کا مفہوم جیسی کتب شامل ہیں جو انہوں نے خود کمپوز کی ہیں۔
مہمانوں کا استقبال پھولوں کے ہاروں اور پتیوں سے کیا گیا۔ گھر کے باہر صحن میں رنگین چولستانی کھیس و رلیاں بچھا کر بیٹھنے کا انتظام کیا گیا تھا۔
یہاں ہمیں معلوم ہوا کہ پنجاب اسمبلی کے اقلیتی رکن ''شری یدھسٹر چوہان'' بھی ہمیں ملنے آ رہے ہیں۔ ایکسائٹمنٹ اور زیادہ ہوگئی۔ مہمانوں کا باری باری تعارف ہوا۔ تقریباً آدھی بستی یہاں جمع تھی۔ خواتین، بچے بوڑھے سب بہت خوش تھے۔
تھوڑی دیر میں شری یُدھسٹر چوہان کے آنے کے بعد پروگرام شروع ہوا۔ سارنگی نواز استاد نور محمد نے محفل جمائی اور سرائیکی لوک گیتوں کا جادو ہوا میں بکھیر دیا۔
ٹھنڈی ہوا میں لوک گیتوں کو سن کہ سب جھومنے لگے۔ پھر چولستان و رحیم یار خان میں سیاحت کی ترویج پر بات ہوئی۔ مسائل اور ان کا حل تجویز کیا گیا۔ پھلوں کے ساتھ چائے اور یہاں کا روایتی چورما (دیسی گھی میں بنی میووں والی چوری) پیش کیا گیا جسے سب مہمانوں نے بہت پسند کیا۔ رخصت ہونے سے پہلے مہمانوں کو محبت رام داس جی کی کتاب ''مکتی مارگ'' پیش کی گئی اور ہار پہنائے گئے۔
اس تمام محبت کو سمیٹ کہ ہم رات گئے خان پور پہنچے، رات کا کھانا لگایا گیا جس میں دریائے سندھ کی تلی ہوئی مصالحے دار مچھلی ، بریانی ، فرائی دال اور دیگر لوازمات تھے۔ چائے کے بعد شدید تھکے ہوئے مہمان سو گئے۔
اگلے دن ہمارا پہلا پڑاؤ دین پور شریف تھا۔
دین پور شریف:دین پور شریف خان پور کے قریب ایک مشہور قصبہ ہے جہاں مشہور روحانی و علمی شخصیات محوِاستراحت ہیں۔
یہاں میرے ایک انکل میاں سلیم دین پوری صاحب نے ہماری دیسی ناشتے سے مہمان نوازی کی۔ مہمانوں کی آمد کا سن کہ انہوں نے ایک وقت کی میزبانی پہلے ہی اپنے ذمے لے لی تھی کہ ہمارے وسیب میں مہمانوں کی مہمان نوازی عبادت سمجھ کر کی جاتی ہے۔ اس کے بعد وفد نے ان کی نرسری دیکھی اور دین پور قبرستان کا رخ کیا۔
یہ اس شہر کا مشہور قبرستان ہے جہاں عالمِ اسلام کی برگزیدہ ہستیاں آرام فرما رہی ہیں، ان میں مولانا عبید اللہ سندھیؒ (بانی تحریک ریشمی رومال، سیاسی لیڈر، ممبر جامعہ ملیہ اسلامیہ )، حضرت مولانا خلیفہ غلام محمدؒ (بانی دین پور شریف) ، حضرت مولانا میاں عبد الہادیؒ (شیخِ ثانی)، شیخ الحدیث و حافظ الحدیث مولانا عبداللہ درخواستی رح (اسلامی سکالر، سابقہ امیر جمیعت علمائے اسلام، تحریک ختم نبوت کے سرگرم کارکن)، شیخِ ثالث حضرت مولانا سراج دین پوریؒ (سابق امیر جمیعت علمائے اسلام، مشیر برائے مذہبی امور محترمہ بینظیر بھٹو، بزرگ عالمِ دین)، مناظرِ اسلام حضرت مولانا لال حسین اختر (امیر چہارم عالمی مجلس تحفظ ختمِ نبوت)، میاں انیس دینپوری (ادیب و مصنف) سمیت دیگر شامل ہیں۔ یہاں مرد حضرات نے سب کی قبروں پر فاتحہ خوانی کی اور کوٹ مٹھن شریف کی راہ لی۔
انڈس کوئین؛کوٹ مٹھن کی جانب جاتے ہوئے دریائے سندھ کا نظارہ کیا گیا اور پھر میں نے راستے میں بریک لگوائی۔ انڈس کوئین کو دیکھے بنا ہم کیسے آگے جا سکتے تھے۔ انڈس کوئین کے بارے میں مفصل مضمون میں پہلے لکھ چکا ہوں یہاں اسکا تعارف کرائے دیتا ہوں۔
یہ پہلے ریاست بہاولپور کے نواب کا ستلج کوئین تھا۔ ستلج کوئین نواب آف بہاولپور نواب صادق خان عباسی پنجم کی ملکیت تھا جسے لگ بھگ 1867 میں بنایا گیا تھا۔
قیامِ پاکستان کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان 1960ء میں سندھ طاس معاہدے پر دستخط کیے گئے جس کے تحت تین دریا ستلج، بیاس اور راوی بھارت کے حوالے کر دیے گئے تو ستلج کی گود سونی ہوگئی۔ ادھر ریاستِ بہاولپور کے پاکستان میں ضم ہونے کے بعد نواب صادق خان عباسی نے پانی میں چلنے والا یہ جہاز ''ستلج کوئین'' حکومت پاکستان کو دے دیا۔
ستلج کوئین کو حکومت پاکستان نے ''غازی گھاٹ'' پر منتقل کیا اور اسے ڈیرہ غازی خان اور مُظفر گڑھ کے بیچ دریائے سندھ میں چلانا شروع کر دیا۔ سِندھو ندی میں آنے کے بعد یہ ستلج سے ''انڈس کوئین'' ہوگیا۔ غازی گھاٹ کے مقام پر پانی کے تیز بہاؤ کے پیشِ نظر انڈس کوئین کو 1996ء میں کوٹ مٹھن منتقل کر دیا گیا جہاں یہ مِٹھن کوٹ سے چاچڑاں کے درمیان پوری شان و شوکت سے چلتا رہا حتیٰ کہ 1996ء میں ہائی وے ڈیپارٹمنٹ حکومت پنجاب کی عدم توجہی کا شکار ہو کر چلنے کے قابل نہ رہا اور تب سے لے کر اب تک دریائے سندھ کے کناروں سے بھی دور میدانوں میں پڑا ہے۔
مقامی افراد کی طرف سے فراہم کردہ معلومات کے مطابق یہ وہ جہاز ہے جِسے نواب آف بہاولپور، نواب صبحِ صادق نے حضرت خواجہ غلام فریدؒ کو تحفہ میں دیا تھا۔ فرید کی نگری (کوٹ مٹھن) اور چاچڑاں شریف کے درمیان ٹھاٹھیں مارتا دریائے سندھ بہتا ہے جس کی وجہ سے خواجہ صاحبؒ سے ملاقات کرنے والے مریدین کو دشواری پیدا ہوتی تھی اور خواجہ صاحبؒ کو بھی چِلہ کشی کے لیے روہی (چولستان) جانا پڑتا تھا، اس لیے نواب آف بہاولپور نے یہ بحری جہاز خواجہ صاحبؒ کو تحفتاً دے دیا تھا جو کافی عرصہ استعمال میں رہا۔ اس جہاز نے اپنا آخری سفر 1996 میں کیا۔
سبھی دوستوں نے اسے دیکھ کہ افسردگی کا اظہار کیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس قیمتی تاریخی ورثے کو برباد ہونے سے بچایا جائے۔ اسے بحال کیا جائے اور سیاحت کے فروغ کے لیے استعمال کیا جائے۔ ورنہ آج سے چند سال بعد اس کا ڈھانچا بھی ناکارہ قرار دے کر اسکریپ کے طور پر بیچ دیا جائے گا۔یہاں سے ہماری بس کوٹ مٹھن کی جانب روانہ ہوئی اور دربار حضرت خواجہ غلام فرید رح جا کر ہی بریک لگائی۔
کوٹ مٹھن و دربار خواجہ غلام فریدؒ؛ دربار کے باہر موجود بازار میں علاقے کی سوغات دیکھ کر سب رک گئے۔ یہاں میں نے سب کو مختلف اشیاء کے بارے میں بتایا۔
لال رنگ کے دل کش ڈیزائن والے رومال کو ''فریدی رومال'' کہا جاتا ہے اور یہ عرصہ دراز سے وسیب کے لوگوں میں مقبول ہے۔ نام کی وجہ تسمیہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اس رومال کو یہاں سب سے پہلے حضرت خواجہ غلام فریدؒ کے خلفاء اور عقیدت مندوں نے پہننا شروع کیا تھا جس کے بعد یہ اتنا مقبول ہوا کہ دور دور سے لوگ اسے استعمال کرنا شروع ہو گئے۔ پاکستان کا دورہ کرنے والی چند یورپی خواتین کو بھی میں نے یہ پہنے دیکھا تھا۔
اس کے علاوہ یہاں ہاتھ کے بنے پراندے اور چھبیاں بھی بہت مشہور ہیں۔
بازار سے ہو کر ہم درگاہ تک پہنچے جہاں ہمارا استقبال ولی عہد دربار ''راول معین کوریجہ'' صاحب کے پی اے جناب رفیع اللہ نے کیا۔ وہ ہمیں دربار کے اندر لے گئے اور وفد کے تمام اراکین نے خواجہ صاحب اور رفقاء کی قبر مبارک پر فاتحہ خوانی کی۔
اس کے بعد ہم نے صحن میں ایک حلقہ بنایا اور ہمارے گروپ میں موجود عمیر افضل سے خواجہ صاحب کا کلام سننے کی فرمائش کی۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے عمیرافضل بہت ہی خوب صورت آواز کے مالک ہیں جو تھیٹر ڈراموں میں شوقیہ گاتے ہیں۔ حال ہی میں رفیعہ کاشف کے لکھے ڈرامے ''میڈا عشق وی توں'' میں انہوں نے خواجہ صاحبؒ کی چند کافیاں گائیں تھیں جنہیں بہت پسند کیا گیا۔ ہم نے ان سے فرمائش کی کہ وہ، اپنی تیار کی ہوئی کافیاں آج ہمیں خواجہ صاحب کے دربار پر بھی سنائیں۔ سو حلقہ بنا، منہ ہوا مقبرے کی جانب اور ہم سب ہمہ تن گوش۔
ہوووو دلڑی لٹی تئیں یار سجن
کدی موڑ مہاراں تے آ وطن
روہی دے کنڈرے کالیاں
میڈیاں ڈکھن کناں دیاں والیاں
اساں راتاں ڈکھاں وِچ جالیاں
روہی بناؤئی چا وطن
تن دی ہانڈی تے من دا سالن
اُتوں لُوڑں صبر دا پایا
غلام فریدَا وے میں ساری تیڈی
تَیکوں ہجے اعتبار نہیں آیا
روہی دے کنڈرے بیریاں
وے میں تیری آں ، وے میں تیری آں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چُوڑا اَنا ڈے جیسلمیر دا
سُوہا رنگا ڈے خاص اَجمیر دا
ہووے اصلی خاص مڑیچہ
نا نقلی ول پھیر دا
جلدی آوے ناں چرلاوے
کَم نہیں اِتھ دیر دَا
عمیر کی آواز روح میں اتر کر جسم کو جھنجوڑنے تک کی صلاحیت رکھتی ہے۔ پہلی بار محسوس ہوا کہ آواز کئی دردوں کو جگانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ آواز رب تک لے جانے کی صلاحیت رکھتی ہے اور یہی آواز، محبوب کا دیدار بھی کروا دیتی ہے اگر کوئی بہت خوش نصیب ہو تو۔
ایک عجیب سی کیفیت تھی جو ہم سب پر طاری ہو گئی تھی۔ میں چاہتا تھا کہ اب یہاں سے اٹھا نہ جائے لیکن کیا کرتے۔۔۔ جانا بھی تو تھا۔
اس کے بعد رفیع اللہ بھائی نے تمام مہمانوں کو لنگر کھلایا اور ہم نے واپسی کی اجازت لی۔
میرا اور مسافران شوق کا ساتھ بھی یہیں تک کا تھا۔ مجھے اپنے دوست احمد حفیظ کے ساتھ واپس خان پور جانا تھا اور احباب نے صادق گڑھ پیلس جہاں ایک اور کہانی ان کی منتظر تھی۔
جہاں نواب صاحب اور ان کی محبت ان کی راہ دیکھ رہے تھے۔
سو بہت سے عہد و پیمان اور محبتوں کے ساتھ میں نے رخصت چاہی اور یہ بھرپور دورہ اپنے اختتام کو پہنچا۔
سیاحت کی بات کریں تو یہاں بھی وسیب کے دیگر اضلاع جیسے رحیم یار خان، راجن پور، لودھراں، لیہ، بھکر، خانیوال، وہاڑی اور بہاولنگر جیسے علاقوں کو نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ میں اپنے اکثر دوستوں (جو سیاحتی کمپنیاں چلاتے ہیں اور سیاحت سے براہِ راست منسلک ہیں) سے کہتا رہا ہوں کہ وہ چولستان جیپ ریلی کے علاوہ بھی یہاں اپنے ٹرپ لے کر آئیں اور سیاحوں کو بہاولپور سمیت دیگر علاقے بھی دکھائیں۔
میں نے حکومت پنجاب کے سیاحتی محکمے ٹورزم ڈیویلپمنٹ کارپوریشن پنجاب (TDCP) سے بھی کئی بار یہ گزارش کی کہ آپ سرمائی سیاحت کے نام پر ہونے والی اپنی تمام سرگرمیوں کا رخ صرف بہاولپور کی جانب نہ کریں بلکہ انہیں پورے وسیب تک لے جائیں۔ انہیں چولستان کے دیگر قلعے، اوچ شریف کے مقبرے، بھونگ مسجد، کوٹ مٹھن میں درگاہ خواجہ فریدؒ، مسجد سکینہ الصغریٰ اور پتن مینارہ جیسے مقامات بھی دکھائیں لیکن نہ جانے حکومت کا ملتان و بہاولپور سے ایسا کیا مفاد جڑا ہے جو وہ یہاں سے باہر نکلنا ہی نہیں چاہتے۔
میرا علاقہ رحیم یار خان تاریخ، روایات، ثقافت، ورثہ، لوک رنگ و داستان، ادب، روحانیت، بودوباش اور موسیقی سمیت ہر لحاظ سے زرخیز ہے۔ لیکن یہاں چند تعلیمی اداروں میں ہونے والے فنکشنز کے علاوہ کوئی ایسا بڑا پروگرام یا ایونٹ سرکاری سطح پر بھی نہیں ہوتا کہ جس سے یہاں کی سیاحت اور مہمان نوازی کو بھرپور طریقے سے دنیا کے سامنے پیش کیا جا سکے۔ اگرچہ کراس روٹ کلب و وسیب ایکسپلورر نامی بائیکر گروپ نے یہاں دو تین پروگرام ضرور کیے ہیں لیکن وہ بھی نجی سطح پر ہی محدود رہے اور حکومت نے ان میں کوئی خاص دل چسپی نہیں ظاہر کی۔
''اُٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے'' کے مصداق اب ناچیز نے اس کام کا بیڑا اٹھایا ہے کے نہ صرف ضلع رحیم یارخان، راجن پور و چولستان کے علاقوں میں سیاحت کو فروغ دینا ہے بلکہ اسی سیاحت کے ذریعے یہاں مذہبی ہم آہنگی، ثقافت کی ترویج اور مقامی فن کاروں کی مدد کے جذبے کو بھی فروغ دینا ہے، کیوںکہ میرا ماننا ہے کہ ایسی سیاحت کا فائدہ ہی کیا جس سے مقامی لوگوں خصوصاً فن کاروں کے حالات زندگی بہتر نہ ہو سکیں۔
خیر، مصنف کب سے کوشش میں تھا کہ ٹھنڈ کے اس موسم میں ملک کے دیگر حصوں سے دوست احباب یہاں کا رخ کریں اور فطرت کو قریب سے دیکھیں۔ میری کال پر سیاح دوستوں کے ایک گروپ ''مسافرانِ شوق'' نے لبیک کہا اور فروری کے پہلے ہفتے لاہور، گوجرانوالہ، گجرات، کراچی اور سرگودھا سے بیس دوستوں پر مشتمل ایک قافلہ میرا مہمان ہوا جس میں ایم بلال ایم (مشہور فوٹوگرافر)، ڈاکٹر کاشف علی (لیکچرار مطالعہ پاکستان و تاریخ، یونیورسٹی آف گجرات)، ڈاکٹر قیصر شہزاد درانی (ڈائریکٹر گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ)، رفیعہ کاشف (ڈراما نگار و مصنفہ)، عمران احسان مغل ( فوٹوگرافر و لیکچرار انگلش ایسپائر کالج گوجرانوالہ)، ذیشان رشید (لیکچرار گفٹ یونیورسٹی)، شجاعت علی (لیکچرار یو ای ٹی لاہور)، مس حنا ایمان (ٹور آپریٹر) محترمہ سدرہ عتیق خان (سیاح)، عثمان ضیاء (لیکچرار یونیورسٹی آف گجرات)، عمیر افضل (سنگر)، محمد حنظلہ (سیاح)، زین (سیاح) و دیگر شامل تھے۔
اس خطے میں سیاحت و تاریخی ورثے کو پروموٹ کرنے کے لیے یہ میری ایک ادنیٰ سی کوشش تھی جو بڑے عرصے کے انتظار کے بعد تکمیل تک پہنچی۔ چلیں آپ کو اس سفر کی داستان سناتا ہوں۔
4 فروری بروز جمعہ صبح سویرے مہمانوں کی آمد ہوئی۔ چائے اور آرام کے بعد خانپور سے دیسی و روایتی ناشتہ کر کے ہم سب براستہ ظاہر پیر بھونگ پہنچے جہاں ہم نے بھونگ مسجد، حویلی رئیس غازی خان اور گنیش مندر دیکھنا تھا۔
بھونگ مسجد؛ضلع رحیم یارخان کی تحصیل صادق آباد کے مغرب میں بھونگ نامی ایک قصبہ آباد ہے جس کی وجہ شہرت یہاں موجود وہ شاہ کار ہے جسے دیکھنے دور دور سے لوگ آتے ہیں۔
یہ رئیس غازی محمد کی بنائی گئی بھونگ مسجد ہے جو پچاس سال کے عرصے میں تعمیر ہوئی۔ اس مسجد کی تعمیر 1932 میں شروع ہوئی جب نواب آف بہاول پور کے دوست رئیس غازی محمد نے اپنی محل نما حویلی کے پاس ایک عالی شان مسجد بنوانے کا سوچا۔ رئیس محمد غازی، بھونگ کے رئیس، اعزازی طور پر مجسٹریٹ اور بہاولپور اسمبلی کے رکن بھی رہے۔ رئیس صاحب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آپ بہت اللہ لوک شخص تھے جن کی زندگی کا مشن عبادت و ریاضت، سماجی کاموں اور مختلف علاقوں میں مساجد کی تعمیر تھا۔
ایک دن وہ اپنے محل کے پاس چھوٹی سی مسجد میں نماز ادا کر رہے تھے کہ اچانک ان کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ میرا گھر اتنا شان دار اور خوب صورت ہے تو پھر اللہ تو اس سے کہیں زیادہ کا حق رکھتا ہے۔ بس یہی سوچ کر آپ نے یہاں ایک عالی شان مسجد تعمیر کروانے کا ارادہ کرلیا جو اُس محل سے بھی شان دار ہو۔
ماسٹر عبدالحمید کی زیرنگرانی مسجد تعمیر ہونا شروع ہوئی جس کے ایک ایک مرحلے پر رئیس صاحب نے ذاتی دل چسپی لی۔ مسجد کے ساتھ ساتھ بچوں کے لیے ایک مدرسہ اور رہائشی کمرے بھی تعمیر کیے جانے تھے۔ روایت ہے کہ اس مسجد کا کوئی باقاعدہ نقشہ نہیں بنایا گیا بلکہ ایک خاکہ رئیس غازی محمد کے ذہن میں تھا جس کے مطابق تعمیر کا آغاز کیا گیا (یہی بات ہمیں ان کے ایک جانشین نے بھی بتائی تھی)۔ رئیس غازی محمد باہر کے ممالک سے مساجد کا جو بھی ڈیزائن پسند کر کے لاتے اسی کے مطابق بھونگ مسجد میں تبدیلی کروا دیتے۔
سال 1950 میں جب سیم نے اس مسجد کی عمارت کو نقصان پہنچانا شروع کیا تو مرکزی عمارت کو شہید کر کے تقریباً 20 فٹ بلند ایک چبوترہ بنایا گیا اور اس پر مسجد کی تعمیر نئے سرے سے کی گئی۔ اس طرح مسجد کے ڈیزائن میں کئی بار تبدیلی کی گئیں جس کی وجہ سے پچاس سال یہ تعمیر ہوتی رہی۔ تعمیر کے لیے اٹلی، ہنگری اور آسٹریا سے سنگِ سرخ، سنگِ مرمر، سنگِ خارا، سنگِ سرمئی اور سنگِ سیاہ منگوائے گئے۔
ان پتھروں کو کاٹنے اور تراشنے، ٹائلوں پر پھول بنانے، میناکاری و خطاطی کرنے، صندل کی لکڑی پر باریک اور نفیس کام کرنے، گل کاری کرنے اور سونے کے پھول بنانے والے ہزاروں کاری گر کراچی، راجستھان اور برِصغیر کے دیگر حصوں سے بلوائے گئے۔ کہتے ہیں کہ بہت سے مزدور تو اتنے عمررسیدہ تھے کہ وہ تعمیر کے دوران ہی چل بسے لیکن ان کے بیٹوں اور پوتوں نے تعمیر کے کام کو جاری رکھا۔ماہرین نے اس مسجد کے ڈیزائن میں لاہور، ایران و ترکی کے طرزِتعمیر کو اسپین اور دیگر مغربی ممالک کے طرزتعمیر سے مِلا کر مشرق و مغرب کے بہترین اشتراک کی مثال قائم کی۔
روایتی تعمیراتی کرافٹ جیسے سنگِ مرمر، ساگوان ، ہاتھی دانت، سنگ سلیمانی، چمک دار ٹائل، استرکاری، شیشے کے کام اور کوزہ گری کو جدید و مصنوعی تیکنیکوں جیسے چپسی فرش (پتھر کی کنکریوں کو سیمنٹ میں ملا کر پچی کاری سے تیار کیا گیا فرش)، سیمنٹ کی رنگین ٹائل، خالص لوہے اور پتھر کی استرکاری سے ملا کر استعمال کیا گیا۔
اندرونی حصوں پر کمال کی نقش نگاری اور فریسکو کا کام کیا گیا۔ یہ بھی مشہور ہے کہ اندرونی محراب کے اوپر سونے و چاندی کا پانی چڑھایا گیا تھا۔
غازی صاحب کے خاندان کے ایک فرد نے بتایا کہ اُن دنوں بھونگ اور اطراف کے علاقوں میں پکی سڑک ناپید تھی سو بھاری مشینیں اور تعمیر کے دیگر لوازمات صادق آباد کے اسٹیشن سے چھکڑوں اور اونٹوں پہ لاد کر یہاں تک پہنچائے جاتے تھے۔ یہاں کے تمام کاری گروں کو ان کی مہارت اور تجربے کی بنیاد پر اْجرت دی جاتی تھی۔
1975 میں (مسجد بننے سے سات سال پہلے) رئیس غازی محمد کا انتقال ہو گیا تو ان کے ولی عہد رئیس شبیر محمد نے والد کے کام کو آگے بڑھایا۔
1982 میں اس مسجد کی تعمیر مکمل ہوئی اور اسے نمازیوں کے لیے کھول دیا گیا۔ مسجد میں ایک وسیع دارالمطالعہ، مدرسہ اور وہ حجرہ بھی موجود ہے جہاں رئیس غازی محمد عبادت کیا کرتے تھے۔
فی الحال یہاں تقریباً ڈھائی ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے۔ خواتین کے لیے بھی ایک چھوٹی مسجد علیحدہ موجود ہے جو جمعہ مسجد کہلاتی ہے۔
مشہد میں مزار امام احمد رضا کے صدر دروازے سے مشابہت رکھتا مرکزی دروازہ، سنگ مرمر کی سیڑھیاں اور فوارے اس مسجد کی خوب صورتی کو چار چاند لگانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اسی انفرادیت سے متاثر ہوکر بھونگ مسجد کو 1986ء میں تعمیرات کے شعبے میں آغا خان ایوارڈ بھی دیا گیا۔
2004 کو حکومت پاکستان نے اس مسجد کی تصویر والا ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا تھا۔ بھونگ مسجد رحیم یار خان سمیت وسیب کی سیاحت کا اہم حصہ ہے جہاں دور دور سے سیاح اسے دیکھنے آتے ہیں۔
حویلی رئیس غازی خان؛بھونگ مسجد دیکھ چکے تو اپنے دوست رئیس ارشد صاحب سے اجازت چاہی لیکن ہمارے گروپ کی خواتین کی شدید دل چسپی بھانپتے ہوئے رئیس صاحب نے حویلی کے دروازے ہم پر کھول دیئے اور ہمیں دیکھنے کی اجازت دے دی اس شرط پر کہ حویلی کی تصاویر سوشل میڈیا پر نہ جائیں۔
یہاں میں یہ بات بھی کہنا چاہوں گا کہ جب بھی آپ کہیں گھومنے جاتے ہیں تو اس علاقے کی روایات پر قائم رہنا آپ پر واجب ہوتا ہے۔ ایک اچھے سیاح کی یہی نشانی ہے کہ وہ جیسا دیس ویسا بھیس کے مصداق ہر جگہ اپنا وقار برقرار رکھتا ہے۔ اور مجھے نہایت خوشی ہے یہ بتاتے ہوئے کہ میرے تمام مہمانوں نے میرا بھرم رکھا اور تہذیب و طریقے سے رئیس صاحبان کی حویلی دیکھی اور ان سے اس کے متعلق سوالات بھی کیے۔
یہ حویلی نما محل جسے ''رئیس محل'' کہا جاتا ہے ایک وسیع رقبے پر رئیس غازی محمد نے بنوایا تھا۔ بھونگ مسجد کے بالکل عقب میں بنے اس محل میں زنان خانے و مردانہ حصوں کے علاوہ بڑے میدان، خوب صورت باغ اور گزرگاہیں بنائی ہیں۔ حویلی کی بناوٹ پرانے طرز کی ہے جس کے چاروں کونوں پر لکڑی کے جھروکے بنے ہیں۔ وسیع و عریض برآمدے پر پتھر کی جالیاں بنی ہیں جب کہ چھتوں پر خوب صورت شیشے کا کام کیا گیا ہے۔ یہ محل کاری گروں کی مہارت اور رہنے والوں کی نفاست کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
آخر میں یہاں فوٹوز بنوا کر ہم نے انہیں الوداع کہا اور اپنی اگلی منزل کی راہ لی۔
گنیش مندر؛فروری کا پہلا ہفتہ پاکستان بھر میں مذہبی ہم آہنگی کے طور پر منایا گیا تھا۔ اس حوالے سے ہمارے سیاح مہمانوں کے دورہ گنیش مندر کا واضح مقصد یہ تھا کہ ہم بطور مسلمان و پاکستانی اس بات پر کامل یقین رکھتے ہیں کہ اس ملک میں مذہبی آزادی ہر شخص کے لیے ہے اور وہ بغیر کسی دوسرے مذہب کی دل آزاری کیے، اپنی عبادت گاہیں بنانے اور ان میں عبادت کرنے کے لیے آزاد ہیں۔ ہمارے اس وفد کو بھونگ کی ہندو کمیونٹی نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور مندر سمیت اپنے گھروں کے دروازے بھی کھول دیے۔
''سِدھی وینائیک مندر'' یا شری گنیش مندر بھونگ کے تقریباً 120 ہندو خاندانوں کی مرکزی عبادت گاہ ہے جو اس ضلع بلکہ پورے بہاول پور خطے کا سب سے بڑا مندر ہے۔
یہ مندر مقامی لوگوں نے اپنے سرمائے اور اپنی مدد آپ کے تحت 2001 میں یہ سوچ کر بنایا تھا کہ یہاں ہماری بڑی آبادی کے باوجود کوئی عبادت گاہ نہ ہے جبکہ مذہبی شعور کے لیے اس کا ہونا ضروری ہے۔
پھر سوال کھڑا ہوا کہ مندر ہو تو کس دیوتا کا ہو؟؟
پاکستان کے پانچوں صوبوں میں مختلف دیوتاؤں کے مندر ملتے ہیں۔ ہندو خاندانوں کے گھروں میں بنے مندر اس کے علاوہ ہیں۔ مقامی لوگوں نے سوچا کہ ہماری پُرانی کتھاؤں (مذہبی داستانیں) کے مطابق پرَتھم پوجا (پہلی عبادت) کا منترِک شیو جی کے بیٹے گنیش کے منتر سے کرتے ہیں تو کیوں ناں اس قصبے میں گنیش جی کا مندر ہو اور یہاں قریب قریب سندھ و پنجاب میں ایسا کوئی مندر نہیں ہے۔
سو یہاں کے چند نوجوانوں نے ٹاؤن کے اندر ایک مخصوص جگہ کو صاف کر کہ میلہ منعقد کیا اور ایک چھوٹے مندر کی بنیاد رکھی جو دو سال میں تیار ہوا۔
آس پاس کے ہندو اسے دیکھنے آتے رہے اور اس کی اہمیت بڑھتی گئی۔ لوگوں کا رش زیادہ ہوا تو یہاں کے بڑوں نے ایک بڑا مندر بنانے کا سوچا۔ یہاں موجود ہندو دوکان داروں سے روزانہ دس روپے بطور چندہ لیا گیا جب کہ بھونگ کے دیگر ہندو خاندانوں نے بھی اس کے لیے دل کھول کہ دان کیا۔ پہلے جو پیسہ میلے میں لگ جاتا تھا اب وہ مندر کے لیے استعمال ہونے لگا جب کہ میلے کے لیے ارد گرد کے شہروں سے چندہ اکٹھا کیا جاتا رہا۔
مندر کی تعمیر شروع ہوئی۔ چنیوٹی لکڑی کے دروازے ، خوب صورت شیشے کے جھومر اور دیواروں پر رنگین شیشے کا کام کیا گیا، مورتیوں کے لیے شیشے کے بکس بنوائے گئے، حیدر آباد و کراچی کے ماہر کاری گروں نے مہینوں لگا کہ کئی مورتیاں تیار کیں، پتھر کا آرائشی فرش بنا اور روشنی کا بہترین انتظام کیا گیا۔
کئی سالوں کی متواتر محنت اور چندے کی مدد سے 2016-17 میں جب یہ مکمل ہوا تو یہ ایک پس ماندہ علاقے کا جدید مندر تھا جس کے افتتاح میں ایک بڑی بھیڑ دیکھنے کو ملی۔
یہاں ہندو مذہب کے مختلف بھگوانوں کی سات بڑی مورتیاں رکھی گئی ہیں۔ مندر میں ہندوؤں کے مقدس نشان اور اشیاء بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔
4 اگست 2021 کو رونما ہونے والے افسوس ناک واقعے نے اسے سوشل میڈیا اور بین الاقوامی سطح پر مشہور کردیا، جب ایک افواہ کو بنیاد بنا کر ہمارے مسلمان بھائیوں کے ایک جتھے نے مندر پر دھاوا بولا اور مورتیوں سمیت دیگر مقدس املاک کو نقصان پہنچایا۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے بروقت اس کا نوٹس لیا اور وزیراعظم کے حکم پر مندر کو آٹھ دس دنوں کے اندر دوبارہ مرمت کرکے بحال کردیا گیا۔
یہاں گنیش اْتسو (گنیش جنم دن)، ہولی، دیوالی، نوراتری، دسیہرا اور شیوراتری کے تہوار دھوم دھام سے منائے جاتے ہیں، جب کہ بھائی دوج، رکھشا بندھن اور مکر سکرانتی جیسے تہوار یہاں گھروں میں منائے جاتے ہیں۔
اگست کے واقعے کے بعد مندر کے باہر سخت سیکیورٹی دیکھنے کو ملتی ہے۔ میں رمیش کمار لیلوا جی کا مشکور ہوں جو کہ بھونگ سے تعلق رکھنے والے ہندی ٹیچر اور مذہبی اسکالر ہیں جنہوں نے میرے مہمانوں کے لیے مندر کے دروازے کھولے اور مذہبی ہم آہنگی کا پیغام لے کر آنے والے سیاحوں کے سوالات کے جواب بھی دیے۔
پتن مینارہ؛ رحیم یارخان سے جنوب میں ابوظبی محل روڈ پر تقریباً 15 کلومیٹر کے فاصلے پر پتن منارہ واقع ہے جسے تاریخ داں ایک قدیم بدھ خانقاہ قرار دیتے ہیں جب کہ بیت سے مؤرخین کا کہنا ہے کہ یہ ہندوؤں کی عبادت گاہ تھی جو قدیم ہندو دور میں بنائی گئی تھی۔
پتن مینارہ تاریخ میں پتن پور کے نام سے جانا جاتا تھا۔ بعض محققین کے مطابق پتن پور سکندراعظم نے تعمیر کروایا تھا اور یہاں ایک بہت بڑی درس گاہ تعمیر کی تھی، جب کہ کچھ کے نزدیک یہ شہر سکندراعظم کے زمانے سے بھی پہلے کا آباد تھا اور صحرائے چولستان میں سے گزرنے والا ایک قدیم دریا ''ہاکڑا'' یا ''گھاگھرا'' پتن پور کے قریب سے بہتا تھا۔ سکندراعظم نے اس شہر کو فتح کرنے کے بعد کچھ عرصہ اپنی فوج کے ساتھ یہاں قیام کیا تھا۔ اسی قیام کے دوران سکندراعظم نے یہاں ایک مینار تعمیر کروایا، جس کا نام پتن منارہ تھا۔
پتن پور موہن جوڈارو اور ٹیکسلا کی تہذیبوں کا امین رہا ہے، اور تاریخ میں ہندومت، بدھ مت کا خاص مرکز رہا ہے۔ شومئی قسمت کہ اس کے کنارے بہنے والا دریائے ہاکڑا موسمی تبدیلیوں کے باعث خشک ہوگیا۔ دریا خشک ہونے سے پتن پور کی عظمت رفتہ رفتہ ختم ہونے لگی۔ اور ایک وقت آیا کہ پورا علاقہ ویران ہوگیا۔ بعض روایات کے مطابق پتن منارہ کی حدود میں کوئی خزانہ دفن ہے۔ انگریزوں کے دور حکومت میں کرنل منچن نے اس خزانے کو تلاش کرنے کی ایک ناکام کوشش کی مگر کچھ ہاتھ نہ آیا۔
رحیم یار خان میں دریائے ہاکڑہ کے کنارے پر آباد پتن پور کے یہ کھنڈرات آج اپنی داستان بتانے سے بھی قاصر ہیں۔ اب یہ صرف اینٹوں کا مینار باقی رہ گیا ہے، جو کسی وقت بھی زمین بوس ہو سکتا ہے۔
یہاں پتن مینارہ پر میرے چولستانی دوست دھرمیندر کماروہاں کے ایک کامیڈین و لوکل موسیقار ''شری نرسنگھ بھگت'' کو لیے موجود تھے۔ نرسنگھ نے ایک خوب صورت سرائیکی گیت سے سب مہمانوں کا استقبال کیا۔
آویں آویں دلبر آویں
ہو روہی چولستان
قلعہ دیراوڑ شہر اساڈہ
ڈیکھڑں آیا جہان
آویں آویں دلبر آویں
آویں آویں ڈھولڑں آویں
تمام سیاحوں نے یہاں سورج غروب ہونے کا خوب صورت منظر دیکھا اور روایتی چولستانی ساز ''یکتارہ'' پر کچھ مقامی گیت اور مدھر دھنیں سنیں۔ گروپ فوٹو کے بعد ہم اپنی آخری منزل بستی امان گڑھ کو چل دیئے جہاں ایک چاند اور پروگرام ہمارا انتظار کر رہا تھا۔
بستی امان گڑھ؛کہنے کو تو یہ عام بستی ہے لیکن اس میں بہت کچھ خاص ہے۔ بستی امان گڑھ تحصیل رحیم یار خان میں موجود ہندو کمیونٹی کا ایک بڑا گاؤں ہے جو پتن مینارہ کے قریب واقع ہے۔ یہاں کی ہندو کمیونٹی میں کئی مشہور لوگ شامل ہیں
جن میں شری محبت رام داس جی، ان کے بیٹے جناب پریتم داس اور پوتے دھرمیندر کمار بالاچ شامل ہیں، اور یہی ہمارے میزبان تھے۔
دھرمیندر ایک سماجی کارکن، ایم اے اردو کے طالب علم، صحافی اور یہاں کی ہندو کمیونٹی کا ابھرتا ہوا نام ہیں جنہیں میں عرصہ چار سال سے جانتا ہوں۔ ہم دونوں نے چولستان میں عوامی فلاح و بہبود کے کچھ پروجیکٹس بھی ساتھ کیے ہیں۔ ان کے والد پریتم داس جی ایک لکھاری اور سماجی رہنما ہونے کے ساتھ ساتھ بہت اچھے مقرر ہیں جب کہ دادا محبت رام داس جی بھی ایک نام ور مصنف و شاعر ہیں۔ محبت رام داس جی کی پانچ تصنیفات ہیں جن میں ''مکتی مارگ'' ، بھگوت گیتا کا اردو ترجمہ، فقیرا بھگت کے حالات زندگی (سرائیکی زبان میں)، سانحہ کربلا اور اوتار کا مفہوم جیسی کتب شامل ہیں جو انہوں نے خود کمپوز کی ہیں۔
مہمانوں کا استقبال پھولوں کے ہاروں اور پتیوں سے کیا گیا۔ گھر کے باہر صحن میں رنگین چولستانی کھیس و رلیاں بچھا کر بیٹھنے کا انتظام کیا گیا تھا۔
یہاں ہمیں معلوم ہوا کہ پنجاب اسمبلی کے اقلیتی رکن ''شری یدھسٹر چوہان'' بھی ہمیں ملنے آ رہے ہیں۔ ایکسائٹمنٹ اور زیادہ ہوگئی۔ مہمانوں کا باری باری تعارف ہوا۔ تقریباً آدھی بستی یہاں جمع تھی۔ خواتین، بچے بوڑھے سب بہت خوش تھے۔
تھوڑی دیر میں شری یُدھسٹر چوہان کے آنے کے بعد پروگرام شروع ہوا۔ سارنگی نواز استاد نور محمد نے محفل جمائی اور سرائیکی لوک گیتوں کا جادو ہوا میں بکھیر دیا۔
ٹھنڈی ہوا میں لوک گیتوں کو سن کہ سب جھومنے لگے۔ پھر چولستان و رحیم یار خان میں سیاحت کی ترویج پر بات ہوئی۔ مسائل اور ان کا حل تجویز کیا گیا۔ پھلوں کے ساتھ چائے اور یہاں کا روایتی چورما (دیسی گھی میں بنی میووں والی چوری) پیش کیا گیا جسے سب مہمانوں نے بہت پسند کیا۔ رخصت ہونے سے پہلے مہمانوں کو محبت رام داس جی کی کتاب ''مکتی مارگ'' پیش کی گئی اور ہار پہنائے گئے۔
اس تمام محبت کو سمیٹ کہ ہم رات گئے خان پور پہنچے، رات کا کھانا لگایا گیا جس میں دریائے سندھ کی تلی ہوئی مصالحے دار مچھلی ، بریانی ، فرائی دال اور دیگر لوازمات تھے۔ چائے کے بعد شدید تھکے ہوئے مہمان سو گئے۔
اگلے دن ہمارا پہلا پڑاؤ دین پور شریف تھا۔
دین پور شریف:دین پور شریف خان پور کے قریب ایک مشہور قصبہ ہے جہاں مشہور روحانی و علمی شخصیات محوِاستراحت ہیں۔
یہاں میرے ایک انکل میاں سلیم دین پوری صاحب نے ہماری دیسی ناشتے سے مہمان نوازی کی۔ مہمانوں کی آمد کا سن کہ انہوں نے ایک وقت کی میزبانی پہلے ہی اپنے ذمے لے لی تھی کہ ہمارے وسیب میں مہمانوں کی مہمان نوازی عبادت سمجھ کر کی جاتی ہے۔ اس کے بعد وفد نے ان کی نرسری دیکھی اور دین پور قبرستان کا رخ کیا۔
یہ اس شہر کا مشہور قبرستان ہے جہاں عالمِ اسلام کی برگزیدہ ہستیاں آرام فرما رہی ہیں، ان میں مولانا عبید اللہ سندھیؒ (بانی تحریک ریشمی رومال، سیاسی لیڈر، ممبر جامعہ ملیہ اسلامیہ )، حضرت مولانا خلیفہ غلام محمدؒ (بانی دین پور شریف) ، حضرت مولانا میاں عبد الہادیؒ (شیخِ ثانی)، شیخ الحدیث و حافظ الحدیث مولانا عبداللہ درخواستی رح (اسلامی سکالر، سابقہ امیر جمیعت علمائے اسلام، تحریک ختم نبوت کے سرگرم کارکن)، شیخِ ثالث حضرت مولانا سراج دین پوریؒ (سابق امیر جمیعت علمائے اسلام، مشیر برائے مذہبی امور محترمہ بینظیر بھٹو، بزرگ عالمِ دین)، مناظرِ اسلام حضرت مولانا لال حسین اختر (امیر چہارم عالمی مجلس تحفظ ختمِ نبوت)، میاں انیس دینپوری (ادیب و مصنف) سمیت دیگر شامل ہیں۔ یہاں مرد حضرات نے سب کی قبروں پر فاتحہ خوانی کی اور کوٹ مٹھن شریف کی راہ لی۔
انڈس کوئین؛کوٹ مٹھن کی جانب جاتے ہوئے دریائے سندھ کا نظارہ کیا گیا اور پھر میں نے راستے میں بریک لگوائی۔ انڈس کوئین کو دیکھے بنا ہم کیسے آگے جا سکتے تھے۔ انڈس کوئین کے بارے میں مفصل مضمون میں پہلے لکھ چکا ہوں یہاں اسکا تعارف کرائے دیتا ہوں۔
یہ پہلے ریاست بہاولپور کے نواب کا ستلج کوئین تھا۔ ستلج کوئین نواب آف بہاولپور نواب صادق خان عباسی پنجم کی ملکیت تھا جسے لگ بھگ 1867 میں بنایا گیا تھا۔
قیامِ پاکستان کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان 1960ء میں سندھ طاس معاہدے پر دستخط کیے گئے جس کے تحت تین دریا ستلج، بیاس اور راوی بھارت کے حوالے کر دیے گئے تو ستلج کی گود سونی ہوگئی۔ ادھر ریاستِ بہاولپور کے پاکستان میں ضم ہونے کے بعد نواب صادق خان عباسی نے پانی میں چلنے والا یہ جہاز ''ستلج کوئین'' حکومت پاکستان کو دے دیا۔
ستلج کوئین کو حکومت پاکستان نے ''غازی گھاٹ'' پر منتقل کیا اور اسے ڈیرہ غازی خان اور مُظفر گڑھ کے بیچ دریائے سندھ میں چلانا شروع کر دیا۔ سِندھو ندی میں آنے کے بعد یہ ستلج سے ''انڈس کوئین'' ہوگیا۔ غازی گھاٹ کے مقام پر پانی کے تیز بہاؤ کے پیشِ نظر انڈس کوئین کو 1996ء میں کوٹ مٹھن منتقل کر دیا گیا جہاں یہ مِٹھن کوٹ سے چاچڑاں کے درمیان پوری شان و شوکت سے چلتا رہا حتیٰ کہ 1996ء میں ہائی وے ڈیپارٹمنٹ حکومت پنجاب کی عدم توجہی کا شکار ہو کر چلنے کے قابل نہ رہا اور تب سے لے کر اب تک دریائے سندھ کے کناروں سے بھی دور میدانوں میں پڑا ہے۔
مقامی افراد کی طرف سے فراہم کردہ معلومات کے مطابق یہ وہ جہاز ہے جِسے نواب آف بہاولپور، نواب صبحِ صادق نے حضرت خواجہ غلام فریدؒ کو تحفہ میں دیا تھا۔ فرید کی نگری (کوٹ مٹھن) اور چاچڑاں شریف کے درمیان ٹھاٹھیں مارتا دریائے سندھ بہتا ہے جس کی وجہ سے خواجہ صاحبؒ سے ملاقات کرنے والے مریدین کو دشواری پیدا ہوتی تھی اور خواجہ صاحبؒ کو بھی چِلہ کشی کے لیے روہی (چولستان) جانا پڑتا تھا، اس لیے نواب آف بہاولپور نے یہ بحری جہاز خواجہ صاحبؒ کو تحفتاً دے دیا تھا جو کافی عرصہ استعمال میں رہا۔ اس جہاز نے اپنا آخری سفر 1996 میں کیا۔
سبھی دوستوں نے اسے دیکھ کہ افسردگی کا اظہار کیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس قیمتی تاریخی ورثے کو برباد ہونے سے بچایا جائے۔ اسے بحال کیا جائے اور سیاحت کے فروغ کے لیے استعمال کیا جائے۔ ورنہ آج سے چند سال بعد اس کا ڈھانچا بھی ناکارہ قرار دے کر اسکریپ کے طور پر بیچ دیا جائے گا۔یہاں سے ہماری بس کوٹ مٹھن کی جانب روانہ ہوئی اور دربار حضرت خواجہ غلام فرید رح جا کر ہی بریک لگائی۔
کوٹ مٹھن و دربار خواجہ غلام فریدؒ؛ دربار کے باہر موجود بازار میں علاقے کی سوغات دیکھ کر سب رک گئے۔ یہاں میں نے سب کو مختلف اشیاء کے بارے میں بتایا۔
لال رنگ کے دل کش ڈیزائن والے رومال کو ''فریدی رومال'' کہا جاتا ہے اور یہ عرصہ دراز سے وسیب کے لوگوں میں مقبول ہے۔ نام کی وجہ تسمیہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اس رومال کو یہاں سب سے پہلے حضرت خواجہ غلام فریدؒ کے خلفاء اور عقیدت مندوں نے پہننا شروع کیا تھا جس کے بعد یہ اتنا مقبول ہوا کہ دور دور سے لوگ اسے استعمال کرنا شروع ہو گئے۔ پاکستان کا دورہ کرنے والی چند یورپی خواتین کو بھی میں نے یہ پہنے دیکھا تھا۔
اس کے علاوہ یہاں ہاتھ کے بنے پراندے اور چھبیاں بھی بہت مشہور ہیں۔
بازار سے ہو کر ہم درگاہ تک پہنچے جہاں ہمارا استقبال ولی عہد دربار ''راول معین کوریجہ'' صاحب کے پی اے جناب رفیع اللہ نے کیا۔ وہ ہمیں دربار کے اندر لے گئے اور وفد کے تمام اراکین نے خواجہ صاحب اور رفقاء کی قبر مبارک پر فاتحہ خوانی کی۔
اس کے بعد ہم نے صحن میں ایک حلقہ بنایا اور ہمارے گروپ میں موجود عمیر افضل سے خواجہ صاحب کا کلام سننے کی فرمائش کی۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے عمیرافضل بہت ہی خوب صورت آواز کے مالک ہیں جو تھیٹر ڈراموں میں شوقیہ گاتے ہیں۔ حال ہی میں رفیعہ کاشف کے لکھے ڈرامے ''میڈا عشق وی توں'' میں انہوں نے خواجہ صاحبؒ کی چند کافیاں گائیں تھیں جنہیں بہت پسند کیا گیا۔ ہم نے ان سے فرمائش کی کہ وہ، اپنی تیار کی ہوئی کافیاں آج ہمیں خواجہ صاحب کے دربار پر بھی سنائیں۔ سو حلقہ بنا، منہ ہوا مقبرے کی جانب اور ہم سب ہمہ تن گوش۔
ہوووو دلڑی لٹی تئیں یار سجن
کدی موڑ مہاراں تے آ وطن
روہی دے کنڈرے کالیاں
میڈیاں ڈکھن کناں دیاں والیاں
اساں راتاں ڈکھاں وِچ جالیاں
روہی بناؤئی چا وطن
تن دی ہانڈی تے من دا سالن
اُتوں لُوڑں صبر دا پایا
غلام فریدَا وے میں ساری تیڈی
تَیکوں ہجے اعتبار نہیں آیا
روہی دے کنڈرے بیریاں
وے میں تیری آں ، وے میں تیری آں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چُوڑا اَنا ڈے جیسلمیر دا
سُوہا رنگا ڈے خاص اَجمیر دا
ہووے اصلی خاص مڑیچہ
نا نقلی ول پھیر دا
جلدی آوے ناں چرلاوے
کَم نہیں اِتھ دیر دَا
عمیر کی آواز روح میں اتر کر جسم کو جھنجوڑنے تک کی صلاحیت رکھتی ہے۔ پہلی بار محسوس ہوا کہ آواز کئی دردوں کو جگانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ آواز رب تک لے جانے کی صلاحیت رکھتی ہے اور یہی آواز، محبوب کا دیدار بھی کروا دیتی ہے اگر کوئی بہت خوش نصیب ہو تو۔
ایک عجیب سی کیفیت تھی جو ہم سب پر طاری ہو گئی تھی۔ میں چاہتا تھا کہ اب یہاں سے اٹھا نہ جائے لیکن کیا کرتے۔۔۔ جانا بھی تو تھا۔
اس کے بعد رفیع اللہ بھائی نے تمام مہمانوں کو لنگر کھلایا اور ہم نے واپسی کی اجازت لی۔
میرا اور مسافران شوق کا ساتھ بھی یہیں تک کا تھا۔ مجھے اپنے دوست احمد حفیظ کے ساتھ واپس خان پور جانا تھا اور احباب نے صادق گڑھ پیلس جہاں ایک اور کہانی ان کی منتظر تھی۔
جہاں نواب صاحب اور ان کی محبت ان کی راہ دیکھ رہے تھے۔
سو بہت سے عہد و پیمان اور محبتوں کے ساتھ میں نے رخصت چاہی اور یہ بھرپور دورہ اپنے اختتام کو پہنچا۔