یوکرائن روس جنگ اور نئی سرد جنگ
نئے ورلڈ آرڈر میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کی عالمی اداروں کی صورت میں پورے نظام پر مکمل گرفت ہے
روس یوکرائن جنگ میں ایک سچ امریکا اور اس کے اتحادی یورپ کا ہے، دوسرا سچ پیوٹن اور روس کا ہے۔ یورپ اور مغربی میڈیا کی سنیں تو ان کا سچ بہت سادہ سا ہے۔
یوکرائن ایک آزاد ملک ہے، ملک میں جمہوری حکومت ہے، اسے اپنے اچھے برے کی سب خبرہے۔ اڑوس پڑوس کا کوئی ملک چاہے کتنا ہی طاقتور ہو اسے یہ حق نہیں کہ وہ اسے ڈکٹیٹ کرے کہ فلاں فلاں سے بچ کے رہنا۔
روس کا شیرازہ بکھرا تو یوکرائن ایک آزاد ملک کے طور پر سامنے آیا۔ ملک کے ایسٹرن حصے میں روسی زبان بولنے والوں کی اکثریت ہے۔ بلیک سی ، نیول بیس اور پورٹس بھی اسی علاقے میں ہیں۔
تاریخی اعتبار سے ایسٹرن اور ویسٹرن یوکرائن میں بد اعتمادی کافی عرصے سے پنپ رہی تھی جس کا کھلم کھلا اظہار 2014 کے عوامی جمہوری انقلاب سے ہوا جس کے نتیجے میں روس کے ہمدرد منتخب صدر کو ملک سے فرار ہونا پڑا۔ اس کے بعد سے ملک میں انتشار کی چنگاریاں بھڑکتی چلی گئیں۔ روس نے ایسٹرن یوکرائن کے اسپیشل اسٹیٹس کے حامل ساحلی علاقے کریمیا کو روس کے ساتھ ضم کر لیا۔ اس کے ساتھ ملحقہ علاقوں میں روس کی ہمنوا علیحدگی پسندوں نے ہتھیار اٹھا لیے۔
2014 میں لگی چنگاری بالآخر ایک آگ کی صورت بھڑک اٹھی ہے ۔ سیاسی اور دفاعی امور پر نظر رکھنے والے کچھ ماہرین سال ہا سال سے خبر دار کر رہے تھے کہ ایک نئی سرد جنگ کا ایندھن جمع ہو رہا ہے۔ فریقین کے پاس ہوش کے کچھ ناخن اگر اسٹاک میں ہیں تو تھوڑے بہت ضرور ساتھ رکھیں ورنہ نئی سرد جنگ پہلی سرد جنگ سے زیادہ خوفناک اور مختلف ہوگی۔
روس کا گلہ ہے روس کو واضح یقین دہانی کروائی گئی کہ اس کی سرحدوں کی طرف نیٹو اپنا پاؤں نہیں پسارے گی۔ مگر ہوا کچھ یوں کہ جب حالات سنبھلے تو نیٹو کو یاد آیا کہ کم بخت یہ اتنی بڑی وار مشینری اور اسلحہ کس کام کا اگر اسے استعمال کرنے کا موقع ہی نہ ملے ، اور پھر یہ کہ امن کے عادی ہو کر نیٹو کی افواج جنگ کرنا ہی بھول نہ جائیں۔ لہٰذا نیٹو نے ایسٹرن یورپ کے ممالک کے ساتھ دفاعی پینگیں بڑھانا شروع کیں۔
یورپی یونین کو بھی یہ آئیڈیا پسند آیا کہ ہم سارے تو تجارت میں جتے ہوئے ہیں ہمارے دفاع پر مامور نیٹو کو اپنے کام سے کام رکھنا چاہیے۔ سو پولینڈ، ہنگری چیکو سلواکیہ وغیرہ کو نیٹو میں شامل کرنے کی ترغیب دی، کچھ اکونومی کے پاپی پیٹ کی مجبوری تھی اور کچھ یہ چاؤ کہ نیٹو کے اتحاد میں شامل ہونے سے ہم بھی دنیا کے چوہدریوں میں شامل ہو جائیں گے۔ نیٹو کے پھیلاؤ کا سلسلہ یہیں نہیں رکا بلکہ دھیرے دھیرے بلقان کے تمام ممالک بھی نیٹو کی چھتر چھاؤں میں آتے چلے گئے۔ روس نیٹو کی اس توسیع پر بہت سیخ پا ہوا ، امریکا اور روس کے درمیان تلخی اور بد اعتمادی بڑھتی چلی گئی۔
روس دنیا بھر کی توانائی کے ایک چوتھائی ذخائر کا مالک ہے۔ یورپ کی گیس کی ضروریات کا بڑا حصہ روس فراہم کرتا ہے جس کی پائپ لائن یوکرائن سے ہو کر گذرتی ہے۔ یوکرائن سے دشمنی جوان ہوتی دیکھ کر روس نے ایک متبادل گیس پائپ لائن منصوبہ شروع کیا جو امریکا کو منظور نہیں تھا۔ اس منصوبے کو روکنے کے لیے امریکا نے جرمنی پر شدید دباؤ ڈالا۔ پائپ لائن کا بیشتر حصہ مکمل ہو چکا مگر اس کی تکمیل روکنے کے لیے امریکا جرمنی کا بازو مروڑے ہوئے ہے۔
نئے ورلڈ آرڈر میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کی عالمی اداروں کی صورت میں پورے نظام پر مکمل گرفت ہے۔ سب سے بڑا ترپ کا پتہ بینکنگ سیٹلمنٹ جس نظام کے تحت ہوتی ہے وہ امریکا کی دسترس میں ہے اور اس پر مزید طرفہ تماشہ یہ کہ امریکی ڈالر ہی اصلی عالمی کرنسی ہے۔ سو جوں جوں دشمنی بڑھتی گئی توں توں امریکا اور اس کے اتحادیوں نے روس پر پابندیوں کے چڑھاوے چڑھانے جاری رکھے۔ اب جنگ شروع ہوئی ہے تو عالمی بینکنگ کلیرنس سسٹم سوفٹ سے روس کو نکال باہر کیا۔
روس کی معیشت امریکا کی نسبت بہت چھوٹی ہے۔ روس کا سیاسی اور دفاعی اثرو رسوخ بھی امریکا کی نسبت بہت کم ہے۔ روس عالمی منظر نامے پر ایک اہم طاقت ہے لیکن امریکا کے ہم پلہ ہرگز نہیں ہے۔ روس کے مشرقی یورپ اور سینٹرل یورپ میں توسیعی عزائم بھی نہیں کہ روس کی معیشت اب دفاعی توسیع پسندی کی متحمل نہیں اور آبادی بھی اتنی زیادہ نہیں کہ پھیلاؤ کے لیے ہلکان ہوا جائے۔
امریکا کے پچھواڑے میں ایک چھوٹے سے ملک کیوبا میں ساٹھ کی دہائی میں توپیں اور میزائل گاڑے گئے تو امریکا اور روس کے درمیان نیوکلیئر جنگ کا سماں پیدا ہو گیا۔ وجہ بہت سادہ تھی کہ امریکا کو ہر گز یہ قبول نہ تھا کہ عین اس کی سرحد یا پچھواڑے پر دشمن فوجیں دندناتی پھریں۔
یوکرائن ایک آزاد ملک ہے، ملک میں جمہوری حکومت ہے، اسے اپنے اچھے برے کی سب خبرہے۔ اڑوس پڑوس کا کوئی ملک چاہے کتنا ہی طاقتور ہو اسے یہ حق نہیں کہ وہ اسے ڈکٹیٹ کرے کہ فلاں فلاں سے بچ کے رہنا۔
روس کا شیرازہ بکھرا تو یوکرائن ایک آزاد ملک کے طور پر سامنے آیا۔ ملک کے ایسٹرن حصے میں روسی زبان بولنے والوں کی اکثریت ہے۔ بلیک سی ، نیول بیس اور پورٹس بھی اسی علاقے میں ہیں۔
تاریخی اعتبار سے ایسٹرن اور ویسٹرن یوکرائن میں بد اعتمادی کافی عرصے سے پنپ رہی تھی جس کا کھلم کھلا اظہار 2014 کے عوامی جمہوری انقلاب سے ہوا جس کے نتیجے میں روس کے ہمدرد منتخب صدر کو ملک سے فرار ہونا پڑا۔ اس کے بعد سے ملک میں انتشار کی چنگاریاں بھڑکتی چلی گئیں۔ روس نے ایسٹرن یوکرائن کے اسپیشل اسٹیٹس کے حامل ساحلی علاقے کریمیا کو روس کے ساتھ ضم کر لیا۔ اس کے ساتھ ملحقہ علاقوں میں روس کی ہمنوا علیحدگی پسندوں نے ہتھیار اٹھا لیے۔
2014 میں لگی چنگاری بالآخر ایک آگ کی صورت بھڑک اٹھی ہے ۔ سیاسی اور دفاعی امور پر نظر رکھنے والے کچھ ماہرین سال ہا سال سے خبر دار کر رہے تھے کہ ایک نئی سرد جنگ کا ایندھن جمع ہو رہا ہے۔ فریقین کے پاس ہوش کے کچھ ناخن اگر اسٹاک میں ہیں تو تھوڑے بہت ضرور ساتھ رکھیں ورنہ نئی سرد جنگ پہلی سرد جنگ سے زیادہ خوفناک اور مختلف ہوگی۔
روس کا گلہ ہے روس کو واضح یقین دہانی کروائی گئی کہ اس کی سرحدوں کی طرف نیٹو اپنا پاؤں نہیں پسارے گی۔ مگر ہوا کچھ یوں کہ جب حالات سنبھلے تو نیٹو کو یاد آیا کہ کم بخت یہ اتنی بڑی وار مشینری اور اسلحہ کس کام کا اگر اسے استعمال کرنے کا موقع ہی نہ ملے ، اور پھر یہ کہ امن کے عادی ہو کر نیٹو کی افواج جنگ کرنا ہی بھول نہ جائیں۔ لہٰذا نیٹو نے ایسٹرن یورپ کے ممالک کے ساتھ دفاعی پینگیں بڑھانا شروع کیں۔
یورپی یونین کو بھی یہ آئیڈیا پسند آیا کہ ہم سارے تو تجارت میں جتے ہوئے ہیں ہمارے دفاع پر مامور نیٹو کو اپنے کام سے کام رکھنا چاہیے۔ سو پولینڈ، ہنگری چیکو سلواکیہ وغیرہ کو نیٹو میں شامل کرنے کی ترغیب دی، کچھ اکونومی کے پاپی پیٹ کی مجبوری تھی اور کچھ یہ چاؤ کہ نیٹو کے اتحاد میں شامل ہونے سے ہم بھی دنیا کے چوہدریوں میں شامل ہو جائیں گے۔ نیٹو کے پھیلاؤ کا سلسلہ یہیں نہیں رکا بلکہ دھیرے دھیرے بلقان کے تمام ممالک بھی نیٹو کی چھتر چھاؤں میں آتے چلے گئے۔ روس نیٹو کی اس توسیع پر بہت سیخ پا ہوا ، امریکا اور روس کے درمیان تلخی اور بد اعتمادی بڑھتی چلی گئی۔
روس دنیا بھر کی توانائی کے ایک چوتھائی ذخائر کا مالک ہے۔ یورپ کی گیس کی ضروریات کا بڑا حصہ روس فراہم کرتا ہے جس کی پائپ لائن یوکرائن سے ہو کر گذرتی ہے۔ یوکرائن سے دشمنی جوان ہوتی دیکھ کر روس نے ایک متبادل گیس پائپ لائن منصوبہ شروع کیا جو امریکا کو منظور نہیں تھا۔ اس منصوبے کو روکنے کے لیے امریکا نے جرمنی پر شدید دباؤ ڈالا۔ پائپ لائن کا بیشتر حصہ مکمل ہو چکا مگر اس کی تکمیل روکنے کے لیے امریکا جرمنی کا بازو مروڑے ہوئے ہے۔
نئے ورلڈ آرڈر میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کی عالمی اداروں کی صورت میں پورے نظام پر مکمل گرفت ہے۔ سب سے بڑا ترپ کا پتہ بینکنگ سیٹلمنٹ جس نظام کے تحت ہوتی ہے وہ امریکا کی دسترس میں ہے اور اس پر مزید طرفہ تماشہ یہ کہ امریکی ڈالر ہی اصلی عالمی کرنسی ہے۔ سو جوں جوں دشمنی بڑھتی گئی توں توں امریکا اور اس کے اتحادیوں نے روس پر پابندیوں کے چڑھاوے چڑھانے جاری رکھے۔ اب جنگ شروع ہوئی ہے تو عالمی بینکنگ کلیرنس سسٹم سوفٹ سے روس کو نکال باہر کیا۔
روس کی معیشت امریکا کی نسبت بہت چھوٹی ہے۔ روس کا سیاسی اور دفاعی اثرو رسوخ بھی امریکا کی نسبت بہت کم ہے۔ روس عالمی منظر نامے پر ایک اہم طاقت ہے لیکن امریکا کے ہم پلہ ہرگز نہیں ہے۔ روس کے مشرقی یورپ اور سینٹرل یورپ میں توسیعی عزائم بھی نہیں کہ روس کی معیشت اب دفاعی توسیع پسندی کی متحمل نہیں اور آبادی بھی اتنی زیادہ نہیں کہ پھیلاؤ کے لیے ہلکان ہوا جائے۔
امریکا کے پچھواڑے میں ایک چھوٹے سے ملک کیوبا میں ساٹھ کی دہائی میں توپیں اور میزائل گاڑے گئے تو امریکا اور روس کے درمیان نیوکلیئر جنگ کا سماں پیدا ہو گیا۔ وجہ بہت سادہ تھی کہ امریکا کو ہر گز یہ قبول نہ تھا کہ عین اس کی سرحد یا پچھواڑے پر دشمن فوجیں دندناتی پھریں۔