غربت سے نچلی سطح کے لیے ریلیف
ریلیف دینے کے موقع پر غریب ترین طبقہ جوکہ مٹی کے تیل کا زیادہ استعمال کرتا ہے اسے بھولنا نہیں چاہیے تھا
وزیر اعظم عمران خان نے پٹرول، ڈیزل 10 روپے فی لیٹر اور بجلی 5 روپے فی یونٹ سستی کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اہم اعلان یہ ہے کہ بجٹ تک قیمتیں مزید نہیں بڑھائیں گے۔
اگرچہ بین الاقوامی سطح پر تیل کی قیمتوں کے علاوہ گندم ، پام آئل اور دیگر زرعی و صنعتی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا عمل جاری ہے۔ ادھر عالمی منڈی میں برنٹ کروڈ آئل کی قیمت میں مزید اضافہ ہوکر 111 ڈالر فی بیرل تک جا پہنچی ہے۔ دوسری طرف عالمی منڈی میں پام آئل کے نرخ میں مزید 7 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔
عالمی مارکیٹ میں فی اونس سونے کی قیمت 1900 ڈالرکی ریکارڈ سطح پر آگئی ہے۔ عالمی سطح پر اور ملکی سطح پر بھی ہر طرف مہنگائی کا راج ہے۔ کراچی میں دودھ 150 روپے فی لیٹر فروخت ہونے کی اطلاعات مل رہی ہیں، دہی کے نرخ 240 روپے فی کلو مقرر ہوگئے ہیں۔ پٹرول کی قیمت میں کمی کے باوجود اس کے مثبت اثرات معیشت میں کہیں بھی نظر نہیں آ رہے ہیں۔
حکومت نے یقین دہانی کرائی ہے کہ بجٹ تک قیمتیں نہیں بڑھائی جائیں گی۔ بجٹ کا اطلاق نئے مالی سال کے آغاز سے ہونا ہے یعنی پاکستان میں ہر سال یکم جولائی سے نیا مالی سال شروع ہوجاتا ہے۔ اب اس لحاظ سے 4ماہ میں اگر حکومت انتہائی معمولی کمی کرنے کے بعد یہ توقع رکھے کہ قیمتیں کم ہوں گی یا ہر شے کے نرخ میں اضافے کا سلسلہ تھم جائے گا۔ پاکستان کے مخصوص حالات میں ایسا عملاً ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے ، اگرچہ اس کی کئی مثالیں ہیں لیکن یہاں پر صرف ایک مثال کے ذکر پر اکتفا کیا جا رہا ہے۔
پاکستان میں پینٹس کا کاروبار پھلتا پھولتا ہی رہا ہے۔ لاکھوں مزدور جنھیں عموماً پینٹرزکہا جاتا ہے ، محنت و مزدوری کے اس کام سے وابستہ ہیں۔ اس طرح ملک بھر میں سیکڑوں فیکٹریاں ہیں جو رنگ تیار کرنے کا کام کر رہی ہیں اور ان تمام فیکٹری اونرز کا اس معاملے میں اتحاد ہوتا ہے کہ رنگ کے ڈبوں کی قیمتوں میں اضافہ کیا جائے۔ کراچی کے ایک اہم کاروباری مرکز میں پینٹس کا کاروبار کرنے والے ایک ڈیلرکا کہنا ہے کہ ماہ مارچ کے آغاز سے ہی پینٹس کی قیمتوں میں اضافے کا عمل شروع ہو گیا ہے۔
چند روز قبل یہ جواز پیش کیا جا رہا تھا کہ پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہو چکا ہے لہٰذا قیمت بڑھانا مجبوری ہے۔ اب جب کہ قیمتوں میں کمی کردی گئی ہے لیکن پھر بھی پہلے سے تیار شدہ اضافی قیمتوں والی لسٹ جاری کردی گئی ہے۔ قیمتوں میں اضافے کے لیے کئی اور لسٹوں کی آمد کی توقع بھی کی جا رہی ہے۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ 30 جون تک پرانے ریٹس ہی برقرار رکھے جاتے۔ ایک سوال پوچھنے پر رنگ کے کاروبار سے متعلق ایک معروف ڈیلر نے بتایا کہ ہمیں یہ فکر ہوتی ہے کہ کاروبارکیسے چلے گا۔
بڑھتی ہوئی قیمتوں پر گاہک کو کیسے مطمئن کر پائیں گے۔ دکان کا کرایہ اور اخراجات کیسے پورے کیے جائیں گے جب کہ رنگ ساز کمپنی مالکان کو یہ فکر ہوتی ہے کہ قیمتیں کیسے بڑھاتے چلے جائیں تاکہ ان کا منافع بڑھتا ہی رہے۔ جس سے ان کے لگژری آئٹمزکی ضروریات پوری ہوتی رہیں۔ کیونکہ حکومت کی طرف سے لگژری آئٹمز اور درآمد کی اشیا و مصنوعات پر ڈیوٹیز میں اضافے اور ڈالر ریٹ میں اضافے کے باعث قیمتوں میں بھی اضافے کا عمل جاری ہے۔ حالانکہ پینٹس کے نرخوں میں اضافے کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ، یعنی کھپت میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔
وہ اس طرح سے کہ پہلے شادی بیاہ یا دیگر تقریبات کے موقع پر پورے گھر، مکان یا فلیٹس وغیرہ کو کلر کرایا جاتا تھا۔ اب مہنگائی کے باعث اور رنگ کی قیمتوں میں آئے روز اضافے کے باعث کوئی ایک کمرہ یا دو کمرے یا صرف بیرونی آرائش کی خاطر رنگ کرانے پر اکتفا کرلیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے اس طرح پینٹس کی مجموعی طلب پہلے کے مقابلے میں کم ہوتی جا رہی ہے اسی لحاظ سے مزدوروں کی کھپت میں بھی کمی ہو رہی ہے۔
بالآخر نقصان مزدور کو ہی ہو رہا ہے۔ پاکستان میں کوئی ایسا طریقہ کار رائج ہی نہیں کہ قیمتوں کو ایک مخصوص مدت تک ایک سطح پر برقرار رکھا جاسکے۔ حکومت نے پہلی مرتبہ اعلان کیا ہے کہ تیل کی قیمتیں بجٹ تک نہیں بڑھائی جائیں گی، لیکن پرائیویٹ ادارے اس قسم کا کوئی اعلان اس لیے نہیں کرتے کہ ان کے منافعوں میں کمی واقع ہو جائے گی۔
حکومت کی طرف سے حالیہ ریلیف پیکیج کے اعلان میں ایل پی جی کو بھی شامل کرنے کی ضرورت تھی۔ کیونکہ گزشتہ دو سال کے دوران ایل پی جی کی قیمتوں میں 144 روپے فی کلو کا اضافہ ہوا ہے۔ جس کے نتیجے میں وہ علاقے جہاں قدرتی گیس کنکشن موجود نہیں ہیں اور ملک کے دور دراز اور پسماندہ علاقوں میں رہنے والے ان کے علاوہ رکشہ، سوزوکی اور دیگر ٹرانسپورٹ والے جو ایل پی جی گیس سلنڈرز استعمال کرتے ہیں آج کل اس کا استعمال وسیع پیمانے پر ہو رہا ہے۔
مختلف نئی آبادیاں جہاں گیس کی سہولت موجود نہیں ہے بلکہ کمرشل دکانیں وغیرہ جہاں گیس کنکشن موجود نہیں ہیں وہاں وسیع پیمانے پر اس کا استعمال ہو رہا ہے قیمتوں میں اضافے کے باعث غریب اور پسماندہ علاقوں کے لوگ اب جلانے کی لکڑی کا استعمال کر رہے ہیں۔ پاکستان جہاں پہلے ہی جنگلات کی کمی ہے، جنگلات کی قیمتی لکڑیوں کا کاروبار جس انداز کے ساتھ قیام پاکستان سے قبل بھی اور بعد میں بھی ایک مضبوط مافیا کر رہا ہے اس کی مثال زیادہ ملکوں میں نہیں ملتی۔ جنگلات میں سے قیمتی لکڑیاں اور جڑی بوٹیاں حاصل کرنے کے لیے ملک میں انتہائی قلیل ترین رقبے پر واقع جنگلات کو ختم کیا جا رہا ہے۔
یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ موجودہ حکومت ایک طرف بلین ٹری منصوبے کی تشہیر کر رہی ہے ، دوسری طرف گیس سلنڈرز کی قیمتوں میں اضافے کے باعث لکڑی جلانے کا استعمال بڑھ رہا ہے جس سے ملک بھر میں درختوں کی کٹائی کا عمل تیزی سے جاری ہے جس پر کسی قسم کی نہ کوئی پابندی کی پروا ہے کسی کو اور نہ ہی اس پر کوئی کارروائی عمل میں آتی ہے ، اگر گیس سلنڈرز کی قیمتوں میں نمایاں کمی نہیں ہوتی تو اس کام میں اضافہ ہی ہوتا رہے گا۔
چوری چھپے بھی درخت کاٹے جائیں گے کیونکہ ایندھن کے لیے لکڑیوں کا استعمال بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ حکومت کی طرف سے مٹی کا تیل ایک روپے فی لیٹر سستا کیا گیا ہے ملک کے بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں بجلی نہیں ہے اور گیس نہ ہونے کی صورت میں لاکھوں گھرانے کھانا پکانے کے لیے مٹی کا تیل استعمال کرتے ہیں۔
سرشام روشنی کے لیے لالٹین جلا کر کمرہ یا صحن روشن کرلیا جاتا ہے یہ وہ طبقہ ہے جس کا شمار غربت کی لکیر سے نچلی سطح پر زندگی گزارنے والوں میں کیا جاتا ہے۔ حکومت غربت میں کمی لانے کا برملا اعلان کرتی ہے لیکن ریلیف دینے کے موقع پر غریب ترین طبقہ جوکہ مٹی کے تیل کا زیادہ استعمال کرتا ہے اسے بھولنا نہیں چاہیے تھا بلکہ مٹی کا تیل زیادہ سے زیادہ سستا کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ غربت کی لکیر سے نچلی سطح والوں کو بھی ریلیف مل سکے۔