جمہوری ریاست یا ہائبرڈ ریاست
اگرحکومت قومی اسمبلی اوراپنی صوبائی حکومتیں تحلیل کرتی ہے تواس صورتحال میں پیپلزپارٹی کوبھی سندھ میں ایساہی کرناہوگا
MUMBAI:
شہباز شریف ، آصف زرداری اور بلاول بھٹو دو ماہ قبل موجودہ حکومت کو ہٹانے کے طریقوں پر متفق ہوئے۔ ان طریقوں میں تحریک عدم اعتماد ، لانگ مارچ اور اسلام آباد میں دھرنا شامل تھے۔ آصف زرداری اور شہباز شریف نے مسلم لیگ ق کے چوہدری شجاعت حسین اور پرویز الٰہی سے مذاکرات کیے۔
مخدوم محمود ( پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں پنجاب کے گورنر رہ چکے ہیں) کی قیام گاہ پر شہباز شریف اورتحریک انصاف کو سرائیکی وسیب میں کامیاب کرنے والے جہانگیر ترین کی ملاقات ہوئی۔ اس دوران مسلم لیگ ن نے پیپلز پارٹی کے لانگ مارچ کی حمایت کر دی۔ چوہدری شجاعت حسین کی وزیر اعظم عمران خان سے انتہائی مختصر ملاقات سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ یہ حکومت طوفان میں پھنس چکی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے کراچی سے 27 فروری کو لانگ مارچ کا آغازکیا۔ بلاول بھٹو کا لانگ مارچ میں حصہ لینے اور ایک ماہ تک روزانہ تقاریرکرنے کا یہ پہلا تجربہ ہوگا۔ بلاول کے ساتھ ان کی ہمشیرہ آصفہ بھی ٹرالر پر نظر آئی ہیں۔ سندھ میں 15 سال سے پیپلز پارٹی کی حکومت ہے، یہی وجہ ہے کہ سندھ کے تمام محکموں میں پیپلز پارٹی کے حامی ملازمین سرکاری گاڑیوں میں سوار اس مارچ میں شریک ہیں۔
پیپلز پارٹی نے کراچی میں 27 فروری کے پروگرام کی بڑے پیمانہ پر تشہیرکی تھی۔ مسرور احسن کو پیپلز پارٹی سینٹرل کا صدر بنادیا گیا۔ وہ ہمیشہ کارکنوں کو متحرک کرنے میں ہمہ وقت مصروف رہے تھے۔ وزیر اطلاعات سعید غنی اور ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب بھی سرگرم ہیں۔
بلدیاتی انتخابات اسی سال متوقع ہیں۔ اس بناء پر ان اداروں کے متوقع امیدواروں نے بھی کراچی میں اس لانگ مارچ کو کامیاب بنانے میں حصہ لیا۔ اندرون سندھ اگرچہ شہروں اور دیہاتوں کا انفرا اسٹرکچر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے مگر وہاں کے عوام کو ابھی تک پیپلز پارٹی سے امیدیں ہیں، قومی اور صوبائی اسمبلی کے اراکین بھی نئے انتخابات میں پھر ٹکٹ ملنے کے خواہاں ہیں، اس بناء پر سندھ کے مختلف شہروں میں عوام نے اس لانگ مارچ میں بھرپور حصہ لیا۔
بلاول بھٹو نے گزشتہ سال پنجاب اور خیبر پختون خوا کے مختلف شہروں میں پیپلز پارٹی کو دوبارہ منظم کرنے کی کوششوں میں گزرا۔ انھوں نے پارٹی سے مایوس کارکنوں سے ملاقاتیں کیں۔ موجودہ حکومت کی پالیسیوںکے خلاف زوردار بیانات دیے۔ سینٹرل پنجاب، سرائیکی وسیب اور خیبر پختون خوا میں نئے رہنماؤں کو عہدے دیے گئے مگر پنجاب میں ہونے والے ضمنی انتخابات اور کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات میں خاطرخواہ نتائج سامنے نہیں آئے۔
صرف لاہور میں ہونے والے قومی اسمبلی کے ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف کے امیدوار کی نااہلی کے بعد صورت حال کچھ تبدیل ہوئی۔ پیپلز پارٹی نے اس انتخاب میں تحریک لبیک کے نعرے اپنے بینرز پر آویزاں کیے مگر اس کا صرف یہ نتیجہ نکلا کہ پیپلز پارٹی کے امیدوار جو ایک سینئر کارکن ہیں کے ووٹ میں اضافہ ہوا۔ خیبرپختون خوا کے بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی کوئی نشست حاصل نہ کرسکی۔ قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر فیصل کریم کنڈی ڈیرہ اسماعیل خان کے میئر کے انتخاب میں تیسرے نمبر پر رہے۔
دوسری طرف وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اسلام آباد چھوڑ کر گھوٹکی سے شروع ہونے والے لانگ مارچ کی قیادت میں مصروف ہوئے، وہ ایسے وقت پیپلز پارٹی کے خلاف دے رہے ہیں جب روس اور یوکرائن کے درمیان گھمسان کی جنگ ہورہی ہے۔ کئی ہزار پاکستانی طالب علم یوکرائن اور پولینڈ کی سرحد پر سخت سردی میں پاکستانی سفارت خانہ کی بے حسی کا ماتم کررہے ہیں۔ پاکستانی حکام کی جانب سے یوکرائن میں مدد کے طالب پاکستانی طلبہ کو مشورہ دیا جا رہا ہے کہ یوکرائن میں تمام سڑکوں پر ٹریفک ہے، یہ لوگ مغربی یوکرائن چلے جائیں۔
ادھر سوشل میڈیا پر بھارت حکومت کے فراہم کردہ طیاروں میں بھارتی طالب علم اپنے وطن پہنچ رہے ہیں۔ وزارت خارجہ حقائق کو مسخ کررہی ہے۔ شاہ صاحب ایسے جذباتی ہوئے کہ اپنے آباؤ اجداد کا حوالہ دینے لگے۔
اندرون سندھ بجلی کی لوڈ شیڈنگ، گیس کی نایابی، پیٹرول اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ سے متاثرہ عوام کو تحریک انصاف کے لانگ مارچ سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ کراچی میں تحریک انصاف نے قومی اور صوبائی اسمبلی کی اکثریتی نشستیں جیتی تھیں مگر سوائے گرین لائن بس کا پروجیکٹ پایہ تکمیل تک پہنچانے کے وہ کراچی کے شہریوں کو کوئی ریلیف نہ دے سکی۔ معروضی صورتحال یہ ہے کہ تحریک انصاف سندھ بھر میں تنظیمی جھگڑوں کا شکار ہے۔
کراچی اس صورتحال سے براہِ راست متاثر ہوا جس کے نوجوانوں نے سوشل میڈیا پر عمران خان کی تقاریر سے متاثر ہو کر 2013 اور 2018 کے انتخابات میں تحریک انصاف کے امیدواروں کو ووٹ دیے تھے مگر اب وہ مایوس ہیں۔ تحریک انصاف کے اس مارچ کے منتظمین کی ساری امیدیں کراچی سے وابستہ ہیں۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی 5سال تک وفاق میں حکومت کرتی رہی اور 15برسوں سے بلاشرکت غیرے سندھ پر حکمرانی کررہی ہے مگر پیپلز پارٹی کی حکومت عوامی امیدوں پر پورا نہیں اتر سکی ہے۔ پیپلز پارٹی سے اندھی محبت کرنے والے دانشور یہ توقع لگائے بیٹھے تھے کہ سندھ ترقی کرے گا اور سندھ ایک ماڈل صوبہ بن کر ابھرے گا مگر صورتحال بالکل الٹ ہوئی۔
سندھ ترقی کی دوڑ میں پنجاب اور خیبر پختون خوا سے پیچھے ہے۔ سندھ میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی تعداد بڑھی ہے۔ پارٹی قیادت کے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت میں مختلف فیصلوں سے پیپلز پارٹی کی حمایت کرنے والے بہت سے صحافی، دانشور اور وکلاء بالکل مخالف بیانیہ رکھتے ہیں ۔
تحریک عدم اعتماد، لانگ مارچ اور جلسے جلوس جمہوری کلچر کا حصہ ہیں۔ تحریک عدم اعتماد ضروری نہیں کامیاب ہو، ناکامی کی صورت میں حزب اختلاف کو حکومت کی پالیسیوں پر تنقید اور رائے عامہ ہموار کرنے کا موقع ملتا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے اپنے نانا اور والدہ کی روایت پر چلتے ہوئے گزشتہ ایک سال کے دوران عوامی رابطہ کی مہمیں منظم کی ہیں۔ اندرون سندھ لانگ مارچ کے شرکاء کا پرجوش استقبال ہوا۔ پنجاب میں کیا صورتحال ہوگی اس کا انحصار مسلم لیگ ن اور جمعیت علماء اسلام کی حکمت عملی پر ہے۔ لانگ مارچ اور عدم اعتماد کی تحریک کی خبروں کا فائدہ یہ ہوا کہ حکومت نے پیٹرول کی قیمت کم کردی اور پیکا کا قانون واپس لینے پر تیار ہوگئی۔
گزشتہ بدھ سے رونما ہونے والے واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ نئے انتخابات کرانے کے لیے قومی اسمبلی کو تحلیل کیا جا سکتا ہے مگر یہ قیاس آرائیاں ہیں ،اسمبلیاں اپنی پانچ سالہ مدت بھی پوری کر سکتی ہیں۔اگر وفاقی حکومت قومی اسمبلی اور اپنی صوبائی حکومتیں تحلیل کرتی ہے تو اس صورتحال میں پیپلز پارٹی کو بھی سندھ میں ایسا ہی کرنا ہوگا۔
بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ انھوں نے شہباز شریف کو وزیر اعظم بنانے کی پیشکش کرکے بڑا قدم اٹھایا ہے۔ مسلم لیگ ن کو بھی ایسا ہی قدم اٹھانا چاہیے اور بقول ان کے پھر ملک میں انتخابات ہونگے، مگر یہ سوال دنیا کے سامنے اہم رہے گا کہ نئی حکومت جمہوری ریاست بنے گی یا ہائبرڈ ریاست ہی برقرار رہے گی۔
شہباز شریف ، آصف زرداری اور بلاول بھٹو دو ماہ قبل موجودہ حکومت کو ہٹانے کے طریقوں پر متفق ہوئے۔ ان طریقوں میں تحریک عدم اعتماد ، لانگ مارچ اور اسلام آباد میں دھرنا شامل تھے۔ آصف زرداری اور شہباز شریف نے مسلم لیگ ق کے چوہدری شجاعت حسین اور پرویز الٰہی سے مذاکرات کیے۔
مخدوم محمود ( پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں پنجاب کے گورنر رہ چکے ہیں) کی قیام گاہ پر شہباز شریف اورتحریک انصاف کو سرائیکی وسیب میں کامیاب کرنے والے جہانگیر ترین کی ملاقات ہوئی۔ اس دوران مسلم لیگ ن نے پیپلز پارٹی کے لانگ مارچ کی حمایت کر دی۔ چوہدری شجاعت حسین کی وزیر اعظم عمران خان سے انتہائی مختصر ملاقات سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ یہ حکومت طوفان میں پھنس چکی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے کراچی سے 27 فروری کو لانگ مارچ کا آغازکیا۔ بلاول بھٹو کا لانگ مارچ میں حصہ لینے اور ایک ماہ تک روزانہ تقاریرکرنے کا یہ پہلا تجربہ ہوگا۔ بلاول کے ساتھ ان کی ہمشیرہ آصفہ بھی ٹرالر پر نظر آئی ہیں۔ سندھ میں 15 سال سے پیپلز پارٹی کی حکومت ہے، یہی وجہ ہے کہ سندھ کے تمام محکموں میں پیپلز پارٹی کے حامی ملازمین سرکاری گاڑیوں میں سوار اس مارچ میں شریک ہیں۔
پیپلز پارٹی نے کراچی میں 27 فروری کے پروگرام کی بڑے پیمانہ پر تشہیرکی تھی۔ مسرور احسن کو پیپلز پارٹی سینٹرل کا صدر بنادیا گیا۔ وہ ہمیشہ کارکنوں کو متحرک کرنے میں ہمہ وقت مصروف رہے تھے۔ وزیر اطلاعات سعید غنی اور ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب بھی سرگرم ہیں۔
بلدیاتی انتخابات اسی سال متوقع ہیں۔ اس بناء پر ان اداروں کے متوقع امیدواروں نے بھی کراچی میں اس لانگ مارچ کو کامیاب بنانے میں حصہ لیا۔ اندرون سندھ اگرچہ شہروں اور دیہاتوں کا انفرا اسٹرکچر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے مگر وہاں کے عوام کو ابھی تک پیپلز پارٹی سے امیدیں ہیں، قومی اور صوبائی اسمبلی کے اراکین بھی نئے انتخابات میں پھر ٹکٹ ملنے کے خواہاں ہیں، اس بناء پر سندھ کے مختلف شہروں میں عوام نے اس لانگ مارچ میں بھرپور حصہ لیا۔
بلاول بھٹو نے گزشتہ سال پنجاب اور خیبر پختون خوا کے مختلف شہروں میں پیپلز پارٹی کو دوبارہ منظم کرنے کی کوششوں میں گزرا۔ انھوں نے پارٹی سے مایوس کارکنوں سے ملاقاتیں کیں۔ موجودہ حکومت کی پالیسیوںکے خلاف زوردار بیانات دیے۔ سینٹرل پنجاب، سرائیکی وسیب اور خیبر پختون خوا میں نئے رہنماؤں کو عہدے دیے گئے مگر پنجاب میں ہونے والے ضمنی انتخابات اور کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات میں خاطرخواہ نتائج سامنے نہیں آئے۔
صرف لاہور میں ہونے والے قومی اسمبلی کے ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف کے امیدوار کی نااہلی کے بعد صورت حال کچھ تبدیل ہوئی۔ پیپلز پارٹی نے اس انتخاب میں تحریک لبیک کے نعرے اپنے بینرز پر آویزاں کیے مگر اس کا صرف یہ نتیجہ نکلا کہ پیپلز پارٹی کے امیدوار جو ایک سینئر کارکن ہیں کے ووٹ میں اضافہ ہوا۔ خیبرپختون خوا کے بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی کوئی نشست حاصل نہ کرسکی۔ قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر فیصل کریم کنڈی ڈیرہ اسماعیل خان کے میئر کے انتخاب میں تیسرے نمبر پر رہے۔
دوسری طرف وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اسلام آباد چھوڑ کر گھوٹکی سے شروع ہونے والے لانگ مارچ کی قیادت میں مصروف ہوئے، وہ ایسے وقت پیپلز پارٹی کے خلاف دے رہے ہیں جب روس اور یوکرائن کے درمیان گھمسان کی جنگ ہورہی ہے۔ کئی ہزار پاکستانی طالب علم یوکرائن اور پولینڈ کی سرحد پر سخت سردی میں پاکستانی سفارت خانہ کی بے حسی کا ماتم کررہے ہیں۔ پاکستانی حکام کی جانب سے یوکرائن میں مدد کے طالب پاکستانی طلبہ کو مشورہ دیا جا رہا ہے کہ یوکرائن میں تمام سڑکوں پر ٹریفک ہے، یہ لوگ مغربی یوکرائن چلے جائیں۔
ادھر سوشل میڈیا پر بھارت حکومت کے فراہم کردہ طیاروں میں بھارتی طالب علم اپنے وطن پہنچ رہے ہیں۔ وزارت خارجہ حقائق کو مسخ کررہی ہے۔ شاہ صاحب ایسے جذباتی ہوئے کہ اپنے آباؤ اجداد کا حوالہ دینے لگے۔
اندرون سندھ بجلی کی لوڈ شیڈنگ، گیس کی نایابی، پیٹرول اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ سے متاثرہ عوام کو تحریک انصاف کے لانگ مارچ سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ کراچی میں تحریک انصاف نے قومی اور صوبائی اسمبلی کی اکثریتی نشستیں جیتی تھیں مگر سوائے گرین لائن بس کا پروجیکٹ پایہ تکمیل تک پہنچانے کے وہ کراچی کے شہریوں کو کوئی ریلیف نہ دے سکی۔ معروضی صورتحال یہ ہے کہ تحریک انصاف سندھ بھر میں تنظیمی جھگڑوں کا شکار ہے۔
کراچی اس صورتحال سے براہِ راست متاثر ہوا جس کے نوجوانوں نے سوشل میڈیا پر عمران خان کی تقاریر سے متاثر ہو کر 2013 اور 2018 کے انتخابات میں تحریک انصاف کے امیدواروں کو ووٹ دیے تھے مگر اب وہ مایوس ہیں۔ تحریک انصاف کے اس مارچ کے منتظمین کی ساری امیدیں کراچی سے وابستہ ہیں۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی 5سال تک وفاق میں حکومت کرتی رہی اور 15برسوں سے بلاشرکت غیرے سندھ پر حکمرانی کررہی ہے مگر پیپلز پارٹی کی حکومت عوامی امیدوں پر پورا نہیں اتر سکی ہے۔ پیپلز پارٹی سے اندھی محبت کرنے والے دانشور یہ توقع لگائے بیٹھے تھے کہ سندھ ترقی کرے گا اور سندھ ایک ماڈل صوبہ بن کر ابھرے گا مگر صورتحال بالکل الٹ ہوئی۔
سندھ ترقی کی دوڑ میں پنجاب اور خیبر پختون خوا سے پیچھے ہے۔ سندھ میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی تعداد بڑھی ہے۔ پارٹی قیادت کے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت میں مختلف فیصلوں سے پیپلز پارٹی کی حمایت کرنے والے بہت سے صحافی، دانشور اور وکلاء بالکل مخالف بیانیہ رکھتے ہیں ۔
تحریک عدم اعتماد، لانگ مارچ اور جلسے جلوس جمہوری کلچر کا حصہ ہیں۔ تحریک عدم اعتماد ضروری نہیں کامیاب ہو، ناکامی کی صورت میں حزب اختلاف کو حکومت کی پالیسیوں پر تنقید اور رائے عامہ ہموار کرنے کا موقع ملتا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے اپنے نانا اور والدہ کی روایت پر چلتے ہوئے گزشتہ ایک سال کے دوران عوامی رابطہ کی مہمیں منظم کی ہیں۔ اندرون سندھ لانگ مارچ کے شرکاء کا پرجوش استقبال ہوا۔ پنجاب میں کیا صورتحال ہوگی اس کا انحصار مسلم لیگ ن اور جمعیت علماء اسلام کی حکمت عملی پر ہے۔ لانگ مارچ اور عدم اعتماد کی تحریک کی خبروں کا فائدہ یہ ہوا کہ حکومت نے پیٹرول کی قیمت کم کردی اور پیکا کا قانون واپس لینے پر تیار ہوگئی۔
گزشتہ بدھ سے رونما ہونے والے واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ نئے انتخابات کرانے کے لیے قومی اسمبلی کو تحلیل کیا جا سکتا ہے مگر یہ قیاس آرائیاں ہیں ،اسمبلیاں اپنی پانچ سالہ مدت بھی پوری کر سکتی ہیں۔اگر وفاقی حکومت قومی اسمبلی اور اپنی صوبائی حکومتیں تحلیل کرتی ہے تو اس صورتحال میں پیپلز پارٹی کو بھی سندھ میں ایسا ہی کرنا ہوگا۔
بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ انھوں نے شہباز شریف کو وزیر اعظم بنانے کی پیشکش کرکے بڑا قدم اٹھایا ہے۔ مسلم لیگ ن کو بھی ایسا ہی قدم اٹھانا چاہیے اور بقول ان کے پھر ملک میں انتخابات ہونگے، مگر یہ سوال دنیا کے سامنے اہم رہے گا کہ نئی حکومت جمہوری ریاست بنے گی یا ہائبرڈ ریاست ہی برقرار رہے گی۔