ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ ایک کھرا سیاستدان
ان کی جدوجہد ملکی سیاسی تاریخ کا ایک روشن باب ہے
لاہور:
سیاست، عوام کی خدمت کا نام ہے۔ ایسا شخص جو عوام کے حقوق کی خاطر آواز بلند کرنے اور ان کے مسائل سلجھانے کے لیے خود کو وقف کر دے سیاستدان کہلاتا ہے۔
بدقسمتی سے سیاست کی آڑ میں ہمارے اوپر اختیار و طاقت کے پجاری، دولت کے حریص اور شہرت کے لالچی مسلط رہے ہیں، جنہوں نے سیاست اور سیاست دان کا مفہوم ہی بدل کر رکھ دیا۔ ان نام نہاد سیاستدانوں نے جو شرم ناک مثالیں قائم کیں، ان کی روشنی میں فن سیاست طاقت کے حصول کا کھیل، کرپشن کا ذریعہ، قانون کی گرفت سے تحفظ کا وسیلہ، ذاتی مراعات اور ترقی کا زینہ قرار پایا ہے۔
جھوٹ اور منافقت پر پلنے والی اس سیاست کو لوگوں کے مسائل کے بجائے اپنے اختیار، پروٹوکول اور مراعات سے غرض ہوتی ہے۔ اور جب یہ کلچر قبول عام کا درجہ حاصل کر لے تو عوامی خدمت کی آدرش رکھنے والے حقیقی سیاستدان حاشیے پر چلے جاتے ہیں، وہ اس میدان میں اجنبی اور تنہا نظر آتے ہیں۔ روایتی اور مروجہ سیاست ان کے وجود کو ہی اپنے لیے خطرہ سمجھتی ہے کیونکہ ان کا کردار کھرے اور کھوٹے کا فرق خوب بتاتا ہے۔ ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ مرحوم بھی ایک ایسے کھرے سیاستدان تھے۔
گزشتہ دنوں ملتان کی تحصیل جلال پور پیر والا میں موٹر وے پر ایک ٹریفک حادثے میں وہ اللہ کو پیارے ہوگئے، لیکن ان کا کردار اور جدوجہد لوگوں کو ہمیشہ کھرے کھوٹے کا فرق باور کراتی رہے گی۔
درویش صفت قائد، شعلہ بیان مقرر، محکوم طبقوں کی توانا آواز ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کا شمار بلوچستان کی ان سربر آوردہ شخصیات میں ہوتا تھا جنہوں نے بلوچستان کو صوبے کا درجہ ملنے سے قبل اور بعد میں طویل سیاسی جدوجہد کی۔ اس جدوجہد کے بدولت جہاں وہ ایوان بالا تک پہنچنے اور مختلف عہدوں پر رہے، وہاں اس کی پاداش میں مصائب و مشکلات کا سامنا بھی انہیں کرنا پڑا۔ بلوچوں کے سیاسی مدرسے بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے پہلے چیئرمین ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ، بلوچستان کے ضلع بولان کی ایک پسماندہ تحصیل بھاگ کے دور افتادہ اور انتہائی پسماندہ علاقے چھلگری میںیکم فروری 1945ء کو پیر بخش چھلگری کے ہاں پیدا ہوئے۔
پیر بخش چھلگری پیشہ کے اعتبار سے زمیندار تھے۔ ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ اپنے چار بھائیوں میں سے چوتھے نمبر پر تھے۔ وہ ابھی پانچ سال کے تھے کہ 1950ء میں والد کا انتقال ہوگیا۔ والد کے انتقال کے بعد، والدہ نے باپ کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔ پوری تندہی سے بیٹے کی مکمل سرپرستی کی اور تعلیم و تربیت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ وہ اپنی نیک نامی اور کامیابیوں کو ماں کی محنت کا ثمر قرار دیتے تھے۔ ان کے باقی بھائیوں نے وکالت، انجینئرنگ اور زمینداری کے شعبوں کو ترجیح دی مگر ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ سیاست کی راہ پر چل پڑے۔ انہیں شروع سے ہی نوکری سے چڑ تھی، اس لیے زندگی میں مواقع ملنے کے باوجود کبھی نوکری کرنے کا نہیں سوچا۔
انہوں نے ابتدائی تعلیم مقامی ہائی اسکول بھاگ سے حاصل کی۔ میٹرک کے بعد مستونگ کالج میں داخلہ لیا اور وہاں سے ایف ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔ 1960ء کی دہائی میں ڈائو میڈیکل کالج کراچی میں داخلہ لیا جہاں پر ان کے طلبہ سیاست میں متحرک ہونے سے بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) کو ایک مخلص ساتھی ملا اور وہ بی ایس او کے پہلے بانی چیئرمین بھی بنے۔ تاہم کچھ افراد کا اختلاف ہے کہ مرحوم عبدالحکیم بلوچ بی ایس او کے پہلے صدر تھے، بعد ازاں ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ بی ایس او کے چیئرمین بنے۔
ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ نے اپنی پارلیمانی سیاست کا آغاز 1970ء کے عام انتخابات میں بحیثیت طالب علم کے کیا۔ انہوں نے نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کے امیدوار کے طور پر قومی اسمبلی کی نشست پر انتخاب لڑا، ان کا مقابلہ خان آف قلات کے بیٹے شہزادہ یحییٰ سے تھا۔ یہ شاید پہلی مرتبہ ہوا کہ ایک غریب سیاسی کارکن نے خان آف قلات کے خاندان کو شکست دی ہو۔ ایوان زیریں تک رسائی حاصل کرنے والے کم عمر رکن قومی اسمبلی بنے۔
ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ قومی اسمبلی کے ان بلوچ ارکان میں تھے جنہوں نے 1973ء کے آئین میں کچھ ترامیم تجویز کیں، جن میں قوموں کی تاریخ' ثقافت' زبان، شناخت اور بلوچوں کو حق خود ارادیت کی ضمانت دینا شامل تھے۔ مگر ان تجاویز کو آئین میں شامل نہ کرنے پر انہوں نے اس پر دستخط نہیں کئے۔ یہ قیام پاکستان کے بعد پانچویں قومی اسمبلی تھی جس کا دورانیہ 1972سے1977ء تک رہا۔
جب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹواور حزب اختلاف نیشنل عوامی پارٹی کے درمیان اختلافات نے شدت اختیار کی تو ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کو کراچی سے کوئٹہ جاتے ہوئے جہاز کے اندر سے گرفتار کرکے ائیرپورٹ سے تھانے منتقل کیا گیا جہاں سے ان کی اسیری کے تلخ دن شروع ہوئے۔ ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کو ایک چھوٹے سے کمرے میں اٹھارہ ماہ قید تنہائی میں گزارنے پڑے۔ اسیری کے بیس ماہ بعد عدالت کے حکم پر وہ رہا ہوئے۔ بلوچستان کی مچھ جیل میں بھی پابند سلاسل رہے۔ بلوچستان کے بڑے نامور سیاستدانوں کے ساتھ وہ سیاسی جدوجہد میں شریک رہے، جن میں سردار عطاء اللہ مینگل' میر غوث بخش بزنجو' نواب اکبر خان بگٹی' نواب خیر بخش مری' عبدالصمد خان اچکزئی شامل ہیں۔
یہ وہ دور تھا جب بلوچستان بالخصوص اور ملک کے دیگر حصوں میں بالعموم بائیں بازو کا سیاسی رجحان عروج پر تھا۔ 1970ء کے بعد بلوچستان کو صوبے کا درجہ ملا جس کے پہلے وزیراعلیٰ سردار عطاء اللہ خان مینگل اور میر غوث بخش بزنجو گورنر بنے۔
نیشنل عوامی پارٹی کی پوری قیادت سیاسی منظرنامے پر موجود تھی، صوبے میں نواب اکبرخان بگٹی اور دیگر سیاسی زعماء، کوئی نواب، کوئی سردار، کوئی خان اور ان کے بیچ نوجوان عبدالحئی۔ جو سیاسی، قبائلی، سماجی ہر حوالے سے سرداروں اور نوابوں کے مقابلے میں کمزور سے تھے لیکن اس کے باوجود بلوچستان کے بڑے بڑے سردار ان کی ''بلند قامت جدوجہد'' سے شاکی اور خوفزدہ رہے۔ ڈاکٹر عبدالحئی نے 1989ء میں بلوچستان نیشنل یوتھ موومنٹ کے نام سے اپنی سیاسی جماعت بنائی۔ 1988ء میں بننے والے نیشنل الائنس میں انہوں نے بطور جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دیئے۔ اس الائنس کے صدر سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اکبرخان بگٹی تھے۔ بعدازاں انہوں نے بلوچستان نیشنل موومنٹ بنائی، سابق وزیراعلیٰ سردار اختر مینگل صدر اور ڈاکٹرعبدالحئی بلوچ نائب صدر منتخب ہوئے۔
ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ، مارچ 1994ء میں چھ سال کی مدت کے لئے سینٹ کے رکن منتخب ہوئے۔ وہ سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ، اقتصادی امور، فضائی، مواصلات، ریلوے اور ساتھ ہی کم ترقی یافتہ علاقوںکے لئے سینٹ میں قائم کمیٹی کے بھی رکن رہے۔ قومی اسمبلی اور سینٹ کے فلور پر وہ صرف بلوچستان کے رہنما کے طور پر ہی نہیں بلکہ ملک بھر کے غریب عوام کے وکیل بن کر ان کے لیے آواز بلند کرتے۔ انہوں نے 2005 ء میں پاکستان نیشنل پارٹی کے ساتھ انضمام کرکے نیشنل پارٹی کی بنیاد رکھی تاہم 2008 ء کے بعد ان کا نیشنل پارٹی کے دوسرے دھڑے کے ساتھ اختلاف کا سلسلہ شروع ہوا۔
اختلافات شدید ہوئے اور بالآخر ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ نے نیشنل پارٹی سے اپنی راہیں الگ کرلیں۔2017ء میں نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے نام سے الگ جماعت قائم کی اور اس کے مرکزی صدر منتخب ہوئے۔ 2013ء کے عام انتخابات میں انہوںنے نصیرآباد اور جعفرآباد کے اضلاع پر مشتمل قومی اسمبلی کی نشست این اے 266 پر نیشنل پارٹی کی طرف سے حصہ لیا لیکن کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔ ان کے مقابلے میں میر ظفر اللہ خان جمالی تھے جنہوں نے باآسانی ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ سے کئی گناہ زیادہ ووٹ حاصل کئے۔
کچھی اور جھل مگسی پرمشتمل قومی اسمبلی کی نشست این اے267 میں 2002ء کے عام انتخابات میں سردار یار محمد رند کے مقابلے میں انتخاب لڑا اور ساڑھے پانچ ہزارکے لگ بھگ ووٹ حاصل کئے اگر چہ وہ الیکشن میں کامیاب نہ ہوسکے تاہم عوام نے ان کی بھر پور پذیرائی کی۔
ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ صوبے اور ملک میں سب سے زیادہ متحرک رہنے والے سیاسی کارکن تھے اور آخری عمر تک بھی انہیں شہر میں پیدل سفر کرتے دیکھا گیا۔ انہوں نے کبھی موٹر سائیکل اور پیدل چلنے میں عار محسوس نہیں کی۔ وہ ہونٹوں پر مسکراہٹ سجائے راہ چلتے ہر جانے انجانے کو سلام کرتے ہوئے گزرتے۔ ان کی ایک نمایاں خوبی یہ تھی کہ ان سے ملاقات کیلئے کسی کو وقت نہیں لینا پڑتا تھا۔
وہ خود چل کر عوام کے پاس پہنچ جاتے۔ وہ سیاست کو عبادت سمجھتے تھے، اکثر پیدل چلتے اور لوگوں کی مدد کرتے۔ انہوں نے سیاست میں جمہوری رویوں کو فروغ، عوامی حقوق کی پاسداری اور سیاسی شعور کو اجاگر کیا۔ ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کی 76 سالہ زندگی سیاسی جدوجہد سے عبارت رہی۔ ان کا شمار صوبے کے سینئر سیاستدانوں میں ہوتا تھا جنہوں نے ہمیشہ اصولوں کی سیاست کی اور ہر فورم پر صوبے کے حق اور مفاد کی بات کی۔ ان کے عوامی انداز اور سادگی نے عوام کے دلوں میں گھر کیا اور انہوںنے ہمیشہ مظلوم طبقات کی نمائندگی کی۔
شادی 1981ء میں والدہ کی مرضی سے خاندان سے باہر ہوئی۔ چار بیٹوں اور چار بیٹیوں کے شفیق والد تھے۔ ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ حقیقی سیاسی کارکن کی تعریف پر پورا اترتے تھے۔ انہوںنے ساری زندگی غربت میں رہتے ہوئے عوام کی خدمت کی اور عوامی خدمت کا کوئی بھی موقع اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔
وہ اپنے آپ کو کل وقتی سیاستدان کہتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ بلامعاوضہ اور رضاکارانہ طور پر لوگوں کے مسائل حل کرانے، ان کے حقوق کیلئے آواز بلند کرنے اور جدوجہد کرنے سے حوصلہ پیدا ہوتا ہے اور دل کو تسکین ملتی ہے۔ وہ کبھی بھی پروٹوکول، بندوق بردار افراد اور نمود و نمائش کے قائل نہیں رہے۔ وہ سیاست کی اصل روح پر عمل پیرا تھے۔ ہمیں اپنے معاشرے کے ایسے افراد کی قدر کرنی چاہئے، ایسے لوگ قوم کے محسن اور اس کی نمائندگی کے صحیح حقدار ہوتے ہیں۔ ایسا کرنے سے ہم معاشرے میں سدھار اور سیاست میں بہتری لاسکتے ہیں۔
ہر سیاسی رہنماء کی طرح ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ بھی اگرچہ تضادات اور تنازعات میں گھرے رہے لیکن بطور سیاسی کارکن ان کا مقام و مرتبہ بہت بلند رہا۔ انہوںنے اپنا ناطہ عوام سے نہیں توڑا، مرتے دم تک وہ عوام کے ساتھ جڑے رہے۔ وہ بلوچستان میں مڈل کلاس سیاست کے سرخیل تھے، انہوں نے ہمیشہ حق اور اصولوں کی سیاست کی، ان کی وفات نہ صرف صوبے بلکہ پورے ملک کے لئے ایک بہت بڑا نقصان ہے۔
25 فروری بروز جمعہ ٹریفک حادثے میں ان کی وفات پر بلوچستان سمیت ملک بھر سے تعزیت اور رنج وغم پر مبنی بیانات کا سلسلہ شروع ہوا۔ بھرپور خراج عقیدت پیش کیاگیا۔ 26 فروری کو بزرگ سیاست دان و قوم پرست رہنما ڈاکٹرعبدالحئی بلوچ اپنے سفر آخرت پر روانہ ہوئے، انہیں ان کے آبائی علاقے چھلگری میں آسودہ خاک کیا گیا۔ ان کی جدوجہد ملکی سیاسی تاریخ کا ایک روشن باب بن کر زندہ رہے گی۔
سیاست، عوام کی خدمت کا نام ہے۔ ایسا شخص جو عوام کے حقوق کی خاطر آواز بلند کرنے اور ان کے مسائل سلجھانے کے لیے خود کو وقف کر دے سیاستدان کہلاتا ہے۔
بدقسمتی سے سیاست کی آڑ میں ہمارے اوپر اختیار و طاقت کے پجاری، دولت کے حریص اور شہرت کے لالچی مسلط رہے ہیں، جنہوں نے سیاست اور سیاست دان کا مفہوم ہی بدل کر رکھ دیا۔ ان نام نہاد سیاستدانوں نے جو شرم ناک مثالیں قائم کیں، ان کی روشنی میں فن سیاست طاقت کے حصول کا کھیل، کرپشن کا ذریعہ، قانون کی گرفت سے تحفظ کا وسیلہ، ذاتی مراعات اور ترقی کا زینہ قرار پایا ہے۔
جھوٹ اور منافقت پر پلنے والی اس سیاست کو لوگوں کے مسائل کے بجائے اپنے اختیار، پروٹوکول اور مراعات سے غرض ہوتی ہے۔ اور جب یہ کلچر قبول عام کا درجہ حاصل کر لے تو عوامی خدمت کی آدرش رکھنے والے حقیقی سیاستدان حاشیے پر چلے جاتے ہیں، وہ اس میدان میں اجنبی اور تنہا نظر آتے ہیں۔ روایتی اور مروجہ سیاست ان کے وجود کو ہی اپنے لیے خطرہ سمجھتی ہے کیونکہ ان کا کردار کھرے اور کھوٹے کا فرق خوب بتاتا ہے۔ ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ مرحوم بھی ایک ایسے کھرے سیاستدان تھے۔
گزشتہ دنوں ملتان کی تحصیل جلال پور پیر والا میں موٹر وے پر ایک ٹریفک حادثے میں وہ اللہ کو پیارے ہوگئے، لیکن ان کا کردار اور جدوجہد لوگوں کو ہمیشہ کھرے کھوٹے کا فرق باور کراتی رہے گی۔
درویش صفت قائد، شعلہ بیان مقرر، محکوم طبقوں کی توانا آواز ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کا شمار بلوچستان کی ان سربر آوردہ شخصیات میں ہوتا تھا جنہوں نے بلوچستان کو صوبے کا درجہ ملنے سے قبل اور بعد میں طویل سیاسی جدوجہد کی۔ اس جدوجہد کے بدولت جہاں وہ ایوان بالا تک پہنچنے اور مختلف عہدوں پر رہے، وہاں اس کی پاداش میں مصائب و مشکلات کا سامنا بھی انہیں کرنا پڑا۔ بلوچوں کے سیاسی مدرسے بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے پہلے چیئرمین ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ، بلوچستان کے ضلع بولان کی ایک پسماندہ تحصیل بھاگ کے دور افتادہ اور انتہائی پسماندہ علاقے چھلگری میںیکم فروری 1945ء کو پیر بخش چھلگری کے ہاں پیدا ہوئے۔
پیر بخش چھلگری پیشہ کے اعتبار سے زمیندار تھے۔ ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ اپنے چار بھائیوں میں سے چوتھے نمبر پر تھے۔ وہ ابھی پانچ سال کے تھے کہ 1950ء میں والد کا انتقال ہوگیا۔ والد کے انتقال کے بعد، والدہ نے باپ کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔ پوری تندہی سے بیٹے کی مکمل سرپرستی کی اور تعلیم و تربیت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ وہ اپنی نیک نامی اور کامیابیوں کو ماں کی محنت کا ثمر قرار دیتے تھے۔ ان کے باقی بھائیوں نے وکالت، انجینئرنگ اور زمینداری کے شعبوں کو ترجیح دی مگر ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ سیاست کی راہ پر چل پڑے۔ انہیں شروع سے ہی نوکری سے چڑ تھی، اس لیے زندگی میں مواقع ملنے کے باوجود کبھی نوکری کرنے کا نہیں سوچا۔
انہوں نے ابتدائی تعلیم مقامی ہائی اسکول بھاگ سے حاصل کی۔ میٹرک کے بعد مستونگ کالج میں داخلہ لیا اور وہاں سے ایف ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔ 1960ء کی دہائی میں ڈائو میڈیکل کالج کراچی میں داخلہ لیا جہاں پر ان کے طلبہ سیاست میں متحرک ہونے سے بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) کو ایک مخلص ساتھی ملا اور وہ بی ایس او کے پہلے بانی چیئرمین بھی بنے۔ تاہم کچھ افراد کا اختلاف ہے کہ مرحوم عبدالحکیم بلوچ بی ایس او کے پہلے صدر تھے، بعد ازاں ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ بی ایس او کے چیئرمین بنے۔
ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ نے اپنی پارلیمانی سیاست کا آغاز 1970ء کے عام انتخابات میں بحیثیت طالب علم کے کیا۔ انہوں نے نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کے امیدوار کے طور پر قومی اسمبلی کی نشست پر انتخاب لڑا، ان کا مقابلہ خان آف قلات کے بیٹے شہزادہ یحییٰ سے تھا۔ یہ شاید پہلی مرتبہ ہوا کہ ایک غریب سیاسی کارکن نے خان آف قلات کے خاندان کو شکست دی ہو۔ ایوان زیریں تک رسائی حاصل کرنے والے کم عمر رکن قومی اسمبلی بنے۔
ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ قومی اسمبلی کے ان بلوچ ارکان میں تھے جنہوں نے 1973ء کے آئین میں کچھ ترامیم تجویز کیں، جن میں قوموں کی تاریخ' ثقافت' زبان، شناخت اور بلوچوں کو حق خود ارادیت کی ضمانت دینا شامل تھے۔ مگر ان تجاویز کو آئین میں شامل نہ کرنے پر انہوں نے اس پر دستخط نہیں کئے۔ یہ قیام پاکستان کے بعد پانچویں قومی اسمبلی تھی جس کا دورانیہ 1972سے1977ء تک رہا۔
جب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹواور حزب اختلاف نیشنل عوامی پارٹی کے درمیان اختلافات نے شدت اختیار کی تو ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کو کراچی سے کوئٹہ جاتے ہوئے جہاز کے اندر سے گرفتار کرکے ائیرپورٹ سے تھانے منتقل کیا گیا جہاں سے ان کی اسیری کے تلخ دن شروع ہوئے۔ ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کو ایک چھوٹے سے کمرے میں اٹھارہ ماہ قید تنہائی میں گزارنے پڑے۔ اسیری کے بیس ماہ بعد عدالت کے حکم پر وہ رہا ہوئے۔ بلوچستان کی مچھ جیل میں بھی پابند سلاسل رہے۔ بلوچستان کے بڑے نامور سیاستدانوں کے ساتھ وہ سیاسی جدوجہد میں شریک رہے، جن میں سردار عطاء اللہ مینگل' میر غوث بخش بزنجو' نواب اکبر خان بگٹی' نواب خیر بخش مری' عبدالصمد خان اچکزئی شامل ہیں۔
یہ وہ دور تھا جب بلوچستان بالخصوص اور ملک کے دیگر حصوں میں بالعموم بائیں بازو کا سیاسی رجحان عروج پر تھا۔ 1970ء کے بعد بلوچستان کو صوبے کا درجہ ملا جس کے پہلے وزیراعلیٰ سردار عطاء اللہ خان مینگل اور میر غوث بخش بزنجو گورنر بنے۔
نیشنل عوامی پارٹی کی پوری قیادت سیاسی منظرنامے پر موجود تھی، صوبے میں نواب اکبرخان بگٹی اور دیگر سیاسی زعماء، کوئی نواب، کوئی سردار، کوئی خان اور ان کے بیچ نوجوان عبدالحئی۔ جو سیاسی، قبائلی، سماجی ہر حوالے سے سرداروں اور نوابوں کے مقابلے میں کمزور سے تھے لیکن اس کے باوجود بلوچستان کے بڑے بڑے سردار ان کی ''بلند قامت جدوجہد'' سے شاکی اور خوفزدہ رہے۔ ڈاکٹر عبدالحئی نے 1989ء میں بلوچستان نیشنل یوتھ موومنٹ کے نام سے اپنی سیاسی جماعت بنائی۔ 1988ء میں بننے والے نیشنل الائنس میں انہوں نے بطور جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دیئے۔ اس الائنس کے صدر سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اکبرخان بگٹی تھے۔ بعدازاں انہوں نے بلوچستان نیشنل موومنٹ بنائی، سابق وزیراعلیٰ سردار اختر مینگل صدر اور ڈاکٹرعبدالحئی بلوچ نائب صدر منتخب ہوئے۔
ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ، مارچ 1994ء میں چھ سال کی مدت کے لئے سینٹ کے رکن منتخب ہوئے۔ وہ سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ، اقتصادی امور، فضائی، مواصلات، ریلوے اور ساتھ ہی کم ترقی یافتہ علاقوںکے لئے سینٹ میں قائم کمیٹی کے بھی رکن رہے۔ قومی اسمبلی اور سینٹ کے فلور پر وہ صرف بلوچستان کے رہنما کے طور پر ہی نہیں بلکہ ملک بھر کے غریب عوام کے وکیل بن کر ان کے لیے آواز بلند کرتے۔ انہوں نے 2005 ء میں پاکستان نیشنل پارٹی کے ساتھ انضمام کرکے نیشنل پارٹی کی بنیاد رکھی تاہم 2008 ء کے بعد ان کا نیشنل پارٹی کے دوسرے دھڑے کے ساتھ اختلاف کا سلسلہ شروع ہوا۔
اختلافات شدید ہوئے اور بالآخر ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ نے نیشنل پارٹی سے اپنی راہیں الگ کرلیں۔2017ء میں نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے نام سے الگ جماعت قائم کی اور اس کے مرکزی صدر منتخب ہوئے۔ 2013ء کے عام انتخابات میں انہوںنے نصیرآباد اور جعفرآباد کے اضلاع پر مشتمل قومی اسمبلی کی نشست این اے 266 پر نیشنل پارٹی کی طرف سے حصہ لیا لیکن کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔ ان کے مقابلے میں میر ظفر اللہ خان جمالی تھے جنہوں نے باآسانی ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ سے کئی گناہ زیادہ ووٹ حاصل کئے۔
کچھی اور جھل مگسی پرمشتمل قومی اسمبلی کی نشست این اے267 میں 2002ء کے عام انتخابات میں سردار یار محمد رند کے مقابلے میں انتخاب لڑا اور ساڑھے پانچ ہزارکے لگ بھگ ووٹ حاصل کئے اگر چہ وہ الیکشن میں کامیاب نہ ہوسکے تاہم عوام نے ان کی بھر پور پذیرائی کی۔
ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ صوبے اور ملک میں سب سے زیادہ متحرک رہنے والے سیاسی کارکن تھے اور آخری عمر تک بھی انہیں شہر میں پیدل سفر کرتے دیکھا گیا۔ انہوں نے کبھی موٹر سائیکل اور پیدل چلنے میں عار محسوس نہیں کی۔ وہ ہونٹوں پر مسکراہٹ سجائے راہ چلتے ہر جانے انجانے کو سلام کرتے ہوئے گزرتے۔ ان کی ایک نمایاں خوبی یہ تھی کہ ان سے ملاقات کیلئے کسی کو وقت نہیں لینا پڑتا تھا۔
وہ خود چل کر عوام کے پاس پہنچ جاتے۔ وہ سیاست کو عبادت سمجھتے تھے، اکثر پیدل چلتے اور لوگوں کی مدد کرتے۔ انہوں نے سیاست میں جمہوری رویوں کو فروغ، عوامی حقوق کی پاسداری اور سیاسی شعور کو اجاگر کیا۔ ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کی 76 سالہ زندگی سیاسی جدوجہد سے عبارت رہی۔ ان کا شمار صوبے کے سینئر سیاستدانوں میں ہوتا تھا جنہوں نے ہمیشہ اصولوں کی سیاست کی اور ہر فورم پر صوبے کے حق اور مفاد کی بات کی۔ ان کے عوامی انداز اور سادگی نے عوام کے دلوں میں گھر کیا اور انہوںنے ہمیشہ مظلوم طبقات کی نمائندگی کی۔
شادی 1981ء میں والدہ کی مرضی سے خاندان سے باہر ہوئی۔ چار بیٹوں اور چار بیٹیوں کے شفیق والد تھے۔ ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ حقیقی سیاسی کارکن کی تعریف پر پورا اترتے تھے۔ انہوںنے ساری زندگی غربت میں رہتے ہوئے عوام کی خدمت کی اور عوامی خدمت کا کوئی بھی موقع اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔
وہ اپنے آپ کو کل وقتی سیاستدان کہتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ بلامعاوضہ اور رضاکارانہ طور پر لوگوں کے مسائل حل کرانے، ان کے حقوق کیلئے آواز بلند کرنے اور جدوجہد کرنے سے حوصلہ پیدا ہوتا ہے اور دل کو تسکین ملتی ہے۔ وہ کبھی بھی پروٹوکول، بندوق بردار افراد اور نمود و نمائش کے قائل نہیں رہے۔ وہ سیاست کی اصل روح پر عمل پیرا تھے۔ ہمیں اپنے معاشرے کے ایسے افراد کی قدر کرنی چاہئے، ایسے لوگ قوم کے محسن اور اس کی نمائندگی کے صحیح حقدار ہوتے ہیں۔ ایسا کرنے سے ہم معاشرے میں سدھار اور سیاست میں بہتری لاسکتے ہیں۔
ہر سیاسی رہنماء کی طرح ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ بھی اگرچہ تضادات اور تنازعات میں گھرے رہے لیکن بطور سیاسی کارکن ان کا مقام و مرتبہ بہت بلند رہا۔ انہوںنے اپنا ناطہ عوام سے نہیں توڑا، مرتے دم تک وہ عوام کے ساتھ جڑے رہے۔ وہ بلوچستان میں مڈل کلاس سیاست کے سرخیل تھے، انہوں نے ہمیشہ حق اور اصولوں کی سیاست کی، ان کی وفات نہ صرف صوبے بلکہ پورے ملک کے لئے ایک بہت بڑا نقصان ہے۔
25 فروری بروز جمعہ ٹریفک حادثے میں ان کی وفات پر بلوچستان سمیت ملک بھر سے تعزیت اور رنج وغم پر مبنی بیانات کا سلسلہ شروع ہوا۔ بھرپور خراج عقیدت پیش کیاگیا۔ 26 فروری کو بزرگ سیاست دان و قوم پرست رہنما ڈاکٹرعبدالحئی بلوچ اپنے سفر آخرت پر روانہ ہوئے، انہیں ان کے آبائی علاقے چھلگری میں آسودہ خاک کیا گیا۔ ان کی جدوجہد ملکی سیاسی تاریخ کا ایک روشن باب بن کر زندہ رہے گی۔