مسجد میں دہشت گردی

پاکستانی قوم نے دہشت گردی کے خلاف ایک طویل اور صبر آزما جنگ لڑی ہے، یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی ہے

پاکستانی قوم نے دہشت گردی کے خلاف ایک طویل اور صبر آزما جنگ لڑی ہے، یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

پشاور شہر کے معروف قصہ خوانی بازار میں کوہاٹی گیٹ کے قریب واقع کوچہ رسالدار کی جامع مسجد میں نماز جمعہ کے دوران خودکش حملے میں باسٹھ افراد شہید ہونے کی اطلاعات ہیں، نمازیوں کے ساتھ ڈیوٹی پر موجود دو پولیس اہلکار بھی شہید ہوئے ہیں۔ دہشت گردوں کے حملے کے وقت تین منزلہ مسجد میں 200 سے 250 نمازی موجود تھے ۔ اس خودکش دھماکے میں مسجد کے امام اور نائب امام بھی شہید ہو گئے۔

ابتدائی تفیش کیے مطابق خودکش حملہ آور دو سہولت کاروں کے ساتھ رکشہ میں آیا، ایک ہینڈلر سڑک پر ہی رک گیا جب کہ ایک حملہ آور کے ہمراہ گلی میں داخل ہوا۔ کوچہ رسالدار دھماکے بعد قصہ خوانی سمیت ملحقہ بازار جن میں کوہاٹی گیٹ، کوچی بازار، جہانگیر پورہ و دیگر کاروباری مراکز شامل تھے بند ہوگئے اورپورا شہر سوگ ک میں ڈوب گیا۔فرانسیسی خبررساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق داعش نے پشاور میں مسجد میں دہشت گردی کی ذمے داری قبول کرلی ہے۔

افغان سرحد کے قریب پاکستانی علاقوں میں دہشت گردانہ حملوں میں ایک بار پھر اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان گزشتہ بیس برس دہشت گردوں، ان کے سہولت کاروں اور انتہاپسندوں کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف اس لڑائی میں پاکستان نے بہت قربانیاں دی ہیں، فوجی جوانوں سمیت 70 ہزار انسانی جانوں کا نقصان اٹھایا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے اربوں ڈالرز کا مالی نقصان برداشت کیا ہے۔

پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف سب سے بڑی اور خطرناک جنگ لڑی گئی اور پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ اپنے وسائل سے لڑی ہے اور لڑ رہا ہے۔ افغانستان میں داعش ، ٹی ٹی پی اور دوسری دہشت گرد تنظیموں نے اپنے نیٹ ورک بنا رکھے ہیں، طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد بھی صورتحال میں تبدیلی نہیں آئی ۔دہشت گرد پاکستان میں داخل ہوتے اور یہاں کارروائیاں کرتے ہیں ، صوبہ خیبرپختونخوا میں بہت سی کارروائیوں میں یہ دہشت گرد گروہ ملوث پائے گئے۔

باچا خان یونیورسٹی مردان اور اے پی سی پشاور کے واقعات میں تو یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچ چکی ہے کہ افغانستان سے آنے والے دہشت گردوں کو مقامی سہولت کار لے کر آئے اور جو مقامی دہشت گرد بھی ان واقعات میں ملوث پائے گئے، انھیں بھی افغانستان سے ہی کنٹرول کیا جا رہا تھا۔ ایسے موبائل فون استعمال کیے جا رہے تھے، جن کی سمیں افغانستان سے جاری کی گئی تھیں۔ یہ سارے گروہ وہ ہیں جو کسی نہ کسی طرح افغانستان پہنچ کر اپنے آپ کو منظم کر چکے ہیں۔

پاکستان نے دہشت گردی کے مسئلے پر زیرو ٹالرنس کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے، دہشت گردوں کے سہولت کاروں کو بلاامتیاز عبرتناک سزا دی ملنی چاہیے کیونکہ ٹی ٹی پی ہو یا بی ایل اے یا داعش ، یہ سب پاکستان میں موجود اپنے سہولت کاروں ، مخبروں اور کیرئیرز کے بغیر یہاں دہشت گردی کی کارروائی نہیں کرسکتے، لہٰذا دہشت گردوں کے خلاف کریک ڈاوں کے ساتھ ساتھ شہروں میں چھپے ان کے سہولت کاروں، مخبروں ، فنانسرز اور کیرئیرز کا سراغ لگا انھیں کیفرکردار تک پہنچایا جانا انتہائی ضروری ہے۔اور ان سے کوئی رو رعایت نہیں ہونی چاہیے۔

پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کے حوالے سے بھی پاکستان کو حتمی فیصلہ کرلینا چاہیے۔ بھارت تو ایک کھلا دشمن ہے لیکن افغانستان بھائی چارے کی آڑ میں پاکستان کی جڑیں کاٹنے میں مصروف ہے،افغانستان کو ہمارے ملک میں مخبروںاور سہولت کاروں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ پاکستان کو اپنی شمال مغربی سرحد کو ہر صورت میں محفوظ بنانا چاہیے۔ افغانستان اور ایران کے سرحد کو کھلا چھوڑے رکھنا پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔ سرد جنگ کی پالیسی میں تو یہ ٹھیک تھا مگر سرد جنگ کے خاتمے کے بعد جغرافیائی سرحدوں کو محفوظ بنا انتہائی ضروری ہے۔

پاکستان دہشت گردی کے عالمی مسئلہ سے نمٹ رہا ہے، عالمی ماہرین جانتے ہیں کہ نائن الیون کے بعد سے دنیا غیر محفوظ ہوئی ہے، امریکا نے افغانستان کی جنگ کا ملبہ جن مفروضوں پر گرایا ہے اس کا ہدف زیادہ تر پاکستان بنا، اسے افغان جنگ میں فرنٹ لائن ریاست بنایا گیا حالانکہ افغانستان کی سلامتی کے خلاف پاکستان کا کوئی عسکری کردار نہیں تھا، جہادی تنظیموں نے امریکا اور افغانستان کے درمیان ایک جنگ چھیڑی جس کے جواز پر امریکی مدبرین، عسکری اسٹیبلشمنٹ اور جنگی ماہرین سمیت امریکی حکمراں بھی مختلف النوع انداز نظر پیش کرتے رہے ہیں۔


صدر جو بائیڈن سمیت دیگر امریکی تھنک ٹینکس نے افغان جنگ میں امریکی کردار، اس کی شمولیت، مالیاتی معاملات اور ہلاکتوں پر جو رپورٹیں دی ہیں ان میں افغان امریکی جنگ کو ایک غلط تجربہ سے تعبیر کیا گیا، امریکی جنرلز نے اسے مضرت رساں قرار دیا، اگر صدر جو بائیڈن کے تھیسس اور نقطہ نظر کی تحلیل نفسی کی جائے تو اکثر ماہرین ایک ایسی جنگ کے نتیجہ پر پہنچتے ہیں جو امریکا کے عسکری اسٹرٹیجیکل مفادات اور عالمی امن کے حوالے سے انسانیت کے لیے ہولناک کہی جاسکتی ہے، دنیا جہادی قوتوں، مسلح دہشت گردانہ تنظیموں، انسانی ہلاکتوں اور ہولناک کارروائیوں کے حوالے سے امن کے مشترکہ مفادات کو زبردست دھچکے لگے۔

خطے میں غیر ملکی جہادی مسلح تنظیموں کا غلبہ بڑھا، امن عالم کو انسانیت کے بچائو کے لیے کثیر ملکی اقدامات کرنا پڑے، امن کے لیے بھی پاکستان ہی کو زیادہ انسانی تباہ کاریوں کا سامنا کرنا پڑا، دہشتگردی کے پیر تسمہ پا نے پاکستان کی سالمیت کا گھیرائو کرلیا، داخلی طور پر پاکستان میں دہشتگردی بڑھی، معاشی اور اقتصادی معاملات تلپٹ ہوئے، جمہوریت کو شدید دبائو کا سامنا ہوا اور آج بھی پاکستان اپنی بقا کی جنگ لڑنے پر مجبور ہے، خطے میں افغانستان کی صورتحال سے نئے چیلنجز در پیش ہیں، افغانستان کو ابھی تک سنبھلنے کا موقع نہیں ملا۔

ادھر اقتصادی اور معاشی مسائل پاکستان کے لیے درد سر بنے ہوئے ہیں، فیٹف کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے حکومت کے اقدامات تاحال نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکے۔ جمہوری حکومت کو عالمی، مقامی اور علاقائی سطح پر بے پناہ مسائل کا سامنا ہے۔ معیشت کے مسائل، سیاسی، اقتصادی چیلنجز اور کورونا وائرس کے معاملات نے پاکستان کی توانائیوں کو منقسم کرتے ہوئے عوام کو مشکلات سے دوچار کر دیا ہے، امن پاکستان کے لیے بنیادی مسئلہ بنا ہوا ہے، جسے دشمن قوتیں دہشت گردی کے لیے مسلسل استعمال کر رہی ہیں۔

حکمرانوں کو بڑے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے دور اندیشی، تدبر اور جمہوری بصیرت سے کام لینا ہے، سنگین مسائل کے ہوش مندانہ حل کے لیے رہنمائوں کو کلیدی کردار کی ادائیگی جب کہ اہم بریک تھرو کے لیے سیاسی جمود اور تشدد کی سیاسی فضا میں جمہوری اسپرٹ کا مظاہرہ کرنا گزیر ہے، ساتھ ہی اسے دشمنوں اور عالمی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ہمہ وقت چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو ایک ایسی دنیا کا چیلنج درپیش ہے جو عجیب و غریب چیلنجز سے دوچار ہے۔ دنیا حقیقت میں دلیل و بے دلیلی کے تذبذب میں گرفتار ہے۔ اس حقیقت کا ادراک ناگزیر ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کو اپنی سرزمین سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بھاری قیمت ادا کرنی پڑی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف ایک طویل ترین جنگ میں افواج پاکستان کی قربانیاں ناقابل فراموش ہیں۔ ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ وطن عزیزکو عدم استحکام سے دوچارکرنے کے لیے دہشت گردوں اور شر پسندوںکو شہ دی جارہی ہے اور اس ملک کو میدان جنگ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن جنگ کے اس آخری راؤنڈ میں بھی پاکستان کے دشمنوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔

افغانستان اور پاکستان کی سرحد پر حفاظتی باڑکا برقرار رہنا ملک کے دفاع کے لیے انتہائی اہمیت اور افادیت کا حامل ہے ، اس طرح دہشت گردوں کی افغانستان اور پاکستان میں آزادانہ نقل و حرکت پرقابو پانے میں خاطر خواہ کامیابی ملی ہے۔اگرچہ ٹی ٹی پی نے پاکستان میں حملوں میں اضافہ کیا ہے اور اب ایسا لگتا ہے کہ ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کے درمیان اتحاد ہورہا ہے اور یہ مل کر پاکستان میں کارروائیاں کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

داعش نے بھی افغانستان میں اپنا نیٹ ورک قائم کر رکھا ہے۔ گروپ زیادہ تر سرحدی علاقے میں متحرک ہیں، لیکن یہ بھی درست ہے کہ وہ پاکستان کے قبائلی علاقوں جہاں سے ان کا صفایا کیا جا چکا تھا وہ وہاں دوبارہ متحرک ہونے کی کوشش میں ہے۔

پاکستانی قوم نے دہشت گردی کے خلاف ایک طویل اور صبر آزما جنگ لڑی ہے، یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی ہے، بلکہ جاری ہے ،کیونکہ بد قسمتی سے ہمارے میں ابھی تک غیرملکی دہشت گردوں کے سہولت کار موجود ہیں ، لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ آپس کے اختلافات کو بھلا کر ملی یکجہتی کا مظاہرہ کیا جائے اور دشمن کے خلاف ہم سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں ، تاکہ وہ اپنے عزائم میں ناکام و نامراد رہے۔
Load Next Story