وقت بدل رہا ہے مگر…
معاشرے کی شکل ہر نئے دن کے چڑھنے کے ساتھ بگڑتی جا رہی ہے
ہمارے بزرگ جب بھی اپنے بچپن یا لڑکپن کے دنوں کا ہمارے حالات سے موازنہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ وقت اچھے تھے تو ہم ان کی باتوں کو در خور اعتناء نہیں سمجھتے، ان کی عمر کے خواب یا دیوانے کی بڑ ، مذاق سمجھتے ہیں یا ان کی باتوں کو ان کا ناسٹیلجیا سمجھ کر ایک کان سے سنتے اور دوسرے سے اڑا دیتے ہیں۔ ان کے موازنے ہمارے آج کے ساتھ اتنے تضادات پر مبنی ہوتے ہیں کہ یقین کرنا مشکل لگتا ہے۔
اسمارٹ تو کیا، عام موبائل ٹیلی فون، لینڈ لائن بھی درکنار... اس وقت فون تھا ہی نہیں، نہ ٹیلی وژن، نہ ریڈیو اور نہ کوئی اور تفریح۔ آج کے بچے اس وقت کا کس طرح سوچ سکتے ہیں، انھیں تو لگتا ہے کہ جو کچھ انھیں آج میسر ہے، وہ کبھی ناپید تھا ہی نہیں، یہ سبھی کچھ آدم اور حوا کو زمین پر بھیجتے وقت ساتھ ہی بھیج دیا گیا تھا۔
اگر آج کے بچوں کو بزرگ یہ بتائیں کہ ہمارے وقت میں دو کمروں کے گھروں میں سارا خاندان مل کر رہا کرتا تھا، والدین، ان کی اولادیں، بچوں کے بچے اور خاندان کے کئی اور لوگ۔ کوئی مہمان آتا تو وہ دنوں یا ہفتوں کے لیے نہیں بلکہ مہینوں تک کے لیے بھی آتے تھے کیونکہ اس وقت ذرایع آمد و رفت آسان نہ تھے۔ لوگوں میں خلوص تھا، مہمان کسی کو بوجھ نہیں لگتا تھا، مہمان کی خاطر یہ نہیں ہوتی تھی کہ انھیں باہر کا پکا ہوا کھانا کھلایا جاتا یا مرغن غذاؤں سے میزیں بھر دی جاتی تھیں۔
بچوں کے لیے تو یہ یقین کرنا بھی مشکل ہے کہ اس وقت سرے سے کھانے کی میز ہی نہیں ہوتی تھی۔ مہمان کی خاطر یہ ہوتی تھی کہ گھر میں باقی لوگوں کے لیے جو بھی دال سبزی پکی ہوتی تھی، اسی باورچی خانے کے چبوترے میں، پیڑھی پر بٹھا کر، گھر کے لوگوں سے پہلے کھانا دیا جاتا تھا، ماتھے پر بل ڈالے بغیر، پورے خلوص اور اصرار کے ساتھ۔ بچے سوچتے اور پوچھتے ہیں، ایسا کیسے ممکن ہے کہ مہمان کو آپ مرغی، گوشت اور مچھلی نہ کھلائیں... دو کمروں کا گھر ہوتا تھا تو ہر بچے کے پاس کیا اپنا علیحدہ کمرہ نہیں ہوتا تھا۔
مہمان اگر ہفتوں اور مہینوں کے لیے آتے تھے تو گھر والے اتنا بوجھ کیسے برداشت کرتے تھے۔ ان کے اپنے معمولات متاثر نہیں ہوتے تھے، ان کی اپنی ذاتیات میں مداخلت نہیں ہوتی تھی؟ بزرگ ان باتوں کو سنتے اور سر دھنتے ہیں، مہمان کا بھی بوجھ ہوتا ہے کیا؟ گوشت کھلانا اہم کیوں ہے، کیا سبزی اور دالیں اللہ کی اتنی ہی بڑی نعمتیں نہیں ہیں۔ بچوں کو علیحدہ کمروں کی ضرورت کیوں ہو، کیا مہمان گھر والوں کے ساتھ مل جل کر نہیں رہ سکتے۔ دن تو اکٹھے گزارتے تھے، صرف رات کو سونا ہوتا تھا، سونے کا کیا ہے، جہاں جگہ ملی، سو گئے۔
خاندان والوں کے آنے سے ذاتیات میں مداخلت کا کیا تعلق؟ وہ تو اس دور کے لوگ ہیں جب مہمانوں کے جانے کے ذکر سے ہی سب اداس ہو جاتے تھے اور انھیں اصرار کر کر کے بلایا اور روکا جاتا تھا۔ گھر کے سب لوگ مل جل کر رہتے تھے، کوئی چھوٹا موٹا جھگڑا یا اختلاف ہوتا بھی تو گھر میں ہی اتفاق اور فہم سے نمٹا لیا جاتا تھا۔ سب کے بچے سانجھے اور عزت اور بے عزتی بھی سانجھی ہوتی تھی۔ بچوں کے لیے یہ کتنا ناقابل یقین ہیں کہ ان کے بزرگوں کے پاس ہوائی جہاز اور گاڑیاں تو کجا، موٹر سائیکل یا سائیکل تک بھی نہ تھی۔
میلوں کے فاصلے بھی پیدل طے کیے جاتے تھے، کسی کو استطاعت ہوتی تو گھوڑے پر سفر کر لیتے۔ اسی لیے لوگوں کی صحت بھی اچھی تھی اور وہ معمولی بیماریوں کے سوا بیمار نہ پڑتے تھے۔ انھیں یہ سن کر عجیب لگتا ہے کہ اس زمانے میں بجلی تھی نہ گیس۔ حیرت ہے لوگ اندھیرے میں دیکھتے کیسے تھے، بغیر گیس کے کھانا کس طرح پکاتے تھے؟ بزرگ ہنستے ہیں اور بتاتے ہیں کہ یہ جو آج کل بچوں کو کم عمری سے عینکیں لگ گئی ہیں، رات رات بھر جاگتے ہیں، ٹیلی وژن دیکھتے ہیں، دیر سے سوتے اور دیر سے جاگتے ہیں۔
پہلے پہل تو سارا نظام سورج کے طلوع و غروب کے ساتھ مربوط ہوتا تھا۔ سورج نکلنے سے پہلے ہی کسان اپنا ہل لے کر کھیتوں میں چلے جاتے تھے، بعد دوپہر لوٹتے اور مغرب کی نماز کے بعد رات کا کھانا کھا لیا جاتا تھا اور اس کے بعد عشاء تک جاگنے کے لیے سب افراد خانہ ایک ساتھ صحن میں بچھی چارپائیوں پر بیٹھ جاتے، دیے کی لو ہوتی یا چاند کی چاندنی۔ آپس میں تبادلۂ خیالات ہوتا، حقہ درمیان میں ہوتا تو اس کی نے دائرے میں گردش کرتی۔ اندھیرا بڑھنے لگتا تو سب سو جاتے تھے تا کہ گزشتہ روز بھر نور کے تڑکے اٹھ سکیں۔
اب تو گھر میں کوئی مہمان بتائے بغیر آتا ہی نہیں، جو کوئی غلطی سے آجائے تو بچوں سے ڈر لگتا ہے کہ دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں، کہیں مہمان کے یوں آ جانے پر وہ جو باتیں کر رہے ہیں، مہمان کے کان تک نہ پہنچ جائیں... تمیز ہی نہیں ہے لوگوں کو ، بغیر اطلاع کے آ جاتے ہیں ۔ پتا نہیں، کب تک رہیں گے، کہیں ڈیرہ ہی نہ لگا لیں، اگر لگا لیں تو!! کہاں رہیں گے؟ کہاں سوئیں گے؟صحت آج کل اتنی متاثر ہے کہ بڑے بڑی بیماریاں بھی چھوٹے چھوٹے بچوں کو لاحق ہو جاتی ہیں۔
اس کا بڑا سبب آج کل کھائی جانے والی خوراک اور اس کا ماخذ ہے۔ گھر سے باہر کھانے کی عادت بھی بہت زیادہ ہے اور باہر نہ بھی جائیں ، اگر گھر پر کچھ ایسا پکا ہوا ہے کہ جسے کھانے کو وہ مائل نہیں تو باہر سے کھانا آرڈر کر کے گھر پر منگوا لیا جاتا ہے۔پہلے والدین بچوں کو سختی سے کہتے تھے کہ جوکچھ گھر پر پکا ہے اور جیسا بھی ہے، وہ سب کے ساتھ کھائیں۔ اگر نہیں کھانا چاہ رہے تو اس کا مطلب ہے کہ بھوک نہیں ہے، صرف طمع ہے۔ اب والدین سے بچوں کی ذرا سی ناراضی برداشت نہیں ہوتی، فوراً ان کے مطالبے پر گھٹنے ٹیک دیے جاتے ہیں، اسی لیے ایک انتہائی ناشکری نسل پروان چڑھ رہی ہے۔
پہلے ہم اس طرح کی باتیں کرتے تھے تو لگتا تھا کہ سو سال پرانی بات کر رہے ہیں، اب بات کرتے ہیں تو دس بیس سال پرانی بات بھی صدیوں پرانا قصہ لگتی ہے۔ معاشرے کی شکل ہر نئے دن کے چڑھنے کے ساتھ بگڑتی جا رہی ہے، اخلاقیات اور اوصاف مسخ ہوتے جارہے ہیں، ترقی صرف مادی ہو رہی ہے، باقی سب کچھ زوال کی طرف ہے۔ وقت بدل رہا ہے، ہر روز بدل رہا ہے مگر بہتری کے بجائے... ابتری کی طرف۔
اسمارٹ تو کیا، عام موبائل ٹیلی فون، لینڈ لائن بھی درکنار... اس وقت فون تھا ہی نہیں، نہ ٹیلی وژن، نہ ریڈیو اور نہ کوئی اور تفریح۔ آج کے بچے اس وقت کا کس طرح سوچ سکتے ہیں، انھیں تو لگتا ہے کہ جو کچھ انھیں آج میسر ہے، وہ کبھی ناپید تھا ہی نہیں، یہ سبھی کچھ آدم اور حوا کو زمین پر بھیجتے وقت ساتھ ہی بھیج دیا گیا تھا۔
اگر آج کے بچوں کو بزرگ یہ بتائیں کہ ہمارے وقت میں دو کمروں کے گھروں میں سارا خاندان مل کر رہا کرتا تھا، والدین، ان کی اولادیں، بچوں کے بچے اور خاندان کے کئی اور لوگ۔ کوئی مہمان آتا تو وہ دنوں یا ہفتوں کے لیے نہیں بلکہ مہینوں تک کے لیے بھی آتے تھے کیونکہ اس وقت ذرایع آمد و رفت آسان نہ تھے۔ لوگوں میں خلوص تھا، مہمان کسی کو بوجھ نہیں لگتا تھا، مہمان کی خاطر یہ نہیں ہوتی تھی کہ انھیں باہر کا پکا ہوا کھانا کھلایا جاتا یا مرغن غذاؤں سے میزیں بھر دی جاتی تھیں۔
بچوں کے لیے تو یہ یقین کرنا بھی مشکل ہے کہ اس وقت سرے سے کھانے کی میز ہی نہیں ہوتی تھی۔ مہمان کی خاطر یہ ہوتی تھی کہ گھر میں باقی لوگوں کے لیے جو بھی دال سبزی پکی ہوتی تھی، اسی باورچی خانے کے چبوترے میں، پیڑھی پر بٹھا کر، گھر کے لوگوں سے پہلے کھانا دیا جاتا تھا، ماتھے پر بل ڈالے بغیر، پورے خلوص اور اصرار کے ساتھ۔ بچے سوچتے اور پوچھتے ہیں، ایسا کیسے ممکن ہے کہ مہمان کو آپ مرغی، گوشت اور مچھلی نہ کھلائیں... دو کمروں کا گھر ہوتا تھا تو ہر بچے کے پاس کیا اپنا علیحدہ کمرہ نہیں ہوتا تھا۔
مہمان اگر ہفتوں اور مہینوں کے لیے آتے تھے تو گھر والے اتنا بوجھ کیسے برداشت کرتے تھے۔ ان کے اپنے معمولات متاثر نہیں ہوتے تھے، ان کی اپنی ذاتیات میں مداخلت نہیں ہوتی تھی؟ بزرگ ان باتوں کو سنتے اور سر دھنتے ہیں، مہمان کا بھی بوجھ ہوتا ہے کیا؟ گوشت کھلانا اہم کیوں ہے، کیا سبزی اور دالیں اللہ کی اتنی ہی بڑی نعمتیں نہیں ہیں۔ بچوں کو علیحدہ کمروں کی ضرورت کیوں ہو، کیا مہمان گھر والوں کے ساتھ مل جل کر نہیں رہ سکتے۔ دن تو اکٹھے گزارتے تھے، صرف رات کو سونا ہوتا تھا، سونے کا کیا ہے، جہاں جگہ ملی، سو گئے۔
خاندان والوں کے آنے سے ذاتیات میں مداخلت کا کیا تعلق؟ وہ تو اس دور کے لوگ ہیں جب مہمانوں کے جانے کے ذکر سے ہی سب اداس ہو جاتے تھے اور انھیں اصرار کر کر کے بلایا اور روکا جاتا تھا۔ گھر کے سب لوگ مل جل کر رہتے تھے، کوئی چھوٹا موٹا جھگڑا یا اختلاف ہوتا بھی تو گھر میں ہی اتفاق اور فہم سے نمٹا لیا جاتا تھا۔ سب کے بچے سانجھے اور عزت اور بے عزتی بھی سانجھی ہوتی تھی۔ بچوں کے لیے یہ کتنا ناقابل یقین ہیں کہ ان کے بزرگوں کے پاس ہوائی جہاز اور گاڑیاں تو کجا، موٹر سائیکل یا سائیکل تک بھی نہ تھی۔
میلوں کے فاصلے بھی پیدل طے کیے جاتے تھے، کسی کو استطاعت ہوتی تو گھوڑے پر سفر کر لیتے۔ اسی لیے لوگوں کی صحت بھی اچھی تھی اور وہ معمولی بیماریوں کے سوا بیمار نہ پڑتے تھے۔ انھیں یہ سن کر عجیب لگتا ہے کہ اس زمانے میں بجلی تھی نہ گیس۔ حیرت ہے لوگ اندھیرے میں دیکھتے کیسے تھے، بغیر گیس کے کھانا کس طرح پکاتے تھے؟ بزرگ ہنستے ہیں اور بتاتے ہیں کہ یہ جو آج کل بچوں کو کم عمری سے عینکیں لگ گئی ہیں، رات رات بھر جاگتے ہیں، ٹیلی وژن دیکھتے ہیں، دیر سے سوتے اور دیر سے جاگتے ہیں۔
پہلے پہل تو سارا نظام سورج کے طلوع و غروب کے ساتھ مربوط ہوتا تھا۔ سورج نکلنے سے پہلے ہی کسان اپنا ہل لے کر کھیتوں میں چلے جاتے تھے، بعد دوپہر لوٹتے اور مغرب کی نماز کے بعد رات کا کھانا کھا لیا جاتا تھا اور اس کے بعد عشاء تک جاگنے کے لیے سب افراد خانہ ایک ساتھ صحن میں بچھی چارپائیوں پر بیٹھ جاتے، دیے کی لو ہوتی یا چاند کی چاندنی۔ آپس میں تبادلۂ خیالات ہوتا، حقہ درمیان میں ہوتا تو اس کی نے دائرے میں گردش کرتی۔ اندھیرا بڑھنے لگتا تو سب سو جاتے تھے تا کہ گزشتہ روز بھر نور کے تڑکے اٹھ سکیں۔
اب تو گھر میں کوئی مہمان بتائے بغیر آتا ہی نہیں، جو کوئی غلطی سے آجائے تو بچوں سے ڈر لگتا ہے کہ دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں، کہیں مہمان کے یوں آ جانے پر وہ جو باتیں کر رہے ہیں، مہمان کے کان تک نہ پہنچ جائیں... تمیز ہی نہیں ہے لوگوں کو ، بغیر اطلاع کے آ جاتے ہیں ۔ پتا نہیں، کب تک رہیں گے، کہیں ڈیرہ ہی نہ لگا لیں، اگر لگا لیں تو!! کہاں رہیں گے؟ کہاں سوئیں گے؟صحت آج کل اتنی متاثر ہے کہ بڑے بڑی بیماریاں بھی چھوٹے چھوٹے بچوں کو لاحق ہو جاتی ہیں۔
اس کا بڑا سبب آج کل کھائی جانے والی خوراک اور اس کا ماخذ ہے۔ گھر سے باہر کھانے کی عادت بھی بہت زیادہ ہے اور باہر نہ بھی جائیں ، اگر گھر پر کچھ ایسا پکا ہوا ہے کہ جسے کھانے کو وہ مائل نہیں تو باہر سے کھانا آرڈر کر کے گھر پر منگوا لیا جاتا ہے۔پہلے والدین بچوں کو سختی سے کہتے تھے کہ جوکچھ گھر پر پکا ہے اور جیسا بھی ہے، وہ سب کے ساتھ کھائیں۔ اگر نہیں کھانا چاہ رہے تو اس کا مطلب ہے کہ بھوک نہیں ہے، صرف طمع ہے۔ اب والدین سے بچوں کی ذرا سی ناراضی برداشت نہیں ہوتی، فوراً ان کے مطالبے پر گھٹنے ٹیک دیے جاتے ہیں، اسی لیے ایک انتہائی ناشکری نسل پروان چڑھ رہی ہے۔
پہلے ہم اس طرح کی باتیں کرتے تھے تو لگتا تھا کہ سو سال پرانی بات کر رہے ہیں، اب بات کرتے ہیں تو دس بیس سال پرانی بات بھی صدیوں پرانا قصہ لگتی ہے۔ معاشرے کی شکل ہر نئے دن کے چڑھنے کے ساتھ بگڑتی جا رہی ہے، اخلاقیات اور اوصاف مسخ ہوتے جارہے ہیں، ترقی صرف مادی ہو رہی ہے، باقی سب کچھ زوال کی طرف ہے۔ وقت بدل رہا ہے، ہر روز بدل رہا ہے مگر بہتری کے بجائے... ابتری کی طرف۔