25 فروری ایک اہم دن

عوام آپس میں شیر و شکر ہے لیکن حکومت اور انگریزوں کے وفادار بالکل نہیں چاہتے کہ اردو کو قومی زبان کا درجہ دیا جائے

nasim.anjum27@gmail.com

25 فروری بڑا ہی خاص اور اہم دن، یہ وہ تاریخ ہے جب 1948 کو اردو کو قومی زبان کا درجہ دیا گیا، اسی تاریخ کو دستور ساز اسمبلی نے اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دیا۔

21 مارچ1948 کو قائد اعظم نے ڈھاکا میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو اور صرف اردو ہوگی۔1973 کے آئین میں بھی قائد کے قول کا اعادہ کیا گیا اور فوری نفاذ کے لیے احکامات صادر کیے گئے۔ اس سے بڑھ کر مذاق اور کیا ہو سکتا ہے کہ موجودہ اورگزشتہ حکومتوں نے قوانین کی دھجیاں بکھیر دیں اور قوم کو انگریزوں کی غلامی کے تسلط سے آزاد نہ کرا سکے آج ہم سب تحریک نفاذ اردو کے پرچم تلے جمع ہوئے ہیں، تحریک نفاذ اردو کے صدر نسیم احمد شاہ ایڈووکیٹ، راقم السطور (نائب صدر)، ممتاز صحافی راشد عزیز، جلیس سلاسل اور دیگر وہ حضرات جو اردو کو قومی زبان کا درجہ دینے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔

تحریک نفاذ اردو کے بانی مبین اختر جو طبیعت کی ناسازی کی بنا پر شرکت نہ فرما سکے۔ گزشتہ برسوں میں جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ایڈووکیٹ کوکب اقبال خواجہ کی دائر کردہ آئینی درخواست پر فیصلہ سنایا۔ اس فیصلے میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ہدایت دی گئی تھی کہ وہ اردو کو سرکاری زبان کے طور پر نافذ کریں۔

سابق چیف جسٹس ایس خواجہ نے اس حقیقت سے بھی آگاہ کیا تھا کہ ایک غیر ملکی زبان میں لوگوں پر حکم صادرکرنا محض ایک اتفاق نہیں ہے یہ سامراجیت کا ایک پرانا اور آزمودہ نسخہ ہے۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ یورپ میں ایک عرصے تک کلیسائی عدالتوں کا راج رہا جہاں شرع و قانون کا بیان صرف لاطینی زبان میں ہوتا تھا جو راہبوں اور شہزادوں کے سوا کسی کی زبان نہیں تھی۔

برصغیر پاک و ہند میں آریائی عہد میں حکمران طبقے نے قانون کو سنسکرت کے حصار میں محدود کردیا تاکہ برہمنوں، شاستریوں اور پنڈتوں کے سوا کسی کے پلے کچھ نہ پڑے، بعد میں درباری اور عدالتی زبان ایک عرصے تک فارسی رہی جو بادشاہوں ، قاضیوں اور رئیسوں کی تو زبان تھی لیکن عوام کی زبان نہ تھی۔ انگریزوں کے غلبے کے بعد لارڈ میکالے کی تہذیب دشمن سوچ کے زیر سایہ ہماری مقامی اور قومی زبانوں کی تحقیر کا ایک نیا باب شروع ہوا جو بدقسمتی سے آج تک جاری ہے اور جس کے نتیجے میں ایک طبقاتی تفریق نے جنم لیا اور ایک ایسی خلیج خواص و عام کے درمیان پیدا کردی جو کسی بھی طور پر قومی یکجہتی کے لیے سازگار نہیں۔

بے شک جسٹس جواد ایس خواجہ کا کردار پاکستان کی تاریخ میں امر ہو چکا ہے ان کی حب الوطنی، قائد کے حکم کی تعمیل ملک کی ترقی اور خوشحالی کی ضامن ہے۔

دنیا کے بیشتر ممالک میں ان کی اپنی زبان بولی جاتی ہے، کامیابی کا راز اسی حقیقت میں مضمر ہے کہ ہر شخص علوم و فنون اور تعلیم سے استفادہ کرسکے۔ جاپان نے اپنی شکست کے بعد اپنے نظام اور تعلیمی نظام کو برقرار رکھا اور چالیس سال کے اندر ایک قوت بن کر دنیا پر چھا گیا۔

چین نے اپنی زبان کو ذریعہ تعلیم بنا کر عالمی قوت کے طور پر اپنے آپ کو منوا لیا ، لیکن ہم آج تک اسی جگہ کھڑے ہیں نہ اپنے ملک سے محبت ہے اور نہ اپنی قومی زبان سے بلکہ نفرت اور تعصب کی دیواروں کو مزید اونچا کر رہے ہیں اس سے سوائے نقصان کے اور کچھ حاصل نہیں ہوا اور نہ ہوگا۔


آخر احساس کمتری کس بات کی ؟ انگریزوں کے پشتی غلام، جنھوں نے انگریزوں کی جھوٹن کھائی ان کے قدموں میں جھکے رہے، اپنے مذہب، تہذیب و ثقافت اور حب الوطنی سے محروم رہے، وہی لوگ اردو کے دشمن ہیں اور ملک کی بنیادوں میں دراڑیں ڈالنے کے لیے انھیں ایک بھاری رقم مہیا کی جاتی ہے جس سے وہ اور ان کے حواری مستفید ہوتے ہیں۔

بابائے اردو مولوی عبدالحق نے فرمایا کہ '' زبان کی ترقی درحقیقت عقل کی ترقی ، قومیت کی ترقی اور انسانیت کی ترقی ہے۔ قومیت کے لیے یک رنگی، یک رنگی کے لیے ہم خیالی اور ہم خیالی کے لیے ہم لسانی کی ضرورت ہے، جہاں زبان ایک نہیں وہاں خیال کا رنگ ایک نہیں، جہاں خیال ایک نہیں، وہاں دل بھی ایک نہیں۔ یہ دلوں کو جوڑتی ہے اور بیگانوں کو یگانہ بناتی ہے۔''

صوبائی اور علاقائی زبانیں بہنوں جیسی ہیں اور قومی زبان اردو کی اہمیت ماں کی طرح مسلم ہے ، لہٰذا مختلف خطوں میں بولی جانے والی زبانوں اور اردو زبان ایک ہی کنبے کی مانند ہیں علم و ادب، شعر و سخن، طب، سائنس، علم نجوم غرض علم کے خزانوں سے مالا مال ہیں، اردو وہ زبان ہے جس میں مختلف زبانوں کے الفاظ شامل ہیں، صوفیا کرام کی تبلیغ نے اسلام اور اردو کو پھلنے پھولنے کا موقعہ فراہم کیا۔ اردو ترکی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی لشکر کے ہیں اسی وجہ سے یہ لشکری زبان کہلائی۔ اردو کی جو قدر و قیمت ہمارے اپنے ملک میں نہیں ہے وہ عزت و وقار دوسرے ملکوں میں کی جاتی ہے۔

ہمارے پڑوسی ملک چین اور جاپان، ترکی، برطانیہ، امریکا، جرمنی جیسے ملکوں میں اردو کی اشاعت اور درس و تدریس کے لیے ادارے اور یونیورسٹیاں قائم ہیں، بے شمار طلبا اردو زبان میں پی ایچ ڈی کرچکے ہیں اور پاکستان کی یونیورسٹیوں میں اردو کی تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں اور اکثر ادھر کے ہی ہوکر رہ جاتے ہیں۔ مستشرقین و مترجمین نے اردو زبان میں فیض ، غالب اور دوسرے کئی اہم شعرا پرکام کیا ہے۔ علامہ اقبال کے کلام کے تراجم کیے گئے اور اہل یورپ کی خاص علمی و ادبی تنظیمیں ان کا یوم پیدائش اور وفات مناتی ہیں۔

پورے پاکستان میں اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات اپنے بچوں کو انگریزی اسکولوں میں ضرور پڑھاتے ہیں لیکن اپنے گھروں میں انگریزی کے ساتھ اردو بولنے کی طرف رغبت دلاتے ہیں کہ یہ ایک مہذبانہ طرز فکر رکھتی ہے۔ شائستگی اور شگفتگی کے پیکر میں ڈھلی ہوئی زبان ہے۔ یہی وجہ ہے دوسری زبانیں بولنے والے لوگ اپنے بچوں کی شادیاں بھی اردو بولنے والے طبقے میں کرنا پسند کرتے ہیں۔

عوام آپس میں شیر و شکر ہے لیکن حکومت اور انگریزوں کے وفادار بالکل نہیں چاہتے کہ اردو کو قومی زبان کا درجہ دیا جائے ، اگر ایسا ہوتا ہے تو سب کو برابری کا درجہ حاصل ہو جائے گا۔ انھی حضرات نے کیمبرج اور او،اے لیول اسکولوں کو قائم کیا ان کے اس انداز فکر سے ایک ہی ملک میں دہرا تعلیمی معیار اور احساس برتری و کمتری کو عروج حاصل ہوا۔ حکومت کا فرض ہے کہ وہ اب مزید کوتاہی نہ برتے، اپنے ملک، اپنے عوام اور ان کی ترقی و تعلیم سے مخلص ہے تو فی الفور اردو کے نفاذ کو سرکاری و غیر سرکاری سطح پر نافذ کرے۔ ایک شعر نذر قارئین:

بات کرنے کا حسین طور طریقہ سیکھا
ہم نے اردو کے بہانے سے سلیقہ سیکھا

(یومِ اردو کی تقریب میں پڑھا گیا مضمون)
Load Next Story