حزب اختلاف کی سیاست پر حکومتی جوابی حکمت عملی
جو سیاسی مہم جوئی حکومت اورحزب اختلاف کے درمیان جاری ہے اس سے حکومت کا واقعی خاتمہ ممکن ہوسکے گا
MANCHESTER:
حزب اختلاف کی عمومی سیاست میں حکومت پر دباو کو بڑھانے کی سیاست ہی ہوتی ہے تاکہ وہ اپنے سیاسی مفادات کو تقویت دے کر حکومتی مشکلات میں اضافہ کریں۔
بدقسمتی سے اگر ہم پچھلے ساڑھے تین برسوں میں حزب اختلاف کی مجموعی سیاست کو دیکھیں تو اس میں ہمیں ان کی کئی کمزوریوں کو دیکھنے کا موقع ملا ہے ۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ حکومت اس لحاظ سے خوش قسمت رہی ہے کہ اسے ایک کمزور اور تقسیم شدہ حزب اختلاف ملی ہے ۔
حالیہ دنوں میں ملکی سیاسی منظر نامہ میں سب سے زیادہ ہلچل '' حکومت گراو تحریک '' یا وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی صورت میں ان کی حکومت کے خاتمہ کی تحریک ہے ۔ وزیر اعظم اور ان کی ٹیم عملی طور پر سیاسی لنگوٹ کس کر میدان میں سامنے آگئے ہیں او راس کا مقصد حزب اختلاف کی سیاست یا سیاسی مہم جوئی پر جوابی حملہ ہے ۔اس کھیل میں حکومت نے چار بنیادی حکمت عملیوں کو ترتیب دیا ہے۔
اول اتحادی جماعتوں اور پارٹی میں موجود گروپ بندی سے نمٹنا ۔ دوئم پٹرول، ڈیزل ،بجلی کی قیمتوں میںکمی ، مختلف ٹیکسوں کی مد میں چھوٹ ، ایمنسٹی اسکیم ، گرایجویٹ کے لیے اسکالر شپ پروگرام ، تیس لاکھ تک گھر بنانے کے لیے بلاسود قرضہ ، سوئم وزیر اعظم کا حزب اختلا ف کے لانگ مارچ کاجوابی وار خود مختلف مقامات پر براہ راست عوام سے رابطہ مہم ، چہارم حزب اختلاف میں اختلاف پیدا کرنا شامل ہے ۔
وزیر اعظم کی حزب اختلاف کی سیاست کے مقابلے میں جوابی حکمت عملی کی سیاسی ٹائیمنگ کافی اہم ہے ۔ کیونکہ ایک ایسے موقع پر جب ایسا لگ رہا ہے کہ حزب اختلاف حتمی جنگ یا حکمت عملی کو اختیار کرنے کی طرف بڑھ رہی ہے یا لوگوں میں مہنگائی کی بنیاد پر اس تاثر کا مضبوط ہونا کہ حکومت عوام کو ریلیف دینے میں ناکام ہے ۔مگر ایسے موقع پر وزیر اعظم کا مختلف امور پر ریلیف پیکیج یقینی طور پر حزب اختلاف کی سیاست کے لیے مشکل پیدا کرسکتا ہے۔
اگرچہ اب حزب اختلاف کا دعوی ہے کہ وزیر اعظم جو کچھ کررہے ہیں یا اقدامات سامنے آئے ہیں اس کی بڑی وجہ ان کی حکومت پر سیاسی چڑھائی ہے ۔ممکن ہے کہ ایسا ہی ہو اور یہ ہی حزب اختلاف کی سیاست ہونی چاہیے تھی کہ وہ بلاوجہ محاز آرائی کی سیاست میں الجھنے کے بجائے منظم ہو کر حکومت پر مضبوط دباو بڑھاتی تو اس کے بہتر نتائج پہلے بھی سامنے آسکتے تھے ۔
وزیر اعظم عمران خان کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ کافی عرصہ سے اپنی پارٹی معاملات سے الگ تھلگ تھے ، اب نئی سیاسی حکمت عملی کے تحت پارٹی کی نئی تنظیم سازی کی گئی ہے اور اسد عمرجو وفاقی وزیر ہیں ان کو پارٹی کا جنرل سیکریٹری بنا کر تنظیم سازی کے معاملات پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے ۔ اس کا احساس وزیر اعظم کو اس وقت زیاد ہ ہوا جب ان کو خیبر پختونخواہ کے پہلے مرحلے کے مقامی حکومتوںکے انتخابات سیاسی پسپائی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اسی طرح وزیر اعظم پارٹی کے اندر موجود جو بھی داخلی مسائل تھے یا ارکان اسمبلی چاہے وہ حکومتی جماعت سے ہوں یا اتحادی جماعتوں سے ان کو نظرانداز کرنے کی پالیسی پر گامزن تھے۔
اب وزیر اعظم کو احساس ہوا ہے کہ اگر نئے انتخابات کی طرف بڑھنا ہے تو ان کو موجودہ سیاسی پالیسی اور طریقہ کار میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں کرنا ہوںگی ۔یہ ہی وجہ ہے کہ وہ حکومتی امور کے ساتھ ساتھ پارٹی اور اتحادی جماعتوں سے جڑے معاملات پر بھی کافی سرگرم نظر آتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان عمومی طور پر جارحانہ کھیل یا مخالفین پر سیاسی برتری کے لیے فرنٹ فٹ پر کھیلنے کے عادی ہیں او رمخالفین کو دباو میں لانے کے لیے وہ مختلف حکمت عملیاں اختیار کرتے ہیں ۔
اب دیکھنا ہوگا کہ حالیہ دنوں میں جو ایک بڑی شدت حزب اختلاف کی سیاست یا عدم اعتماد کی صورت میں سامنے آئی ہے اسے حکومتی حلقہ بالخصوص وزیر اعظم کس جوابی حکمت عملی سے اس کا جواب دیتے ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حزب اختلاف عام انتخابات سے قبل ایک حتمی سیاسی وار کے طو رپر حکومت پر حملہ آور ہوئی ہے او راسے بھی اندازہ ہے کہ اگر اس بار بھی اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تو نہ صرف اس کی سیاسی سبکی ہوگی بلکہ ا سکا بڑا سیاسی فائدہ بھی حکومت اورعمران خان کو ہوگا۔
یہ ہی وجہ ہے کہ حمتی سیاسی وار سے قبل مختلف حکمت عملیوں کی مدد سے معاملات کو دونوں اطراف سے آگے بڑھانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ حکومت کو ایک سیاسی برتری ضرور حاصل ہے کہ حزب اختلاف کی جماعتوں کی سیاسی حکمت عملی میں جہاں تضاد ہے، وہیں ایک دوسرے پر اعتماد سازی کا فقدان بھی ہے ۔ حکومت حزب اختلاف کی اسی سیاسی داخلی تضا د کو بنیاد بناکر اپنے سیاسی کارڈ بھی کھیلنے کی کوشش کر رہی ہے جب کہ حکومت پس پردہ ایک کوشش او رکررہی ہے کہ خود حزب اختلاف کے ارکان میں سے ایک ایسے پارلیمانی گروپ کو سامنے لایا جائے جو اپنی جماعتوں کی سیاست کے مقابلے میں حکومتی حلقوں کا براہ راست یا پس پردہ ساتھ دے کر اپنے جماعتوں کو مشکل میں کھڑا کر دیں۔
بنیادی طو رپر اس وقت حکومت ہو یا حزب اختلاف دونوں طرف ایک سیاسی اعصاب کی جنگ جاری ہے اور دیکھنا ہوگا کہ کون کتنا زیادہ اپنے اعصاب کو کنٹرول کرتا ہے ۔خزب اختلاف کی سیاست نے اس تاثر کو عام کردیا ہے کہ حکومت کو اسٹیبلیشمنٹ کی حمایت حاصل نہیں اور تحریک عدم اعتماد کے معاملے میں اسٹیبلیشمنٹ غیر جانبدرانہ کردار ادا کرے گی ۔یہ ہی وجہ ہے کہ اب حزب اختلاف کی سیاسی تنقید اسٹیبلیشمنٹ پر کم او رحکومت یا وزیر اعظم عمران خان پر زیادہ ہوتی ہے اور اسی کو سیاسی ٹارگٹ کیا ہوا ہے ۔
اب دیکھنا یہ ہوگا کہ حزب اختلاف کے بڑھتے ہوئے سیاسی دباو، تحریک عدم اعتماد کے مقابلے میں جو سیاسی حکمت عملی حکومت نے اختیا رکی ہے اس کے کیا سیاسی نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ جو سیاسی مہم جوئی حکومت اورحزب اختلاف کے درمیان جاری ہے اس سے حکومت کا واقعی خاتمہ ممکن ہوسکے گا اور اگر یہ ہوتا ہے تو آگے کے منظر نامہ کے خدوخال کیا ہونگے وگرنہ دوسری صورت میں معاملات 2023کے عام انتخابات کی طرف ہی بڑھیں گے البتہ تحریک عدم اعتماد کی ناکام حزب اختلاف کے لیے ایک بڑا سیاسی دھچکہ ہوگا۔
حزب اختلاف کی عمومی سیاست میں حکومت پر دباو کو بڑھانے کی سیاست ہی ہوتی ہے تاکہ وہ اپنے سیاسی مفادات کو تقویت دے کر حکومتی مشکلات میں اضافہ کریں۔
بدقسمتی سے اگر ہم پچھلے ساڑھے تین برسوں میں حزب اختلاف کی مجموعی سیاست کو دیکھیں تو اس میں ہمیں ان کی کئی کمزوریوں کو دیکھنے کا موقع ملا ہے ۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ حکومت اس لحاظ سے خوش قسمت رہی ہے کہ اسے ایک کمزور اور تقسیم شدہ حزب اختلاف ملی ہے ۔
حالیہ دنوں میں ملکی سیاسی منظر نامہ میں سب سے زیادہ ہلچل '' حکومت گراو تحریک '' یا وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی صورت میں ان کی حکومت کے خاتمہ کی تحریک ہے ۔ وزیر اعظم اور ان کی ٹیم عملی طور پر سیاسی لنگوٹ کس کر میدان میں سامنے آگئے ہیں او راس کا مقصد حزب اختلاف کی سیاست یا سیاسی مہم جوئی پر جوابی حملہ ہے ۔اس کھیل میں حکومت نے چار بنیادی حکمت عملیوں کو ترتیب دیا ہے۔
اول اتحادی جماعتوں اور پارٹی میں موجود گروپ بندی سے نمٹنا ۔ دوئم پٹرول، ڈیزل ،بجلی کی قیمتوں میںکمی ، مختلف ٹیکسوں کی مد میں چھوٹ ، ایمنسٹی اسکیم ، گرایجویٹ کے لیے اسکالر شپ پروگرام ، تیس لاکھ تک گھر بنانے کے لیے بلاسود قرضہ ، سوئم وزیر اعظم کا حزب اختلا ف کے لانگ مارچ کاجوابی وار خود مختلف مقامات پر براہ راست عوام سے رابطہ مہم ، چہارم حزب اختلاف میں اختلاف پیدا کرنا شامل ہے ۔
وزیر اعظم کی حزب اختلاف کی سیاست کے مقابلے میں جوابی حکمت عملی کی سیاسی ٹائیمنگ کافی اہم ہے ۔ کیونکہ ایک ایسے موقع پر جب ایسا لگ رہا ہے کہ حزب اختلاف حتمی جنگ یا حکمت عملی کو اختیار کرنے کی طرف بڑھ رہی ہے یا لوگوں میں مہنگائی کی بنیاد پر اس تاثر کا مضبوط ہونا کہ حکومت عوام کو ریلیف دینے میں ناکام ہے ۔مگر ایسے موقع پر وزیر اعظم کا مختلف امور پر ریلیف پیکیج یقینی طور پر حزب اختلاف کی سیاست کے لیے مشکل پیدا کرسکتا ہے۔
اگرچہ اب حزب اختلاف کا دعوی ہے کہ وزیر اعظم جو کچھ کررہے ہیں یا اقدامات سامنے آئے ہیں اس کی بڑی وجہ ان کی حکومت پر سیاسی چڑھائی ہے ۔ممکن ہے کہ ایسا ہی ہو اور یہ ہی حزب اختلاف کی سیاست ہونی چاہیے تھی کہ وہ بلاوجہ محاز آرائی کی سیاست میں الجھنے کے بجائے منظم ہو کر حکومت پر مضبوط دباو بڑھاتی تو اس کے بہتر نتائج پہلے بھی سامنے آسکتے تھے ۔
وزیر اعظم عمران خان کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ کافی عرصہ سے اپنی پارٹی معاملات سے الگ تھلگ تھے ، اب نئی سیاسی حکمت عملی کے تحت پارٹی کی نئی تنظیم سازی کی گئی ہے اور اسد عمرجو وفاقی وزیر ہیں ان کو پارٹی کا جنرل سیکریٹری بنا کر تنظیم سازی کے معاملات پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے ۔ اس کا احساس وزیر اعظم کو اس وقت زیاد ہ ہوا جب ان کو خیبر پختونخواہ کے پہلے مرحلے کے مقامی حکومتوںکے انتخابات سیاسی پسپائی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اسی طرح وزیر اعظم پارٹی کے اندر موجود جو بھی داخلی مسائل تھے یا ارکان اسمبلی چاہے وہ حکومتی جماعت سے ہوں یا اتحادی جماعتوں سے ان کو نظرانداز کرنے کی پالیسی پر گامزن تھے۔
اب وزیر اعظم کو احساس ہوا ہے کہ اگر نئے انتخابات کی طرف بڑھنا ہے تو ان کو موجودہ سیاسی پالیسی اور طریقہ کار میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں کرنا ہوںگی ۔یہ ہی وجہ ہے کہ وہ حکومتی امور کے ساتھ ساتھ پارٹی اور اتحادی جماعتوں سے جڑے معاملات پر بھی کافی سرگرم نظر آتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان عمومی طور پر جارحانہ کھیل یا مخالفین پر سیاسی برتری کے لیے فرنٹ فٹ پر کھیلنے کے عادی ہیں او رمخالفین کو دباو میں لانے کے لیے وہ مختلف حکمت عملیاں اختیار کرتے ہیں ۔
اب دیکھنا ہوگا کہ حالیہ دنوں میں جو ایک بڑی شدت حزب اختلاف کی سیاست یا عدم اعتماد کی صورت میں سامنے آئی ہے اسے حکومتی حلقہ بالخصوص وزیر اعظم کس جوابی حکمت عملی سے اس کا جواب دیتے ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حزب اختلاف عام انتخابات سے قبل ایک حتمی سیاسی وار کے طو رپر حکومت پر حملہ آور ہوئی ہے او راسے بھی اندازہ ہے کہ اگر اس بار بھی اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تو نہ صرف اس کی سیاسی سبکی ہوگی بلکہ ا سکا بڑا سیاسی فائدہ بھی حکومت اورعمران خان کو ہوگا۔
یہ ہی وجہ ہے کہ حمتی سیاسی وار سے قبل مختلف حکمت عملیوں کی مدد سے معاملات کو دونوں اطراف سے آگے بڑھانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ حکومت کو ایک سیاسی برتری ضرور حاصل ہے کہ حزب اختلاف کی جماعتوں کی سیاسی حکمت عملی میں جہاں تضاد ہے، وہیں ایک دوسرے پر اعتماد سازی کا فقدان بھی ہے ۔ حکومت حزب اختلاف کی اسی سیاسی داخلی تضا د کو بنیاد بناکر اپنے سیاسی کارڈ بھی کھیلنے کی کوشش کر رہی ہے جب کہ حکومت پس پردہ ایک کوشش او رکررہی ہے کہ خود حزب اختلاف کے ارکان میں سے ایک ایسے پارلیمانی گروپ کو سامنے لایا جائے جو اپنی جماعتوں کی سیاست کے مقابلے میں حکومتی حلقوں کا براہ راست یا پس پردہ ساتھ دے کر اپنے جماعتوں کو مشکل میں کھڑا کر دیں۔
بنیادی طو رپر اس وقت حکومت ہو یا حزب اختلاف دونوں طرف ایک سیاسی اعصاب کی جنگ جاری ہے اور دیکھنا ہوگا کہ کون کتنا زیادہ اپنے اعصاب کو کنٹرول کرتا ہے ۔خزب اختلاف کی سیاست نے اس تاثر کو عام کردیا ہے کہ حکومت کو اسٹیبلیشمنٹ کی حمایت حاصل نہیں اور تحریک عدم اعتماد کے معاملے میں اسٹیبلیشمنٹ غیر جانبدرانہ کردار ادا کرے گی ۔یہ ہی وجہ ہے کہ اب حزب اختلاف کی سیاسی تنقید اسٹیبلیشمنٹ پر کم او رحکومت یا وزیر اعظم عمران خان پر زیادہ ہوتی ہے اور اسی کو سیاسی ٹارگٹ کیا ہوا ہے ۔
اب دیکھنا یہ ہوگا کہ حزب اختلاف کے بڑھتے ہوئے سیاسی دباو، تحریک عدم اعتماد کے مقابلے میں جو سیاسی حکمت عملی حکومت نے اختیا رکی ہے اس کے کیا سیاسی نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ جو سیاسی مہم جوئی حکومت اورحزب اختلاف کے درمیان جاری ہے اس سے حکومت کا واقعی خاتمہ ممکن ہوسکے گا اور اگر یہ ہوتا ہے تو آگے کے منظر نامہ کے خدوخال کیا ہونگے وگرنہ دوسری صورت میں معاملات 2023کے عام انتخابات کی طرف ہی بڑھیں گے البتہ تحریک عدم اعتماد کی ناکام حزب اختلاف کے لیے ایک بڑا سیاسی دھچکہ ہوگا۔