صحرا کا سفر
چولستان کی طرح تھر کا صحرا بھی ہرن اور دوسرے شکار کے لیے خاصی اہمیت کا حامل ہے
ISLAMABAD:
تھر کے صحرا کا سفر چولستان کے سفر سے خاصی مشابہت رکھتا ہے لیکن دونوں صحرائوں کی اپنی انفرادیت ہے۔چولستان کی نسبت تھر کے علاقے میں ہندو کلچر اور رسومات نمایاں ہیں۔
تھر کا علاقہ صدیوں بھارت کے صوبوں جیسلمیر اور راجستھان سے منسلک رہا ہے۔ اس وجہ سے یہاں کی ثقافت، تہذیب اور رسومات پر راجستھانی تہذیب کے اثرات نمایاں ہیں۔ مجھے صحرا چولستان اور تھر کے علاوہ بھارت کے صحرا راجستھان کے سفر کا موقع بھی ملا ہے۔ان تینوں صحرائوں کے سفر کی روداد دلچسپ اور معلوماتی ہے۔ آج میں صحرائے تھر کے علاقے عمر کوٹ کے حوالے سے کالم قارئین کی خدمت میںپیش کر رہا ہوں۔
عمر کوٹ وہ مقام ہے جہاں اکبر اعظم کی ولادت ہوئی۔ 1542ء میں اکبر اعظم کا جنم عمر کوٹ قلعہ سے شمال کے جانب ایک کلو میٹر فاصلہ پر ہوا ۔اس جگہ ایک یاد گار اب بھی موجود ہے جسے غیر ملکی سیاح دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔اکبر کے دور اقتدار میں عمر کوٹ دہلی کے تابع تھا۔اکبر اعظم کی جائے ولادت کی یادگار اور عمر کوٹ کے قلعے کی حالت کو دیکھ کر یہی کہا جا سکتا ہے کہ ہمیں نہ تو حال کی فکرہے اور نہ ہی ماضی کا خیال۔ہم نہ تو اپنے زندہ ہیروزکی قدر کرتے ہیں اور نہ ماضی کے نشان راہ کی۔ ہم نے عمرکوٹ میں اہم تارتخی میراث کو بھی نہ سنبھالنے کی قسم کھا رکھی ہے۔
صحرائے تھر کے ان تاریخی آثاروں کی حفاظت ہمارا قومی فریضہ بھی ہے۔ اکبر کی جائے پیدائش ہو یا عمر ماروی کی داستان کے نشان، یہ سب ہماری تاریخ اور ثقافت کا اہم حصہ ہیں۔ تاریخی آثار جہاں بھی ہوں اسے نئی نسلوں کے لیے محفوظ کرنا زندہ قوموں کی علامت ہوتاہے۔ علامہ اقبالؒ نے غالباً اسی حوالے سے کہا ہے:
زندہ فرد ازارتباط جان وتن
زندہ قوم از ارتباط حفظ و کہن
عمر کوٹ کے قلعے کے درمیان ایک مچان ہے اس کی سیڑھیوں کے دائیں ہاتھ ایک کتبہ نصب ہے جس پر قلعے کی تاریخ درج ہے۔ ''عمر کوٹ کے تاریخی قلعہ نے مختلف حکمران خاندان کے عروج و زوال کو دیکھا ہے۔عمر کوٹ کا شہر سومرا گھرانے نے1050 سے 1350کے پہلے حاکم عمر نے بنوایا تھا۔ تیرھویں صدی کے آخری حصے میں ایک راجپوت حکمران پرمارسوڈھا نے اس شہر پر تسلط قائم کیا اس کی اولاد میں سے رانا پرشاد نے اپنا لشکر لے کراس وقت کے مغل بادشاہ ہمایوں کا استقبال کیا جب وہ 1541 میں شیر شاہ سوری کے ہاتھوں شکست کھا کرسندھ میں وارد ہوا تھا۔ہمایوں کا اکلوتا بیٹا اکبر عمر کوٹ میں پیدا ہوا تھا...''
بعض تاریخ دانوں نے لکھا ہے کہ عمر کوٹ کا قلعہ عمر سومرو نے بنایا تھا اُسی دور میں عمر اور ماروی کی لوک داستان مشہور ہوئی ،داستان کے مطابق عمر بادشاہ نے شہر سے دوسو میل دور آباد ایک گائوں ''گوٹھ بھالوا'' کی ماروی نامی لڑکی کو اغوا کر کے عمر کوٹ کے قلعے میں قید رکھا۔عمر سومرو اس لڑکی سے شادی کا خواہشمند تھا۔ عمر کی تمام تر کوششوں کے باوجود ماروی شادی کے لیے تیار نہ ہوئی۔آخر کار ماروی نے عمر بادشاہ کو بھائی کہہ کر شادی کرنے سے سے صاف انکار کر دیا۔
عمر بادشاہ نے دل شکتہ ہو کر ماروی کو قید سے رہا کر کے ان کے آبائی گوٹھ بھالوا پہنچا دیا۔انتقال کے بعد ماروی ایک مافوق الفطرت کردار بن کر ابھری۔ ماروی کے آبائی گائوں میں ہر سال ''ماروی میلہ'' لگتا ہے۔تھر کے صحرائوں کی اس مشہور کہانی ماروی کا محور اور مرکز بھی عمر کوٹ کا یہ قلعہ ہی ہے ۔ماروی پر پاکستان ٹیلی ویژن نے ایک ڈرامہ سیریل بھی بنائی جسے عوامی مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس ڈرامے کی وجہ سے عمر اور ماروی کا کردار اب بھی لوگوں کے ذہنوں میں اجاگر ہے۔
عمر کوٹ شہر کی آبادی تقریباً دو لاکھ ہے۔ ذریعہ معاش نوے فیصد زراعت پر ہے۔کراچی سے حیدر آباد اور میر پور خاص کے راستے ٹرین یا سڑک کے ذریعے عمر کوٹ پہنچا جاتا ہے۔ عمر کوٹ سے کچھ آگے ''چھور'' کا علاقہ ہے۔ چھور میں فوجی چھاونی بھی ہے۔ چھور سے ایک راستہ'' ڈھورنارو'' کی طرف جاتا ہے۔ سندھ کا یہ صحرائی علاقہ پاک بھارت سرحد کو تقسیم کرتا ہے۔پاک سرحد کے دوسری جانب راجستھان کا علاقہ ہے۔ کراچی سے بھارت جانیوالی ٹرین ''تھر ایکسپریس'' بھی اسی راستے سے انڈیا جاتی ہے۔ زیرو پوائنٹ اسٹیشن پردونوں ممالک کی سرحدیں ملتی ہیں۔ پاکستانی سرحدی ریلوے اسٹیشن ''کھوکھراپار'' ہے جب کہ بھارت کا سرحدی ریلوے اسٹیشن ''مونا بائو'' ہے۔
چولستان کی طرح تھر کا صحرا بھی ہرن اور دوسرے شکار کے لیے خاصی اہمیت کا حامل ہے۔صحرائے تھر کے مقامی باشندے اب بھی انتہائی کسمپرسی کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ چولستان کی طرح یہاں کے عوام بھی پینے کے پانی اور ضروری رہائشی سہولتوں کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں۔ ٹوبے کا پانی پیتے ہیں (ٹوبہ اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں بارش کا پانی جمع ہو جاتا ہے)وقت کا تقاضہ ہے کہ صحرائے تھر کے مکینوں کو بنیادی سہولتیں فراہم کی جائیں۔ تھر ایک قدیم تاریخ رکھنے کے ساتھ ساتھ عظیم ثقافت بھی رکھتا ہے۔ آیندہ نسلوں کے لیے اسے محفوظ کرنا ہم سب کی قومی ذمے داری ہے۔
تھر کے صحرا کا سفر چولستان کے سفر سے خاصی مشابہت رکھتا ہے لیکن دونوں صحرائوں کی اپنی انفرادیت ہے۔چولستان کی نسبت تھر کے علاقے میں ہندو کلچر اور رسومات نمایاں ہیں۔
تھر کا علاقہ صدیوں بھارت کے صوبوں جیسلمیر اور راجستھان سے منسلک رہا ہے۔ اس وجہ سے یہاں کی ثقافت، تہذیب اور رسومات پر راجستھانی تہذیب کے اثرات نمایاں ہیں۔ مجھے صحرا چولستان اور تھر کے علاوہ بھارت کے صحرا راجستھان کے سفر کا موقع بھی ملا ہے۔ان تینوں صحرائوں کے سفر کی روداد دلچسپ اور معلوماتی ہے۔ آج میں صحرائے تھر کے علاقے عمر کوٹ کے حوالے سے کالم قارئین کی خدمت میںپیش کر رہا ہوں۔
عمر کوٹ وہ مقام ہے جہاں اکبر اعظم کی ولادت ہوئی۔ 1542ء میں اکبر اعظم کا جنم عمر کوٹ قلعہ سے شمال کے جانب ایک کلو میٹر فاصلہ پر ہوا ۔اس جگہ ایک یاد گار اب بھی موجود ہے جسے غیر ملکی سیاح دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔اکبر کے دور اقتدار میں عمر کوٹ دہلی کے تابع تھا۔اکبر اعظم کی جائے ولادت کی یادگار اور عمر کوٹ کے قلعے کی حالت کو دیکھ کر یہی کہا جا سکتا ہے کہ ہمیں نہ تو حال کی فکرہے اور نہ ہی ماضی کا خیال۔ہم نہ تو اپنے زندہ ہیروزکی قدر کرتے ہیں اور نہ ماضی کے نشان راہ کی۔ ہم نے عمرکوٹ میں اہم تارتخی میراث کو بھی نہ سنبھالنے کی قسم کھا رکھی ہے۔
صحرائے تھر کے ان تاریخی آثاروں کی حفاظت ہمارا قومی فریضہ بھی ہے۔ اکبر کی جائے پیدائش ہو یا عمر ماروی کی داستان کے نشان، یہ سب ہماری تاریخ اور ثقافت کا اہم حصہ ہیں۔ تاریخی آثار جہاں بھی ہوں اسے نئی نسلوں کے لیے محفوظ کرنا زندہ قوموں کی علامت ہوتاہے۔ علامہ اقبالؒ نے غالباً اسی حوالے سے کہا ہے:
زندہ فرد ازارتباط جان وتن
زندہ قوم از ارتباط حفظ و کہن
عمر کوٹ کے قلعے کے درمیان ایک مچان ہے اس کی سیڑھیوں کے دائیں ہاتھ ایک کتبہ نصب ہے جس پر قلعے کی تاریخ درج ہے۔ ''عمر کوٹ کے تاریخی قلعہ نے مختلف حکمران خاندان کے عروج و زوال کو دیکھا ہے۔عمر کوٹ کا شہر سومرا گھرانے نے1050 سے 1350کے پہلے حاکم عمر نے بنوایا تھا۔ تیرھویں صدی کے آخری حصے میں ایک راجپوت حکمران پرمارسوڈھا نے اس شہر پر تسلط قائم کیا اس کی اولاد میں سے رانا پرشاد نے اپنا لشکر لے کراس وقت کے مغل بادشاہ ہمایوں کا استقبال کیا جب وہ 1541 میں شیر شاہ سوری کے ہاتھوں شکست کھا کرسندھ میں وارد ہوا تھا۔ہمایوں کا اکلوتا بیٹا اکبر عمر کوٹ میں پیدا ہوا تھا...''
بعض تاریخ دانوں نے لکھا ہے کہ عمر کوٹ کا قلعہ عمر سومرو نے بنایا تھا اُسی دور میں عمر اور ماروی کی لوک داستان مشہور ہوئی ،داستان کے مطابق عمر بادشاہ نے شہر سے دوسو میل دور آباد ایک گائوں ''گوٹھ بھالوا'' کی ماروی نامی لڑکی کو اغوا کر کے عمر کوٹ کے قلعے میں قید رکھا۔عمر سومرو اس لڑکی سے شادی کا خواہشمند تھا۔ عمر کی تمام تر کوششوں کے باوجود ماروی شادی کے لیے تیار نہ ہوئی۔آخر کار ماروی نے عمر بادشاہ کو بھائی کہہ کر شادی کرنے سے سے صاف انکار کر دیا۔
عمر بادشاہ نے دل شکتہ ہو کر ماروی کو قید سے رہا کر کے ان کے آبائی گوٹھ بھالوا پہنچا دیا۔انتقال کے بعد ماروی ایک مافوق الفطرت کردار بن کر ابھری۔ ماروی کے آبائی گائوں میں ہر سال ''ماروی میلہ'' لگتا ہے۔تھر کے صحرائوں کی اس مشہور کہانی ماروی کا محور اور مرکز بھی عمر کوٹ کا یہ قلعہ ہی ہے ۔ماروی پر پاکستان ٹیلی ویژن نے ایک ڈرامہ سیریل بھی بنائی جسے عوامی مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس ڈرامے کی وجہ سے عمر اور ماروی کا کردار اب بھی لوگوں کے ذہنوں میں اجاگر ہے۔
عمر کوٹ شہر کی آبادی تقریباً دو لاکھ ہے۔ ذریعہ معاش نوے فیصد زراعت پر ہے۔کراچی سے حیدر آباد اور میر پور خاص کے راستے ٹرین یا سڑک کے ذریعے عمر کوٹ پہنچا جاتا ہے۔ عمر کوٹ سے کچھ آگے ''چھور'' کا علاقہ ہے۔ چھور میں فوجی چھاونی بھی ہے۔ چھور سے ایک راستہ'' ڈھورنارو'' کی طرف جاتا ہے۔ سندھ کا یہ صحرائی علاقہ پاک بھارت سرحد کو تقسیم کرتا ہے۔پاک سرحد کے دوسری جانب راجستھان کا علاقہ ہے۔ کراچی سے بھارت جانیوالی ٹرین ''تھر ایکسپریس'' بھی اسی راستے سے انڈیا جاتی ہے۔ زیرو پوائنٹ اسٹیشن پردونوں ممالک کی سرحدیں ملتی ہیں۔ پاکستانی سرحدی ریلوے اسٹیشن ''کھوکھراپار'' ہے جب کہ بھارت کا سرحدی ریلوے اسٹیشن ''مونا بائو'' ہے۔
چولستان کی طرح تھر کا صحرا بھی ہرن اور دوسرے شکار کے لیے خاصی اہمیت کا حامل ہے۔صحرائے تھر کے مقامی باشندے اب بھی انتہائی کسمپرسی کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ چولستان کی طرح یہاں کے عوام بھی پینے کے پانی اور ضروری رہائشی سہولتوں کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں۔ ٹوبے کا پانی پیتے ہیں (ٹوبہ اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں بارش کا پانی جمع ہو جاتا ہے)وقت کا تقاضہ ہے کہ صحرائے تھر کے مکینوں کو بنیادی سہولتیں فراہم کی جائیں۔ تھر ایک قدیم تاریخ رکھنے کے ساتھ ساتھ عظیم ثقافت بھی رکھتا ہے۔ آیندہ نسلوں کے لیے اسے محفوظ کرنا ہم سب کی قومی ذمے داری ہے۔