لانگ مارچ کے پیچھے…
پاکستان ایک نئی خارجہ پالیسی دینے جارہا ہے جس میں ہم کسی بھی بلاک کے ساتھ نہیں ہوںگے
میرا کالم چھپنے تک لانگ مارچ لاہور تک پہنچ چکا ہوگااور عدم اعتماد کے لیے نمبر گیم اور بھی ابھر کے سامنے آچکی ہوگی۔
پیپلز پارٹی کا لانگ مارچ ہماری تاریخ کے یہ پرانے لانگ مارچوں کا تسلسل ہے۔ اس بار لانگ مارچ کی رسم کے پیچھے کچھ ہونہ ہو لیکن اتنا ضرور دکھائی دے رہا ہے کہ اسٹبلشمنٹ نیوٹرل ہوگئی ہے۔ اتنا ہی کافی ہے، باقی بچتا کیا ہے؟ خان صاحب کی پارٹی انھی بیساکھیوں کا عکس ہے، اگر بیساکھیاں نکل گئی ہیں تو رہتا پھر کیا ہے۔
چپک رہا ہے بدن پر لہو سے پیراہن
ہمارے جیب کو اب حاجت رفو کیا ہے
حکومتی اتحادیوں کے دائیں،بائیں کون ہے۔ خان صاحب کی پارٹی کے اندر بھی بہت سے ہیں، ان کے پیچھے کون ہیں؟ اور خود جو انھوں نے گھوٹکی سے کراچی کا لانگ مارچ کیا ہے ،وزیر خارجہ کی قیادت میں ان کے بہت سے بھی بہت کچھ جانتے ہونگے کیونکہ آدمی کم اور کرسیاں زیادہ ہیں۔ ایسی رسوائی سے بہتر تھا ، سندھ حکومت کے خلاف لانگ مارچ ہی نہ کیا ہوتا۔
میاں صاحب نے ڈیڑھ برس قبل جو تحریک پی ڈی ایم کے نام سے گوجرانوالہ سے شروع کی تھی توانھوں نے اپنی ٹیلی فونک تقریر میں دو خاص ناموں کو ہدف بنایا تھا۔ یہ بات بلاول بھٹو کو پتہ تھی کہ اتنا ان پتوں میں دم نہیں جتنی تیزان کی سرسراہٹ ہے اورآخرکار پیپلز پارٹی نکل کے باہر کھڑی ہوگئی۔ جو انقلاب میاں صاحب کے دماغ میں تھا کہ اب وقت آگیا ہے اسٹبلیشمنٹ کی سیاست میں مداخلت کو بند کرنے کا۔ میاں صاحب کی عزت سر آنکھوں پر مگر سیاست زمینی حقائق پر ہوتی ہے۔
یہ تو خدا کا شکر ہے کہ خان صاحب انتہائی ناقص کارکردگی دے سکے اور نیب کچھ بھی ثابت نہ کر پائی تو خود میاں صاحب کو جس طرح وزارت عظمیٰ سے دھکے دے کر نکالا گیا بلکہ تا عمر سیاست کرنے سے خارج کر دیا گیا۔ نیب عدالت کے جس جج نے ان کا فیصلہ سنایا وہ خود ہی وڈیوز کا شکار ہوگئے، اگر یہ سب نہ ہوتا ، خان کی پرفارمنس بہتر ہوتی اتنا فاشزم یہ حکومت نہ کر پاتی تو دس سال تو پکے تھے لیکن خان صاحب نے صرف انداز بیاں ، ڈیکوریشن اور خوبصورت تصاویر اور باتوں سے نوازا ۔ پورا کا پورا ہائبرڈ سسٹم بیٹھ گیا مگر حالات اب بھی ایسے نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کو سیاست سے کنارہ کش کرایا جا سکے۔
کل جب سانحہ ڈھاکا ہوا تھا تو اسٹبلشمنٹ کے زخموں پر مرہم رکھنے والا کوئی اور نہیں بلکہ ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ وہ بھی کیا تھے پنجاب کے ووٹ کا عکس تھے یہ کہنا کہ بھٹو نے سانحہ ڈھاکا میں منفی کردار ادا کیا اس بات کی میرٹ ہوگی مگر یہ اخلاقی پہلو ہے۔ زمینی حقائق کے مطابق بھٹو در اصل خود جنگی جنون، ہندوستان دشمنی، کشمیر کے بیانیہ کی کوکھ سے نکلے ایک سیاستدان تھے۔
جب شملہ معاہدہ میں پاکستان کو ذلت سے گزرنا ہوا، وہ اس پر خوب کھیلے اور ایک دم سے ملک کی سیاسی افق پر شیخ مجیب کے سامنے ایک لیڈر بن کر ابھرے۔ یہ وہ حقیقت ہے جس پر اسٹبلشمنٹ میں اعتماد آیا اور بھٹو کے پیچھے تھا پنجاب کا ووٹ ، جو ان کا سندھ کا ووٹ تھا اس بیانیہ کو کوکھ سے نہیں بلکہ اس لیے تھا کہ وہ سندھ میں وڈیروں کو جلسوں میں برا بھلا کہتے تھے، وہ غریبوں کے ہمدرد نظر آتے تھے مگر ان کی پارٹی میں وڈیرے ہی وڈیرے تھے۔
ہمار ی پیپلز پارٹی نے اسٹبلشمنٹ کو اب کی بار سہارا دیا ہے یا میاں صاحب کو قائل کیا ہے۔ عوام میں اتنی شناسائی نہیں آئی، یہ زمانہ دنیا بھر میں جمہوریتوں کے لیے اچھا نہیں ہے اور اسٹبلشمنٹ نے بھی محسوس کیا ہے کہ جمہوریت کو مکمل رول بیک نہیں کیا جاسکتا ،لہٰذاواپس اسی سول ملٹری توازن والے یعنی نیم جمہوریت جس کو انگریزی میں diluted democracy (quasi democracy) کہا جاتا ہے ، کی طرف واپس جایا جائے۔
اس میں ایک اور پہلو جو مجھے نظر آتا ہے وہ یہ بھی ہے کہ ایسی اقتداری سوچ کے لوگ خان صاحب کی پارٹی میں بھی ہیں تو اسٹبلشمنٹ میں بھی جو اس ملک ہمیشہ فرنٹ لائن اسٹیٹ کے پس منظر میں دیکھتے ہیں۔ جس طرح کل سرد جنگ میں ہم امریکا کے کلائنٹ اسٹیٹ تھے اور سوویت یونین کے خلاف خوب استعمال ہوئے۔ 2010 میں کیری لوگر بل سے امریکا نے پاکستان اسٹبلیشمنٹ سے بات چیت کرنے سے گریز کرتے ہوئے پاکستان کی سول قیادت سے بات کرنے کو ترجیح دی۔ ہماری اسٹبلیشمنٹ نے جو اسٹرٹیجی بنائی اس میں روس چین ان کو زیادہ اچھے لگے، اس لیے کہ وہ ان سے براہ راست بات چیت کرنے کے لیے تیار تھے اور ان کو پاکستان میں انسانی حقوق ، آزاد میڈیا جمہوریت سے کوئی لگائو بھی نہیں جو کہ ویسٹ کو ہے، مگر اس وقت دنیا مزید مشکل ہوگئی ہے۔ سرد جنگ کے زمانے میں جو سعودی عرب افغان مجاہدین کی حمایت کرتا تھا اب وہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے۔
یہ جو ہم لانگ مارچ دیکھ رہے ہیں وہ ان سب باتوں میں پاکستان کی تبدیل ہوتی ہوئی صورتحال کا عکس ہے تو خود دنیا کی تبدیل ہوتی ہوئی صورتحال بھی ایک چھوٹا سا ہی سہی ، یقینا ایک سبب ہے۔ سب سے پہلے تو انتخابات اس سال کی آخر تک ہونے کو جارہے ہیں یا اس سے پہلے اور اس مرتبہ یہ انتخابات 2018 والے دھاندلی شدہ نہیں ہوںگے۔
پاکستان ایک نئی خارجہ پالیسی دینے جارہا ہے جس میں ہم کسی بھی بلاک کے ساتھ نہیں ہوںگے۔ ساتھ ساتھ ہمارے تعلقات سعودی عرب وغیرہ چاہے گا کہ ہندوستان سے اگر بہتر نہ بھی ہوں تو کم از کم مخاصمانہ بھی نہ ہوں ۔ کشمیر کا مسئلہ حل نہ ہو مگر ہم دو ممالک آپس میں تجارتی تعلقات استوار کرسکیں۔ ہم نے سنا ہے پابندیاں ماضی میں بھی لگائی جاتی تھیں، پہلی جنگ عظیم ہو یا دوسری۔ پھر یہ پابندیاں ایران سے لے کر عراق کئی ممالک پر لگیں، شاید اتنی پائیدار نہ تھیں، مگر اب کے جو بھی دنیا کے قوانین توڑے گا جارجیت کریگا یا جو مغرب کے مفادات سے ٹکر لے گا، مغرب کے پاس پابندیاں لگانے والا ہتھیار نتائج دیتا ہوا نظر آرہا ہے۔
یوکرین میں ہوسکتا ہے ہزاروں لوگ مرجائیں، مگر یہ پیوتن کو داخلی طور پر کمزور کریں گے کیونکہ روس کی معیشت، مغرب کی لگائی ہوئی پابندیوں کی وجہ سے گھٹنوں کے بل بیٹھنے کو ہے جس کے نتیجے میں پیوتن اپنی آمریت روس کے لوگوں پر زیادہ دیر مسلط نہیں کرپائے گا۔ خود چین روس کی کھل کے حمایت کرنے سے اجتناب کررہاہے۔ یہ باور کرانے کے لیے کہ وہ دنیا کی کمیونٹی میں ذمے دار ملک ہے۔
لیکن ہمای نظریں اس وقت ملک کے اندر جاری سیاسی دنگل پر مرکوز ہیں۔ ہم واپس اس منزل کی طرف گامزن ہیں جو 2018 سے پہلے تھی مگر میاں صاحب کے لیے خاص ہدایت یہ کہ وہ چیزوں کو اتنا تیز نہ لے جائیں جہاں جمہوریت پٹڑی سے اتر جائے جس طرح 1998 میں اتر گئی تھی یا جس طرح 2018 میں اتری تھی۔
پیپلز پارٹی کا لانگ مارچ ہماری تاریخ کے یہ پرانے لانگ مارچوں کا تسلسل ہے۔ اس بار لانگ مارچ کی رسم کے پیچھے کچھ ہونہ ہو لیکن اتنا ضرور دکھائی دے رہا ہے کہ اسٹبلشمنٹ نیوٹرل ہوگئی ہے۔ اتنا ہی کافی ہے، باقی بچتا کیا ہے؟ خان صاحب کی پارٹی انھی بیساکھیوں کا عکس ہے، اگر بیساکھیاں نکل گئی ہیں تو رہتا پھر کیا ہے۔
چپک رہا ہے بدن پر لہو سے پیراہن
ہمارے جیب کو اب حاجت رفو کیا ہے
حکومتی اتحادیوں کے دائیں،بائیں کون ہے۔ خان صاحب کی پارٹی کے اندر بھی بہت سے ہیں، ان کے پیچھے کون ہیں؟ اور خود جو انھوں نے گھوٹکی سے کراچی کا لانگ مارچ کیا ہے ،وزیر خارجہ کی قیادت میں ان کے بہت سے بھی بہت کچھ جانتے ہونگے کیونکہ آدمی کم اور کرسیاں زیادہ ہیں۔ ایسی رسوائی سے بہتر تھا ، سندھ حکومت کے خلاف لانگ مارچ ہی نہ کیا ہوتا۔
میاں صاحب نے ڈیڑھ برس قبل جو تحریک پی ڈی ایم کے نام سے گوجرانوالہ سے شروع کی تھی توانھوں نے اپنی ٹیلی فونک تقریر میں دو خاص ناموں کو ہدف بنایا تھا۔ یہ بات بلاول بھٹو کو پتہ تھی کہ اتنا ان پتوں میں دم نہیں جتنی تیزان کی سرسراہٹ ہے اورآخرکار پیپلز پارٹی نکل کے باہر کھڑی ہوگئی۔ جو انقلاب میاں صاحب کے دماغ میں تھا کہ اب وقت آگیا ہے اسٹبلیشمنٹ کی سیاست میں مداخلت کو بند کرنے کا۔ میاں صاحب کی عزت سر آنکھوں پر مگر سیاست زمینی حقائق پر ہوتی ہے۔
یہ تو خدا کا شکر ہے کہ خان صاحب انتہائی ناقص کارکردگی دے سکے اور نیب کچھ بھی ثابت نہ کر پائی تو خود میاں صاحب کو جس طرح وزارت عظمیٰ سے دھکے دے کر نکالا گیا بلکہ تا عمر سیاست کرنے سے خارج کر دیا گیا۔ نیب عدالت کے جس جج نے ان کا فیصلہ سنایا وہ خود ہی وڈیوز کا شکار ہوگئے، اگر یہ سب نہ ہوتا ، خان کی پرفارمنس بہتر ہوتی اتنا فاشزم یہ حکومت نہ کر پاتی تو دس سال تو پکے تھے لیکن خان صاحب نے صرف انداز بیاں ، ڈیکوریشن اور خوبصورت تصاویر اور باتوں سے نوازا ۔ پورا کا پورا ہائبرڈ سسٹم بیٹھ گیا مگر حالات اب بھی ایسے نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کو سیاست سے کنارہ کش کرایا جا سکے۔
کل جب سانحہ ڈھاکا ہوا تھا تو اسٹبلشمنٹ کے زخموں پر مرہم رکھنے والا کوئی اور نہیں بلکہ ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ وہ بھی کیا تھے پنجاب کے ووٹ کا عکس تھے یہ کہنا کہ بھٹو نے سانحہ ڈھاکا میں منفی کردار ادا کیا اس بات کی میرٹ ہوگی مگر یہ اخلاقی پہلو ہے۔ زمینی حقائق کے مطابق بھٹو در اصل خود جنگی جنون، ہندوستان دشمنی، کشمیر کے بیانیہ کی کوکھ سے نکلے ایک سیاستدان تھے۔
جب شملہ معاہدہ میں پاکستان کو ذلت سے گزرنا ہوا، وہ اس پر خوب کھیلے اور ایک دم سے ملک کی سیاسی افق پر شیخ مجیب کے سامنے ایک لیڈر بن کر ابھرے۔ یہ وہ حقیقت ہے جس پر اسٹبلشمنٹ میں اعتماد آیا اور بھٹو کے پیچھے تھا پنجاب کا ووٹ ، جو ان کا سندھ کا ووٹ تھا اس بیانیہ کو کوکھ سے نہیں بلکہ اس لیے تھا کہ وہ سندھ میں وڈیروں کو جلسوں میں برا بھلا کہتے تھے، وہ غریبوں کے ہمدرد نظر آتے تھے مگر ان کی پارٹی میں وڈیرے ہی وڈیرے تھے۔
ہمار ی پیپلز پارٹی نے اسٹبلشمنٹ کو اب کی بار سہارا دیا ہے یا میاں صاحب کو قائل کیا ہے۔ عوام میں اتنی شناسائی نہیں آئی، یہ زمانہ دنیا بھر میں جمہوریتوں کے لیے اچھا نہیں ہے اور اسٹبلشمنٹ نے بھی محسوس کیا ہے کہ جمہوریت کو مکمل رول بیک نہیں کیا جاسکتا ،لہٰذاواپس اسی سول ملٹری توازن والے یعنی نیم جمہوریت جس کو انگریزی میں diluted democracy (quasi democracy) کہا جاتا ہے ، کی طرف واپس جایا جائے۔
اس میں ایک اور پہلو جو مجھے نظر آتا ہے وہ یہ بھی ہے کہ ایسی اقتداری سوچ کے لوگ خان صاحب کی پارٹی میں بھی ہیں تو اسٹبلشمنٹ میں بھی جو اس ملک ہمیشہ فرنٹ لائن اسٹیٹ کے پس منظر میں دیکھتے ہیں۔ جس طرح کل سرد جنگ میں ہم امریکا کے کلائنٹ اسٹیٹ تھے اور سوویت یونین کے خلاف خوب استعمال ہوئے۔ 2010 میں کیری لوگر بل سے امریکا نے پاکستان اسٹبلیشمنٹ سے بات چیت کرنے سے گریز کرتے ہوئے پاکستان کی سول قیادت سے بات کرنے کو ترجیح دی۔ ہماری اسٹبلیشمنٹ نے جو اسٹرٹیجی بنائی اس میں روس چین ان کو زیادہ اچھے لگے، اس لیے کہ وہ ان سے براہ راست بات چیت کرنے کے لیے تیار تھے اور ان کو پاکستان میں انسانی حقوق ، آزاد میڈیا جمہوریت سے کوئی لگائو بھی نہیں جو کہ ویسٹ کو ہے، مگر اس وقت دنیا مزید مشکل ہوگئی ہے۔ سرد جنگ کے زمانے میں جو سعودی عرب افغان مجاہدین کی حمایت کرتا تھا اب وہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے۔
یہ جو ہم لانگ مارچ دیکھ رہے ہیں وہ ان سب باتوں میں پاکستان کی تبدیل ہوتی ہوئی صورتحال کا عکس ہے تو خود دنیا کی تبدیل ہوتی ہوئی صورتحال بھی ایک چھوٹا سا ہی سہی ، یقینا ایک سبب ہے۔ سب سے پہلے تو انتخابات اس سال کی آخر تک ہونے کو جارہے ہیں یا اس سے پہلے اور اس مرتبہ یہ انتخابات 2018 والے دھاندلی شدہ نہیں ہوںگے۔
پاکستان ایک نئی خارجہ پالیسی دینے جارہا ہے جس میں ہم کسی بھی بلاک کے ساتھ نہیں ہوںگے۔ ساتھ ساتھ ہمارے تعلقات سعودی عرب وغیرہ چاہے گا کہ ہندوستان سے اگر بہتر نہ بھی ہوں تو کم از کم مخاصمانہ بھی نہ ہوں ۔ کشمیر کا مسئلہ حل نہ ہو مگر ہم دو ممالک آپس میں تجارتی تعلقات استوار کرسکیں۔ ہم نے سنا ہے پابندیاں ماضی میں بھی لگائی جاتی تھیں، پہلی جنگ عظیم ہو یا دوسری۔ پھر یہ پابندیاں ایران سے لے کر عراق کئی ممالک پر لگیں، شاید اتنی پائیدار نہ تھیں، مگر اب کے جو بھی دنیا کے قوانین توڑے گا جارجیت کریگا یا جو مغرب کے مفادات سے ٹکر لے گا، مغرب کے پاس پابندیاں لگانے والا ہتھیار نتائج دیتا ہوا نظر آرہا ہے۔
یوکرین میں ہوسکتا ہے ہزاروں لوگ مرجائیں، مگر یہ پیوتن کو داخلی طور پر کمزور کریں گے کیونکہ روس کی معیشت، مغرب کی لگائی ہوئی پابندیوں کی وجہ سے گھٹنوں کے بل بیٹھنے کو ہے جس کے نتیجے میں پیوتن اپنی آمریت روس کے لوگوں پر زیادہ دیر مسلط نہیں کرپائے گا۔ خود چین روس کی کھل کے حمایت کرنے سے اجتناب کررہاہے۔ یہ باور کرانے کے لیے کہ وہ دنیا کی کمیونٹی میں ذمے دار ملک ہے۔
لیکن ہمای نظریں اس وقت ملک کے اندر جاری سیاسی دنگل پر مرکوز ہیں۔ ہم واپس اس منزل کی طرف گامزن ہیں جو 2018 سے پہلے تھی مگر میاں صاحب کے لیے خاص ہدایت یہ کہ وہ چیزوں کو اتنا تیز نہ لے جائیں جہاں جمہوریت پٹڑی سے اتر جائے جس طرح 1998 میں اتر گئی تھی یا جس طرح 2018 میں اتری تھی۔