عورت مارچ

کسی کو بھی ہماری باوقار، محنتی اور اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین کے راستے کا پتھر نہیں بننا چاہیے

tanveer.qaisar@express.com.pk

ISLAMABAD:
ماہِ مارچ میں کئی مارچ قدم آگے بڑھا رہے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری کا کراچی سے شروع کیا گیا، حکومت مخالف مارچ، اسلام آباد پہنچا ہی چاہتا ہے۔ سندھ حکومت کے خلاف شروع کیا گیا شاہ محمود قریشی کا مارچ کراچی کے مضافات میں ہے۔

اور کل 8مارچ بھی ہے۔ کل دُنیا بھر میں ''یومِ خواتین '' منایا جا رہا ہے اور کل ہی ملک بھر میں ، ہر سال کی طرح ، ''عورت مارچ'' ہوگا ۔ پاکستان کی بیشتر خواتین اپنے اس دن کا بے تابی سے انتظار کرتی ہیں تاکہ ملک بھر میں ، اپنی استطاعت کے مطابق، اپنے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے اپنی آوازیں بلند کر سکیں ۔

زندگی کا پہیہ تو مگر گردش میں رہتا ہے۔ ہمارے ہاں ''عورت مارچ'' کے حوالے سے ، حق اور مخالفت میں، دو دھڑے بن چکے ہیں۔وفاقی وزیر مذہبی امور ، مولانا نور الحق قادری ، نے پچھلے ماہ کے وسط میں وزیر اعظم، جناب عمران خان ، کے نام جو خط تحریر فرمایا، اس کے مندرجات پاکستان میں اُس دھڑے کی ترجمانی کرتے ہیں جو ''عورت مارچ'' کی مخالفت میں آواز اور بازو بلند کررہے ہیں ۔

یہ دھڑا سمجھتا ہے کہ ''عورت مارچ'' میں مبینہ طور پر ایسے نعرے اور پلے کارڈز بلند کیے جاتے ہیں جو ہماری ''روایات'' سے مطابقت نہیں رکھتے ۔ نور الحق قادری صاحب نے اپنے خط میں اِنہی شکایات یا تاثرات سے متاثر ہو کر وزیر اعظم کے نام اپنے خط میں لکھا کہ پاکستان میں 8 مارچ کو ''عالمی یومِ حجاب'' منانے کا اعلان کیا جائے۔ دوسرے معنوں میں موصوف کے خط کا مطلب و مفہوم یہ لیا گیا کہ آٹھ مارچ کے دن پاکستانی خواتین کو ''عورت مارچ'' کا انعقاد نہ کرنے دیا جائے ۔

اس خط کے مقابل، عورت مارچ کی نام لیواؤں کی جانب سے، شدید ردِ عمل سامنے آیا۔ قادری صاحب نے سابقہ ''عورت مارچ''میں لگائے گئے بعض نعروں کو مبینہ طور پر ''نامناسب'' کہا ہے مگر وہ ''نامناسب'' نعرے یا پلے کارڈز کونسے تھے ؟وہ اس سوال کا مناسب جواب دینے سے قاصر رہے ۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ (عورت مارچ کے خلاف) وزیر مذہبی امور کی آواز میں اپنی آواز ملانے والوں کی کمی نہیں ہے لیکن اُن پاکستانی خواتین کی تعداد بھی کم نہیں ہے جو اس مارچ کے حق میں ہیں ۔

ممتاز دانشور اور امریکا و برطانیہ میں پاکستان کی سابق سفیر ، محترمہ ڈاکٹر ملیحہ لودھی، نے نور الحق قادری کے خط پر اپنا ردِ عمل دیتے ہُوئے یوں ٹویٹ کیا: ''یہ ناقابلِ یقین اور بدقسمتی ہے ۔'' پیپلز پارٹی کی سابق وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات اور سینیٹر شیری رحمن صاحبہ کی طرف سے بھی نور الحق قادری کے مذکورہ خط پر ردِ عمل سامنے آیا ۔ انھوں نے اپنے ٹویٹ میں لکھا:'' خواتین کا عالمی دن ہر طبقے کی عورت کے نام ہوتا ہے۔

خواتین کے عالمی دن کا مقصد معاشرے میں عورتوں کے خلاف جینڈر اسٹیریو ٹائپ اور تعصبات کے خلاف شعور بیدار کرنا ہے ۔ آپ عورتوں کے عالمی دن پر ہی اُن کی آزادی اور حقوق سلب کرنے کی سازشیں کر رہے ہیں۔'' حقوقِ نسواں کی علمبردار خواتین (محترمہ نگہت داد اور محترمہ انیس ہارون) نے بھی نور الحق قادری کے خط کی مخالفت کی ہے ۔


نون لیگ نے بھی نورالحق قادری صاحب کے خط کی مخالفت کردی اور موقف اختیار کیا کہ یہ خط دراصل اس امر کا غماز ہے کہ خانصاحب کی حکومت پاکستانی عورت کی آواز دبانا چاہتی ہے ۔ اس ضمن میں نون لیگ کی رکنِ اسمبلی ، محترمہ حنا بٹ، کی طرف سے پنجاب اسمبلی میں ایک قرار داد بھی پیش کی گئی اور مطالبہ کیا گیا کہ 8مارچ 2022کو پنجاب بھر کے سبھی شہروں میں عورت مارچ کی شرکا کو تحفظ دینے کے لیے حکومت فول پروف سیکیورٹی فراہم کرے ۔

جناب عمران خان کی کابینہ کی رکن ، شیریں مزاری، بھی وزیر مذہبی اُمور سے ہم آہنگ ہوتی نظر نہیں آ رہی ہیں ۔ 8مارچ کے حوالے سے ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا ہے: '' خواتین کے عالمی دن پر جو چاہے عورت مارچ کرے اور جو چاہے حجاب مارچ کرے۔جمہوری مارچ کو روکنے کا کسی کو حق نہیں ہے۔مذہبی جماعتوں کی خواتین مارچ کر سکتی ہیں تو دیگر خواتین کیوں نہیںکر سکتیں؟دُنیا بھر میں خواتین اپنا دن منا سکتی ہیں تو پاکستان میں کیوں نہیں؟''ڈاکٹر شیریں مزاری کے اس بیان کی تحسین کی گئی ہے ۔

ہم وزیر مذہبی امور ، جناب نور الحق قادری، کے چاہنے والوں میں سے ہیں۔ اِنہی صفحات پر ہم اُن کے حق میں کئی کالم بھی لکھ چکے ہیں۔ اس کا مطلب مگر یہ ہر گز نہیں کہ نور الحق قادری صاحب کے اُٹھائے گئے ہر قدم کی تائید کی جائے۔

پچھلے دنوں جب ملک بھر میں، خصوصاً پنجاب میں، ایک مذہبی تنظیم کے اقدامات کے نتیجے میں ملک وقوم کی یکجہتی اور شہرت کو بٹہ لگ رہا تھا تویہ دیکھ کر بڑا افسوس ہُوا کہ وزیر مذہبی نور الحق قادری اس اُلجھے معاملے کو حکمت و دانش سے ہینڈل کرنے میں ناکام رہے۔ یقیناً اُن کی ناکامی سے وزیر اعظم عمران خان کا دل بھی اُن سے کھٹا ہُوا ہوگا ۔ قادری صاحب اگر آٹھ مارچ کو ''عالمی یومِ حجاب '' منانا چاہتے ہیں تو شوق سے منائیں لیکن انھیں عورت مارچ کے سامنے رکاوٹیں ڈالنے کا کوئی حق نہیں ہے۔

آٹھ مارچ کو''انٹر نیشل ویمن ڈے '' کی آمد آمد پر نور الحق قادری صاحب کی طرف سے جو خط وزیر اعظم کے نام لکھا گیا ہے ، اس سے یہ تاثر اُبھرا ہے کہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ترقی پسند خواتین کے راستے مسدود و محدود کرنے کے درپے ہیں ۔

اُن کا یہ کہنا درست ہو سکتا ہے کہ '' مَیں نے وزیر اعظم صاحب کے نام خط میں پاکستانیوں کے اجتماعی احساسات کی ترجمانی کی ہے'' لیکن وطنِ عزیز میں ایسے لاتعداد لوگ ہیں جو اُن کی ''ترجمانی'' کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ہماری اُن سے گزارش یہ ہے کہ پاکستان کو جمہوری پاکستان ہی رہنے دیجیے ، اِسے طالبان کا افغانستان اور ملاؤں کا ایران بنانے کی کوشش نہ کی جائے ۔

پاکستان ایک عظیم جمہوریت پسند شخص (حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒ) کی جدو جہد سے، مکالمے کی طاقت سے، جمہوری روایات کے بروئے کار آنے سے معرضِ عمل میں آیا۔ یہ شاندار ملک بندوق کی طاقت یا کسی جنگ و جدل کے نتیجے میں نہیں بنا تھا۔ یہاں پارلیمانی جمہوریت ہی کا چلن رہے گا (انشاء اللہ) اور جمہوریت ہی اس کے استحکام کا باعث رہے گی۔

اِسی جمہوریت کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ خواتین کے عالمی دن کے موقعے پر پاکستانی خواتین کو عورت مارچ کے انعقادکی پوری آزادی ہونی چاہیے ۔ نہتی، عدم تشدد پر عمل پیرا اور امن پسند خواتین کے مارچ کو بندوق ، ڈنڈوں اور دھمکیوں سے روکنے کی کوشش کرنا کہاں کی مردانگی ہے؟

کسی کو بھی ہماری باوقار، محنتی اور اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین کے راستے کا پتھر نہیں بننا چاہیے۔ عورت مارچ میں ان پر اعتماد کیجیے ۔ حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒکی تعلیمات اور ارشاداتِ گرامی کا بھی یہی تقاضا ہے کہ عورتوں کو سماج میں، مرد کے برابر، یکساں کردار ادا کرنا چاہیے ۔
Load Next Story