داعش ایک بڑا خطرہ

ہم سب کو مل جل کر اس سارے قضیے سے نکلنا ہو گا


جمشید باغوان March 07, 2022

ISLAMABAD: افغانستان پر طالبان حکومت کے قیام کے بعد سے ہی میں اپنے کالموں میں داعش کے خطرے کا ذکر کرتے آ رہا ہوں۔ غیر محفوظ افغانستان کے اثرات پاکستان پر بھی اثرانداز ہوتے ہیں۔ یہ بھی لکھا کہ جن لوگوں کا خیال تھا کہ کابل میں طالبان آنے کے بعد پاکستان میں امن و امان کے حالات میں بہتری آئے گی غلط ثابت ہوئے۔

پشاور شہر کے دل میں جس طرح جمعہ کی نماز کو نشانہ بنایا گیا اس نے شہر کیا پورے ملک کو لرزا دیا۔ گزشتہ چند سالوں میں موجود دہشت گردی کا جو خوف ختم ہونے کے قریب تھا اس حملے نے پھر سے 2014 یاد دلوایا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اس شہر نے کچھ کم سانحے دیکھے ہوں۔ جمعہ کو کوچہ رسالدار جہاں پر حملہ ہوا اس کے میٹروں آس پاس اس سے بھی اندوھناک واقعات ہو چکے ہیں۔ ڈھکی نعلبندی کے دھماکے سے اس کا آغاز ہوا۔ بشیر بلور کو اس کے آس پاس شہید کیا گیا۔

کابلی تھانے کے سامنے ہونے والے دھماکے کی تصویریں تو اب بھی انٹرنیٹ پر دیکھی جا رہی ہیں اور جمعے کے واقعے کے بعد اس دھماکے کی تصاویر بھی گردش کرتی رہیں۔ آرمی پبلک اسکول کا واقعہ تو پشاور کے دل پر خنجر ہے۔ غرض شہر پشاور جو پھولوں کا شہر تھا پھر دھماکوں کے لیے مشہور ہوا جس پر گانے بھی گائے گئے۔

لیکن پچھلے چند سالوں کے دوران حالات کافی بہتر ہو چکے تھے اور پشاور سمیت خیبرپختونخوا اپنے شباب رفتہ کی طرف واپس جا رہا تھا کہ یہ واقعہ ہو گیا۔ میرے ذاتی خیال میں مسجد کے اندر دھماکا نہ صرف عوام کے لیے ایک سرپرائز تھا بلکہ حکام کے لیے بھی۔

شہر میں دہشت گردی کے الرٹ کافی عرصہ سے جاری ہو رہے تھے پولیس بھی چوکس تھی اور انٹیلی جینس ادارے بھی۔ لیکن اتنے آسان ہدف کو ٹارگٹ کیا جانا شاید کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ انٹیلی جینس ادارے اور سیکیورٹی حکام کو علاقے میں نئی طاقت پکڑنے والی داعش کے خطرے کا اندازہ تھا اور وہ اس کے لیے پیش بندی بھی کر رہے تھے۔

گزشتہ کئی مہینوں سے داعش خیبرپختونخوا میں پولیو ٹیموں اور پولیس اہلکاروں کو نشانہ بناتی رہی اور ان واقعات کی ذمے داری باقاعدہ قبول بھی کرتی رہی۔ اسی طرح پچھلے چھ سات سالوں میں انٹیلی جینس اور سیکیورٹی اداروں نے داعش کے وجود کو وقتاً فوقتاً ختم بھی کیا۔ ان کے کئی گروپ پکڑے اور مارے بھی گئے۔ انھیں کارروائیوں میں سیکیورٹی حکام کو اس نئی تنظیم کے طور طریقوں کا علم ہوا۔

اس وقت بتایا گیا کہ تحریک طالبان کے بہ نسبت داعش ایک منظم 'تعلیم یافتہ اور ٹیکنالوجی سے بہرہ لوگوں کی تنظیم ہے جس کے پاس بہت ہی اچھی ٹیکنالوجی ہے رابطے کی اور جاسوسی کی بھی۔ اور یہ بھی کہ کسی ایک گروپ کے پکڑے جانے سے پورا نیٹ ورک علم میں نہیں آتا بلکہ وہ مقامی گروپ ہی پکڑا جا سکتا ہے۔

کوچہ رسالدار کی مسجد میں دھماکے سے داعش نے اپنے وجود کو باقاعدہ طور پر آشکار کر دیا اور کوچہ رسالدار کو نشانہ بنا کر داعش نے بیک وقت کئی اہداف حاصل کرنے کی کوشش کی ہے جس میں عالمی سطح پر پاکستان کو بدنام کرنا ایک بہت ہی اہم ہدف ہے جسے ہم نے ناکام بنانا ہے۔

ہمارے وزیر داخلہ شیخ رشید نے بیرونی ہاتھ کی بات کی ہے جس میں کوئی شک بھی نہیں کیونکہ اس سے قبل نیوزی لینڈ کی ٹیم کے دورہ پاکستان کے موقع پر ہمسایہ ممالک سے دھمکی آمیز خطوط کے ذریعے نیوزی لینڈ کی ٹیم کو واپس جانے پر مجبور کیا اور جمعہ کو دھماکے والے دن آسٹریلیا 24 سال بعد پاکستان میں ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے جا رہی تھی جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ داعش کو پاکستان مخالف قوتوں کا ساتھ بھی حاصل ہے۔

دھماکے کے ذریعے یہ ہدف بھی حاصل کرنے کی کوشش کی گئی کہ خیبرپختونخوا میں فرقہ واریت کی آگ بھڑک اٹھے جو پچھلے کافی عرصہ سے دب گئی تھی۔ ہمارے کئی محرم اور ربیع الاول سمیت دیگر مذہبی دن اور رسومات کافی امن سے ادا ہوئے۔ لگ رہا تھا شہر کے اندر پرانا والا ماحول لوٹ رہا تھا لوگوں کی تشویش اور ہیجان میں کمی آ گئی تھی، ہم اپنے معمول کی طرف واپس جا رہے تھے۔ اگرچہ مسجد والی کارروائی ایک سرپرائز تھی لیکن اس کے اہداف گہرے ہیں اور یہ اس بات کا ثبوت بھی ہیں کہ یہ تنظیم مستقبل میں ایک بڑے خطرے کی شکل میں سامنے آئے گی۔

تحریک طالبان پاکستان اور افغانستان میں پناہ لیے جنگجوؤں کے لیے معافی کی پیشکش بھی کی گئی اور باقاعدہ مذاکرات کا سلسلہ بھی شروع کیا گیا۔ پاکستانی حکام کو اس خطرے کا اندازہ تھا اسی لیے خیبرپختونخوا کے انسپکٹر جنرل آف پولیس معظم جان نے کوچہ رسالدار خود کش دھماکے سے قریباً تین ہفتے قبل خبردار کر دیا تھا کہ موجودہ صورتحال میں ہمارے لیے داعش ایک بڑا خطرہ ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ پولیس اور انٹیلی جینس اداروں نے داعش کے خلاف کئی اہم کارروائیاں بھی کی ہیں۔

حکام کا خیال ہے کہ داعش کی کارروائیوں میں تیزی کی ایک بڑی وجہ داعش کے ایک اہم کمانڈر کی جنوبی اضلاع میں ہلاکت ہے۔ جس نے 24 پولیس اہلکاروں کو شہید کرنے کے علاوہ متعدد کارروائیاں بھی کی تھیں۔ ایک اچھی خبر یہ ہے کہ پولیس اور انٹیلی جینس اداروں نے بہت ہی کم وقت میں ملوث گروپ تک رسائی حاصل کی۔

واقعات کے مطابق خود کش حملہ آور کے دو ساتھی اور بھی تھے پہلے تینوں نے بات چیت کی پھر اگلے نے وقت پورا ہونے پر خود کش بمبار کو جانے کا کہا۔ خود کش بمبار کا تعلق افغانستان سے ہی نکلا اور وہ ایک تربیت یافتہ جنگجو تھا۔ حکام کے دعوؤں کے مطابق اس واقعے میں ملوث نیٹ ورک تک رسائی حاصل کر لی ہے اور جلد ہی عوام کو ان کے متعلق بتایا جائے گا۔ خدشہ ہے کہ داعش مزید خوف پھیلانے کے لیے اس سے بھی آسان اور تکلیف دہ اہداف کو نشانہ بنا سکتی ہے۔

کوچہ رسالدار واقعہ فرقہ واریت بڑھانے کی کوشش تھی جو کامیاب نہیں ہوئی۔ دیگر مسالک کے علماء نے بھی واقعے کی کھل کر مذمت کرکے اتحاد کی فضاء کو برقرار رکھنے کی کوشش کی ۔ گورنر، وزیراعلیٰ اور کور کمانڈر کی تعزیت کے لیے آمد نے لواحقین کو تسلی دینے اور جذبات ٹھنڈے کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ پھر پشاور کے شہریوں نے بھی بھرپور طریقے سے امدادی کارروائیوں اور پھر غم میں شرکت کرکے بھائی چارہ کے ماحول کو تقویت دی۔ اسی طرح آسٹریلیا اور پاکستان کے 24 سال بعد ہونے والے ٹیسٹ میچ میں تماشائیوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کرکے خوف کا ماحول ختم کرنے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔

غرض ہم سب کو مل جل کر اس سارے قضیے سے نکلنا ہو گا۔ داعش انتشار پھیلانے کی کوشش کرے گی مسلک، زبان، رنگ کی بنیاد پر لیکن ہمیں اسے ناکام بنانا ہو گا اپنے اردگرد نظر رکھنی ہو گی اور ہر ایسی چیز جو اختلاف انتشار اور مذہبی رواداری کو نقصان پہنچائے فی الفور ختم کرنے کی کوشش کرنی ہو گی اور اسے حکام کے علم میں بھی لانا ہو گا۔ حکومت اور انتظامیہ کو بھی اس معاملے میں اپنے کان آنکھیں کھلی رکھنی چاہئیں۔

ایک اور بات کوچہ رسالدار دھماکے کی تفتیش میں شہر کے اندر انفرادی طور پر لگائے گئے کیمرے معاون ثابت ہوئے اسی لیے وزیراعلیٰ اور کور کمانڈر کو چاہیے کہ وہ قالین کے اندر دبے سیف پشاور سٹی پروجیکٹ پر عمل درآمد شروع کر دیں جس سے ایک تو دہشت گردی کے واقعات سے نمٹنے میں مدد ملے گی اور دوسرا عام جرائم کے حوالے سے تفتیش میں بھی معاون ہو گا۔ موجودہ حالات میں اس منصوبے کو جنگی بنیادوں پر مکمل کرنے کی ضرورت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں