بلوچستان کے طلبہ کی آواز دبانے کی اجازت نہیں دیں گے جسٹس اطہر من اللہ
اٹارنی جنرل خالد جاوید نے نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے باہر بلوچ طلبہ پر تشدد پر معذرت کرلی
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ عدالت بلوچستان کے طلبہ کی آواز دبانے کی اجازت نہیں دے گی۔
ہائی کورٹ نے نیشنل پریس کلب کے باہر بلوچ طلبہ کے احتجاج کے بعد ان پر مقدمہ درج کرنے کے خلاف کیس کی سماعت کی۔ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان، آئی جی اسلام آباد احسن یونس اور ایڈیشل سیکریٹری داخلہ عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ بلوچستان کے بچے ہیں پرامن بیٹھے ہیں ، ان بچوں کو زیادہ توجہ وفاقی حکومت کو دینی چاہیے، وہ اتنے عرصے سے بیٹھے ہیں ان کے پاس ابھی تک کوئی نہیں گیا، وفاقی حکومت کو چاہیے کہ ان کو فورمز دیں تاکہ ان کی بات سنی جائے ، یہ بہت سیریس مسئلہ ہے ۔
یہ بھی پڑھیں: بغاوت کے مقدمے تو بلوچ طلبہ کی آواز دبانے والوں پر ہونے چاہئیں، جسٹس اطہر من اللہ
اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ بہت اہم معاملہ ہے بلوچ طلبہ کو ہراساں کرنا درست نہیں ہے ، میں دیکھوں گا تاکہ حکومت کی جانب سے کوئی ان کے پاس جائے، میں بلوچستان کے طلبہ سے معذرت چاہتا ہوں جو کچھ ہوا، وہ ہمارے بچے ہیں ان کے ساتھ یہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وزیراعظم خود وہاں جاتے، کیا ہم ایف آئی آر کو کالعدم قرار دے دیں، اس ایف آئی آر کو دیکھ لیں رپورٹ عدالت میں جمع کرا دیں، عدالت بلوچستان کے طلبہ کی آواز دبانے کی اجازت نہیں دے گی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت مقدمہ خارج نہ کرے بلکہ پولیس کو یہ کام کرنے دے۔ عدالت نے درخواست پر سماعت 21 مارچ تک ملتوی کردی۔
ہائی کورٹ نے نیشنل پریس کلب کے باہر بلوچ طلبہ کے احتجاج کے بعد ان پر مقدمہ درج کرنے کے خلاف کیس کی سماعت کی۔ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان، آئی جی اسلام آباد احسن یونس اور ایڈیشل سیکریٹری داخلہ عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ بلوچستان کے بچے ہیں پرامن بیٹھے ہیں ، ان بچوں کو زیادہ توجہ وفاقی حکومت کو دینی چاہیے، وہ اتنے عرصے سے بیٹھے ہیں ان کے پاس ابھی تک کوئی نہیں گیا، وفاقی حکومت کو چاہیے کہ ان کو فورمز دیں تاکہ ان کی بات سنی جائے ، یہ بہت سیریس مسئلہ ہے ۔
یہ بھی پڑھیں: بغاوت کے مقدمے تو بلوچ طلبہ کی آواز دبانے والوں پر ہونے چاہئیں، جسٹس اطہر من اللہ
اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ بہت اہم معاملہ ہے بلوچ طلبہ کو ہراساں کرنا درست نہیں ہے ، میں دیکھوں گا تاکہ حکومت کی جانب سے کوئی ان کے پاس جائے، میں بلوچستان کے طلبہ سے معذرت چاہتا ہوں جو کچھ ہوا، وہ ہمارے بچے ہیں ان کے ساتھ یہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وزیراعظم خود وہاں جاتے، کیا ہم ایف آئی آر کو کالعدم قرار دے دیں، اس ایف آئی آر کو دیکھ لیں رپورٹ عدالت میں جمع کرا دیں، عدالت بلوچستان کے طلبہ کی آواز دبانے کی اجازت نہیں دے گی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت مقدمہ خارج نہ کرے بلکہ پولیس کو یہ کام کرنے دے۔ عدالت نے درخواست پر سماعت 21 مارچ تک ملتوی کردی۔