ہر لاپتہ شخص کا پہلے انکار کیا گیا عدالت اصرار کرے تو بندہ سامنے آجاتا ہے سپریم کورٹ

بہتر ہے اپنا اور ہمارا وقت بچائیں، جسٹس اعجاز افضل، 3 افراد زیرحراست ، 2 رہا ہونے کی رپورٹ پرعدالت مطمئن

بلوچستان کے لاپتہ افراد اوراجتماعی قبر کا کیس ایک ساتھ سننے کا فیصلہ ،لانگ مارچ شرکا کو تحفظ کے حکم کی استدعا مسترد ،فوٹو:فائل

سپریم کورٹ نے کئی سال سے لاپتہ 5 افراد کی بازیابی کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے آبزرویشن دی ہے کہ اگر اس مثبت سوچ کے ساتھ آگے بڑھا جائے تو لاپتہ افرادکا معاملہ بہت جلد حل ہو جائے گا۔

جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا ظلم سہہ کر خوش ہونا ہماری قسمت ہے، ہم اس بات پر بھی خوش ہوجاتے ہیں کہ ظالم نے ظلم کرنا چھوڑ دیا۔ جمعرات کو سپریم کورٹ کے مختلف بنچوں میں لاپتہ افرادکے مقدمات کی سماعت ہوئی۔جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے راولپنڈی سے لاپتہ حافظ جمیل کے مقدمہ کی سماعت کی ۔ وزارت دفاع کی طرف سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر نے رپورٹ پیش کی اور بتایا کہ مذکورہ شخص کوہاٹ کے حراستی مرکز میں موجود ہے۔عدالت نے مقدمہ نمٹاتے ہوئے لواحقین کی ملاقات کرانے کا حکم دیا ہے۔جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سوات سے لاپتہ ہدایت شاہ کے مقدمے کی سماعت کی تو ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر نے رپورٹ دی کہ مذکورہ شخص ملاکنڈحراستی مرکز میں ہے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ملزم کے بھائی اور بہنوںکے ساتھ ملاقات کرائی جائیگی،انھوں نے مزیدبتایا کہ اس ہفتے حماد امیر، عتیق الرحمن اور خاور محمود بھی بازیاب ہوگئے ہیں ، عدالت نے اس پیشرفت پر انتہائی مسرت کااظہارکیا۔


طارق کھوکھر نے بتایا کہ خاورمحمود آزاد ہے اور گھر پہنچ گیا ہے اس پر جسٹس جواد نے کہا ہم اس بات پر بھی خوش ہوتے ہیں کہ ظالم نے ظلم کرنا چھوڑ دیا، فاضل جج نے کہا اگر اس عزم کے ساتھ پیشرفت کی جاتی تو اب تک یہ مسئلہ حل ہو چکا ہوتا۔عدالت نے ہدایت شاہ کا مقدمہ بھی نمٹا دیا۔جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس اعجاز افضل خان پر مشتمل بنچ نے2005 میں پشاور سے لاپتہ ڈاکٹر عابد شریف کے بارے میں وزارت دفاع کی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہارکیا ہے ۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر نے وزارت دفاع کی رپورٹ پیش کی اور بتایا کہ مذکورہ شخص کسی خفیہ ایجنسی کی تحویل میں نہیں۔لاپتہ ڈاکٹرمحکمہ صحت پنجاب کا ملازم ہے،تنخواہ بند کرنے اور برطرف کرنے کے نوٹس پراہلیہ نے درخواست دائرکی جس پر صوبائی حکومت سے رپورٹ طلب کرلی گئی ہے۔جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے ہم ایک فلاحی ریاست میں نہیں رہتے لیکن اس کے باوجود شہریوںکا تحفظ ریاست کی ذمے داری ہے۔

وزارت دفاع کی رپورٹ پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا لاپتہ افرادکے ہر مقدمے میں پہلے انکار اور پھر اقرارکیا جاتا ہے،جب عدالت تحمل کے ساتھ بازیابی کا کہتی ہے توکہا جاتا ہے کہ مذکورہ شخص ان کے پاس نہیں لیکن جب عدالت اصرارکرتی ہے تو بندہ سامنے آجاتا ہے، بہتر یہی ہے کہ اپنا اور عدالت کا وقت ضائع ہونے سے بچایا جائے اور قانونی راستہ اپنایا جائے، اگرکوئی مجرم ہے تو اس کیخلاف کارروائی کی جائے۔سپریم کورٹ نے بلوچستان میں تشدد اور لاپتہ افرادکا مقدمہ خضدار میں اجتماعی قبروں کے کیس کے ساتھ منسلک کرکے سماعت سات مارچ تک ملتوی کردی۔جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی، سیکریٹری دفاع اور سیکریٹری داخلہ بھی عدالت کے حکم پر پیش ہوئے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل شاہ خاور نے رپورٹ پیش کی اور بتایا کہ سیکرٹری دفاع کی سربراہی میں اجلاس میں بلوچستان کے مسئلے اور لاپتہ افرادکے معاملے کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے،جن آٹھ افرادکی جبری گمشدگی کاالزام فوج اور ایف سی اہلکاروں پر ہے،ان میں سے دو افراد ڈاکٹر دین محمد بلوچ اور عبدالغفارکوہلوکے فراری کیمپ میں موجود ہیں اور یہ رضاکارانہ طور پر علیحدگی پسندوں سے جا ملے ہیں۔شاہ خاور نے بتایا جن ایف سی اہلکاروں پر الزام ہے انہیں ڈی آئی جی سی آئی ڈی کوئٹہ کے سامنے بیان ریکارڈکرانے کیلئے پیش کر دیا گیا ہے۔عدالت نے سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کے صدرکامران مرتضیٰ نے درخواست پر خضدارمیں اجتماعی قبروں اوربلوچستان کے لاپتہ افرادکاکیس ایک ساتھ سننے کافیصلہ کیا۔
Load Next Story