آخر کب تک
بی جے پی کی حکومت مسلمانوں کو ستانے کے لیے طرح طرح کے حربے اور بہانے تلاش کرتی رہتی ہے
ISLAMABAD:
اگرچہ پہلی عالمگیر جنگ کی تباہ کاریوں نے پوری دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا لیکن اس کے باوجود دنیا نے اِس سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا، جس کے نتیجہ میں ایک اور عالمگیر جنگ چھڑ گئی جو پہلے والی جنگ سے کہیں زیادہ خوفناک اور تباہ کن تھی اِس جنگ نے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی اور عالمی معیشت کی بنیادیں ہلا دیں۔ یہ وہی جنگ تھی جس نے دنیا میں پہلی مرتبہ ایٹم بم کی قیامت خیز تباہی کا منظر پیش کیا۔
جاپان کے دو بڑے شہروں، ہیروشیما اور ناگاساکی، پر گرائے جانے والے ایٹم بموں نے وہ تباہی مچا دی کہ جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ہم نے جب چند برس پہلے جاپان کا دورہ کیا تھا تو ہیروشیما کے عجائب گھر میں رکھے ہوئے اِس جنگ کی تباہی کے نمونوں کو دیکھ کر دل لرز گیا تھا اور آنکھوں سے آنسوؤں کی وہ جھڑی لگ گئی تھی جو تھمنے کا نام نہیں لے رہی تھی مگر افسوس ہوتا ہے کہ آج امریکا کے ہاتھوں قیامت خیز تباہی کا شکار ہونے والا ملک اسی جارح امریکا کے ساتھ کھڑا ہوا ہے جس نے''چڑھ جا بیٹا سولی پر رام بھلی کرے گا''کا نعرہ لگا کر اکسایا اور اپنی حامی تنظیم نیٹو کے بل پر اُکسا کر روس کے مدِمقابل کھڑا کر دیا ہے اور دور سے ہی ہمیشہ کی طرح جنگ کا تماشہ دیکھ رہا ہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ روس نے یوکرین کے خلاف کارروائی کرکے جارحیت کا ارتکاب کیا ہے لیکن سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ امریکا کی بچھائی ہوئی شطرنج کی بساط کا پیادہ بننے کی اُسے آخر کیا ضرورت تھی جو آ بیل مجھے مار کے مترادف ہے۔حقیقت یہ ہے کہ دوسروں کے کندھوں پر رکھ کر بندوق چلانا امریکا کی خصلت اور جبلت ہے جس کا برہنہ مظاہرہ افغانستان میں وہ کرکے دکھا چکا ہے۔
وقت پڑنے پر اپنے دوستوں کو ہری جھنڈی دکھا کر بھاگ جانا بھی امریکا کی فطرت میں شامل ہے جس کی مثال سقوطِ ڈھاکا کی صورت میں موجود ہے کہ وہ پاکستان کو آخری وقت تک یہ جھوٹی تسلیاں دیتا رہا کہ گھبرائیں نہیں ہمارا چھٹا بحری بیڑا آپ کی مدد کے لیے آرہا ہے جو نہ آنا تھا اور نہ آیا۔ادھر ملک شام کی لڑائی میں بھی امریکا کا عمل دخل ہے جس کے بارے میں قبل از وقت کچھ کہنا ممکن نہیں سوائے اِس کے کہ:
یہ ڈرامہ دکھائے گا کیا سین پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ
جارح خواہ کوئی بھی ہو وہ مجرم ہی کہلائے گا لیکن افسوس یہ ہے کہ جارح کے خلاف آواز بلند کرنے کے معاملہ میں دوغلاپن کیوں کیا جارہا ہے؟ سوال یہ ہے کہ انسانیت پرستی اور انسان دوستی کا دعوی کرنے والوں کو اُس وقت کیا سانپ سونگھ گیا تھا جب 1965 میں بھارت نے ننگی جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے وطن عزیز پاکستان پر جنگ مسلط کردی تھی۔
سوال یہ بھی ہے کہ نہتے اور مظلوم فلسطینیوں پر قیامت خیز تباہی کے پہاڑ ڈھانے والے اسرائیل کے مظالم کے خلاف آواز کیوں نہیں بلند کی جارہی؟انسانی ہمدردی کے علمبرداروں سے ایک سوال یہ بھی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں ایک طویل عرصہ سے حق خودارادیت اور آزادی کا پرچم بلند کرنے والے کشمیری مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے والوں کو کھلی چھٹی کیوں دی ہوئی ہے اور اُن کے خلاف چپ کیوں سادھی ہوئی ہے؟
جس وقت یہ کالم تحریر کیا گیا اُس وقت روس اور یوکرین کی جنگ کو دسواں دن تھا اور روسی افواج کی یلغار جاری تھی لیکن اِس کے باوجود یوکرین نے ہمت نہیں ہاری اور اُس کے محبِ وطن اور بہادر شہری یکجان ہو کر اپنے سے کئی گنا طاقتور مدمقابل کے آگے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر بھرپور مزاحمت کر رہے ہیں۔
دوسری قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ یوکرین کے شہریوں نے مکمل نظم و ضبط کا مظاہرہ کرکے ثابت کردیا کہ وہ نہ صرف ایک انتہائی منظم بلکہ زندہ دل قوم ہیں۔قابلِ ذکر بات یہ بھی ہے کہ جو لوگ ملک کے اندر تھے وہ نہ صرف ہمت اور جرات سے مقابلے کے لیے ڈٹے رہے اور بھاگے نہیں بلکہ جو شہری بیرونِ ملک تھے وہ بھی اپنے ملک میں واپس آگئے اور کوئی بھگدڑ نہیں مچی۔بازار اور اسٹورز میں کوئی لوٹ مار نہیں مچی اور دکانداروں نے موقع سے فائدہ اٹھا کر نہ ذخیرہ اندوزی کی اور نہ قیمتیں بڑھا کر ناجائز منافع خوری کرتے ہوئے عوام کو لوٹا۔آزمائش کی اِس گھڑی میں ہر شہری نے ایک دوسرے کے ساتھ ہر ممکنہ تعاون کیا اور نفسا نفسی کا عالم نہیں پیدا کیا۔
بی جے پی کی حکومت مسلمانوں کو ستانے کے لیے طرح طرح کے حربے اور بہانے تلاش کرتی رہتی ہے لیکن مغربی ممالک بالخصوص امریکا کا طریقہ واردات اِس سے مختلف اور نرالا ہے۔ سوال یہ ہے کہ دنیا یہ سب تماشہ کیسے دیکھ رہی ہے اور اُس کا ضمیر اُسے کیوں نہیں جھنجھوڑتا؟ یہ ناانصافی مدتِ دراز سے جاری ہے اور معلوم نہیں یہ لامتناہی ستم ظریفی کب تک یونہی جاری رہے گی اور یہ سلسلہ کہاں ختم ہوگا؟ آخر کب تک