کورونا وبا اور معیشت

سوال اٹھ رہے ہیں کہ عوام کے لیے معاشی اور سماجی تبدیلیوں کے دعوے کرنے کے دن کیوں اتنے لمبے ہوگئے


Editorial March 08, 2022
سوال اٹھ رہے ہیں کہ عوام کے لیے معاشی اور سماجی تبدیلیوں کے دعوے کرنے کے دن کیوں اتنے لمبے ہوگئے۔ فوٹو: فائل

پاکستان کے لیے یہ اچھی خبر ہے کہ ہمارا ملک تمام شہریوں کی ویکسی نیشن مکمل کرنے کے قریب پہنچ چکا ہے۔

این سی او سی کے سربراہ اور وفاقی وزیر اسد عمر نے گزشتہ روز اپنے ایک ٹویٹ میں لکھا ہے کہ ملک میں دس کروڑ افراد کی ویکسینیشن مکمل کرلی ہے اور تمام شہریوں کی ویکسینیشن مکمل کرنے کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں۔ یقیناً حکومت کی یہ کامیابی ہے کہ خراب معیشت اور کم وسائل ہونے کے باوجود حکومت نے کورونا وائرس کے بچاؤ کی ویکسین تمامشہریوں کو مہیا کی اور ان کے لیے بہترین انتظامات کیے۔

اس سے اس معاملے میں حکومت کی طرف سے بہترین حکمت عملی اپنانے کا اظہار ہوتا ہے کہ حکومت نے ملک کے تمام شہریوں کو ویکسین لگانے میں کوتاہی کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ اپنے فرائض پوری تندہی اور ایمانداری سے سرانجام دیے۔ بہرحال عوام کو احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل جاری رکھنا چاہیے کیونکہ کورونا وباء ابھی ختم نہیں ہوئی ہے اور ویکسینیشن کرانے والوں کو بھی یہ وباء اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔

اس لیے یہ عوام پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ کسی قسم کی لاپروائی اور بے احتیاطی کا مظاہرہ نہ کریں ۔ گزشتہ روز کی اطلاعات کے مطابق ملک بھر میں کورونا وائرس سے مزید7 افراد جان کی بازی ہار گئے۔ کورونا کے نئے کیسز بھی رپورٹ ہوئے۔ یوں مثبت کیسز کی یومیہ شرح2.0فیصد رہی۔ کورونا سے اموات کی مجموعی تعداد 30ہزار265 ہوگئی ہے۔ اطلاعات کے مطابق گلگت میں کورونا کی مثبت شرح میں پھر اضافہ ہوا ہے جو بڑھ کر 21.05 فیصد ہو گئی ہے۔

پشاور میں 7.39 فیصد رہی۔کراچی 5.65 فیصد، حیدر آباد4.81 ، لاہور1.83 ، اسلام آباد میں1.17فیصد رہی۔ ادھر میڈیا کی ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ کورونا وائرس کی ایک اور نئی قسم سامنے آئی ہے ۔

کہا گیا ہے کہ یہ نیا وائرس کینیڈا میں پائے جانے والے سفید دم والے ہرن میں پایا گیا ہے۔ کینیڈا کے صوبے اونٹاریو میں دریافت ہونے والے اس وائرس کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کورونا کی انتہائی تبدیل شدہ شکل ہے اور ماہرین نے اسے ''اونٹاریو ڈبلیو ٹی ڈی'' کا نام دیا ہے اور اسے سارس کووڈ-2 کے خاندان کی نئی شاخ قرار دیا ہے۔ البتہ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ شاید یہ وائرس زیادہ متعدی نہیں ہے۔

تمام تر کوششوں کے باوجود پاکستان سمیت دنیا بھر میں کورونا کی لہر تاحال جاری ہے' سب سے خطرناک امر یہ ہے کہ یہ جان لیوا وائرس مسلسل مزید جانیں لے رہا ہے ،جب کہ مثبت کیسز کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے ۔ صورت حال بہرحال الارمنگ ہے لیکن دیکھا گیا ہے کہ کورونا ایس اوپیز کی خلاف ورزی بھی زوروں پر ہے ، شہری کورونا ایس او پیز پر سنجیدگی سے عمل نہیں کررہے اور ان کی جانب سے لاپروائی اور بے احتیاطی کے مظاہر سامنے آ رہے ہیں ۔ دنیا بھر میں کورونا وائرس سے لاکھوں کی تعداد میں اموات ہوچکی ہیں اور کروڑوں لوگ اس موذی وائرس سے متاثر ہوئے ہیں۔

اس مہلک وائرس کا مقابلہ کرنے کے لیے سماجی دوری کو ضروری قرار دیا گیا ہے، لیکن پاکستان میں شہریوں کی اکثریت سماجی دوری پر عمل نہیں کر رہی ہے ، ہر جگہ انسانوں کا جم غفیر نظر آرہا ہے یعنی ہم اپنے ہاتھوں سے اپنی اور اپنے پیاروں کی موت کے اسباب پیدا کر رہے ہیں۔

شہریوں کا ذاتی خیال ہے کہ کورونا کا زور ٹوٹ چکا ہے لہٰذا اس سلسلے میں اب اتنی زیادہ احتیاط کی ضرورت باقی نہیں رہی مگر ایسا ہرگز نہیں سوچنا چاہیے ،کیونکہ بے احتیاطی سے کورونا کی لہر میں دوبارہ شدت آنے کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔

کورونا کو کنٹرول کرنے کے لیے جو لاک ڈاؤن چین میں شروع ہوا تھا،اس طریقے کو پاکستان سمیت دنیا بھر نے اختیار کیا تھا ۔ اس وجہ سے معاشی و تجارتی تعلقات اور ہر قسم کے روابط محدود ہوکر رہ گئے ہیں، معاشی پہیہ رک جانے کی وجہ سے دنیا کی بہت سی انڈسٹریز تباہی کے دہانے پر پہنچ گئیں، بے روزگاری میں اضافہ ہوا اور غربت بڑھ گئی۔

پاکستان کی معیشت بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے جو تاحال پوری طرح بحال نہیں ہوسکی۔ پاکستان میں کورونا وائرس اس لیے بھی ختم نہیں ہورہا ہے کہ ہماری سرحدیں نرم ہیں خصوصاً شمال مغربی سرحد پر پیدل اور کاروں وغیرہ سے آمدورفت اب بھی جاری ہے، ایئرپورٹس اور بندرگاہوں پر چیک اینڈ بیلنس کا نظام فول پروف نہیں ہے۔ دوسری جانب کورونا کی وباء سے سب سے زیادہ نقصان تعلیم کا ہوا ہے، بچے تعلیمی بحران سے گزر رہے ہیں، ان کا تعلیمی تسلسل ٹوٹ گیا ہے ۔

پچھلے سال تو انھیں امتحان کے بغیر اگلی کلاس میں ترقی دے دی گئی تھی۔ طالب علم جو کلاس روم میں بیٹھ کر سیکھتا ہے وہ آن لائن تدریس سے ممکن نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ مغربی ملکوں میں تعلیمی اداروں کو زیادہ عرصہ معطل نہیں رہنے دیا گیا، وہاں تھوڑے سے وقفے کے بعد یونیورسٹیاں اور کالج و اسکول کھل گئے تھے اور تعلیمی نظام پوری طرح کام کررہا ہے' اب ہم نے تعلیمی سرگرمیاں بحال کر دی ہیں جو اچھا اقدام ہے۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کے عوام اس وقت تک احتیاطی تدابیر پر عمل نہیں کرتے جب تک حکومت ان پر سختی نہ کرے اور وسیع پیمانے پر کریک ڈاؤن نہ کیا جائے ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ منفی طرز عمل ہمیں بحیثیت قوم ایک انتہائی مشکل صورتحال سے دوچار کرنے جا رہا ہے ،جواب اثبات میں ہے، ہم ایک ایسی مصیبت اور مشکل میں خود کوڈال رہے ہیں ، جس کے نتیجے میں انسانی اموات کا سلسلہ نہیں رک پائے گا، اگر عوام کی بے احتیاطی اور لاپروائی کا چلن برقرار رہا تو پھر وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے کورونا وائرس کے خاتمے کے لیے جو کوششیں کی ہیں، ان پر پانی پھر جائے گا ۔

عوام کو اپنے غفلت پر مبنی رویوں کے بارے میں تھوڑا سا وقت نکال کر سوچنا چاہیے کہ ہم خود موت کو دعوت دے رہے اور اسے گلے لگا رہے ہیں ۔ آخر ایسی کونسی قیامت آجائے گی کہ اگر ہم اپنے تحفظ کے لیے ماسک پہن لیں ، رش والی جگہوں پر جانے سے اجتناب برتیں ، پارکوں اور میلے ٹھیلوں اور بازاروں میں نہ جائیں ، شادی بیاہ کی تقریبات اور ہجوم والی جگہوں پر جانے سے پرہیز کریں ، ہر چیز کا ذمے دار حکومت کو قرار دینا اور خود احتسابی نہ کرنا، ہی اصل المیہ ہے ۔ عوام اپنے روئیے پر غور کریں۔

ان کی لاپروائی کا چلن پورے ملک کو لے ڈوبے گا، کچھ تو سوچیں زندگی صرف ایک بار ملتی ہے ، اس کی قدر کیجیے ، زندہ رہیں گے تو زندگی کے مسائل سے نبرد آزما ہوسکیں گے، کورونا وائرس کی وباء کوئی ہنسی مذاق نہیں ہے بلکہ یہ موت کا بھیانک کھیل ہے جو پاکستان میں ہزاروں جانیں لے چکا ہے جب کہ دنیا بھر میں کئی لاکھ افراد اس کے وائرس کا شکار ہوکر لقمہ اجل بن چکے ہیں ۔

یہ اتنے بھیانک اعدادوشمار ہیں کہ انھیں پڑھنے سے روح تک کانپ اٹھتی ہے ، لیکن پاکستانی عوام ہمیں ایسے اچھل ،کود کرتے نظر آرہے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ہے ۔ بہت ہی افسوسناک طرزعمل ہے ، ہمارے عوام کا، خدارا ایک لمحے کو سوچیں اور احتیاط کا دامن تھام لیں ، ورنہ سب کچھ خس وخاشاک کی طرح بہہ جائے گا۔

کورونا وائرس کی لہر جاری رہی تو ملک کی معاشی سرگرمیاں سو فیصد بحال نہیں ہوسکتیں۔اس وقت بھی ملکی معیشت اور اقتصادی صورتحال قیاس آرائیوں کی دھند میں لپٹی ہوئی ہے، حکومت کو ایک بڑے صبر آزما چیلنج کا سامنا ہے، کئی معاملات ہیں، عوام کو فوری ریلیف درکار ہے، رمضان المبارک قریب آ پہنچا ہے، مہنگائی مسلسل بڑھ رہی ہے ۔معاشی اور سماجی حالات کو کسی سہارے کی ضرورت ہے اور ارباب اختیار کو اقتصادی مشکلات کی گمبھیرتا نے گھیرے میں لے لیا ہے۔

بظاہر حکومت اقتصادی گرد آلود ہواؤں سے نمٹنے میں مصروف ہے، سوال اٹھ رہے ہیں کہ عوام کے لیے معاشی اور سماجی تبدیلیوں کے دعوے کرنے کے دن کیوں اتنے لمبے ہوگئے، ریلیف اور تبدیلی کو تو اب تک آ جانا چاہیے تھا۔ جتنے ٹربل شوٹر تھے سب کے تیر آزمائے جا چکے، معاشی مسیحاؤں سے جتنی توقعات وابستہ کی گئی تھیں ان کا نتیجہ کچھ نہ نکلا اور اب موسم گرما کے مصائب کا سامنا ہوگا۔

گرمی، ہیٹ اسٹروک اور بیروزگاری اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ عوام کے صبر کو بھی آزمائے گی۔ اس صورتحال کا تقاضا یہ ہے کہ عوام اور کاروباری طبقات اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کورونا ایس او پیز پر عمل کریں تاکہ اس موذی مرض کا خاتمہ کیا جاسکے، جیسے جیسے کورونا وباء کنٹرول ہوتی جائے گی ملکی معیشت بھی تیزی سے بہتری کی جانب سفر شروع کردے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں