سندھ میں تحریک انصاف کی کارکردگی

وفاقی وزیر اسد عمر کے سوا کسی وفاقی وزیر نے اندرون سندھ کے دورے نہیں کیے

m_saeedarain@hotmail.com

لاہور:
جب سندھ میں بلدیاتی الیکشن ہوئے تھے توکراچی میں 229 یوسیز تھیں جن میں صرف نو ہی یوسیز میں پی ٹی آئی کامیاب ہوئی تھی۔

موجودہ گورنر سندھ عمران اسمٰعیل کو نائن زیرو عزیز آباد سے قومی اسمبلی کا ضمنی الیکشن لڑایا گیا تھا اور وہ ناکام ہوئے تھے کیونکہ ضلع وسطی میں تحریک انصاف کی صورت حال پیپلز پارٹی جیسی ہی تھی مگر 2018 کے انتخابات میں جس طرح ایم کیو ایم کی نشستیں پی ٹی آئی کو دلوائی گئیں اس پر پی ٹی آئی و تمام سیاسی جماعتوں کو حیرت ہوئی تھی جس پر ایم کیو ایم نے الزام لگایا تھا کہ منصوبہ بندی کے تحت ہماری نشستوں پر پی ٹی آئی کو لایا گیا تھا ورنہ تحریک انصاف کراچی میں اتنی مقبول نہیں تھی کہ وہ کراچی کی نمایندگی کی حقیقی حقدار کہلاتی۔

وزیر اعظم نے کراچی سے منتخب ہونے والے علی زیدی اور فیصل واؤڈا کو وفاقی کابینہ میں شامل کیا تھا۔ عارف علوی پہلے 2013 میں بھی کراچی کے پوش علاقوں پر مشتمل حلقے سے قومی اسمبلی کے رکن بنے تھے اور 2018 میں دوبارہ منتخب ہوئے تھے جنھیں بعد میں صدر مملکت منتخب کرایا گیا اور وہ کراچی سے تعلق رکھنے والے چوتھے صدر مملکت تھے جو دو بار قومی اسمبلی کے کراچی سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے جو ان کے حلقے میں پی ٹی آئی کی مقبولیت کا واضح ثبوت تھا۔

کراچی گلشن اقبال سے عمران خان 2018 میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے اور وزیر اعظم بن کر انھوں نے اپنی میانوالی کی آبائی نشست برقرار رکھی تھی اور لاہور، پشاور اور کراچی کی نشست چھوڑ دی تھی جس پر کراچی والے خوش نہ تھے مگر پھر بھی انھوں نے ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کے امیدوار کو ہی منتخب کیا تھا جب کہ لاہور اور پشاور کی عمران خان کی دونوں نشستیں پی ٹی آئی مسلم لیگ (ن) سے ہار گئی تھی مگر پھر بھی عمران خان نے وزیر اعظم بن کر کراچی کو نظرانداز کیا اور دو بار کراچی کی ترقی کے لیے جس پیکیج کا اعلان کیا۔


اس پر عمل نہیں کیا جس پر ان پر کراچی میں شدید تنقید کی جاتی ہے، مگر پھر بھی پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت کراچی اور سندھ کو اہمیت نہیں دے رہی جس پر بطور احتجاج اندرون سندھ کے دو ارکان اسمبلی پی ٹی آئی کے بجائے سندھ حکومت کا ساتھ دے رہے ہیں اور کراچی میں پی ٹی آئی کی مقبولیت کا ثبوت فیصل واؤڈا کی چھوڑی ہوئی قومی اسمبلی کی نشست کا ضمنی انتخاب تھا جہاں پی ٹی آئی ہاری اور پانچویں نمبر پر پی ٹی آئی کا امیدوار رہا تھا اور مسلم لیگ (ن) دوسرے نمبر پر رہی اور پی پی امیدوار کامیاب ہوا تھا۔

پی ٹی آئی قیادت نے کراچی والوں سے بہت وعدے کیے تھے مگر انھوں نے اپنا کوئی وعدہ پورا کیا نہ ہی کراچی اور سندھ میں پی ٹی آئی پر توجہ دی۔ انھوں نے کراچی اور سندھ کے چند مخصوص علاقوں کے چند گھنٹوں کے ہی دورے کیے۔ کراچی کے لیے سچ بولنے پر سندھ کے اپنے اپوزیشن لیڈر فردوس شمیم نقوی کو ہٹا دیااور سندھ کی صدارت سے حلیم عادل شیخ کو ہٹا کر اپوزیشن لیڈر بنایا جنھوں نے اندرون سندھ کے واقعی دورے کیے۔

وفاقی وزیر اسد عمر کے سوا کسی وفاقی وزیر نے اندرون سندھ کے دورے نہیں کیے۔ سندھ میں پی ٹی آئی کی پوزیشن دیکھے بغیر پی پی پی کے لانگ مارچ کے جواب میں ضلع گھوٹکی سے جوابی مارچ کا اعلان سندھ کے حقوق کے نام سے کیا گیا جس کا سارا آسرا وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے مریدوں پر تھا جو پورے سندھ میں نہیں مخصوص اضلاع میں ہیں۔

پی ٹی آئی کے ایک رکن اسمبلی کے مطابق کمو شہید کے مقام سے جب لانگ مارچ شروع ہوا وہاں لوگ کم تھے۔ ضلع شکارپور میں غوث مہر کی وجہ سے اور جیکب آباد میں محمد میاں سومرو کی وجہ سے لوگ آئے۔ کراچی میں پی ٹی آئی کے بجائے مخصوص رہنماؤں نے ترقی کی ہے اور صرف خوشامد نے فروغ پایا ہے مخلص رہنما نظر انداز کیے گئے جس سے سندھ میں پی ٹی آئی مقبولیت کم ہوئی ہے۔
Load Next Story