انسانی گردے ’’چھاپنے‘‘ والی جدید تھری ڈی پرنٹنگ ٹیکنالوجی
اس ٹیکنالوجی سے ایسا مصنوعی لیکن زندہ انسانی گردہ تیار کیا جاتا ہے جو مریض کے اپنے خلیوں سے بنا ہوتا ہے
ISLAMABAD:
ہارورڈ یونیورسٹی نے تھری ڈی پرنٹنگ سے انسانی گردے ''چھاپنے'' والی جدید ٹیکنالوجی ایک مقامی کمپنی کو لائسنس پر دے دی ہے تاکہ وہ اسے تجارتی پیمانے تک پہنچا سکے۔
2019 میں وضع کی گئی اس ٹیکنالوجی میں تھری ڈی پرنٹر سے انسانی گردے ساخت تیار کرتے دوران اس میں خلیاتِ ساق (اسٹیم سیلز) بھی شامل کردیئے جاتے ہیں۔
اس طرح ایک ایسا مصنوعی لیکن زندہ انسانی گردہ تیار ہوجاتا ہے جو مریض کے اپنے جسمانی خلیوں سے بنا ہوتا ہے۔ اسے بہ آسانی خراب گردے کی جگہ لگا کر مریض کو ڈائیلیسس کے تکلیف دہ عمل سے نجات دلائی جاسکتی ہے۔
واضح رہے کہ تھری ڈی پرنٹر سے زندہ خلیوں والی کسی بھی چیز کی تیاری کو ''تھری ڈی بایوپرنٹنگ'' کہا جاتا ہے جو بہت پیچیدہ اور مشکل کام ہے۔
ہارورڈ میڈیکل اسکول، بوسٹن کی پروفیسر ڈاکٹر جنیفر لیوس اور ان کے ساتھیوں نے انسانی گردے کی جیتی جاگتی نقل تیار کرنے کےلیے یہ ٹیکنالوجی 2019 میں وضع کرلی تھی۔
اس میں تھری ڈی بایوپرنٹنگ کی روایتی خامیاں دور کرتے ہوئے، تجرباتی طور پر ایسے چھوٹے مصنوعی گردے تیار کیے گئے جن میں خون کی ویسی ہی فعال نالیاں موجود تھیں کہ جیسی قدرتی گردے میں ہوتی ہیں۔
تازہ ترین پیش رفت میں یہی ٹیکنالوجی ''ٹریسٹل بایوتھراپیوٹکس'' نامی کمپنی کو لائسنس پر فراہم کی گئی ہے تاکہ وہ اسے مزید ترقی دے کر اس قابل بنائے کہ تھری ڈی بایوپرنٹنگ سے پوری جسامت والے مصنوعی لیکن زندہ انسانی گردے تیار کیے جاسکیں۔
امریکا کی ''نیشنل کڈنی فاؤنڈیشن'' کے مطابق، اس وقت دنیا بھر میں اندازاً دو کروڑ افراد گردوں کی کسی نہ کسی سنگین بیماری کا شکار ہیں اور انہیں ڈائیلیسس کی ضرورت ہے۔ تاہم ان میں سے صرف دس فیصد، یعنی 20 لاکھ افراد ہی کو ڈائیلیسس کی سہولت میسر ہے۔
ڈائیلیسس میں مشینوں کے ذریعے خون سے فاسد مادّے صاف کیے جاتے ہیں لیکن یہ عمل بہت تکلیف دہ بھی ہوتا ہے جس سے مریض کو بار بار گزرنا پڑتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ڈائیلیسس کروانے والے مریضوں کی اکثریت صرف چند سال مزید ہی زندہ رہ پاتی ہے۔
فی الحال گردوں کی ناقابلِ علاج بیماریوں سے چھٹکارا پانے کا واحد راستہ گردے کی تبدیلی یعنی کسی دوسرے کے دیئے ہوئے گردے کی پیوند کاری ہے۔
لیکن اس میں بھی گردے کا عطیہ دستیاب ہونے اور ٹشو میچنگ سے لے کر ساری زندگی دوائیں کھانے تک، کئی طرح کے مسائل ہیں۔
اس کے برعکس، اگر کسی شخص کو اس کے اپنے خلیوں سے بنا ہوا گردہ بطور عطیہ لگایا جائے تو ایسے کئی مسائل حل ہوجائیں گے۔
تھری ڈی بایوپرنٹنگ اور خلیاتِ ساق (stem cells) کے ملاپ سے وضع کی گئی یہ جدید ٹیکنالوجی بھی اسی جانب ایک قدم ہے۔
آنے والے برسوں میں اس ٹیکنالوجی نے اگر ہماری توقعات کے مطابق ترقی کرلی اور یہ پوری جسامت والے انسانی گردے ''چھاپنے'' کے قابل ہوگئی تو یہ دنیا میں گردوں کے لاکھوں مریضوں کےلیے زندگی کی ایک نئی امید سے کم نہیں ہوگی۔
ہارورڈ یونیورسٹی نے تھری ڈی پرنٹنگ سے انسانی گردے ''چھاپنے'' والی جدید ٹیکنالوجی ایک مقامی کمپنی کو لائسنس پر دے دی ہے تاکہ وہ اسے تجارتی پیمانے تک پہنچا سکے۔
2019 میں وضع کی گئی اس ٹیکنالوجی میں تھری ڈی پرنٹر سے انسانی گردے ساخت تیار کرتے دوران اس میں خلیاتِ ساق (اسٹیم سیلز) بھی شامل کردیئے جاتے ہیں۔
اس طرح ایک ایسا مصنوعی لیکن زندہ انسانی گردہ تیار ہوجاتا ہے جو مریض کے اپنے جسمانی خلیوں سے بنا ہوتا ہے۔ اسے بہ آسانی خراب گردے کی جگہ لگا کر مریض کو ڈائیلیسس کے تکلیف دہ عمل سے نجات دلائی جاسکتی ہے۔
واضح رہے کہ تھری ڈی پرنٹر سے زندہ خلیوں والی کسی بھی چیز کی تیاری کو ''تھری ڈی بایوپرنٹنگ'' کہا جاتا ہے جو بہت پیچیدہ اور مشکل کام ہے۔
ہارورڈ میڈیکل اسکول، بوسٹن کی پروفیسر ڈاکٹر جنیفر لیوس اور ان کے ساتھیوں نے انسانی گردے کی جیتی جاگتی نقل تیار کرنے کےلیے یہ ٹیکنالوجی 2019 میں وضع کرلی تھی۔
اس میں تھری ڈی بایوپرنٹنگ کی روایتی خامیاں دور کرتے ہوئے، تجرباتی طور پر ایسے چھوٹے مصنوعی گردے تیار کیے گئے جن میں خون کی ویسی ہی فعال نالیاں موجود تھیں کہ جیسی قدرتی گردے میں ہوتی ہیں۔
تازہ ترین پیش رفت میں یہی ٹیکنالوجی ''ٹریسٹل بایوتھراپیوٹکس'' نامی کمپنی کو لائسنس پر فراہم کی گئی ہے تاکہ وہ اسے مزید ترقی دے کر اس قابل بنائے کہ تھری ڈی بایوپرنٹنگ سے پوری جسامت والے مصنوعی لیکن زندہ انسانی گردے تیار کیے جاسکیں۔
امریکا کی ''نیشنل کڈنی فاؤنڈیشن'' کے مطابق، اس وقت دنیا بھر میں اندازاً دو کروڑ افراد گردوں کی کسی نہ کسی سنگین بیماری کا شکار ہیں اور انہیں ڈائیلیسس کی ضرورت ہے۔ تاہم ان میں سے صرف دس فیصد، یعنی 20 لاکھ افراد ہی کو ڈائیلیسس کی سہولت میسر ہے۔
ڈائیلیسس میں مشینوں کے ذریعے خون سے فاسد مادّے صاف کیے جاتے ہیں لیکن یہ عمل بہت تکلیف دہ بھی ہوتا ہے جس سے مریض کو بار بار گزرنا پڑتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ڈائیلیسس کروانے والے مریضوں کی اکثریت صرف چند سال مزید ہی زندہ رہ پاتی ہے۔
فی الحال گردوں کی ناقابلِ علاج بیماریوں سے چھٹکارا پانے کا واحد راستہ گردے کی تبدیلی یعنی کسی دوسرے کے دیئے ہوئے گردے کی پیوند کاری ہے۔
لیکن اس میں بھی گردے کا عطیہ دستیاب ہونے اور ٹشو میچنگ سے لے کر ساری زندگی دوائیں کھانے تک، کئی طرح کے مسائل ہیں۔
اس کے برعکس، اگر کسی شخص کو اس کے اپنے خلیوں سے بنا ہوا گردہ بطور عطیہ لگایا جائے تو ایسے کئی مسائل حل ہوجائیں گے۔
تھری ڈی بایوپرنٹنگ اور خلیاتِ ساق (stem cells) کے ملاپ سے وضع کی گئی یہ جدید ٹیکنالوجی بھی اسی جانب ایک قدم ہے۔
آنے والے برسوں میں اس ٹیکنالوجی نے اگر ہماری توقعات کے مطابق ترقی کرلی اور یہ پوری جسامت والے انسانی گردے ''چھاپنے'' کے قابل ہوگئی تو یہ دنیا میں گردوں کے لاکھوں مریضوں کےلیے زندگی کی ایک نئی امید سے کم نہیں ہوگی۔