شرح سود 975 فیصد پر برقرار نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان

مہنگائی کے باعث شرح سود بڑھنے کا بھی امکان ظاہر

(فوٹو: اسٹیٹ بینک)

اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے پالیسی ریٹ 9.75فیصد کی موجودہ سطح پر برقرار رکھنے کا اعلان کردیا۔

مانیٹری پالیسی اجلاس کے بعد جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ روس یوکرین تنازع نے اجناس کی عالمی قیمتوں اور عالمی مالی حالات کے منظرنامے کو بہت غیریقینی بنادیا ہے۔ منفی حالات برقرار رہے تو جاری کھاتے کے خسارے اور مہنگائی کی توقعات کے منظرنامے کو چیلنجز کا سامنا ہوسکتا ہے اور پاکستان میں شرح سود بڑھ سکتی ہے۔

پچھلے ہفتے حکومت کے اعلان کردہ ریلیف پیکیج کے تحت ایندھن کی قیمتوں اور بجلی کے نرخوں میں کمی کے بعد مہنگائی کا منظرنامہ بہتر ہوگیا ہے۔ روس یوکرین بحران کے باعث تیل اور غذائی اشیا کی آئندہ کی راہ کے بارے میں خاصی غیریقینی کیفیت کے باوجود مہنگائی پر طلبی دباؤ کو روکنے اور نان آئل درآمدات کو قابو میں رکھنے میں مدد ملے گی۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے عندیہ دیا ہے کہ روس یوکرین کی صورتِ حال کے پیش نظر ضرورت پڑنے پر اپریل کے اواخر میں مقرر کردہ مانیٹری پالیسی کمیٹی کا اجلاس قبل از وقت بھی منعقد کیاجاسکتا ہے تاکہ بیرونی اور قیمتوں کے استحکام کو تحفظ دینے کے لیے بروقت اور محتاط قدم اٹھایا جاسکے۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق عمومی مہنگائی جنوری میں 13 فیصد سے گر کر فروری میں 12.2 فیصد پر آگئی، جس کی وجہ توانائی کی قیمتوں کی مہنگائی میں کمی ہوئی ہے۔

اس مالی سال میں مہنگائی اوسطاً 9-11فیصد کے درمیان رہے گی اور پھر اجناس کی عالمی قیمتوں کے معمول کے آنے پر مالی سال 23ء میں گھٹ کر 5-7 فیصد کی وسط مدتی حدود میں آجائے گی۔یہ بنیادی منظرنامہ عالمی قیمتوں کی راہ، ملکی اجرت کی صورت ِحال اور مالیاتی پالیسی کے موقف کے خطرات سے مشروط ہے۔


مانیٹری پالیسی بیان میں کہا گیا ہے کہ بلند قیمتوں اور طلب میں نرمی کے اقدامات کی وجہ سے نمو مسلسل معتدل ہورہی ہے۔ پچھلے اجلاس کے بعد سے گاڑیوں کی فروخت اور بجلی کی پیداوار میں ماہ بہ ماہ کمی آئی ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات اور سیمنٹ کی فروخت کی رفتار بھی کم ہوئی ہے۔

مالی سال 22ء کی دوسری سہ ماہی میں عارضی صارفی مصنوعات کی فروخت میں اضافہ کم ہوا اور خدمات سے جنرل سیلز ٹیکس کی وصولی گذشتہ سال کے مقابلے کم تھی۔ رسد کے حوالے سے بڑے پیمانے پر اشیا سازی (ایل ایس ایم)کی نمو کو ری بیسنگ کے بعد بڑھایا گیا ہیاور اکتوبر سے تقریباً 5-6فیصد پر ہے۔

پچھلے سال کے مقابلے میں ربیع کے موسم کے دوران کھاد کے استعمال اور پانی کی دستیابی جیسے اہم عوامل میں کمی کی بنا پر زرعی امکانات کسی قدر کمزور ہو گئے ہیں۔ کپاس اور گندم کی پیداوار پچھلے تخمینوں سے کم ہونے کا امکان ہے۔ مالی سال 22ء میں نمو اب بھی 4-5فیصد کی سابقہ پیش گوئی کی حدود کے وسط کے آس پاس متوقع ہے۔

پی بی ایس کے اعداد و شمار کے مطابق جنوری میں درآمدات بشمول توانائی کی درآمدات میں تیز اور وسیع البنیاد کمی ہوئی اور وہ گھٹ کر 6.1 ارب ڈالر رہ گئیں جبکہ دسمبر میں 7.6 ارب ڈالر تھیں۔فروری میں درآمدات میں مزید کمی آئی جبکہ برآمدات میں اضافہ ہوا، جس کے نتیجے میں تجارتی خسارے میں گذشتہ نومبر کے مقابلے میں 38 فیصد کمی ہوئی۔ اس سال درآمدات میں ہونے والا تقریباً تین چوتھائی اضافہ زیادہ قیمتوں کی وجہ سے ہوا، جبکہ جنوری میں حجم کی نمو منفی تھی۔

اگرچہ جاری کھاتے کا خسارہ بڑھ کر 2.6 ارب ڈالر تک پہنچ گیا تاہم اس میں تیل اور ویکسین سمیت قرضوں اور سپلائر کریڈٹ کے ذریعے پوری کی جانے والی درآمدات کا کافی حصہ شامل ہے۔ چونکہ یہ درآمدات سرمایہ اور مالی کھاتے میں آمدہ تلافی کرتی ہوئی رقوم سے ساتھ ہی پوری ہوجاتی ہیں اس لیے جاری کھاتے کی پائیداری کو نقصان نہیں پہنچاتیں۔

جنوری میں ترسیلاتِ زر میں معمولی کمی ہوئی، جس سے جزوی طور پر موسمی اثرات کی عکاسی ہوتی ہے، لیکن اس مالی سال میں اب تک کی توقعات کے مطابق اضافہ ہوا ہے۔ آگے چل کر، نان آئل جاری کھاتے کے خسارے میں کمی متوقع ہے، کیونکہ درآمدی نمو معتدل ہوتی ہوئی طلب کے ساتھ سست ہورہی ہے جبکہ برآمدات اور ترسیلاتِ زر میں لچک برقرار ہے۔

مجموعی جاری کھاتے کے خسارے کا منظرنامہ تیل کی بین الاقوامی قیمتوں کی راہ پر منحصر ہے۔مالیاتی خسارہ مالی سال 22 کی پہلی ششماہی کے دوران جی ڈی پی کا تقریباً 2 فیصد تھا اور تقریبا ً پچھلے سال کے برابر تھا۔
Load Next Story