سرطان اور انفیکشن کے بہتر علاج میں مددگار عکس نگاری کی نئی ٹیکنالوجی

اسپیکیٹرواسکوپی کی نئی تکنیک سے خلوی سطح تک کی تشخیص اور علاج میں بہت مدد مل سکے گی


ویب ڈیسک March 09, 2022
جامعہ ہیوسٹن میں ’سپرریزولیوشن فورس اسپیکٹراسکوپی‘ کا پورا نظام جس سے سرطان اور دیگر امراض کے علاج اور تشخیص میں بہت مدد مل سکے گی۔ فوٹو: یونیورسٹی آف ہیوسٹن

لاہور: دو امریکی سائنسداں انقلابی طبی عکس نگاری کی نئی ٹیکنالوجی کے آخری مرحلے میں پہنچ چکے ہیں۔ اس سے نہ صرف رائبوسوم سے پروٹین بننے کا پورا عمل سمجھا جاسکے گا بلکہ دوا سازی میں بھی مدد ملے گی۔ یہ دوائیں سرطان اور مختلف انفیکشن کے خلاف تیار کی جاسکیں گی۔

طیف نگاری (اسپیکٹرواسکوپی) کے نئے عمل میں خلیات کے مختلف مقامات پر روشنی ڈال کر اندر کا احوال معلوم کیا جاتا ہے جس میں خود خلیے کا حجم اور دیگر تفصیلات شامل ہیں۔ لیکن اس کا اہم ہدف رائبوسوم کا مطالعہ کرنا ہے۔

انسانی خلیات کے اندر رائبوسوم کا کردار بہت اہم ہوتا ہے اور انہیں پروٹین فیکٹریاں کہا جاسکتا ہے۔ لیکن رائبوسوم کو پروٹین بنانے کی ہدایات میسنجر آر این اے ملتی ہیں کیونکہ پروٹین سازی کا کوڈ آراین اے میں پایا جاتا ہے جنہیں کوڈون کہا جاتا ہے۔ اس عمل میں معمولی غلطی بھی منفی اثرات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کردیتی ہے اور یوں پورا خلیہ تباہ و برباد ہوسکتا ہے۔

اب جامعہ ہیوسٹن میں پروفیسر شوجون ژی اور یوہونگ وینگ نے مشترکہ طور پر عکس نگاری کا نیا طریقہ بنایا ہے جسے 'سپرریزولیوشن فورس اسپیکٹراسکوپی' کا نام دیا گیا ہے۔ اس سے رائبوسوم سے پروٹین بننے کے عمل اور وائرس آراین اے کی مکمل کارکردگی کو دیکھا جاسکتا ہے۔

اس سے پورے حیاتیاتی نظام کو سمجھنے میں مدد ملے گی اور ساتھ میں ادویاتی علاج کے اثرات جاننے میں بھی معاونت ہوگی۔ واضح رہے کہ یہ عکسی طیف نگاری کا ایک بالکل نیا طریقہ ہے جس سے سالماتی سطح کی حیاتیات کو گہرائی سے سمجھنے میں مدد ملے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔