دہشت گردوں کو نشان عبرت بنایا جائے

دہشت گردی کے عفریت کا سر کچلنا ضروری ہے، یہ سب جب ہی ممکن ہے جب ہم بحیثیت قوم اپنے اختلافات کو پس پشت ڈالیں


Editorial March 09, 2022
دہشت گردی کے عفریت کا سر کچلنا ضروری ہے، یہ سب جب ہی ممکن ہے جب ہم بحیثیت قوم اپنے اختلافات کو پس پشت ڈالیں (فوٹو : فائل)

ملک کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے مذموم عزائم کبھی کامیاب نہیں ہوں گے، دہشت گردی اور نفرت انگیز تقاریر قابل برداشت نہیں، پوری قوم بدامنی پھیلانے والے عناصر کو شکست دینے کے لیے متحد ہے، ان خیالات کا اظہار وزیر اعظم عمران خان نے اپیکس کمیٹی برائے نیشنل ایکشن پلان (نیپ) کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

ایپکس کمیٹی نے پشاور حملے کی شدید مذمت کی اور حملے میں جان کی بازی لگانے والے شہدا کے لیے تعزیت کا اظہار کیا۔ وزیراعظم عمران خان نے مزید کہا کہ حکومت دہشت گردوں کے لیے زیرو ٹالرنس رکھتی ہے، دہشت گرد عناصر کو نشان عبرت بنانے کے لیے مقدمات فوری نمٹانے کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی کے خطرے کو ناکام بنانے کے لیے قومی ایکشن پلان کا کثیر الجہتی نقطہ نظرکے ساتھ نفاذ ضروری ہے۔

بلاشبہ وزیراعظم عمران خان نے جن صائب خیالات کا اظہار کیا ہے ، وہ زمینی حقائق پر مبنی ہیں ۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی ملک و قوم اور حکومت کے لیے بڑا چیلنج ہے جو ہمارے سیاسی، معاشی اور سماجی نظام کو خطرے میں ڈالتے ہوئے ہمارے خطے کی سلامتی اور استحکام کو نشانہ بناتا ہے۔

یہ ایک عالمی رجحان ہے جو سرحدوں، ثقافتوں اور مذاہب سے بالاتر ہے اور اس سے لڑنے کے لیے عالمی برادری کی مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی کے خلاف ہماری جنگ صرف فوجی نوعیت کی نہیں ہے کیونکہ دہشت گردی ایک پیچیدہ اور ہمہ جہت مصیبت ہے جس کے پھیلاؤ سے نمٹنے کے لیے خصوصی نقطہ نظر کی ضرورت ہے، لہٰذا انتہا پسندی اور دہشت گردی کو نیچا دکھانے کی کوششوں میں بنیاد پرستی کی جڑوں کو کاٹنے سے لے کر دہشت گردوں سے نمٹنے اور معاشرے کی فعال شرکت کی حوصلہ افزائی تک ایک کثیر الجہتی نقطہ نظر کو مدنظر رکھنا چاہیے۔

چند روز قبل سانحہ پشاور پیش آیا ، جہاں دہشت گردوں نے ایک مسجد میں نمازیوں کو نشانہ بنایا گیا، تاریخ کے تناظر میں دیکھا جائے تو تحریک پاکستان ایسی ریاست کے حصول کے لیے تھی جہاں مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر اپنے عقائد کے مطابق آزادنہ زندگی بسر کر سکیں۔دوقومی نظریے کے تحت وجود میں آنے والی ایک خالص اسلامی ریاست کو مسلکی ریاست میں بدلنے کی بھرپور کوشش شروع سے جاری ہے، وہ قوتیں جو قیام پاکستان کی سخت مخالف تھیں حصول وطن کے بعد ملک کی سب سے بڑی اسٹیک ہولڈر بن گئیں۔

ارض پاک میں ان مذہبی جنونی قوتوں کو پروان چڑھایا گیا جنھوں نے اخوت و وحدت کی فضا کو خراب کر کے مذہبی منافرت کی بنیاد رکھی۔ مختلف دہشت گردانہ کارروائیوں کے نتیجے میں ہماری قوم کو اسی ہزار جنازے اٹھانے پڑے ہیں۔

دہشت گردی کے خلاف مختلف ادوار میں آپریشن جاری رہے لیکن ان دہشت گردوں اور شرپسندوں کا مکمل خاتمہ نہ کیا جا سکا ہے۔ پشاور کا حالیہ سانحہ کبھی رونما نہ ہوتا اگر سیکیورٹی کے انتظام موثر انداز میں کیے جاتے۔ آج ملک دشمن شر پسند طاقتیں ہر میدان میں پوری آزادی کے ساتھ زہر اگل رہے ہیں جب کہ پرامن اور محب وطن پاکستانی قوم کو نظریاتی ابہام میں مبتلا کرنے کی کوشش کی جار ہی ہے۔

انتہا پسندی اور اس کے پھیلاؤ کا سبب بننے والے مواد سے نمٹنے کے لیے حکومت کو سنجیدگی سے کوششیں کرنی ہوںگی ۔ متشدد انتہا پسندی کو ہر گز برداشت نہیں کرنا چاہیے اگر انتہاپسند نظریات کا پرچار اور پھیلاؤ جاری رہا تو دہشت گردوں کا خاتمہ ممکن نہیں ہو گا۔ ہم دہشت گردوں سے لڑ سکتے ہیں لیکن نظریات سے نہیں لڑا جاسکتا، انتہاپسندی نظریات کو شکست دینے کے لیے متبادل بیانیہ تشکیل دینا اشد ضروری ہے۔

ہمارے پاس دہشت گردی کا ہاتھ روکنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ وطن عزیز کے سیکیورٹی حالات غیر معمولی ہیں اور ملک کی سیاسی و عسکری قیادت غیر معمولی فیصلے بھی لے چکی ہے، مگر خطرات صرف فیصلوں سے نہیں ٹلتے ، حالات کچھ ایسے ہیں کہ دہشت گردی کا خطرہ کسی مخصوص رنگ ،نسل ، فرقے یا پیشے کے افراد کو نہیں، سب کو ہے، ایسے میں ہر شخص کو اپنی آنکھیں کھلی رکھنی ہوں گی۔

تجزیہ نگاروں کے خیال میں بلوچستان میں ہونے والی کارروائیوں کا بڑا گہرا تعلق پاکستان کے اسٹرٹیجک مفادات سے ہے اور یہ کہ موجودہ صورتحال کے پیش نظر اس بات کا امکان ہے کہ بلوچستان میں حملے مزید بڑھیں گے۔ بلوچستان میں پاکستان کے اسٹرٹیجک مفادات چین کے ساتھ بہت قریب تر ہوتے جا رہے ہیں، اس لیے کچھ قوتیں چاہتی ہیں کہ ان کو نقصان پہنچایا جائے۔ دوسری جانب خیبر پختون خو ا میں دہشت گردی کا سدباب کرنے کے لیے پاکستان کو فوری طور پر باڑ لگانے کا عمل مکمل کرنا چاہیے۔

اس سے دہشت گردی کی روک تھام بھی ہو گی اور افغان طالبان حکومت کو فائدہ بھی ہو گا، کوئی افغانستان سے پاکستان میں داخل ہو کر دہشت گردانہ کارروائی نہیں کر سکے گا اور نہ ہی پاکستان سے فرار ہوکر افغانستان میں داخل ہوسکے گا۔

نائن الیون کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد سے اب تک امریکا کسی بھی بہت بڑے دہشت گردی کے حملے کا شکار نہیں ہوا۔ امریکی اسٹیٹ حکام کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ نائن الیون کے بعد50 سے زائد دہشت گردی کے بڑے حملوں کو ناکام بنایا گیا۔ کچھ ایسا ہی برطانیہ میں بھی ہوا جہاں دہشت گردوں کو حملہ کرنے سے پہلے ہی ناکام بنادیا گیا۔ ان ممالک میں دہشت گردی کا سر کچلنے کے لیے صرف سیکیورٹی اداروں کی فعالیت ہی کام نہیں آئی اس کے لیے عوام کے شعور کی بیداری بھی اہم ہے۔

جیسے جیسے دنیا میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے واقعات میں تیزی آئی دنیا بھرکی مختلف یونیورسٹیوں میں ریسرچ شروع ہوگئی کہ آخر کیونکر ان حالات سے بچا جائے اور بحیثیت عوام کیا کیا جائے۔ ان مقالات میں بھرپور زور دیا گیا کہ دہشت گردی کے خلاف عوامی شعور کو بیدار کیا جائے ، کچھ امریکی یونیورسٹیوں نے دہشت گردی کے بعد لوگوں کو ٹراما کی کیفیت سے نکالنے کے لیے کچھ کورسز پڑھانا شروع کیے تھے۔

جن میں دیگر باتوں کے علاوہ طلبہ کو یہ بھی بتایا جاتا تھا کہ دہشت گردی کے مرتکب ہونے والے نوجوانوں کے حالات کے بارے میں جاننا ضروری ہے، نہ صرف ان کی موجودہ زندگی کے بارے میں، بلکہ ان کے آباؤ اجداد کی زندگی کے بارے میں بھی، ان کے کیا حالات تھے، ان کے ساتھ کیا زیادتیاں ہوئیں وغیرہ۔ اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستانی یونیورسٹیاں خاص طور پر عمرانیات کے شعبے اس ضمن میں تحقیق کا آغاز اور کورسز تیار کریں اور حکومت کو تجاویز پیش کریں۔

وقت کا تقاضا ہے کہ شاخوں اور برگ و بار کو کاٹنے پر محنت اور توانائیاں صرف کرنے کے بجائے جڑوں کو کاٹااور اُکھاڑا جائے۔ اُن نفرتوں، تنازعات،اختلافات اور تضادات کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے جو ملک پر طاری دہشت گردی کے حقیقی اسباب ہیں۔ یہ صرف محبت، دل جوئی، داد رسی اور ایثار کے پایوں پر استوار تخت پر بیٹھ کر دردمندانہ اور بے لوث جذبات کے ساتھ بات چیت اور مذاکرات سے ہی ممکن ہے۔ مشرقی پاکستان میں شکست کے پیچھے بیرونی قوتوں کا ہاتھ تھا تو کیا آج پاکستان کی مغربی سرحدوں یا صوبہ بلوچستان میں جو شورش بپا ہے، اس کے پیچھے کوئی بیرونی ہاتھ نہیں؟

دنیا بھر میں حکومتوں کا یہی چلن رہا ہے کہ دہشت گردی کے ہر واقعے کے جواب میں وہ ایسے اقدامات کرتی ہیں جن سے شہری آزادیوں اور انسانی حقوق پر زد پڑتی ہے، ظاہر ہے سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کے محافظ اس طرح کے اقدامات کی مزاحمت کرتے ہیں۔ دہشت گردی کے واقعات عوام کے دلوں میں خوف پیدا کرتے ہیں اور حکومتیں اس خوف کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شہری آزادیوں کو کچلنے کی کوشش کرتی ہیں۔

امریکی نیشنل وار کالج کی پروفیسر آڈرے کرونن کے بقول'' اچھی بات یہ ہے کہ دہشت گردی کی کوئی بھی لہر ہمیشہ چلتی نہیں رہتی، یہ کبھی نہ کبھی ختم ضرور ہوتی ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے، کب اور کیسے؟' اس کے جواب کا دارومدار حکومتی پالیسی پر ہے۔''

دہشت گردی کے خلاف ہماری جنگ جاری ہے اور جاری رہے گی ، دہشت گردی کے عفریت کا سر کچلنا ضروری ہے ، یہ سب جب ہی ممکن ہے جب ہم بحیثیت قوم اپنے اختلافات کو پس پشت ڈالیں ، قومی یکجہتی کا مظاہرہ کریں ، اگر ہمارے اندر نفاق ہوگا تو دشمن اس سے فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہوجائے ۔ حرف آخر آج ہم تاریخ کے نازک ترین موڑ پر کھڑے ہیں ، خطے میں عالمی طاقتیں اپنا کھیل جاری رکھے ہوئے ہیں ، سوچنے کی بات ہے کہ آیا ہم کس طرح ان سازشوں کا شکار ہونے سے اپنے ملک کو بچا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں