صدیقِ اکبررضی اللہ تعالیٰ عنہ دوسری قسط

موجودہ دور کے حکمران ریاستِ مدینہ کے پہلے حکمران کا پہلا فقرہ غور سے پڑھ لیں تو شاید انھیں اپنی حیثیت کا پتہ چل جائے


[email protected]

مدینہ کی اسلامی ریاست کے قیام کا ابھی آغاز تھا، اقتصادی حالت کمزور تھی اور بیت المال خالی تھا، اس لیے جنگِ یرموک کے موقعے پر رسول اکرمؐ نے سامانِ حرب کے لیے تمام صحابہ سے مالی امداد کی اپیل کی، جانثارانِ اسلام ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کے خواہشمند تھے۔

حضرت عمر فاروقؓ نے گھر کا آدھا سامان جہاد کی نذر کردیا۔ جس پر نبی کریمؐ نے فرمایا،''عمر تمھیں گھر کی ضروریات کے لیے زیادہ رکھنا چاہیے تھا۔'' ابھی یہ بات ہورہی تھی کہ صدیقِ اکبرؓ بھی پہنچ گئے اور صحابہ یہ دیکھ کر ششدر رہ گئے کہ یارِ غارنے گھر کا سارا سامان اور اپنا کل اثاثہ لاکر حضورؐ کے قدموں میں ڈھیر کردیا۔

نبی کریمؐ نے پوچھا ،''ابوبکر گھر والوں کے لیے کیا چھوڑ آئے ہو؟'' صدیقِ اکبرؓ بولے،''اللہ اور اللہ کا رسولؐ ہی کافی ہے۔''اس واقعہ کو علامہ اقبالؒ نے بڑے روح پرور انداز میں نظم کیا ہے کہ جب رسول اللہﷺ اور حضرت عمر فاروق ؓ کے درمیان بات چیت چل رہی تھی توصدیقِ اکبرؓ بھی پہنچ گئے۔

اتنے میں وہ رفیقِ نبوت بھی آگیا
جس سے بنائے عشق و محبت ہے استوار

لے آیا اپنے ساتھ وہ مردِ و فا سرشت
ہر چیز جس سے چشمِ جہاں میں ہو اعتبار

بولے حضورؐ، چاہیے فکرِ عیال بھی
کہنے لگا وہ عشق و محبت کا راز دار

اب صدیقِ اکبرؓ حضورؐ سے مخاطب ہوکر عرض کرتے ہیں کہ

اے تجھؐ سے دیدہ و مہ وانجم فروغ گیر
اے تیریؐ ذات باعثِ تکوینِ روزگار

پروانے کو چراغ ہے، بلبل کو پھول بس
صدیق کے لیے ہے خدا کا رسول ؐ بَس

حجتہ الوداع کے دوران ہی سرورِ دو عالم پر تکمیلِ دین کی آیت نازل ہوئی اَلیَومُ اَکمَلتُ لَکُم دینُکم (آج میں نے تمہارے لیے دین مکمل کردیا ہے)۔ سرکارِ دوعالمؐ نے جب لاکھوں کے اجتماع میں تکمیلِ دین اور اتمامِ نعمت کا اعلان فرمایا تو رفیقِ نبوّت جان گئے کہ رسولؐ اللہ کے وصال کا وقت قریب آن پہنچا ہے، جب آپؐ نے خطاب میں یہ کہا کہ ''اب آپ کے ساتھ میری یہاں ملاقات نہ ہوسکے گی''تو یارِ غار اتنا روئے کہ آپؓ کی داڑھی آنسوؤں سے تر ہوگئی۔ حج سے واپسی کے بعد نبی کریمؐ علالت میں مبتلا ہوگئے۔

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں،''رسول اللہؐ جب کبھی بیمار ہوتے تو یہ دعا پڑھ کر ہاتھ اپنے جسم مبارک پر پھیر لیتے تھے 'اے مالکِ انسانیت خطرات دور فرمادے، اے شفا عطا فرمانے والے، شفا عطا فرمادے، شفا وہی ہے جو تو عطا کرے' مگر اس مرتبہ حضورؐ بیمار ہوئے تو میں نے یہ دُعا پڑھی اور چاہا کہ جسمِ اطہر پر ہاتھ پھیر دوں مگر حضورؐ نے ہاتھ پیچھے ہٹا دیے اور فرمایا : اَللّٰھُمَّ اغفَرلیِ وَالحِقنِی باِلرَّفیقِ الاعلیٰ (اے اﷲمغفرت فرمادے اور اپنی رفاقت عطا فرمادے)۔

وفات سے پانچ روز پہلے سر میں پانی ڈلوایا تو مزاجِ اقدس میں بہتری آئی، پھر آپ ؐ مسجد نبوی میں تشریف لے گئے اور فرمایا،''مسلمانو! وہ قوم اللہ کے غضب میں آجاتی ہے جو اپنے انبیاء اور صلحاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالے۔ خبردار تم ایسا نہ کرنا'' پھر فرمایا،'' خدا تعالیٰ نے اپنے ایک بندے کو اختیار عطا فرمایا ہے کہ وہ دنیا و مافیہا کو قبول کرے یا آخرت کو، مگر اُس نے صرف آخرت کو قبول کرلیا ہے۔'' یہ سن کر سیدنا ابوبکرؓ رونے لگے اور کہا،'' یارسول اللہؐ ہمارے ماں باپ اور ہماری جانیں آپ پر قربان ہوجائیں۔''

لوگوں نے تعجب کا اظہار کیا کہ نبی کریمؐ تو صرف ایک شخص کا واقعہ بیان فرمارہے ہیں، اس میں رونے کی کونسی بات ہے مگر رمزشناسِ نبوت اصل بات سمجھ چکے تھے جبھی تو ان کے آنسو تھمنے کا نام نہ لیتے تھے۔ اسی موقع پر سرکارِ دوعالمؐ نے فرمایا،'' میں سب سے زیادہ جس شخص کی رفاقت اور دولت کا مشکور ہوں وہ ابوبکرؓ ہیں، اگر میں اپنی امت میں سے کسی ایک شخص کو اپنی دوستی کے لیے منتخب کرسکتا تو وہ ابوبکرؓ ہوتے لیکن اب رشتہ اسلام میری دوستی کی بنیاد ہے۔'' پھر فرمایا،'' مسجد کے رخ پر کوئی دریچہ ابوبکرؓ کے دریچہ کے سوا باقی نہ رکھا جائے'' ۔

مورخ لکھتے ہیں کہ انصارِ مدینہ حضورﷺ کے زمانہء علالت میں مسلسل رو رہے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عباسؓ نے ان سے دریافت کیا تو کہنے لگے،'' ہمیں حضرت محمدﷺ کی صحبتیں یاد آتی ہیں'' ۔ سرکارِ دوعالمؐ علالت کے باوجود گیارہ روزتک برابر مسجد میں تشریف لاتے رہے۔ جمعرات کو مغرب کی نماز خود پڑھائی اس کے بعد غنودگی طاری ہوگئی۔

عشاء کے وقت آنکھ کھلی اور دریافت فرمایا! کیا نماز ہوچکی؟ حضرت بلالؓ نے عرض کیا،''یارسول اللہؐ سب لوگ آپ کا انتظار کررہے ہیں۔'' نبی کریمؐ نے اُٹھنا چاہا تو غشی آگئی، افاقہ ہونے پر فرمایا،'' ابوبکر نماز پڑھادیں۔'' سیّدہ عائشہؓ نے عرض کیا،'' والد محترم بڑے رقیق القلب ہیں، وہ آپ کی جگہ پر کھڑے ہوئے تو نماز نہیں پڑھا سکیں گے، ان کے رونے سے لوگوں کی نماز میں خلل پڑے گا''۔ رسالتمآب نے پھر فرمایا،'' ابوبکر ہی نماز پڑھائیں''۔ مورخ لکھتے ہیں '' رسول اﷲ کا منبر چند روز پہلے خالی ہوچکا تھا، آج رسول کریمؐ کا مصلی بھی خالی ہوگیا۔

جب حضرت ابوبکرؓ، رسول اللہؐ کی جگہ کھڑے ہوئے تو ان کے قدم لڑکھڑاگئے اور آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی، لیکن رسول اللہ کے ارشاد کے ساتھ توفیقِ الٰہی شامل تھی اس لیے یہ کٹھن مرحلہ گزر گیا اور صدّیقِ اکبرؓ نے حیاتِ نبوی میں سترہ نمازیں پڑھائیں۔'' مورخ لکھتے ہیں کہ حضورؐ کی رحلت کی خبر نے مسلمانوں کے جگر کاٹ کر رکھ دیے۔ انصار و مہاجرین کے قدم لڑکھڑاگئے، چہرے بجھ گئے، آنکھیں خون بہانے لگیں، سورج تاریک ہوگیا۔

مسجدِ نبوی میں قیامت کا سماں تھا۔ ابو بکرؓ چپ چاپ حجرۂ عائشہ میں داخل ہوئے، چہرہ اقدس سے کپڑا اٹھا کر پیشانی مبارک پر بوسہ دیا اور پھر چادر ڈال دی۔ روتے ہوئے کہا،'' آپؐ کی زندگی بھی سب سے پاک تھی اور موت بھی سب سے پاک'' اس کے بعد صدیقِ اکبرؓ مسجدِ نبوی میں تشریف لائے جہاں حضرت عمرؓ صدمے اور جوش کی حالت میں اعلان کررہے تھے کہ '' خدا کی قسم جس نے یہ کہا کہ رسول اللہ وفات پا گئے۔

اس کا سر تن سے جدا کردوںگا۔''صدیقِ اکبرؓ نے یہ سن کر کہا ''عمر سنبھلو اور خاموش ہوجاؤ'' پھر حضرت ابوبکرؓ نے ایسی دانش مندی، حوصلے اور فراست کا مظاہرہ کیا جس نے اسلام اور مسلمانوں دونوں کو بچالیا۔ آپ نے مسلمانوں کو متوجہ کر کے فرمایا،''اے لوگو! تم میں سے جو شخص اﷲ کے نبیﷺ کو پوجتا تھا، وہ سمجھ لے کہ حضرت محمدﷺ وفات پاگئے ہیں اور جو شخص اﷲ کا پرستار ہے، وہ جان لے کہ اﷲ زندہ ہے اور ہمیشہ رہے گا۔'' پھر آپ نے سورۃ آلِ عمران کی آیات پڑھیں، ''نہیں ہیں محمد مگر ایک رسول۔ ان سے پہلے بھی رسول گذر چکے ہیں۔ کیا اگر وہ وفات پا جائیں یا شہید کردیے جائیں تو تم دین سے برگشتہ ہو جاؤ گے؟ جو شخص برگشتہ ہوجائے گا وہ اﷲ تعالیٰ کو کچھ بھی نقصان نہ پہنچاسکے گا اور اﷲ عنقریب شکر گذاروں کو جزا دے گا۔''

حضرت عمرؓ فرماتے ہیں، سیّدنا ابوبکرؓ کی زبان سے قرآن کی آیت سن کر میں شدتِ غم سے گرِ پڑا اور مجھے اور دوسرے مسلمانوں کو یقین ہو گیا کہ واقعی رسول اللہﷺ رحلت فرماگئے ہیں۔ آقائے دوجہاںؐ کے وصال کے بعد اسلامی سلطنت کی قیادت کا تاج کس کے سر پر رکھا جائے؟ جب یہ سوال اُٹھا تو صدیقِ اکبرؓ نے پوری اُمت میں سب سے افضل ہونے کے باوجود اس کے لیے معمولی سی خواہش کا بھی اظہار نہ کیا بلکہ مسلمان اکابرین سے کہا کہ حضرت عمرفاروقؓ اور حضرت ابو عبیدہؓ بن جراح میں سے کسی کو چُن لیا جائے۔

اس پر حضرت عمرؓ نے فیصلہ کن انداز میں یہ کہہ کر کہ ''بلاشبہ روئے زمین پر اِس وقت ابوبکرؓ تمام انسانوں سے افضل ہیں'' آپؓ کے ہاتھ پرہاتھ رکھ کر بیعت کا اعلان کردیا، جس پر تمام مسلمانوں نے جوق در جوق آپؓ کو صدقِ دل سے خلیفہٗ اوّل تسلیم کیا۔ یہ بیعت سقیفہ بنو ساعدہ میں ہوئی جس میں صرف اکابرین شامل تھے۔ دوسرے روز مسجد نبوی میں عام بیعت ہوئی جس کے بعد اسلامی ریاست کے پہلے حکمران یعنی خلیفہ اوّل حضرت ابوبکرؓ صدیق نے خطاب کرتے ہوئے کہا،''اے مسلمانو! میں تمہارا حکمران بنایا گیا ہوں مگر میں تم سے بہتر نہیں ہوں....اگر میں اللہ اور رسولؐ کے بتائے ہوئے راستے پر چلوں تو میری مدد کرو، اگر غلط راستے پر چلوں تو مجھے فوراً ٹوک دو۔''

ہر روز اپنی ایمانداریوں کی ڈینگیں مارنے والے موجودہ دور کے حکمران ریاستِ مدینہ کے پہلے حکمران کا پہلا فقرہ غور سے پڑھ لیں تو شاید انھیں اپنی حیثیت کا پتہ چل جائے۔خلیفہء اوّل نے پھرکہا "تم میں سے کمزور ترین شخص میرے نزدیک طاقتور ہے جب تک میں اسے اس کا حق نہ دلا دوں اور طاقتور ترین شخص کمزور ہے جب تک اس کے ذمے جو حق ہے اس سے وہ نہ لے لوں۔'' (جاری ہے)۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں