ہماری بہادر عورتیں آخری حصہ

لاہور کی وہ تین گم نام برقعہ پوش لڑکیاں جنھوں نے 14 فروری 1946کو لاہور جیل پر مسلم لیگ کا پرچم نصب کیا تھا


Zahida Hina March 09, 2022
[email protected]

ISLAMABAD: آج مجھے وہ تمام لڑکیاں اور عورتیں یاد آرہی ہیں جو حصولِ پاکستان کی تحریک میں سرگرم تھیں اور جنھوں نے اپنے حقوق کے لیے نہیں بلکہ اجتماعی آزادی کے لیے صدیوں پرانی روایات کو ترک کیا تھا اور سڑکوں پر نکلی تھیں۔ لاہور کی وہ تین گم نام برقعہ پوش لڑکیاں جنھوں نے 14 فروری 1946کو لاہور جیل پر مسلم لیگ کا پرچم نصب کیا تھا۔

16 جون 1946کو متوسط اور نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی اور خاکسار عورتوں کے جلوس کی قیادت کرنے والی گیارہ سالہ سعیدہ بانو جو اس میں شرکت کے لیے دِلی سے لاہور آئی تھی، جس کی پُرجوش تقریروں نے دِلی سے لاہور تک اسے عورتوں کے سیاسی جلسوں اور جلوسوں کی ہیروئن بنادیا تھا۔

طبقہ اعلیٰ کی بیگم اعزاز رسول، بیگم ایم اصفہانی، بیگم صدیق علی خاں، بیگم اختر، بیگم قاضی عیسیٰ، لیڈی مراتب علی، بیگم سلمیٰ تصدق حسین، بیگم شاہ نواز، لیڈی عبدالقادر، لیڈی ہارون، شائستہ اکرام اللہ، فاطمہ بیگم، نورالصباح بیگم، مس قریشی اور ان کے علاوہ ہندوستان بھر میں پھیلی ہوئی وہ تمام نامور اور گمنام لڑکیاں اور عورتیں جنھوں نے مسلم لیگ کے مطالبہ پاکستان کی حمایت میں دن رات ایک کردیے تھے، لاٹھیاں کھائی تھیں، حوالات میں بند ہوئی تھیں، جن کی یہ حمایت غیر مشروط تھی، جنھوں نے مسلم لیگ کے کسی بھی رہنما سے یہ سوال نہیں کیا تھاکہ پاکستان بن گیا تو کیا ہم عورتوں کو بھی کچھ حقوق ملیں گے؟

ان ہی عورتوں کو متحرک کرنے اور تحریک پاکستان میں شامل کرنے کے لیے جناح صاحب نے 1942 سے انھیں بہ طور خاص مخاطب کرنا شروع کردیا تھا، عورتوں کی ایک سب کمیٹی بھی بنائی گئی تھی جس کا مقصد ان کی سماجی، اقتصادی اور ثقافتی بہتری کے لیے تجاویز مرتب کرنا تھا۔ اس کمیٹی میں یوپی، بہار، پنجاب، بمبئی، سی پی، آسام، سندھ، بلوچستان، دِلّی، شمال مغربی سرحدی صوبہ اور مدراس سے تعلق رکھنے والی خواتین کے نام شامل کیے گئے تھے۔

تحریکِ پاکستان کے لیے عورتوں کی حمایت کس قدر اہم تھی اور ان کا اس وقت کے مرکزی سیاسی دھارے میں شامل ہونا مسلم لیگ کی قیادت کے لیے کتنی اہمیت رکھتا تھا، اس کا اندازہ جناح صاحب کی 1944کی اس تقریر سے لگایا جاسکتا ہے جو انھوں نے علی گڑھ میں کی تھی اور جس میں کہا تھا:

''یہ انسانیت کے خلاف ایک جرم ہے کہ ہماری عورتیں گھروں کی چار دیواری میں قیدیوں کی سی زندگی گزاریں۔ ہماری عورتیں جن شرم ناک حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اس کا کوئی جواز نہیں ہے۔ آپ اپنی عورتوں کو زندگی کے ہر شعبے میں کامریڈ کی طرح ساتھ لے کر چلیں۔''

قائد اعظم کا ذکر کرتے ہوئے مجھے محترمہ فاطمہ جناح یا دآئیں جنھوں نے 1964 میں ملک بھر کے مردوں، عورتوں، بوڑھوں اور بچوں ، اقلیتوں اور پچھڑے ہوئے لوگوں کے آئینی اور جمہوری حقوق کے لیے فوجی آمریت کو للکارا تھا اور ان کی سرکردگی میں ایک ایسی لڑائی لڑی گئی تھی جس میں مغربی پاکستان کے تمام علاقوں کے ساتھ ساتھ مشرقی پاکستان بھی پیش پیش تھا۔ جمہوریت اور آئینی حقوق کی بحالی کی یہ وہ لڑائی تھی جس میںمحترمہ فاطمہ جناح کو ہرادیا گیا تھا۔

12 فروری 1983 کا دن تھا۔ جب لگ بھگ چالیس پچاس عورتیں اور لڑکیاں اپنا حق مانگتی ہوئی مال روڈ پر نکلیں، ان میں روبینہ سہگل، عاصمہ جہانگیر، حنا جیلانی، خاور ممتاز، لالہ رخ، فریدہ شہید، بشریٰ اعتزاز احسن، طاہرہ مظہر علی خان اور نگہت سعید خان کے علاوہ بھی دوسری کئی خواتین تھیں۔ لاہور کی مال روڈ پر وہ مشکل سے پچاس ساٹھ گز آگے گئی ہوں گی کہ پولیس کا ایک جتھا ان پر ٹوٹ پڑا، سروں پر لاٹھیاں پڑیں اور خون کی دھاریں پھوٹ بہیں، وہ جب زمین پر گر گئیں تو انھیں بے دردی سے مارا گیا۔

یہ خبر لاہور ہائی کورٹ میں بیٹھے ہوئے پاکستان کے مشہور باغی اور انقلابی شاعر حبیب جالب اور وکیلوں تک پہنچی تو وہ ان عورتوں کا ساتھ دینے کے لیے دوڑ پڑے۔ جالب صاحب نے اپنے شعر پڑھنے شروع کردیے...ان اشعار کو سن کر عورتیں جوش سے بھر گئیں اور انھوں نے پٹتے ہوئے بھی نعرے لگانے شروع کردیے۔ پولیس والوں کو غصہ آگیا کہ یہ کون شخص ہے جو ان عورتوں کی ہمت بڑھا رہا ہے۔

انھوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ،ایک لاٹھی گھما کر جالب صاحب کے سرپر جمادی، ان کا سر کھل گیا اور چہرہ خون سے بھرگیا۔ وہ جن عورتوں کو بچانے گئے تھے، اب وہی ان کو پولیس کی لاٹھیوں سے بچانے لگیں۔ یوں پاکستانی عورتوں کی اس جدوجہد میں باضمیر پاکستانی مردوں کا لہو بھی شامل ہوگیا۔ عورتیں حوالات گئیں، جالب صاحب اسپتال گئے۔ دوسرے دن چند انگریزی اخباروں میں لہولہان عورتوں اور شاعر انقلاب جالب کی تصویریں چھپیں۔ کہنے کو یہ ایک معمولی سا واقعہ تھا لیکن یہ واقعہ ایک بڑی جہدوجہد کا آغاز بن گیا۔ یہی سبب ہے کہ پاکستانی عورت اپنے حقوق کی جدوجہد کا دن 12 فروری کو مناتی ہے۔

اس موقع پر عاصمہ جہانگیر کو خصوصی طور پر یاد کرنا بہت ضروری ہے جو آج ہم میں موجود نہیں ہیں۔ عاصمہ کے والد ملک غلام جیلانی اپنے وقت کے اہم سیاستدان تھے، وہ مغربی پاکستان میں عوامی لیگ کے سیکریٹری تھے اور تقریباً ہر آمر کے دور میں جیل جاتے رہے۔

عاصمہ نے اپنے والد ملک جیلانی کی زندگی میں اور اس کے بعد سے دہائیوں تک ایک بہت مشکل اور بہت شاندار زندگی گزاری۔ یہ زندگی ان کے لیے بہت مشکل ہوتی اگر ان کی باہمت والدہ، قانون داں اور دانشور بہن حنا، بعد میں ان کے شوہر جہانگیر اور حقوق انسانی کے علمبردارآئی اے رحمان ان کی پشت پر نہ ہوتے۔ ان کی قانون دان دوستوں کا وہ حلقہ نہ ہوتا جس نے ''اے جی ایچ ایس (عاصمہ' گل رخ' حنا' شہلا) لیگل ایڈ آفس قائم کیا۔

بے آسرا عورتوں، مردوں اور بچوں کے مقدمے لڑے ۔ بھٹہ مزدوروں کے حقوق کے لیے اور توہین کا نام لے کر ذاتی بغض وعناد کا نشانہ بننے والے اقلیتوں کو انصاف دلانے کے لیے جان کی بازی لگائی۔ قانون شہادت کی مار سہنے والی بے گناہ لڑکیوں اور عورتوں کی دست گیری کی۔ وہ ویمنز ایکشن فورم کی بنیاد گزاروں میں سے ایک تھیں اور ایچ آر سی پی کا قیام بھی ان ہی کا کارنامہ تھا۔

عاصمہ تین بچوں کی ماں تھیں۔ انھوں نے ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا ''جیل میں شب و روز گزارنے کے لیے لازم ہے کہ خود پر ترس نہ کھایا جائے اور سب سے اہم یہ بات ہے کہ کبھی اپنے بچوں کے بارے میں نہ سوچو۔ یہ فرض کرو کہ جیسے وہ موجود ہی نہیں ہیں۔ یہ وہ باتیں ہیں جو پاکستان جیسے ملک میں سیاست میں سرگرم رہنے کے لیے جاننی اور سیکھنی چاہئیں۔'' یہ جملہ کہنے کے لیے کس جگر کی ضرورت ہے اسے کوئی ایسی ماں ہی سمجھ سکتی ہے جس کے دل میں دوسرے بچوں کا درد بھی ہو اور جو ان بچوں کے لیے اپنے بچوں کو داؤ پر لگارہی ہو۔

عورتوں کے عالمی دن کے موقع پر ان تمام گمنام اور نامور بہادر عورتوں کو خراج تحسین پیش کرنا چاہیے جنھوں نے بدترین حالات میں جدوجہد کا علم بلند رکھا۔ ہماری نئی نسل ان سے یہ سیکھ سکتی ہے کہ حقوق کے حصول کی جنگ کس طرح لڑی جاسکتی ہے اور اس عمل میں محنت کش طبقات کو اپنے ساتھ کس طرح جوڑا جاسکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔