بچوں کا امن کیلنڈر

یہی وقت ہے کہ پڑوسی ممالک سارک کے ادارہ کو بحال کریں تاکہ ترقی کی حکمت عملی اختیار کی جاسکے

tauceeph@gmail.com

نذیر صاحب کا تعلق سرائیکی وسیب سے ہے، وہ نوجوانی میں ترقی پسند نظریات سے متاثر ہوئے۔ کارل مارکس کے فلسفہ کو مظلوم طبقات کی فلاح کا راستہ پایا۔ نذیر احمد کالج کے زمانہ میں بائیں بازو کی طلبہ تنظیم ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں شامل ہوئے۔

1990 میں گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان سے فارمیسی کی ڈگری حاصل کی اور کمیونسٹ پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ 80ء اور 90ء کی دہائیاں جبر اور انسانی حقوق کی پامالی کی دہائیاں تھیں۔ نذیر احمد نے جرات کے ساتھ اپنے نظریات کی آدرش کی، پھر عملی زندگی میں آئے اور فارماسوٹیکل انڈسٹری کے مارکیٹنگ کے شعبہ سے وابستہ ہوئے۔ گلگت، خیبرپختون خوا اور پنجاب کے مختلف شہروں میں مقیم رہے۔ جس شہر گئے وہاں ترقی پسند ساتھیوں کو ایک کڑی میں جوڑنے میں مصروف رہے۔

نذیر احمد 2009میں ملتان آئے اور راشد رحمن سے مل کر ایچ آر سی پی میں متحرک ہوگئے۔ 6 سال قبل ملتان میں ایچ آر سی پی کے کوآرڈینیٹر راشد رحمن کو مظلوم طبقات، اقلیتوں کے افراد کی دادرسی کے جرم میں نامعلوم افراد نے قتل کردیا۔ ایچ آر سی پی لاہور ہیڈ کوارٹر نے اپنے ملتان آفس کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کردیا۔ انسانی حقوق کی تحریک سے وابستہ کارکن خوف زدہ اور مایوس تھے۔ نذیر نے کارکنوں کو حوصلہ دیا اور ملتان میں ایچ آر سی پی کی سرگرمیاں فعال ہوگئیں۔

ان کا دفتر مظلوموں کے لیے جدوجہد، انسانی حقوق کی بالادستی اور پڑوسی ممالک سے پرامن تعلقات کے لیے آگہی میں مصروف ہوا۔ دنیا بھر میں امن کے لیے بیانیہ ترتیب دینے والے صاحبان فکر و دانش نے یہ بیانیہ ترتیب دیا کہ جنوب مشرقی ایشیا کا خطہ آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑا خطہ ہے مگر اس خطہ کے دو بڑے ممالک پاکستان اور بھارت کے درمیان چپقلش کے مسلسل جاری رہنے سے ایک طرف تو خطرناک ہتھیاروں کی دوڑ جاری ہے اور دوسری طرف اس تنازعہ سے دیگر پڑوسی ممالک افغانستان، بنگلہ دیش، نیپال اور سری لنکا بھی متاثر ہوتے ہیں۔

پاکستان اور بھارت میں کشمیر کا تنازع 74 سال پرانا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان دو بڑی جنگیں اور چار بڑے فوجی معرکے ہوچکے ہیں۔ کشمیر اور گلگت بلتستان کی خوبصورت وادیاں جنت نظیر کہلاتی ہیں مگر بارود کی بو اور گلیشیئرز کے وقت سے پہلے پگھلنے سے پانی کے ماحولیات کے خطرناک مسائل جنم لیتے ہیں۔

بارود ایک دفعہ دونوں ممالک کے اربوں روپے جلا دیتا ہے۔ دوسری طرف گولہ بارود کے پھٹنے سے پیدا ہونے والی مضر گیسز سے جنگلی حیاتیات اور قدیم درخت خطرے میں ہیں۔ پاکستان اور بھارت بنگلہ دیش، سری لنکا اور نیپال میں غربت کے انڈیکیٹر ابھی تک بلند سطح پر ہیں۔

جون 90ء کی دہائی سے دونوں ممالک کے سول سوسائٹی کے اراکین، دانشوروں، ادیبوں اور سماجی کارکنوں کے درمیان بحث و مباحثہ کے لیے ایک دوسرے کے ملک کے دورے شروع ہوئے۔ امن کو ترقی کا ضامن جاننے والے صحافیوں، ادیبوں، دانشوروں ، وکلاء ، خواتین اور سماجی کارکنوں نے پاک بھارت دبئی فورم قائم کیا۔ اس فورم نے دونوں ممالک کے بڑے شہروں میں دونوں ممالک کے درمیان تنازعات کے حل کے لیے کانفرنسیں منعقد کی تھیں۔

یوں خطہ میں برسوں بعد امن کی فضاء مستحکم ہونے لگی۔ اسی ماحول میں سابق صدر پرویز مشرف نے پاکستان کی روایتی خارجہ پالیسی سے انحراف کرتے ہوئے کشمیر کے مسئلہ کے حل کے لیے چھ نکات تجویزکیے۔ اس وقت بھارت کی وزارت خارجہ کے بابو پاکستان کی اتنے اہم پیش رفت کی اہمیت کو سمجھ نہ پائے۔ صدر مشرف وزیر اعظم واجپائی سے مذاکرات کے لیے آگرہ گئے۔


اس دورہ کو کور کرنے والے ایک سینئر صحافی کا کہنا ہے کہ صدر پرویز مشرف کی بھارت سے امن کی خواہش پر انتہا پسند افسران کی سوچ غالب ہوئی۔ پرویز مشرف اور وزیر اعظم واجپائی نے تاریخ میں سنہری حروف سے نام لکھوانے کا موقع ضایع کیا۔

یہ مذاکرات دہشت گردی کے ایشو پر ناکام ہوئے مگر کچھ مہینوں بعد سابق صدر پرویز مشرف کی حکومت نے ایک دوسرے انداز میں یہ تجویز مان لی تھی۔ جب دونوں ممالک میں امن کی تحریک مستحکم ہونے کے نتائج سامنے آنے لگے تو انتہاپسند اور اینٹی انڈیا لابی کو اپنے مفادات کے حصول کے لیے خطرات محسوس ہونے لگے اور عوام کے عوام سے رابطوں کے خلاف منفی پروپیگنڈا شروع کیا گیا۔

مودی حکومت نے کشمیر کی حیثیت کو تبدیل کر دیا۔ حکومت پاکستان اور بھارت نے تعلقات منقطع کرکے دونوں ممالک نے اپنے ہائی کمشنروں کو واپس بلا لیا، تجارت معطل ہوگئی۔ اس کا نقصان جہاں پاکستان کو تجارت میں ہوا وہاں دونوں ممالک کے شہری بھی متاثر ہوئے۔ آزاد کشمیر کا 16سالہ نوجوان جو اپنے کبوتروں کی تلاش میں کنٹرول لائن پار کرگیا تھا، سری نگر کے بچوں کے ریمانڈ ہوم میں مقید اپنے والدین سے ملنے کا منتظر ہے۔

کورونا نے پاکستان میں کم اور بھارت میں زیادہ تباہی مچائی۔ نذیر احمد نے آئی اے رحمن، ڈاکٹر اور مبشر حسن وغیرہ کے ساتھ پاکستان بھارت انڈیا فورم کی بنیاد رکھی تھی اور بھارتی امن کی تحریک کے کارکنوں کے ساتھ مل کر ایک نئی تحریک شروع کرنے پر اتفاق کیا۔ انھوں نے گزشتہ دسمبر کے آغاز میں دبئی کیلنڈر کا آغاز کیا۔ دونوں ممالک کے اسکولوں کے طالب علموں نے آغازِ دوستی کیلنڈر شایع کیا۔ اس کیلنڈر میں اسکولوں کے طلبہ نے امن کے لیے پوسٹر بنائے جو ایک کیلنڈر کے ذریعہ دونوں ممالک میں تقسیم ہونا شروع ہوئے۔

گزشتہ دنوں آغازِ دوستی کیلنڈر کی اشاعت پر Onlineتقریب ہوئی۔ دونوں ممالک کے اسکولوں کے بچوں نے اس محفل میں اپنی تصاویر کے مقاصد بیان کیے ۔ بھارت کی دانش ور ریتا منچندرا جو ساؤتھ ایشیا فورم برائے انسانی حقوق کی ریسرچ ڈائریکٹر ہیں سلیمہ ہاشمی اور راقم الحروف نے دونوں ممالک میں غربت سے پیدا ہونے والے مسائل، ملٹی نیشنل کمپنیوں کے فوائد، تعلیم اور صحت کے انڈیکیٹر کی زبوں حالی پر روشنی ڈالی۔

اس مہم میں پاکستان اور بھارت کے پبلک اسکولوں کے 500 کے قریب بچوں نے حصہ لیا تھا اور دونوں طرف کی 6کیٹیگریز کو کیلنڈر کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔ دونوں ممالک کے بچوں کا مشترکہ بیانیہ یہ تھا کہ تنازعات پر مذاکرات کے ساتھ دونوں ممالک کے تعلقات کو معمول پر لانا ہے تاکہ مشترکہ دشمن بھوک اور ناخواندگی کے خاتمہ کے لیے جدوجہد کو تیز کیا جائے۔ ان بچوں نے ایک ایسے موقعے پر امن کے لیے کوششیں شروع کی تھیں جب اسلام آباد اور دہلی میں مذاکرات کے آغاز کے لیے کام جاری ہے۔

معروف صنعتکار میاں منشا نے گزشتہ ماہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارت شروع کرنے کی اہمیت کو اجاگر کیا تھا۔ اب وفاقی وزیر رزاق داؤد کا بھی یہ بیانیہ منظرنامہ میں خوشگوار ہوا کا جھونکا ہے۔ کراچی کے تاجروں کا مدعا ہے کہ بھارت سے تجارت سمیت دیگر تعلقات بحال ہونے ضروری ہیں۔ اس طرح پاکستان کو ٹماٹروں کی نئی منڈی مل جائے گی جس کا فائدہ ٹماٹر پیدا کرنے والے پاکستانی کاشتکاروں کو ہوگا۔ پاکستان اور بھارت نے یوکرائن اور روس کے درمیان جنگ میں غیر جانبدار رویہ اختیار کیا ہے، یہ ایک مثبت اقدام ہے۔

یہی وقت ہے کہ پڑوسی ممالک سارک کے ادارہ کو بحال کریں تاکہ ترقی کی حکمت عملی اختیار کی جاسکے۔ یوں امریکا سے دوری کے اثرات کم سے کم ہونگے مگر اس کے لیے بھارت سے تعلقات معمول پر آنا ضروری ہے۔ نذیر احمد کی کوششوں سے دونوں ممالک کے بچوں نے امن کی تحریک کو جلا دی ہے۔ اسلام آباد کو ان بچوں سے سیکھنا چاہیے۔
Load Next Story