سیاستدان اور عوام
حکومتی ہی نہیں اپوزیشن کے سیاستدانوں کو بھی انتخابات کے موقع پر اپنے ووٹروں کا خیال آتا ہے
سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین نے کہا ہے کہ سیاستدان اور خصوصاً حکومت اور اپوزیشن اپنے اپنے معاملات میں پڑے ہیں اورکسی کو عوام کی فکر نہیں۔ یہی حالات رہے تو عوام بھی سیاستدانوں سے متنفر ہو جائیں گے ،کیونکہ عوام سخت پریشان ہیں۔
اس سے قبل حکومتی حلیف چوہدری شجاعت نے یہ بھی کہا تھا کہ اپوزیشن کو مہنگائی اور ملکی مسائل کا پتا ہے مگر ان حالات سے گزرنے کا حل کوئی نہیں پیش کر رہا۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں مہنگائی اور بے روزگاری جو ہوئی ہے اس کا ذمے دار اپوزیشن موجودہ تبدیلی حکومت کو ہی قرار دیتی آئی ہے کہ حکومت نے اپنی نااہلی سے ہی ملک کے عوام کو پریشان کر رکھا ہے اور اپنی نااہلی اور نا تجربہ کاری حکومت تسلیم نہیں کر رہی اور حالات بہتر بنانے کی بجائے حکومت کی پوری توجہ اپوزیشن کے خلاف انتقامی کارروائی پر مرکوز ہے۔
اپوزیشن کی تمام جماعتیں اور اب تو ایم کیو ایم بھی جو حکومتی اتحادی ہے اپوزیشن کے الزامات کی تائید کر رہی ہے مگر دیگر حکومتی حلیف جماعتیں اس معاملے پر زبان نہیں کھول رہیں اور صرف سیاسی مفادات سمیٹنے میں مصروف ہیں۔
حکومت کی اتحادی جماعتوں نے خود کبھی موجودہ حالات میں بہتری لانے میں حکومت کو کوئی حل صرف بیانات کی حد تک ہی پیش کیا ہے اور کبھی سنجیدگی نہیں دکھائی صرف ہلکے پھلکے بیانات پر ہی اکتفا کیا ہے۔یہ حکومتی حلیف کبھی مل کر نہیں بیٹھے کہ حکومت کو عوام کی حالت زار پر توجہ دینے کا مل کر کہیں اور حکومت ان کی نہیں سنتی تو حکومت کو علیحدگی کی دھمکی ہی دے دیں۔ مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت اپنی علالت کے باعث کم ہی بولتے ہیں۔
مسلم لیگ (ق) حکومت کی سب سے اہم اتحادی ہے کہ ان کے قومی اسمبلی کے پانچ اور پنجاب اسمبلی کی دس نشستوں کی وجہ سے ان کی حکومت میں بہت اہمیت ہے۔ (ق) لیگ کے پاس وزیر اعلیٰ پنجاب کے بعد دوسرا بڑا عہدہ اسپیکرکا ہے اور دیگر اتحادیوں کے مقابلے میں زیادہ وزارتیں ہیں۔ پی ٹی آئی کی پنجاب حکومت صرف (ق) لیگ کی وجہ سے قائم ہے جس کے پاس دو وفاقی اور دو پنجاب کی وزارتیں ہیں اور وہ موجودہ وفاقی حکومت پر سب سے زیادہ اثرانداز ہو سکتی ہے۔ چوہدری شجاعت یا ان کے صاحبزادے کے پاس کوئی حکومتی عہدہ نہیں،عوام کی بات چوہدری شجاعت نے کی ہے کہ سیاستدان عوام کے مسائل کا احساس کریں جس کی ذمے داری اپوزیشن سیاستدانوں کی بجائے حکومت پر ہے۔
حکومت میں شامل پی ٹی آئی کے وزیر ارکان اسمبلی اور سیاستدان تو یہ بات مانتے ہی نہیں کہ ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری کی ذمے دار موجودہ حکومت ہے۔ یہ سب حکومتی سیاستدان اپنے وزیر اعظم کی طرح ساڑھے تین سالہ حکومت کے بعد بھی مہنگائی، بے روزگاری اور دیگر عوامی مسائل کا ذمے دار اب بھی سابقہ حکومتوں کو ہی قرار دینے میں مصروف ہیں اور اپنی کوئی غلطی نہیں مانتے۔ سیاستدانوں کا عوام سے تعلق انتخابات کے موقع پر قائم ہوتا ہے اور وہ اپنا زیادہ وقت اپنے حلقے کے عوام کے لیے وقف کر دیتے ہیں کیونکہ 5 سال عوام سے دور رہنے کے بعد اپنے ملک کے عوام نہیں بلکہ اپنے حلقے کے ووٹر یاد آتے ہیں جن سے انھیں ووٹ لینے ہوتے ہیں۔
حکومتی ہی نہیں اپوزیشن کے سیاستدانوں کو بھی انتخابات کے موقع پر اپنے ووٹروں کا خیال آتا ہے۔حکومتی سیاستدان تو حکومتی مفادات حاصل کرنے میں عوام سے دور رہتے ہیں تو انھیں اپنے حلقے یاد نہیں رہتے مگر اپوزیشن کے سیاستدانوں کو حکومت میں نہ ہونے کی وجہ سے عوام اور اپنے ووٹر زیادہ یاد رہتے ہیں اور وہ اپنے ووٹروں میں آ کر حکومت پر زیادہ تنقید کرتے ہیں کہ ہم ہی منتخب ہو کر ان کے مسائل حل کریں گے۔
تمام سیاستدانوں کو عوام کی مشکلات، مسائل، مہنگائی، بے روزگاری الیکشن کے موقع پر یاد آتی ہے اور منتخب ہو کر وہ سب کچھ بھول جاتے ہیں اور ان کے عوام سے کیے گئے وعدے اکثر پورے نہیں ہوتے۔
عمران خان نے وزیر اعظم بننے کے لیے ماضی کے حکمرانوں اور سیاستدانوں کی طرح وعدے اور اعلانات ہی نہیں کیے تھے بلکہ ماضی میں حکمرانی کرنے والے تمام سیاستدانوں کو عوام کے مسائل، مہنگائی و بے روزگاری کا اصل ذمے دار قرار دیا تھا جس کی وجہ سے عوام نے انھیں سب سے زیادہ مخلص سمجھ کر ووٹ دیے تھے مگر ان کی حکومت نے عوام کے ساتھ جو کچھ کیا اس کے بعد عوام یہ کہنے پر مجبور کردیے گئے ہیں کہ ان سے پہلے کے مبینہ چور سیاستدان ہی حکومتی سیاستدانوں سے بہتر تھے۔
اس سے قبل حکومتی حلیف چوہدری شجاعت نے یہ بھی کہا تھا کہ اپوزیشن کو مہنگائی اور ملکی مسائل کا پتا ہے مگر ان حالات سے گزرنے کا حل کوئی نہیں پیش کر رہا۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں مہنگائی اور بے روزگاری جو ہوئی ہے اس کا ذمے دار اپوزیشن موجودہ تبدیلی حکومت کو ہی قرار دیتی آئی ہے کہ حکومت نے اپنی نااہلی سے ہی ملک کے عوام کو پریشان کر رکھا ہے اور اپنی نااہلی اور نا تجربہ کاری حکومت تسلیم نہیں کر رہی اور حالات بہتر بنانے کی بجائے حکومت کی پوری توجہ اپوزیشن کے خلاف انتقامی کارروائی پر مرکوز ہے۔
اپوزیشن کی تمام جماعتیں اور اب تو ایم کیو ایم بھی جو حکومتی اتحادی ہے اپوزیشن کے الزامات کی تائید کر رہی ہے مگر دیگر حکومتی حلیف جماعتیں اس معاملے پر زبان نہیں کھول رہیں اور صرف سیاسی مفادات سمیٹنے میں مصروف ہیں۔
حکومت کی اتحادی جماعتوں نے خود کبھی موجودہ حالات میں بہتری لانے میں حکومت کو کوئی حل صرف بیانات کی حد تک ہی پیش کیا ہے اور کبھی سنجیدگی نہیں دکھائی صرف ہلکے پھلکے بیانات پر ہی اکتفا کیا ہے۔یہ حکومتی حلیف کبھی مل کر نہیں بیٹھے کہ حکومت کو عوام کی حالت زار پر توجہ دینے کا مل کر کہیں اور حکومت ان کی نہیں سنتی تو حکومت کو علیحدگی کی دھمکی ہی دے دیں۔ مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت اپنی علالت کے باعث کم ہی بولتے ہیں۔
مسلم لیگ (ق) حکومت کی سب سے اہم اتحادی ہے کہ ان کے قومی اسمبلی کے پانچ اور پنجاب اسمبلی کی دس نشستوں کی وجہ سے ان کی حکومت میں بہت اہمیت ہے۔ (ق) لیگ کے پاس وزیر اعلیٰ پنجاب کے بعد دوسرا بڑا عہدہ اسپیکرکا ہے اور دیگر اتحادیوں کے مقابلے میں زیادہ وزارتیں ہیں۔ پی ٹی آئی کی پنجاب حکومت صرف (ق) لیگ کی وجہ سے قائم ہے جس کے پاس دو وفاقی اور دو پنجاب کی وزارتیں ہیں اور وہ موجودہ وفاقی حکومت پر سب سے زیادہ اثرانداز ہو سکتی ہے۔ چوہدری شجاعت یا ان کے صاحبزادے کے پاس کوئی حکومتی عہدہ نہیں،عوام کی بات چوہدری شجاعت نے کی ہے کہ سیاستدان عوام کے مسائل کا احساس کریں جس کی ذمے داری اپوزیشن سیاستدانوں کی بجائے حکومت پر ہے۔
حکومت میں شامل پی ٹی آئی کے وزیر ارکان اسمبلی اور سیاستدان تو یہ بات مانتے ہی نہیں کہ ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری کی ذمے دار موجودہ حکومت ہے۔ یہ سب حکومتی سیاستدان اپنے وزیر اعظم کی طرح ساڑھے تین سالہ حکومت کے بعد بھی مہنگائی، بے روزگاری اور دیگر عوامی مسائل کا ذمے دار اب بھی سابقہ حکومتوں کو ہی قرار دینے میں مصروف ہیں اور اپنی کوئی غلطی نہیں مانتے۔ سیاستدانوں کا عوام سے تعلق انتخابات کے موقع پر قائم ہوتا ہے اور وہ اپنا زیادہ وقت اپنے حلقے کے عوام کے لیے وقف کر دیتے ہیں کیونکہ 5 سال عوام سے دور رہنے کے بعد اپنے ملک کے عوام نہیں بلکہ اپنے حلقے کے ووٹر یاد آتے ہیں جن سے انھیں ووٹ لینے ہوتے ہیں۔
حکومتی ہی نہیں اپوزیشن کے سیاستدانوں کو بھی انتخابات کے موقع پر اپنے ووٹروں کا خیال آتا ہے۔حکومتی سیاستدان تو حکومتی مفادات حاصل کرنے میں عوام سے دور رہتے ہیں تو انھیں اپنے حلقے یاد نہیں رہتے مگر اپوزیشن کے سیاستدانوں کو حکومت میں نہ ہونے کی وجہ سے عوام اور اپنے ووٹر زیادہ یاد رہتے ہیں اور وہ اپنے ووٹروں میں آ کر حکومت پر زیادہ تنقید کرتے ہیں کہ ہم ہی منتخب ہو کر ان کے مسائل حل کریں گے۔
تمام سیاستدانوں کو عوام کی مشکلات، مسائل، مہنگائی، بے روزگاری الیکشن کے موقع پر یاد آتی ہے اور منتخب ہو کر وہ سب کچھ بھول جاتے ہیں اور ان کے عوام سے کیے گئے وعدے اکثر پورے نہیں ہوتے۔
عمران خان نے وزیر اعظم بننے کے لیے ماضی کے حکمرانوں اور سیاستدانوں کی طرح وعدے اور اعلانات ہی نہیں کیے تھے بلکہ ماضی میں حکمرانی کرنے والے تمام سیاستدانوں کو عوام کے مسائل، مہنگائی و بے روزگاری کا اصل ذمے دار قرار دیا تھا جس کی وجہ سے عوام نے انھیں سب سے زیادہ مخلص سمجھ کر ووٹ دیے تھے مگر ان کی حکومت نے عوام کے ساتھ جو کچھ کیا اس کے بعد عوام یہ کہنے پر مجبور کردیے گئے ہیں کہ ان سے پہلے کے مبینہ چور سیاستدان ہی حکومتی سیاستدانوں سے بہتر تھے۔