تیز رفتاری کے باعث المناک حادثے
لیاری ایکسپریس وے پر حد رفتار 80 کلو میٹر فی گھنٹہ ہے جب کہ اسپیڈ کی خلاف ورزی پر روزانہ 50 سے 60 چالان کیے جاتے ہیں
منگل کی شام کراچی میں تیز رفتاری کے باعث لیاری ایکسپریس وے پر مسافروں سے بھرا شہزور ٹرک آہنی بیریئر سے ٹکرا گیا جس سے اچھل کر ندی میں گرنے کے باعث 5 کمسن بچوں اور خواتین سمیت 10 افراد جاں بحق ہو گئے۔ المناک حادثے کا شکار ہونے والے ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک دوسرے واقعے میں ملیر ندی کے قریب 2 چنگ چی رکشوں میں تصادم سے خواتین سمیت 11 افراد زخمی ہوئے۔ لیاری ندی کے حادثے کا یہ پہلو باعث فکر ہے کہ شہزور ٹرک پلاسٹک کے سامان سے بھرا ہوا تھا اور ڈرائیور نے چالان سے بچنے کے لیے مسافروں کو سامان کے درمیان بٹھایا ہوا تھا، یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ لیاری ایکسپریس وے پر حد رفتار 80 کلو میٹر فی گھنٹہ ہے جب کہ اسپیڈ کی خلاف ورزی پر روزانہ 50 سے 60 چالان کیے جاتے ہیں اور حادثے کا شکار ہونے والے ٹرک کی رفتار بھی بہت تیز تھی جس کے باعث یہ حادثہ پیش آیا۔
حادثے کے شکار ایک زخمی نے بتایا کہ اندھیرے میں مقامی آبادی کا کوئی شخص اس کی مدد کو نہیں آیا اور اس نے بذات خود اپنی خواتین کو ندی میں سے نکالا، بعد ازاں ریسکیو کو اطلاع دی گئی۔ اطلاعات ہیں کہ لیاری ایکسپریس وے پر چنگ چی رکشوں جیسی خطرناک سواری بھی چلائی جا رہی ہے جب کہ متعلقہ ٹریفک پولیس بھی اپنی ذمے داریاں صحیح طور سے نبھا نہیں رہی ہے جس کی وجہ سے حادثات کی شرح بڑھ رہی ہے ۔ لوڈنگ ٹرک میں مسافروں کو چھپا کر لے جانا بھی ٹریفک پولیس کی غفلت کو ظاہر کرتا ہے۔ بہرحال حادثے کے بعد لکیر پیٹنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا، جب کہ ملیر ندی کا حادثہ موٹر سائیکل سوارکو بچاتے ہوئے پیش آیا، علاوہ ازیں قائد آباد میں ڈمپر نے مٹی کے تیل سے لدی سوزوکی کو ٹکر ماری گاڑیاں مکمل تباہ ہو گئیں۔ یہ سب کچھ تیز رفتاری کے جنون کا نتیجہ تھا۔ بہر حال ٹریفک حکام اور لیاری ایکسپریس وے پولیس کو اپنا قبلہ درست کرتے ہوئے حادثات کے عوامل اور امکانات کو از حد کم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جب کہ کوئٹہ کے بد نصیب اور غمزدہ خاندان کی جس قدر بھی مالی امداد ہو سکتی ہے سندھ اور بلوچستان حکومت کو ضرور کرنا چاہیے۔
حادثے کے شکار ایک زخمی نے بتایا کہ اندھیرے میں مقامی آبادی کا کوئی شخص اس کی مدد کو نہیں آیا اور اس نے بذات خود اپنی خواتین کو ندی میں سے نکالا، بعد ازاں ریسکیو کو اطلاع دی گئی۔ اطلاعات ہیں کہ لیاری ایکسپریس وے پر چنگ چی رکشوں جیسی خطرناک سواری بھی چلائی جا رہی ہے جب کہ متعلقہ ٹریفک پولیس بھی اپنی ذمے داریاں صحیح طور سے نبھا نہیں رہی ہے جس کی وجہ سے حادثات کی شرح بڑھ رہی ہے ۔ لوڈنگ ٹرک میں مسافروں کو چھپا کر لے جانا بھی ٹریفک پولیس کی غفلت کو ظاہر کرتا ہے۔ بہرحال حادثے کے بعد لکیر پیٹنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا، جب کہ ملیر ندی کا حادثہ موٹر سائیکل سوارکو بچاتے ہوئے پیش آیا، علاوہ ازیں قائد آباد میں ڈمپر نے مٹی کے تیل سے لدی سوزوکی کو ٹکر ماری گاڑیاں مکمل تباہ ہو گئیں۔ یہ سب کچھ تیز رفتاری کے جنون کا نتیجہ تھا۔ بہر حال ٹریفک حکام اور لیاری ایکسپریس وے پولیس کو اپنا قبلہ درست کرتے ہوئے حادثات کے عوامل اور امکانات کو از حد کم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جب کہ کوئٹہ کے بد نصیب اور غمزدہ خاندان کی جس قدر بھی مالی امداد ہو سکتی ہے سندھ اور بلوچستان حکومت کو ضرور کرنا چاہیے۔