احتساب کے نظام میں خامیاں
بریگیڈیئر ریٹائرڈ منیر اسد کے لیے نیب سے چھٹکارے کا آسان راستہ موجود تھا مگر اس نے یہ راستہ اختیار نہیں کیا
لاہور:
بریگیڈیئر ریٹائرڈ اسد منیر احتساب کے قومی ادارہ کی امتیازی پالیسی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ ان کا شمار مسلح افواج کے ایمانداراور اصولی افسروں میں ہوتا تھا، انھیں سول سروس میں بھیج دیا گیا۔
اسد منیر نے پبلک سرونٹ کی حیثیت سے اپنے اصولوں کی پاسداری کی، جب عمران خان کی حکومت قائم ہوئی تو سابقہ حکومت کے معاملات کی چھان بین شروع ہوئی، پچھلی حکومت کی بدعنوانیوں کو تلاش کیا جانے لگا۔
منیر اسد بھی نیب کی زد میں آگئے۔ منیر اسد کے لیے نیب سے چھٹکارے کا آسان راستہ موجود تھا مگر اس نے یہ راستہ اختیار نہیں کیا۔ نیب کی تفتیش کا عجیب سا نظام ہے۔ نیب کے افسران کسی سیاستدان' کاروباری شخص یا افسر کو تفتیش کے لیے طلب کرتے ہیں۔ جب تفتیش کا ایک نامکمل دور مکمل ہوتا ہے تو یہ نیب والے ذرائع ابلاغ کو بتانے لگتے ہیں کہ متعلقہ شخص افسران کے سوالات پر انھیں مطمئن نہیں کرسکا۔ وفاقی وزراء فوراً یہ بیان دینا شروع کر دیتے ہیں کہ متعلقہ شخص اب گرفتار ہونے والا ہے۔
اس شخص کے پاس اپنے خلاف چارٹ شیٹ کا کوئی جواب نہیں تھا۔ جب یہ خبریں ذرائع ابلاغ پر شائع ہوتی ہیں اور نشر ہوتی ہیں تو ایسی فضاء پیدا ہوجاتی ہے کہ عوام سمجھنے لگتے ہیں متعلقہ شخص مجرم ہے حالانکہ جب تفتیش مکمل نہیں ہوئی تو پھر کسی فرد کو ملزم بھی قرار نہیں دیا جاسکتا نہ ہی مجرم قرار دیا جاسکتا ہے۔ وزیر داخلہ شیخ رشید وزیر اطلاعات فواد چوہدری اور وزیر اعظم کے احتساب کے سابق مشیر شہزاد اکبر بھی ہمیشہ اسی طرح کے بیانات دیتے رہے۔
شیخ رشید نے تو شاہد خاقان عباسی ،رانا ثناء اﷲ، شہباز شریف وغیرہ کی گرفتاریوں کے وقت کا تعین بھی کیا تھا مگر عدالتوں نے خاقان عباسی ،رانا ثنا ء اﷲ اور خواجہ سعد رفیق وغیرہ کو ضمانتوں پر رہا کیا اور بعض مقدمات میں یہ رہنما بری ہوچکے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے رہنما سید خورشید شاہ دو سال تک حراست میں رہے مگر جب سپریم کورٹ نے ان کی ضمانت کی درخواست پر فیصلہ دیا تو نیب چالان کو قانونی تقاضوں کے مطابق تیار کرنے میں ناکام رہا۔ رانا ثناء اﷲ ہیروئن اسمگل کرنے کے الزام میں گرفتار ہوئے، تقریباً 8 ماہ تک کوٹ لکھپت جیل کی سی کلاس میں مقید رہے۔
انسداد منشیات کی وزارت کے وزیر شہریار آفریدی نے اﷲ کو حاضر جان کر ٹی وی چینلز کو بتایا کہ رانا ثناء اﷲ کی گاڑی سے منشیات کے تھیلے کی وڈیو موجود ہے مگر یہ خیالی وڈیو غائب ہوگئی۔ رانا ثناء اﷲ کو منشیات کا اسمگلر قرار دیا گیا ۔ یہ الزام اتنا مضحکہ خیز تھا کہ وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کی شان میں روزانہ قصیدہ پڑھنے والے لائل پور سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی بھی دنگ رہ گئے۔
دوسری طرف تحریک انصاف کے رہنماؤں کے خلاف بھی تحقیقات ہوئیں۔ علیم خان گرفتار ہوئے مگر ان کے پاس کچھ ایسے تعویز تھے کہ وہ بری ہوگئے۔ تحریک انصاف کے سب سے امیر رہنما جہانگیر ترین پر شوگر مافیا قائم کرنے سمیت دیگر متعدد الزامات وفاقی حکومت نے عائد کیے مگر یہ معاملہ نیب کے بجائے ایف آئی اے کے سپرد ہوا۔ تحریک انصاف کے سینیٹر علی ظفر کو جہانگیر ترین شفاف کاروباری فرد قرار دینے کا سرٹیفکیٹ کے اجراء کا اختیار ملا اور جہانگیر ترین کے بارے میں تحقیقات فائلوں میں چھپ گئی۔
ایک ریٹائرڈ افسر کے بارے میں بین الاقوامی اخبارات خاص طور پر امریکا کے اخبارات میں ایک تحقیقاتی رپورٹ شائع ہوئی کہ یہ ریٹائرڈ افسر اور ان کے اہل خانہ امریکا میںایک فوڈ چین کے مالک ہیں۔ مگر حکومت نے نیب یا ایف آئی اے کو تحقیقات کی ہدایت جاری نہیں کی۔ گزشتہ دنوں ایک بین الاقوامی تحقیقاتی ایجنسی نے سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں غیر ملکی افرادکے خفیہ اکاؤنٹس کی تفصیلات جاری کیں۔ اس رپورٹ میں کئی سو پاکستانی شہری بھی شامل ہیں۔
فاتح افغانستان کہلانے والے اختر عبدالرحمن کے بیٹوں کے نام کا بھی انکشاف ہوا۔ اسی طرح دیگر پاکستانیوں کے بینک اکاؤنٹس کا بھی پتہ چلا۔ پاناما لیکس میں بھی بہت سے پاکستانی شہریوں کے نام شامل تھے مگر سوائے میاں نواز شریف کے کسی اور فرد کے خلاف تحقیقات نہیں ہوئیں، یوں اس احتساب کا نعرہ بے معنی ہوا۔ احتساب کے موجودہ نظام کی چیرہ دستیوں سے ملک میں سرمایہ کاری رک گئی ہے۔
ترقیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ ملک میں امتیازی احتساب ہورہا ہے۔ ایک طرف تو بڑے ملزمان کو چھوڑ دیا جاتا ہے تو دوسری طرف معمولی باتوں پر سزائیں دی جاتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ جو ملزمان نیب کے ہاتھ آتے ہیں ان میں سے اکثر مقدمات میں بری ہوجاتے ہیں، اگر سب کے ساتھ انصاف ہو تو پھر احتساب کی ساخت عوام میں بہتر ہوگی۔
اسد منیر ایک باعزت شخص تھے۔ انھوں نے اپنی بے گناہی کو ثابت کرنے کے لیے اپنی جان قربان کی۔ خرم ہمایوں صاحب نے بھی یہی راستہ اختیار کیا تھا۔ اسد منیر اور خرم ہمایوں نے تو اپنی جان دے کر بے گناہی ثابت کر دی لیکن کیا احتساب کے نظام میں موجود خامیوں کو بھی دور کرنے کی کوشش ہو گی' کیا اب وقت نہیں آ گیا نیب قوانین میں موجود بے انصافی کا خاتمہ کر کے سرکاری تفتیش کاروں کو بھی قانون کے دائرے میں لائے' کسی ریفرنس میں ٹرائل کے بعد ملزمان عدم ثبوت کی بنا پر باعزت بری کر دیے جائیں تو اس ریفرنس کی تحقیقات 'انکوائری اور تفتیش کرنے والے افسروں کا بھی احتساب ہونا چاہیے۔
بریگیڈیئر ریٹائرڈ اسد منیر احتساب کے قومی ادارہ کی امتیازی پالیسی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ ان کا شمار مسلح افواج کے ایمانداراور اصولی افسروں میں ہوتا تھا، انھیں سول سروس میں بھیج دیا گیا۔
اسد منیر نے پبلک سرونٹ کی حیثیت سے اپنے اصولوں کی پاسداری کی، جب عمران خان کی حکومت قائم ہوئی تو سابقہ حکومت کے معاملات کی چھان بین شروع ہوئی، پچھلی حکومت کی بدعنوانیوں کو تلاش کیا جانے لگا۔
منیر اسد بھی نیب کی زد میں آگئے۔ منیر اسد کے لیے نیب سے چھٹکارے کا آسان راستہ موجود تھا مگر اس نے یہ راستہ اختیار نہیں کیا۔ نیب کی تفتیش کا عجیب سا نظام ہے۔ نیب کے افسران کسی سیاستدان' کاروباری شخص یا افسر کو تفتیش کے لیے طلب کرتے ہیں۔ جب تفتیش کا ایک نامکمل دور مکمل ہوتا ہے تو یہ نیب والے ذرائع ابلاغ کو بتانے لگتے ہیں کہ متعلقہ شخص افسران کے سوالات پر انھیں مطمئن نہیں کرسکا۔ وفاقی وزراء فوراً یہ بیان دینا شروع کر دیتے ہیں کہ متعلقہ شخص اب گرفتار ہونے والا ہے۔
اس شخص کے پاس اپنے خلاف چارٹ شیٹ کا کوئی جواب نہیں تھا۔ جب یہ خبریں ذرائع ابلاغ پر شائع ہوتی ہیں اور نشر ہوتی ہیں تو ایسی فضاء پیدا ہوجاتی ہے کہ عوام سمجھنے لگتے ہیں متعلقہ شخص مجرم ہے حالانکہ جب تفتیش مکمل نہیں ہوئی تو پھر کسی فرد کو ملزم بھی قرار نہیں دیا جاسکتا نہ ہی مجرم قرار دیا جاسکتا ہے۔ وزیر داخلہ شیخ رشید وزیر اطلاعات فواد چوہدری اور وزیر اعظم کے احتساب کے سابق مشیر شہزاد اکبر بھی ہمیشہ اسی طرح کے بیانات دیتے رہے۔
شیخ رشید نے تو شاہد خاقان عباسی ،رانا ثناء اﷲ، شہباز شریف وغیرہ کی گرفتاریوں کے وقت کا تعین بھی کیا تھا مگر عدالتوں نے خاقان عباسی ،رانا ثنا ء اﷲ اور خواجہ سعد رفیق وغیرہ کو ضمانتوں پر رہا کیا اور بعض مقدمات میں یہ رہنما بری ہوچکے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے رہنما سید خورشید شاہ دو سال تک حراست میں رہے مگر جب سپریم کورٹ نے ان کی ضمانت کی درخواست پر فیصلہ دیا تو نیب چالان کو قانونی تقاضوں کے مطابق تیار کرنے میں ناکام رہا۔ رانا ثناء اﷲ ہیروئن اسمگل کرنے کے الزام میں گرفتار ہوئے، تقریباً 8 ماہ تک کوٹ لکھپت جیل کی سی کلاس میں مقید رہے۔
انسداد منشیات کی وزارت کے وزیر شہریار آفریدی نے اﷲ کو حاضر جان کر ٹی وی چینلز کو بتایا کہ رانا ثناء اﷲ کی گاڑی سے منشیات کے تھیلے کی وڈیو موجود ہے مگر یہ خیالی وڈیو غائب ہوگئی۔ رانا ثناء اﷲ کو منشیات کا اسمگلر قرار دیا گیا ۔ یہ الزام اتنا مضحکہ خیز تھا کہ وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کی شان میں روزانہ قصیدہ پڑھنے والے لائل پور سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی بھی دنگ رہ گئے۔
دوسری طرف تحریک انصاف کے رہنماؤں کے خلاف بھی تحقیقات ہوئیں۔ علیم خان گرفتار ہوئے مگر ان کے پاس کچھ ایسے تعویز تھے کہ وہ بری ہوگئے۔ تحریک انصاف کے سب سے امیر رہنما جہانگیر ترین پر شوگر مافیا قائم کرنے سمیت دیگر متعدد الزامات وفاقی حکومت نے عائد کیے مگر یہ معاملہ نیب کے بجائے ایف آئی اے کے سپرد ہوا۔ تحریک انصاف کے سینیٹر علی ظفر کو جہانگیر ترین شفاف کاروباری فرد قرار دینے کا سرٹیفکیٹ کے اجراء کا اختیار ملا اور جہانگیر ترین کے بارے میں تحقیقات فائلوں میں چھپ گئی۔
ایک ریٹائرڈ افسر کے بارے میں بین الاقوامی اخبارات خاص طور پر امریکا کے اخبارات میں ایک تحقیقاتی رپورٹ شائع ہوئی کہ یہ ریٹائرڈ افسر اور ان کے اہل خانہ امریکا میںایک فوڈ چین کے مالک ہیں۔ مگر حکومت نے نیب یا ایف آئی اے کو تحقیقات کی ہدایت جاری نہیں کی۔ گزشتہ دنوں ایک بین الاقوامی تحقیقاتی ایجنسی نے سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں غیر ملکی افرادکے خفیہ اکاؤنٹس کی تفصیلات جاری کیں۔ اس رپورٹ میں کئی سو پاکستانی شہری بھی شامل ہیں۔
فاتح افغانستان کہلانے والے اختر عبدالرحمن کے بیٹوں کے نام کا بھی انکشاف ہوا۔ اسی طرح دیگر پاکستانیوں کے بینک اکاؤنٹس کا بھی پتہ چلا۔ پاناما لیکس میں بھی بہت سے پاکستانی شہریوں کے نام شامل تھے مگر سوائے میاں نواز شریف کے کسی اور فرد کے خلاف تحقیقات نہیں ہوئیں، یوں اس احتساب کا نعرہ بے معنی ہوا۔ احتساب کے موجودہ نظام کی چیرہ دستیوں سے ملک میں سرمایہ کاری رک گئی ہے۔
ترقیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ ملک میں امتیازی احتساب ہورہا ہے۔ ایک طرف تو بڑے ملزمان کو چھوڑ دیا جاتا ہے تو دوسری طرف معمولی باتوں پر سزائیں دی جاتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ جو ملزمان نیب کے ہاتھ آتے ہیں ان میں سے اکثر مقدمات میں بری ہوجاتے ہیں، اگر سب کے ساتھ انصاف ہو تو پھر احتساب کی ساخت عوام میں بہتر ہوگی۔
اسد منیر ایک باعزت شخص تھے۔ انھوں نے اپنی بے گناہی کو ثابت کرنے کے لیے اپنی جان قربان کی۔ خرم ہمایوں صاحب نے بھی یہی راستہ اختیار کیا تھا۔ اسد منیر اور خرم ہمایوں نے تو اپنی جان دے کر بے گناہی ثابت کر دی لیکن کیا احتساب کے نظام میں موجود خامیوں کو بھی دور کرنے کی کوشش ہو گی' کیا اب وقت نہیں آ گیا نیب قوانین میں موجود بے انصافی کا خاتمہ کر کے سرکاری تفتیش کاروں کو بھی قانون کے دائرے میں لائے' کسی ریفرنس میں ٹرائل کے بعد ملزمان عدم ثبوت کی بنا پر باعزت بری کر دیے جائیں تو اس ریفرنس کی تحقیقات 'انکوائری اور تفتیش کرنے والے افسروں کا بھی احتساب ہونا چاہیے۔