آپ نے فرمایا
تضادات زندگی کی خوبصورتی ہیں، بدبو نہ ہو تو خوشبو کا کیا پتہ چلے گا۔ کالا نہ ہو تو گورے کو کوئی کیسے پہچانے گا
تضادات زندگی کی خوبصورتی ہیں، بدبو نہ ہو تو خوشبو کا کیا پتہ چلے گا۔ کالا نہ ہو تو گورے کو کوئی کیسے پہچانے گا۔ سردی کے بغیر گرمی کا کیا مزہ۔ بے وقوف نہ ہوں تو عقلمندوں کا ڈنکا کیسے بجے۔ نظام میں تضاد (جو اختلاف کی ایک قسم ہے) کے بغیر ترقی نا ممکن ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے پیارے حکمران تضاد کو آگے بڑھانے کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں۔ اتنے پاپڑ بیلتے ہیں کہ ہم پریشان ہو جاتے ہیں۔ ان کی انتھک محنت کو دیکھ کر سوچتے ہیں کہ یہ انسان ہیں یا جن۔ تھکتے ہی نہیں ہیں۔ ہر وقت تضاد کی فیکٹریوں کو چلاتے رہتے ہیں۔ آج کل امن کو قائم کرنے کا معاملہ قومی فہرست پر پہلے درجے پر ہے۔ ہر خبر اور اس پر پڑنے والی ہر نظر اسی مسئلے کو ہر وقت کسی نہ کسی طرح اجاگر یا تلاش کرتی ہے۔
معاملات کی نزاکت اور سنجیدگی کو بھانپتے ہوئے ہمارے معاملہ فہم حکمرانوں نے یہاں پر بھی زبردست کارکردگی دکھائی۔21 فروری کو چھپنے والی ایک خبر کے مطابق وفاقی وزیر داخلہ محترم چوہدری نثار علی خان نے فرمایا ''کہ مذاکرات کو آگے بڑھانا زیادتی ہوگی، ہمارے خلوص کا ناجائز فائدہ اٹھایا گیا، مذاکرات اور پر تشدد کارروائیاں ایک ساتھ نہیں چل سکتیں۔ آپریشن کا فیصلہ کر لیا گیا تھا لیکن تمام تر تحفظات کے باوجود ہم نے امن کو ایک موقع دیا۔ اب ہم نے فوج کو جوابی کارروائی کا اختیار دیدیا ہے۔ عسکری اداروں سے ان کی حفاظت کا حق نہیں چھین سکتے اور نہ ان سے اپنے دفاع میں کارروائی کا حق لے سکتے ہیں، مذاکرات میں تعطل ہے کمیٹی اپنی جگہ قائم ہے، پُرامید ہیں کہ مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو گا، ہر مسئلے کا حل مذاکرات میں ہے، ان گروپس سے بات چیت جاری رکھی گئی، جو مذاکرات پر یقین رکھتے ہیں، مذاکرات گلی کوچوں میں خون بہانے کا سلسلہ بند ہونے پر آگے بڑھیں گے''۔
یعنی بات چیت کو سنجیدگی کے ساتھ چلانا بھی چاہتے ہیں لیکن بات چیت ہو بھی نہیں سکتی، امن قائم بھی کریں گے لیکن جنگ بھی ہو گی۔ کمیٹیاں ناکام بھی ہو گئیں ہیں لیکن قائم بھی ہیں۔ پالیسی کی خوبصورتی دیکھئے، اسی وجہ سے تو پاکستان حسین ملک ہے۔ چند دن پہلے وزیر موصوف یہ فرما رہے تھے ''کہ اگر اللہ نے چاہا تو مذاکرات کے ذریعے اہم پیش رفت ہو گی۔ تاہم ہمیں صبر سے کام لینا ہو گا کہ راستے میں روڑے اٹکائے جائیں گے۔ کچھ قوتیں موجود ہیں جو مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کریں گی، صرف فوجی کارروائی سے ہی دہشت گردی ختم نہیں ہو سکتی، آپریشن مسئلے کا حل نہیں، مذاکرات ہی امن و امان کے قیام کے لیے پہلی تر جیح ہے۔ مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش پاکستان دشمنی کے مترادف ہو گی، ڈرون کا مقصد صرف مذاکرات کا راستہ روکنا ہے، ملک کو آپریشن سے بچانا ہے تا کہ مزید خون ریزی نہ ہو'' ۔
وزیر اطلاعات و نشریات جنہوں نے کبھی میڈیا کو خواہ مخواہ کے تجزیوں سے گریز کرنے کا کہا تھا کہ بات چیت کا ماحول خراب نہ ہو، آج کل یہ فرما رہے ہیں کہ ''حکومت کو طالبان سے مختلف معاملات پر شکایت ہے اور شریعت والے بتائیں کہ قیدیوں کی گردنیں کس اصول کے تحت کاٹی گئیں، اس طرح کا رویہ تو بھارت نے ہمارے نوے ہزار قیدیوں کے ساتھ بھی نہیں اپنایا تھا، کیا ان میں سے کسی کی گردن کاٹی گئی؟ کس قسم کی شریعت ہے جس کا یہ دعویٰ کرتے ہیں، مذاکرات کرنے والوں کے لیے دروازے کھلے ہیں۔ ایک بار بات کرو گے تو ہم دو بار کریں گے اور ایک بار وار کرو گے تو ہم دو بار کریں گے ''۔
عالی مرتبت وزیر اعظم پاکستان یہ خوشخبری دے رہے تھے ''کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کامیابی سے آگے بڑھ رہے ہیں اور دعا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کامیابی اور خوش اسلوبی سے آگے بڑھیں اور مذاکرات کے مثبت نتائج بر آمد ہوں۔ مذاکرات کی کامیابی کی امید ہے اور حکومت مذاکرات کے لیے سنجیدہ ہے۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات درست سمت میں جاری ہیں۔ حکومتی اور طالبان کی کمیٹیوں کے درمیان ہونے والی بات چیت پر اطمینان ہے۔ طالبان کی حالیہ کارروائیوں سے مذاکرات کو دھچکا لگا ہے، تاہم حکومت طالبان کی کارروائیوں کے باوجود نیک نیتی سے مذاکرات جاری رکھے گی۔''
کل اخبار میں چھپنے والی خبر کے مطابق محترم وزیر اعظم کے احکامات سے مندرجہ ذیل کارروائیاں کی گئیں۔''پاک فضائیہ کی شمالی وزیرستان اور خیبر ایجنسی کے علاقوں میں طالبان کے ٹھکانوں پر کارروائی میں ملکی اور غیر ملکی کمانڈروں سمیت 42 کے قریب عسکریت پسند مارے گئے۔ جب کہ ان کے چھ ٹھکانے اور چار اسلحہ اور بارود خانے بھی تباہ ہو گئے۔ یہ کاررروائی چالیس منٹ تک جاری رہی جس میں سات ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ پہلا حملہ کمانڈر عبدالستار کے مرکز پر کیا گیا، دوسرا اور تیسرا حملہ ازبک اور ترکمانی جنگجوؤں کے ٹھکانوں پر کیا گیا جس میں گیارہ طالبان جاں بحق ہوئے۔ چو تھے حملے میں تاجک کمانڈر سمیت ٹھکانے میں موجود تمام طالبان مارے گئے' ایک اور حملے میں طالبان کمانڈر جہاد یار کا مرکز ہدف تھا جس میں پندرہ طالبان مارے گئے۔ تحریک طالبان کے کمانڈر عبدالرزاق کا مرکز بھی فضائیہ کی کارروائی کا نشانہ بنا۔''
آپ نے دیکھا تضاد سے ہمارے ملک کا حسن کتنا بڑھا۔ کیا کمال رنگ جما۔ مگر ہمارے حکمرانوں کو تضادات سے بھی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ کوئی غم نہیں ہے کہ کہیں تضادات کی خوبصورتی بد صورتی میں نہ بدل جائے۔ ہمارے عوام کی یاد داشت مچھلیوں کی یاد داشت کی طرح تین لمحوں کی ہے، کسی کو کچھ یاد نہیں رہتا کہ کس نے کیا کہا تھا۔
معاملات کی نزاکت اور سنجیدگی کو بھانپتے ہوئے ہمارے معاملہ فہم حکمرانوں نے یہاں پر بھی زبردست کارکردگی دکھائی۔21 فروری کو چھپنے والی ایک خبر کے مطابق وفاقی وزیر داخلہ محترم چوہدری نثار علی خان نے فرمایا ''کہ مذاکرات کو آگے بڑھانا زیادتی ہوگی، ہمارے خلوص کا ناجائز فائدہ اٹھایا گیا، مذاکرات اور پر تشدد کارروائیاں ایک ساتھ نہیں چل سکتیں۔ آپریشن کا فیصلہ کر لیا گیا تھا لیکن تمام تر تحفظات کے باوجود ہم نے امن کو ایک موقع دیا۔ اب ہم نے فوج کو جوابی کارروائی کا اختیار دیدیا ہے۔ عسکری اداروں سے ان کی حفاظت کا حق نہیں چھین سکتے اور نہ ان سے اپنے دفاع میں کارروائی کا حق لے سکتے ہیں، مذاکرات میں تعطل ہے کمیٹی اپنی جگہ قائم ہے، پُرامید ہیں کہ مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو گا، ہر مسئلے کا حل مذاکرات میں ہے، ان گروپس سے بات چیت جاری رکھی گئی، جو مذاکرات پر یقین رکھتے ہیں، مذاکرات گلی کوچوں میں خون بہانے کا سلسلہ بند ہونے پر آگے بڑھیں گے''۔
یعنی بات چیت کو سنجیدگی کے ساتھ چلانا بھی چاہتے ہیں لیکن بات چیت ہو بھی نہیں سکتی، امن قائم بھی کریں گے لیکن جنگ بھی ہو گی۔ کمیٹیاں ناکام بھی ہو گئیں ہیں لیکن قائم بھی ہیں۔ پالیسی کی خوبصورتی دیکھئے، اسی وجہ سے تو پاکستان حسین ملک ہے۔ چند دن پہلے وزیر موصوف یہ فرما رہے تھے ''کہ اگر اللہ نے چاہا تو مذاکرات کے ذریعے اہم پیش رفت ہو گی۔ تاہم ہمیں صبر سے کام لینا ہو گا کہ راستے میں روڑے اٹکائے جائیں گے۔ کچھ قوتیں موجود ہیں جو مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کریں گی، صرف فوجی کارروائی سے ہی دہشت گردی ختم نہیں ہو سکتی، آپریشن مسئلے کا حل نہیں، مذاکرات ہی امن و امان کے قیام کے لیے پہلی تر جیح ہے۔ مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش پاکستان دشمنی کے مترادف ہو گی، ڈرون کا مقصد صرف مذاکرات کا راستہ روکنا ہے، ملک کو آپریشن سے بچانا ہے تا کہ مزید خون ریزی نہ ہو'' ۔
وزیر اطلاعات و نشریات جنہوں نے کبھی میڈیا کو خواہ مخواہ کے تجزیوں سے گریز کرنے کا کہا تھا کہ بات چیت کا ماحول خراب نہ ہو، آج کل یہ فرما رہے ہیں کہ ''حکومت کو طالبان سے مختلف معاملات پر شکایت ہے اور شریعت والے بتائیں کہ قیدیوں کی گردنیں کس اصول کے تحت کاٹی گئیں، اس طرح کا رویہ تو بھارت نے ہمارے نوے ہزار قیدیوں کے ساتھ بھی نہیں اپنایا تھا، کیا ان میں سے کسی کی گردن کاٹی گئی؟ کس قسم کی شریعت ہے جس کا یہ دعویٰ کرتے ہیں، مذاکرات کرنے والوں کے لیے دروازے کھلے ہیں۔ ایک بار بات کرو گے تو ہم دو بار کریں گے اور ایک بار وار کرو گے تو ہم دو بار کریں گے ''۔
عالی مرتبت وزیر اعظم پاکستان یہ خوشخبری دے رہے تھے ''کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کامیابی سے آگے بڑھ رہے ہیں اور دعا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کامیابی اور خوش اسلوبی سے آگے بڑھیں اور مذاکرات کے مثبت نتائج بر آمد ہوں۔ مذاکرات کی کامیابی کی امید ہے اور حکومت مذاکرات کے لیے سنجیدہ ہے۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات درست سمت میں جاری ہیں۔ حکومتی اور طالبان کی کمیٹیوں کے درمیان ہونے والی بات چیت پر اطمینان ہے۔ طالبان کی حالیہ کارروائیوں سے مذاکرات کو دھچکا لگا ہے، تاہم حکومت طالبان کی کارروائیوں کے باوجود نیک نیتی سے مذاکرات جاری رکھے گی۔''
کل اخبار میں چھپنے والی خبر کے مطابق محترم وزیر اعظم کے احکامات سے مندرجہ ذیل کارروائیاں کی گئیں۔''پاک فضائیہ کی شمالی وزیرستان اور خیبر ایجنسی کے علاقوں میں طالبان کے ٹھکانوں پر کارروائی میں ملکی اور غیر ملکی کمانڈروں سمیت 42 کے قریب عسکریت پسند مارے گئے۔ جب کہ ان کے چھ ٹھکانے اور چار اسلحہ اور بارود خانے بھی تباہ ہو گئے۔ یہ کاررروائی چالیس منٹ تک جاری رہی جس میں سات ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ پہلا حملہ کمانڈر عبدالستار کے مرکز پر کیا گیا، دوسرا اور تیسرا حملہ ازبک اور ترکمانی جنگجوؤں کے ٹھکانوں پر کیا گیا جس میں گیارہ طالبان جاں بحق ہوئے۔ چو تھے حملے میں تاجک کمانڈر سمیت ٹھکانے میں موجود تمام طالبان مارے گئے' ایک اور حملے میں طالبان کمانڈر جہاد یار کا مرکز ہدف تھا جس میں پندرہ طالبان مارے گئے۔ تحریک طالبان کے کمانڈر عبدالرزاق کا مرکز بھی فضائیہ کی کارروائی کا نشانہ بنا۔''
آپ نے دیکھا تضاد سے ہمارے ملک کا حسن کتنا بڑھا۔ کیا کمال رنگ جما۔ مگر ہمارے حکمرانوں کو تضادات سے بھی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ کوئی غم نہیں ہے کہ کہیں تضادات کی خوبصورتی بد صورتی میں نہ بدل جائے۔ ہمارے عوام کی یاد داشت مچھلیوں کی یاد داشت کی طرح تین لمحوں کی ہے، کسی کو کچھ یاد نہیں رہتا کہ کس نے کیا کہا تھا۔