سیکیورٹی… قوم کی نہیں اپنی ذات گرامی کی

میں ان بدنصیب پاکستانیوں میں سے ہوں جنھیں یوم آزادی یاد ہے مگر آج اس آزاد ملک کے شہریوں کی گردنیں کٹ رہی ہیں

Abdulqhasan@hotmail.com

آپ جب کبھی موڈ میں ہوں تو اپنی اور اپنے گرد و نواح پر تنقیدی نظر بھی ڈال لیں، اس کے بہت فائدے ہیں اور آپ اچانک پیدا ہونے والے خطروں سے بچ سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک برقی پیغام موصول ہوا ہے، وہ مختصراً پیش خدمت ہے۔ عنوان ہے ''پاکستان میں سڑک عبور کیسے کی جائے''۔ کسی سڑک کے پار جانے سے پہلے دائیں اور بائیں دیکھیں کہ کاریں اور موٹر سائیکل تو نہیں آ رہیں، ان سے آپ خود بچیں وہ آپ کو نہیں بچائیں گی۔ اس کے بعد اوپر آسمان کی طرف دیکھیں کہ کوئی ڈرون تو نہیں ہے پھر نیچے دیکھیں کہ راستے میں کوئی بارودی سرنگ تو نہیں بچھی ہوئی۔ پھر آپ بڑے غور سے اپنے آس پاس دیکھیں کہ کوئی اغوا کار تو موجود نہیں ہے یا کوئی خود کش بمبار۔ اپنا بیگ مضبوطی سے پکڑ لیں اور ساتھ چلنے والوں کو غور سے دیکھیں اور چلتے ہوئے مسلسل دیکھتے رہیں ،آپ کا بیگ کسی بھی وقت کوئی بھی آپ سے چھین سکتا ہے، ایسی ہر طرح کی احتیاط کرنے کے بعد سڑک عبور کرتے ہوئے بھی سیدھے نہ چلیں الٹے ٹیڑھے ہو کر چلیں تا کہ آپ کا نشانہ آسان نہ ہو اور کسی گولی سے بچ سکیں۔ آپ کے گھر پہنچنے پر گھر والوں کو جو خوشی ہو گی اس کو برداشت کرنے کے لیے تیار رہیں۔ شب بخیر۔

یہ پیغام بھیجنے والے نے کوئی انکشاف نہیں کیا صرف یاد دہانی کرائی ہے۔ ہم پاکستانی ایک عرصہ سے ایسے ہی خطرناک حالات سے دوچار ہیں جو اب تو ایک معمول بنتے جا رہے ہیں اس لیے ہم کئی باتیں بھول جاتے ہیں ان باتوں کی یاد دہانی بہت ضروری ہے تا کہ بے خبری یا بے عقلی میں نہ مارے جائیں ایسے جو حالات ہیں ان میں بڑے بڑے عقلمند اور ہر دم چوکنے رہنے والے بھی مارے جا رہے ہیں۔ جن لوگوں کا فرض ہے کہ وہ ہماری جان و مال کی حفاظت کریں وہ دن رات خود اپنی حفاظت میں لگے رہتے ہیں۔ ان کے گھروں اور ان کے گھر سے باہر کسی سڑک سے گزرنے کے حفاظتی اقدامات پر نظر ڈالیں تو آپ نعوذ باللہ کچھ وقت کے لیے مان جائیں گے کہ انسان بھی عزرائیل کا راستہ روک سکتے ہیں یا موت کا فرشتہ ان کے خوف و ہراس کو دیکھ کر سوچ سکتا ہے کہ فی الحال ان کے لیے موت بنی ہوئی یہ زندگی ہی بہت ہے ان پر ہر وقت نزع کا جو عالم طاری رہتا ہے یہ کچھ کم عذاب نہیں ہے، اس لیے فی الحال ان کی موت سے بدتر یہ زندگی ہی کافی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن تک ابھی تک خدا کا یہ فیصلہ نہیں پہنچا کہ زندگی اور موت اس کے اختیار میں ہے۔ اگر یہ جمہوری حکمران ہیں تو جن لوگوں نے ان کو ووٹ دیے ہیں یہ ان کا کوئی حق ادا نہیں کرتے بلکہ ان کے حقوق کو دن رات سلب کرتے ہیں اور اگر آمر ہیں تو پھر تو ان کی ذمے داری سب ان کی اپنی ہے جو انھوں نے خود اپنے ذمے لی ہے۔


اللہ تعالیٰ کو اس کی تمام قدرتوں کے ساتھ ماننے والا ایک مسلمان حکمران سیکیورٹی کے بغیر کہیں جا رہا تھا کہ کسی نے احتیاطاً عرض کہ امیر المومنین آپ ایک ویران راستے پر اکیلے جا رہے ہیں، کسی کو ساتھ لے لیتے تو حفاظت کے لیے اچھا تھا۔ اس حکمران نے ایک قدم رک کر کہا کہ یہ کیا بات ہوئی کہ جن کی حفاظت کے لیے میں ہوں اپنی حفاظت کے لیے میں ان کو ساتھ لے لوں۔ مجھے یہ حق اور اختیار حاصل نہیں ہے۔ ایسے ہی حد سے زیادہ محتاط خوف خدا اور خدمت عوام سے سرشار ہم نے اپنی قوم کے تین عظیم ترین انسان قربان کر دیے مگر انھوں نے اپنے فرائض پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ اپنے فرائض اور ڈیوٹی کے مقابلے میں اپنی اس زندگی کو پرکاہ کی اہمیت بھی نہ دی۔ انسانی زندگی کی حفاظت ہر انسان پر فرض ہے لیکن اس کے لیے کسی دوسرے کا حق نہیں مارا جا سکتا۔ ہر روز پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد مار دی جاتی ہے اور ان کی حفاظت کا کوئی بندوبست نہیں ہوتا۔ بات وہی ہے کہ جو ان پاکستانیوں کی حفاظت کے لیے حکمران بنایا گیا ہے وہ ان پاکستانیوں کے ٹیکسوں سے تنخواہ پانے والے سرکاری ملازمین کو اپنی ذاتی حفاظت پر کیوں لگا دے۔

وہ گھر میں رہے تو محافظوں کی ایک فوج اس کے گھر کا پہرہ دے اور گھر سے باہر نکلے تو شہر بند کر دیے جائیں۔ اس کے راستے سے کوئی دوسرا نہ گزرے جس ملک کا دارالحکومت اسلام آباد ایک غیر محفوظ شہر سمجھا جائے اور جو ملک دنیا بھر میں انسانوں کے لیے ایک غیر محفوظ ملک سمجھا جائے اسے ملک کے حکمران ایسے حفاظتی ماحول میں رہیں جہاں پرندہ بھی پر نہ مار سکے اور جب تک بھاری تعداد میں سرکاری ملازمین کے قتل کے بعد ان کے سر نہ کاٹ دیے جائیں تب تک کسی کی غیرت نہ جاگے۔ میں ان بدنصیب پاکستانیوں میں سے ہوں جنہوں نے اس سفاکی کی فلم دیکھی ہے اور میں ان بدنصیب پاکستانیوں میں سے ہوں جنھیں 14اگست 1947ء کا یوم آزادی آج تک پوری طرح یاد ہے مگر آج اس آزاد ملک کے شہریوں کی گردنیں کٹ رہی ہیں، ان کی میتوں کی بے حرمتی کی جا رہی ہے مگر میں اس کے باوجود زندہ سلامت بیٹھا چائے پی رہا ہوں اور کالم لکھ رہا ہوں، ایک بے حس اور بے حمیت پاکستانی کی طرح۔
Load Next Story