لجپت بھگت اور موم بتی

لجپت رائے کی پر تشدد موت کے انتقام نے اس کی پوری زندگی تبدیل کر دی۔۔۔۔

raomanzar@hotmail.com

GILGIT:
کیا ہم یہ فیصلہ کر چکے ہیں کہ وقت کے پہیہ کو الٹا چلانا ہے۔ کیا یہ بھی ایک سوچا سمجھا فیصلہ ہے کہ ہم جبر اور ظلم سے اپنے ملک میں اسلام کی ایک ایسی شکل نافذ کرنا چاہتے ہیں جسکی مثال آج کے مسلمان ممالک میں قطعاً موجود نہیں ہے۔ ہم مہذب ممالک کے لیے کیا پیغام دے رہے ہیں! اس کا ادراک آپ کو یورپ یا امریکا جا کر ایک منٹ میں ہو جاتا ہے۔ کیا دبئی، ملائیشیا، بحرین اور قطر اسلامی ممالک نہیں ہیں؟ ہم ان کی طرح ترقی کی دوڑ میں کیوں شامل نہیں ہیں۔ اور تو اور، ہم اپنے خطہ کی تاریخ کو بھی مسخ کرنا چاہتے ہیں۔ ہماری اکثریت یہ تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں کہ آج کا پاکستان علاقائی اور جغرافیائی اعتبار سے ہزاروں سال سے موجود ہے۔ انگریزوں نے مسلمانوں سے حکومت حاصل کرنے کے بعد ایک مکمل استعماری نظام نافذ کر دیا تھا۔ اس خطہ کے مسلمان، ہندو اور سکھوں نے انگریزوں کی غلامی ختم کرنے کے لیے بے مثال قربانیاں دیں ہیں۔ مگر آج ہم ان کا ذکر کرتے ہوئے بھی خوف زدہ ہیں۔

لجپت رائے1865ء میں پنجاب کے موگا ضلع میں پیدا ہوا۔ اس کے والد رادھا کشن اردو کے استاد تھے۔ وہ لاہور کے نیشنل کالج میں زیر تعلیم رہا۔ لجپت رائے1907ء میں امریکا چلا گیا۔ واپس آ کر اُس نے رنگ اور ذات کی بنیاد پر ایک کتاب لکھی۔1924ء میں اس نے"ٹریبون"میں حیرت انگیز مضامین لکھنے شروع کر دیے۔ اس نے سندھ، N.W.F.P اور مشرقی بنگال میں مسلمانوں کی حکومت بنانے کی بات کی۔ اس نے پنجاب کو بھی دو حصوں میں تقسیم کرنے کی بات پر زور دیا۔ مغربی اور مشرقی پنجاب۔ اس نے لکھا کہ مغربی پنجاب کے علیحدہ صوبے میں مسلمانوں کی حکومت ہونی چاہیے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ماسوائے مشرقی بنگال کے آج یہی تمام صوبے پاکستان کا حصہ ہیں اور پاکستان ان پر ہی مشتمل ہے۔

1928ء میں برطانوی حکومت نے"سائمن کمیشن" بنایا تا کہ ہندوستان کی سیاسی صورت حال کا جائزہ لے کر ایک حکمت عملی ترتیب دی جائے۔"سائمن کمیشن" میں کوئی بھی انڈین شخص نہیں تھا۔ جب یہ کمیشن لاہور پہنچا تو لجپت رائے نے اس ناانصافی کو ظاہر کرنے کے لیے ایک پُر امن مظاہرہ کیا۔ لاہور کا سپرنٹنڈنٹ پولیس جیمس اسکاٹ نے لجپت رائے پر بیہمانہ تشدد کیا۔ اس تشدد کی وجہ سے وہ تھوڑے ہی دنوں میں فوت ہو گیا۔ برطانوی پارلیمنٹ میں جب یہ معاملہ اٹھا، تو حکومت نے اعلان کر دیا کہ لجپت رائے کی موت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ بھگت سنگھ لجپت رائے پر تشدد کے وقت موجود نہیں تھا۔ مگر اس نے وعدہ کیا کہ وہ اس انگریز S.Pجیمس اسکاٹ کو کیفر کردار تک ضرور پہنچائے گا۔ اس منصوبہ بندی میں اس کے تین چار ساتھی بھی شامل تھے۔ ان میں آزاد، تھاپر اور راج گرو قابل ذکر ہیں۔

بھگت سنگھ، لائل پور کی جڑانوالہ تحصیل میں1907ء میں پیدا ہوا تھا۔ اُس کا پورا خاندان انقلابی رجحانات کا حامل تھا۔ برسوں سے اس سکھ خاندان کا ایک ہی خواب تھا کہ انگریزوں سے مکمل آزادی حاصل کی جائے۔ اس وجہ سے انگریز سرکار ان لوگوں پر کڑی نظر رکھتی تھی اور ان کے خیالات کی بدولت اس خاندان کو بہت سی تکالیف کا سامنا بھی کرنا پڑتا تھا۔ اس کے والد کا نام کشن سنگھ تھا۔ بھگت سنگھ کے بزرگوں نے اسے انگریزی اسکولوں سے بہت دور رکھا۔ ان کے بقول وہاں انگریز سرکار سے وفاداری کا سبق پڑھایا جاتا تھا۔ چنانچہ بھگت سنگھ کی تعلیم لاہور میں ڈے آنند ویدک ہائی اسکول میں ہوئی۔ بھگت سنگھ کے خیالات بچپن ہی سے انقلابی تھے۔

صرف بارہ سال کی عمر میں وہ جلیانوالہ باغ دیکھنے چلا گیا جہاں ہزاروں نہتے لوگوں کو انگریزوں نے بیہمانہ طریقے سے قتل کر دیا تھا۔ صرف چودہ سال کی عمر میں بھگت سنگھ ان مظاہرین میں شامل ہو گیا جو گردوارہ ننکانہ صاحب میں نہتے لوگوں کے قتل پر مظاہرے کر رہے تھے۔1925ء میں بھگت سنگھ لاہور میں نیشنل کالج میں داخل ہو گیا۔ وہ اُس وقت تک کئی انقلابی تحریکوں کا ممبر بن چکا تھا۔ وہ جوانی میں اشفاق اللہ خان اور رام پرشاد بسمل کے خیالات سے متاثر تھا۔ اس کے والدین نے اس کی جوانی میں ہی شادی کرنا چاہی۔ بھگت گھر سے بھاگ گیا اور ایک خط میں لکھ کر گیا کہ اس کی پوری زندگی صرف اور صرف اپنے ملک کی آزادی کے لیے وقف ہے اور اس کے سوا اسے کوئی دنیاوی خواہش نہیں ہے۔ اپنے انقلابی خیالات کی وجہ سے اس کو کئی بار گرفتار کیا گیا مگر کوئی بھی سختی اس کے خیالات کو تبدیل نہ کر سکی۔ وہ اُردو اور پنجابی میں کئی اخبارات میں اپنے مضامین لکھتا تھا۔


لجپت رائے کی پر تشدد موت کے انتقام نے اس کی پوری زندگی تبدیل کر دی۔1928ء میں غلط شناخت کی وجہ سے اُس نے جان سان ڈرزA.S.Pکو قتل کر دیا۔ اس کے بقول اس نے نہ صرف لجپت رائے کی موت کا بدلہ لیا ہے بلکہ پورے ہندوستان قوم کی عزت بحال کی ہے۔ یہ واقعہ لاہور میں پیش آیا تھا۔ سان ڈرز کے قتل کے بعد بھگت سنگھ کچھ دنوں کے لیے کلکتہ چلا گیا مگر تھوڑے دنوں بعد وہ پھر لاہور واپس آ گیا۔ برطانوی حکومت نے بھگت سنگھ جیسے آزادی کے طلب گار لوگوں کے لیے انتہائی سخت قوانین نافذ کرنے کا فیصلہ کیا جس میں ڈیفنس آف انڈیا ایکٹ 1915ء سر فہرست تھا۔ یہ قوانین پہلے ہی سے موجود تھے مگر ان کو ان کی روائتی سختی سے نافذ نہیں کیا گیا تھا۔ مگر بھگت سنگھ اب بالکل کچھ اور سوچ رہا تھا۔ یہ کام اس کے پہلے تمام کارناموں سے بہت زیادہ جارحانہ تھا۔1929ء میں بھگت اور اس کے ساتھی دت نے سینٹرل لجیسلیٹو(Legislative) اسمبلی کے اندر بموں سے حملہ کر دیا۔ وہ اسمبلی کی مہمانوں کی گیلری سے اسمبلی کے مین ہال میں داخل ہوئے تھے۔

بموں کے حملے سے کسی قسم کا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ مگر اس سے چند ممبران ضرور زخمی ہو گئے۔ ان میں وائسرائے کی فنانس کونسل کا ممبر جارج ارنسٹ شٹر بھی شامل تھا۔ بموں کے دھواں میں بھگت اور دت دونوں "آزادی" کے نعرے لگا رہے تھے۔ ان دونوں کو گرفتار کر لیا گیا اور ان دونوں نے تسلیم کیا کہ یہ دھماکا انھوں نے اپنی مرضی سے کیا ہے اور وہ انگریزوں کی غلامی سے آزادی چاہتے ہیں۔1929ء میں بھگت سنگھ اور دت پر مقدمہ چلنا شروع ہو گیا۔ انگریز سرکار اس وقت تک شدید دباؤ کا شکار ہو چکی تھی۔ سوبھا سنگھ نے عدالت میں بیان دیا کہ اس نے اسمبلی میں بھگت سنگھ کو پستول چلاتے دیکھا ہے۔ اس گواہی کے عوض سوبھا سنگھ کو حکومت نے "سر" کا خطاب دے دیا۔ سیشن جج مڈ لٹن نے اس مقدمہ کی سماعت کی۔ بھگت نے کوئی وکیل نہیں کیا البتہ دت کے لیے ایک بہت قابل مسلمان وکیل آصف علی نے مقدمہ لڑا۔ ان دونوں کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔

لیکن یہ مقدمہ صرف ایک ابتداء تھی۔ 1929ء میں لاہور میں بم بنانے کی فیکٹری پکڑی گئی۔H.S.R.A کے کئی ممبر گرفتار کیے گئے۔ ان میں کچھ لوگ وعدہ معاف گواہ بن گئے۔ ان وعدہ معاف گواہوں کی بنیاد پر بھگت اور اس کے ساتھیوں پر سان ڈرز کے قتل کا مقدمہ چلایا گیا۔ مگر اس وقت بھی بھگت ایک مختلف چیز سوچ رہا تھا۔ اس نے مقدمہ کو ایک عوامی رنگ دینے کا فیصلہ کیا۔ اس کا مقدمہ صرف اور صرف انگریزوں کی غلامی سے آزادی تھی۔ اس کو میانوالی جیل میں منتقل کر دیا گیا۔ میانوالی جیل میں بھگت سنگھ نے محسوس کیا کہ انگریز اور انڈین قیدیوں کو جیل میں بالکل مختلف طریقے سے رکھا جاتا ہے۔ انگریز قیدیوں کو ہر سہولت دی جاتی ہے۔ جب کہ انڈین قیدیوں کا کھانا، کپڑے اور دیگر ضروریات انتہائی ادنیٰ اور کمتر ہیں۔ اس نے جیل میں ہنگامہ کھڑا کر دیا کہ گورے اور انڈین قیدیوں کو یکساں مراعات حاصل ہونی چاہیئں۔ بھگت اور اس کے ساتھیوں نے بھوک ہڑتال کر دی جو کہ 116 دن جاری رہی۔ بھگت کو لاہور جیل میں منتقل کر دیا گیا۔ مقدمہ کی سماعت شروع کی گئی اس کیس کا نام لاہور سازش کیس پڑ چکا تھا۔ بھگت کو بھوک ہڑتال میں کئی بار اسٹریچر پر ہتھکڑی لگا کر لایا جاتا تھا۔ اس مقدمہ کی سماعت کے دوران پورے ملک میں آگ سی لگ گئی۔ قائد اعظم نے اسمبلی میں بھگت سنگھ کے متعلق تقریر کی اور اسے بوسیدہ نظام حکومت کے خلاف لوگوں کا ایک احتجاج قرار دیا۔

بھگت نے اپنے والد کے کہنے پر بھوک ہڑتال ختم کر دی۔ وائسرائے لارڈاردن نے1930ء میں ایمرجنسی کا نفاذ کر دیا۔3 ہائی کورٹ کے ججز پر ایک اسپیشل ٹربیونل بنایا گیا جنہوں نے پونچھ ہاؤس لاہور میں اس تاریخی کیس کی سماعت کی۔ یہ مقدمہ تقریباً 45 دن تک چلا۔ بھگت کو سزائے موت کا حکم سنایا گیا۔ پریوی کونسل میں اس کی اپیل مسترد کر دی گئی۔ 23 مارچ1931ء کو بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کو پھانسی لگا دی گئی۔ علاقہ مجسٹریٹ اور کسی بھی انتظامیہ کے اہلکار نے پھانسی گھر آنے سے انکار کر دیا۔ صرف ایک اعزازی مجسٹریٹ کے سامنے کارروائی کی گئی۔ پھانسی کے بعد بھگت سنگھ کی لاش کو جلا دیا گیا اور خاک دریائے ستلج میں بہا دی گئی۔ لیکن موت سے بہت پہلے بھگت سنگھ ایک دیو مالائی کردار بن چکا تھا۔ وہ غلامی کے خلاف جدوجہد کے نشان کی حیثیت اختیار کر گیا تھا۔ پھانسی کے وقت بھگت کی عمر صرف 23 برس تھی۔

لجپت رائے جس کی موت کے انتقام سے یہ تمام واقعات شروع ہوئے، نے مرنے سے صرف ایک سال پہلے 1927ء میں گلاب دیوی ٹرسٹ بنا دیا۔ اس ٹرسٹ نے لجپت رائے کے مرنے کے بعد 1930ء میں لاہور میں چالیس ایکڑ زمین خریدی اور 1934ء میں لاہور میں مریضوں کے لیے ایک مفت اسپتال بنا دیا۔ اس کا نام گلاب دیوی اسپتال ہے۔ یہ لاہور کی فیروز پور روڈ پر واقع ہے۔ یہاں لاکھوں لوگوں کا آج بھی مفت علاج کیا جاتا ہے۔

ہم میں بردادشت کا مادہ تقریباً ختم ہونے کو ہے! مجھے علم ہے کہ ہم بھگت سنگھ کے نام سے کوئی چوک منسوب نہیں کر سکتے۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ لالہ لجپت رائے کے نام سے کوئی شاہراہ بھی منسوب نہیں ہو سکتی۔ چوک اور شاہراہ تو چھوڑ دیجیے، ان دونوں کے نام پر کسی گلی یا محلہ کا نام تک نہیں رکھا جا سکتا۔ ہم تو سہمے اور ڈرے ہوئے لوگ ہیں! ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے! مگر شاید کوشش کر کے ہم سال میں صرف ایک مرتبہ ان عظیم لوگوں کے لیے ایک موم بتی تو روشن کر سکتے ہیں! ہو سکتا ہے کہ خوف ناک حد تک بڑھتی ہوئی فرقہ واریت اور عدم برداشت ہمیں کچھ عرصہ کے بعد ایک موم بتی تک جلانے کی اجازت بھی نہ دے؟
Load Next Story