خواتین پر تشدد
باپ، دادا، چچا، ماموں اور بھائی کے جرم کی سزا کے بدلے بچیوں کو کمسنی میں متعلقہ دشمن کو ونی کر دیا جاتا ہے۔۔۔
بلوچستان کے دور افتادہ شہر لورالائی کے ایک گاؤں میں مولوی کے فتویٰ کے بعد گاؤں کے لوگوں نے ایک عورت اور مرد کو پتھراؤ کر کے ہلاک کر دیا۔ لورالائی کے گاؤں منزکی سے آنے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مرد اور عورت پر مبینہ طور پر غیر قانونی تعلقات رکھنے کا شبہ تھا۔ اس عورت اور مرد کو غسل اور کفن پہنائے بغیر اور نماز جنازہ کی ادائیگی کے بغیر دفن کر دیا گیا۔ حکام نے کچھ افراد کو گرفتار کر لیا ہے مگر مولوی مفرور ہے۔ لورالائی میں ہونے والا یہ واقعہ انسانوں کے رونگٹے کھڑے کرنے کے لیے کافی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہر طرف جنون اور جنون کی فضا ہے اور ہر روز رونما ہونے والا کوئی واقعہ عورتوں پر تشدد کی تاریخ یاد دلاتا ہے۔ گزشتہ ماہ مظفرگڑھ میں چند لوگوں نے پنچایت کے حکم پر ایک عورت کے بازار میں کپڑے تار تار کر دیے۔ جب اس واقعے کا علم ذرایع ابلاغ کو ہوا اور حکام نے اس واقعے کے ذمے دار افراد کے خلاف کارروائی کا حکم دیا تو متاثرہ عورت نے دباؤ کی بنیاد پر اپنی شکایت واپس لے لی۔ اور حکام نے بغیر کسی مزید تحقیقات کے معاملہ داخل دفتر کر دیا۔ پنجاب، پختونخوا اور بلوچستان میں کمسن لڑکیوں کو وِنی کرنے کی خبریں روز اخبارات میں شایع ہوتی ہیں۔
باپ، دادا، چچا، ماموں اور بھائی کے جرم کی سزا کے بدلے بچیوں کو کمسنی میں متعلقہ دشمن کو ونی کر دیا جاتا ہے تا کہ دو خاندانوں کے درمیان جنگ و جدل کا ماحول ختم ہو سکے مگر اس جنگ و جدل کو ختم کرنے کی قیمت کمسن لڑکیوں کو ساری عمر دشمن خاندان میں سسک سسک کر زندگی گزارنے کے لیے زندہ چھوڑ دیا جاتا ہے۔ تحقیق کار سعدیہ بلوچ نے عورتوں پر تشدد اور کاروکاری کے موضوع پر کتاب تحریر کی ہے جسے انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیم پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (HRCP) نے شایع کیا ہے۔ سعدیہ بلوچ خواتین پر تشدد کے پس منظر کو بیان کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ انسانی سماج کے آغاز پر پدر سری نظام کے آغاز سے جب زر اور زمین کے ساتھ یعنی زن کو ملایا گیا تب سے عورت کو جنسی تجارت سمجھا گیا اور تب ہی سے اپنی حاکمیت اور برتری قائم رکھنے کے لیے لازم تھا کہ مردوں کا طبقہ عورتوں پر تشدد کرے۔ اس طرح پدر سری نظام میں معاشرتی بالادستی کے لیے خود سماج، خاندان، سیاست، معیشت، مذہب پر ہی مرد کی اجارہ داری ضروری سمجھی گئی۔ عورتوں پر تشدد محض کسی مقامی خاندان یا برادری کا مسئلہ نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر عورت پر تشدد کا معاملہ اہمیت اختیار کر گیا ہے، یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ نے عورتوں پر تشدد کے مسئلے کو اپنے ایجنڈے میں شامل کیا۔
اقوام متحدہ کی مختلف قراردادوں میں صنفی بنیادوں پر ہونے والا کوئی بھی پرتشدد عمل جس کے نتیجے میں انسان کو جسمانی، ذہنی یا جنسی نقصان پہنچے عورتوں پر تشدد کہلاتا ہے۔ کتاب میں تشدد کی اقسام بیان کرتے ہوئے تحریر کیا گیا ہے کہ عورت جسمانی تشدد، جنسی تشدد، نفسیاتی تشدد، معاشی استحصال، سماجی استحصال، روحانی تشدد، ثقافتی تشدد، زبانی یا اخلاقی تشدد، نظر انداز کیے جانے والے تشدد کا شکار ہوتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جب عورت تخلیق کے عمل سے گزرتی ہے تو بھی اس کو تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس طرح گھریلو تشدد کے بہت سے واقعات سامنے آتے ہیں جن میں آگ، مٹی کے تیل، تیزاب سے جلنے والے اعضا کے واقعات شامل ہیں۔ اس کتاب میں تحریر کیا گیا ہے کہ عمومی طور پر ایک عورت پر کیے جانے والے ظلم کی سزا دوسری عورت کو دی جاتی ہے۔ گزشتہ سال مئی میں ڈیرہ غازی خان میں ایک پنچایت نے فیصلہ دیا کہ غلام حسین کے بیٹے عبدالحمید نے سمیرا نامی لڑکی سے ناجائز تعلقات استوار کر رکھے تھے، اس بنا پر غلام حسین کو حکم دیا گیا کہ اپنی بیٹی کی شادی سمیرا کے بھائی سے کر دے۔ سمیرا کے بھائی مجاہد نے غلام حسین کی بیٹی سے نکاح کیا اور اپنی بیوی یعنی عبدالحمید کی بہن کو اپنے دوستوں کے حوالے کر دیا جنھوں نے اسے اجتماعی درندگی کا نشانہ بنایا۔ اس طرح عورتوں کو برہنہ کر کے سر عام رسوا کرنے، گنجا کرنے یا بدہیت کرنے کے کئی واقعات بھی اخبارات کے ذریعے منظر عام پر آتے رہے ہیں۔
عزت یا عزت کے نام پر قتل اور اس بنیاد پر بننے والی رسوم و روایات جیسے کاروکاری کی رسم عمومی طور پر قبائل میں پائی جاتی ہیں، یہ قبائل بلوچستان کے علاوہ جیکب آباد، لاڑکانہ، خیرپور، شکارپور،دادو اور سکھر کے علاوہ جنوبی پنجاب میں ڈیرہ غازی خان، راجن پور، مظفر گڑھ میں آباد ہیں، مگر دیگر قبائل اور برادریوں میں بھی قتل، کاروکاری اور ونی جیسی رسوم پائی جاتی ہیں۔ مذکورہ کتاب میں انکشاف کیا گیا کہ کاروکاری کے فیصلے جرگہ، پنچایت میہڑ وغیرہ میں طے پاتے ہیں، عمومی طور پر کسی بھی خاندان یا برادری کے معززین بیٹھ کر تنازعات کا فیصلہ کرتے ہیں۔ پنچایت میں شریک افراد پنچ کہلاتے ہیں، پنچایت کے فیصلے مانے جاتے ہیں، اس طرح قبائلی نظام میں قبائلی مرد مل کر فیصلہ کرتے ہیں تو وہ جرگہ کہلاتا ہے۔ بعض اوقات دو یا زیادہ قبائل کے درمیان تنازعے کے حل کے لیے مختلف قبیلوں کے سرداروں اور عمائدین پر مشتمل جرگے منعقد ہوتے ہیں۔ پنچایت اور جرگے میں عورتوں سے متعلق مقدمات پر فیصلے ہوتے ہیں مگر عورتوں کا پنچایت اور جرگوں میں کوئی کردار نہیں ہوتا۔ سندھ ہائی کورٹ نے چند سال قبل انسانی حقوق کے کارکن اختر بلوچ کی عرضداشت پر جرگوں کے انعقاد کو غیر قانونی قرار دے دیا تھا مگر اب بھی جرگے منعقد ہوتے ہیں۔ وزرا، اراکین اسمبلی ان جرگوں میں شرکت کرتے ہیں۔ وہ لکھتی ہیں کہ جب چاول کی فصل کٹتی ہے تو یہ وقت کاروکاری کو عملی جامہ پہنانے کا بھی بہترین وقت ہوتا ہے چونکہ لوگوں کے پاس پیسہ آتا ہے، اس پیسے کے بل بوتے پر دوسرے سے پیسہ ہتھیانا آسان ہوتا ہے، اپنے دفاع کے لیے پولیس کو رشوت دینے کے لیے پیسہ موجود ہوتا ہے، یہ موسم صرف دھان کی کٹائی کا ہی نہیں عورتوں کی گردنیں کٹنے کا ہوتا ہے۔ اگر مرد خواب میں بھی اپنی بیوی کی بے وفائی دیکھے تو اسے قتل کر دیتا ہے اور پھر کسی دشمن کو قتل کر کے غیرت کا معاملہ بنا لیتا ہے۔
مصنفہ کے مطابق یہ پدر سرانہ قبائلی نظام معاشی و اقتصادی فوائد کا حصول، افلاس، بے روزگاری، زمین کی پیداوار کم اور اخراجات زیادہ ہونا، مذہب کی غلط ترویج، ناخواندگی، تعلیمی نصاب میں صنفی بنیادوں پر تفریق پر مبنی مواد، تشدد کا کلچر، عدالتوں کے فیصلوں میں عزت کی بنیاد پر قتل کی سزائیں کم کرنا، راضی نامے، صلح معافی اور قانون دیت کا قانون وغیرہ کاروکاری کی بنیادی وجوہات میں شامل ہے۔ سعدیہ بلوچ نے ایسے وقت میں یہ کتاب تحریر کی ہے جب عورتوں پر تشدد کی شرح خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ لورالائی کے گاؤں میں عورت اور مرد کو سنگسار کی سزا خطرناک صورتحال کی عکاسی کرتی ہے۔ اگرچہ حکومت بلوچستا ن نے سنگسار کے واقعے میں ملوث 9 کے قریب افراد کو گرفتار کیا ہے مگر معاملہ محض گرفتاری سے حل نہیں ہو گا، یہ لوگ عینی شاہدوں کی عدم موجودگی کی بنا پر رہا ہو جائیں گے اور پھر سرخرو ہوں گے۔ بنیادی معاملہ یہ ہے کہ عورت پر ہونے والے تشدد کے اسباب کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ عورتوں پر تشدد کے حوالے سے کی جانے والی مختلف نوعیت کی تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ مرد کی بالادستی پر مبنی معاشرہ مردوں کے ذہن کو اس طرح ترتیب دیتا ہے کہ وہ عورت کو کمتر جانتے ہیں اور عورت کو زبانی تشدد سے لے کر جسمانی تشدد کے ذریعے اپنے زیر نگرانی رکھا جاتا ہے۔ مردوں کی عورتوں کو زیر تسلط رکھنے کی سوچ کی بنا پر عورتوں اور ان کے ساتھی مردوں کو سنگسار، انھیں کاری قرار دے کر قتل، دشمن سے صلح کے لیے لڑکیوں کو ونی کیا ہے۔ پسند کی شادی کے حق کے استعمال پر موت کی سزا دینے کے طریقے اپنائے جاتے ہیں۔ عورت کے پسماندہ رہنے سے غربت و افلاس کی سطح بلند ہو رہی ہے، یوں ترقی کا خواب محض خواب رہتا ہے۔ عورتوں کے سماجی، معاشی، سیاسی حقوق کے تحفظ سے انھیں بہیمانہ سزاؤں سے بچایا جا سکتا ہے۔