تقدیر اور تدبیر
انسان جب کامیاب ہوتا ہے تو وہ اسے اپنی تدبیرکا سبب قراردیتا ہے۔ قرآن چار پانچ مرتبہ انسان کی اس نفسیات کو بیان کرتا ہے
RAWALPINDI:
فلم ''بہن بھائی'' ایک خوب صورت فلم تھی، چار بھائی اور ایک بہن کسی ہنگامے میں والدین سے بچھڑ چکے ہوتے ہیں۔ ان رشتوں کو پاکستان کے صوبوں کی طرح سمجھا گیا۔ آخر میں ان کے ملاپ اور محبت کو ہدایت کار نے حب الوطنی کا روپ دیا۔ اداکار ندیم نے جیب کترے، اعجاز نے بازار حسن کے برے شخص، اسلم پرویز نے بد مزاج آدمی اور اداکارکمال نے مسٹر عبدالغنی کی مزاحیہ کردار میں رنگ بھردیا تھا۔ سب بھائی بہن جب بچھڑجاتے ہیں تو ایک بچہ یتیم خانے جا پہنچتا ہے۔ وہیں سے ایک شخص اپنی رشتے دار چھوٹی سی بچی کے ساتھ اسلم پرویزکوگھر لے آتا ہے۔ وہی بچہ بڑا ہوکر غریبوں سے زیادتی کرتا ہے تو بچی اسے ٹوکتی ہے، وہ کہتی ہے کہ میں اپنے چچا کے ساتھ یتیم خانے آئی تھی، چند بچوں میں سے میں نے تمہیں چنا تھا، اگر میں کسی اور کا انتخاب کرتی تو تمہیں اتنا اچھا ماحول نہ ملتا، نہ جانے تم کہاں کہاں مارے پھررہے ہوتے۔ یہ ہوتی ہے قسمت۔ آٹھ سالہ بچی کو بہتر لگنے کے سبب بارہ سالہ در بدر پھرنے والا لڑکا اچھے گھر میں آکر اعلیٰ تعلیم حاصل کر گیا۔ دس سال بعد بدمزاج شخص سے محبت کرنے والی لڑکی نے تقدیر کا فلسفہ سمجھاکر تربیت کی کمی کو دور کرنے کی کوشش کی۔ اس نے کہاکہ تمہاری قسمت اچھی تھی کہ میری نظر تم پر پڑی لہٰذا تم ٹھیک ہوجاؤ کہ بد قسمتی سے بچ گئے۔ اب بد قسمتوں پر زیادتی نہ کرو۔
عدالت میں مقدمہ چل رہا تھا۔ جج صاحب نے کرایہ دار سے پوچھا کہ آپ کے وکیل صاحب کہاں ہیں؟ اس نے جواب دیا کہ میں غریب آدمی ہوں اور وکیل نہیں کرسکتا۔ جج صاحب نے کہاکہ تمہارے مالک مکان نے تم پر مقدمہ دائر کیا ہے۔ ان کا کہناہے کہ تم نے پچھلے چھ ماہ سے کرایہ ادا نہیں کیا۔ وہ عدالت میں تمہارے سامنے کھڑے ہیں۔ تم ان سے سوال پوچھنا چاہو تو پوچھ لو۔ سب لوگ حیران تھے۔ کورٹ میں یہ بالکل انوکھا معاملہ تھا۔ پڑھے لکھے اور عدالتی معاملات کو سمجھنے والے اپنے مقدمے کی خود پیروی نہیں کرتے۔ ایک غریب اور بہت کم پڑھا لکھا شخص پہلی مرتبہ اس صورتحال سے دوچار تھا۔ لوگ اس کے سوال، جواب کے منتظر تھے۔ ممکن تھا کہ وہ شخص سوچنے کے لیے وقت مانگ لے، لیکن نہیں۔ وہ مقدمہ خود چلانے کو راضی تھا۔ جج صاحب نے کرایہ دار کو حلف نامہ پڑھ کر سنایا جو مالک مکان نے اپنے مقدمے کے لیے داخل کروایا تھا۔ اہم مسئلہ کرائے کی ادائیگی کا تھا۔ عام سا ٹھیلے والا شخص عدالت کے روبرو اپنے مقدمے کی پیروی کررہاتھا۔ اس نے کہاکہ میں آپ کو کرایہ کی ادائیگی کے لیے آیا تھا۔ مالک مکان نے انکار کردیا، کرایہ دار نے تھوڑی دیر سوچنے کے بعد کہاکہ میں فلاں دن آپ کے گھر پر کرایہ دینے آیا تھا؟ اب مالک مکان سنبھل گیا۔ وہ اپنے عام سے کرایہ دار سے اس سوال کی توقع نہیں کررہا تھا۔
جج صاحب نے پوچھا کہ تم کس وقت کرایہ دینے گئے تھے؟ کرایہ دار نے کہاکہ دوپہر کو۔ اب مالک مکان کے لیے اور زیادہ مشکل ہوگیا تھا۔ اس نے پلٹ کر پوچھا کہ تم کتنے مہینے کا کرایہ لائے تھے؟ اس نے کہا دو ماہ کا۔ جج صاحب نے فائل دیکھی اور حساب لگایا کہ فلاں دن کب آیا تھا؟ انھوں نے مالک مکان کی طرف دیکھا اور کہاکہ واقعی اس وقت تک دو ماہ کا کرایہ ہی واجب الادا تھا۔ ایک عام سے شخص نے نہایت ذہانت سے اپنے مقدمے کی پیروی کی تھی۔ اگر اسے پڑھنے کا موقع ملتا تو وہ مزید بہتر مقام پر ہوتا۔ نہ پڑھ سکنا ایک ٹھیلے والے کی تقدیر میں تھا یا اس کی بے تدبیری تھی؟ یہ ایک مشکل سوال ہے۔ اس سوال کے جواب سے پہلے قسمت کو سمجھنا لازمی ہے۔
انسان جب کامیاب ہورہا ہوتا ہے تو وہ اسے اپنی تدبیر کا سبب قرار دیتا ہے۔ قرآن چار پانچ مرتبہ انسان کی اس نفسیات کو بیان کرتا ہے کہ ''جب انسان مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے تو اپنے رب سے لمبی چوڑی دعائیں کرتا ہے۔ جب ہم اسے مصیبت سے نکال دیتے ہیں تو سب کچھ بھلاکر اسے اپنی عقل مندی کا سبب قرار دیتا ہے''۔ سوچیں کہ اگر حنیف محمد اور اداکار ندیم ساٹھ کے بجائے نوے کے عشرے میں نوجوان ہوتے اور کرکٹ و فلم کی دنیا میں آنا چاہتے تو کیا ہوتا؟
حنیف محمد دنیائے کرکٹ کے عظیم کھلاڑی ہیں۔ 999 منٹ تک بیٹنگ کرنے کا ریکارڈ نصف صدی گزرنے پر بھی نہیں ٹوٹ سکا۔ ویسٹ انڈیز میں تین سو سے زیادہ رنز بنا کر انھوںنے چھ روزہ میچ میں فالو آن پر مجبور ہوجانے والی ٹیم کو شکست سے بچایا تھا۔ وہ پر سکون انداز میں کھیلنے والے کھلاڑی تھے۔ اب یہ سوچیں کہ حنیف محمد اس دور میں پیدا ہوئے ہوتے جب ون ڈے کرکٹ متعارف ہوچکی تھی۔ اس بات کو یوں سمجھ لیں کہ حنیف کے بیٹے شعیب محمد میدان میں کیوں اس قدر کامیاب نہیں ہوئے جس قدر ان کے والد کامیاب تھے۔ ٹائمنگ، جی ہاں کامیابی اور قسمت میں ٹائمنگ کا بڑا دخل ہوتا ہے۔ اطمینان اور سکون سے بیٹنگ کرنے والے مزاج کے کھلاڑی کے لیے وہی دورکامیابی کا دور تھا جب حنیف محمد دنیائے کرکٹ کے ستارے بن کر سامنے آئے ۔ ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی کے زمانے میں سعید انور، انضمام اور شاہد آفریدی کے سے مزاج کے کھلاڑی کامیاب ہوئے ہیں۔ اب ذرا بات کو الٹ کر دیکھتے ہیں۔ اگر آفریدی کے مزاج کا سا کھلاڑی ساٹھ کے عشرے میں سامنے آتا تو ناکام ہوجاتا۔ ٹائمنگ پر مزید گفتگو کرکے ہم ایک اور بات کرکے تدبیر کی اہمیت کو سمجھیں گے۔
چینلوں کی بہار کے زمانے میں لاکھوں روپے ماہانہ کمانے والے ٹی وی اینکر پرسن اگر ستر، اسی اور نوے کے دور میں اپنا وقت گزار رہے ہوتے تو کیا وہ اس قدر کامیاب ہوتے؟ لئیق احمد، قریش پور جیسے کامیاب میزبان دو تین عشرے گزار کر پی ٹی وی سے کیا مالی فائدہ حاصل کرسکے؟ پچھلی صدی میں نہیں 40سال تک صحافت کے میدان میں بلند مقام پانے والے اپنا گھر تو گھر، یا گاڑی توگاڑی بلکہ اسکوٹر تک نہ خرید سکتے تھے۔ 90تک کے عشرے کے بڑے سے بڑے اخبار کے مدیر اعلیٰ اور مقبول ترین کالم نگاروں کے مشاہروں پر نظر دوڑائیں۔ یہیں فرق کرکٹ کی دنیا میں سن پچاس میں قدم رکھنے والے اور سن پچاسی میں قدم رکھنے والوں کے معاوضوں کے درمیان ہے۔ زمین و آسمان کا فرق۔ اداکار ندیم جیسے کسی پاکستانی فنکار کو اداکاری و گلوکاری کا شوق اکیسویں صدی میں ہو تو وہ ندیم کی گرد کو بھی نہیں چھو سکتا۔ فرق صلاحیت کا نہیں ٹائمنگ کا ہے۔
وحید مراد اگر اس دور میں پیدا ہوتے جب عادل مراد نے جنم لیا ہے تو کون جانتا کہ کون تھا ''چاکلیٹی ہیرو'' اسی طرح ایک صدر اور اداکار کو دیکھئے۔ صدراوباما اور اداکار شاہ رخ کو ٹائمنگ کے سبب یہ مقام ملا۔ ٹائمنگ اور مقام پر گفتگو کے بعد ہم تدبیر کی جانب آتے ہیں۔تدبیر کی اہمیت سے انکار نہیں کیاجاسکتا۔ اسے یوں سمجھ لیں کہ ریل کا ٹکٹ لینا اور منزل تک پہنچ جانا، دونوں میں بڑا فرق ہے۔ تدبیر سے آپ ریل گاڑی میں بیٹھ جاتے ہیں اور ٹکٹ آپ کی جیب میں ہوتا ہے۔ ریل گاڑی نہ چلے،کہیں رک جائے یا دیر کردے یا حادثے کا شکار ہوجائے تو؟ تقدیر اور تدبیر کا مسئلہ کبھی ختم نہ ہونے والا مسئلہ ہے۔ ارب پتی کا دیوالیہ ہوجانا، سنچری میکر کا دس رنز بھی نہ بناسکنا،کامیاب ہیروکا فلاپ ہوجانا، تخت پر بیٹھے حکمران کا تختے پر آجانا کیا ہے؟ تدبیر کی خرابی یا تقدیر کا بگڑجانا؟ ہے نا مشکل مسئلہ۔ حل یہی ہے کہ کامیابی کو دماغ میں نہ بٹھائیں اور ناکامی کو دل پر نہ لیں۔ سب سمجھ میں آجائے گا کہ کیا ہے تقدیر اور تدبیر ؟