کراچی:
غزل
ہر ایک عکس کو تمثیل سے سجایا گیا
بدن کے وسط میں اک آئینہ لگایا گیا
میں اک چراغ کے بجھنے پہ خوش ہوا تھا کبھی
سو اس چراغ کے بدلے مجھے جلایا گیا
میں وہ شجر ہوں جسے کوئی بھی دعا نہ ملی
کہ ایک راہی تلک بھی نہ میرا سایہ گیا
وہ نور تھا اسے افلاک نے کیا تسخیر
میں خاک تھا سو مجھے خاک میں ملایا گیا
وہ بے قصور تھا اس عشق کے تصور میں
خدا کا شکر اسے دار پر نہ لایا گیا
بغاوتوں نے وہاں سر اٹھا لیا جاوید
محبتوں میں جہاں ظرف آزمایا گیا
(سید جاوید۔ گوجر خان)
۔۔۔
غزل
کھلا جو رات وہ حیرت کا باب دوسرا ہے
یہ آنکھ اور ہے اس میں یہ خواب دوسرا ہے
نہ جانے کون سی رہ پر کوئی چھڑا لے ہاتھ
سفر میں ہوں یہ مرا ہم رکاب دوسرا ہے
کفِ بہار جو میرے لبوں نے سینچ دیا
وہ شاخ اور ہے اس پر گلاب دوسرا ہے
وہ پہلا عشق بھی برباد کرنے والا تھا
مگر یہ عشق بھی خانہ خراب دوسرا ہے
ترے سوال کا پہلے بھی دے چکا ہوں جواب
وہی سوال سہی پر جواب دوسرا ہے
سراب اور تھا فاروق بر کفِ صحرا
جو پانیوں کے ہے اندر سراب دوسرا ہے
(فاروق بھٹی۔ جڑانوالہ)
۔۔۔
غزل
دوست کوئی بھی غم زدہ کا نہیں
وقت کیا یاد کربلا کا نہیں؟
ایسی خوشبو کو رکھ فقط دل میں
عشق اظہار ِ برملا کا نہیں
یاد آتی نہیں تجھے پہروں!
دکھ ذرا سا بھی مبتلا کا نہیں
سمجھا جائے نہ ایسے سنگ کو دل
جس پہ ہوتا اثر دعا کا نہیں
مجھ کو غم ہے تری حفاظت کا
خوف مجھ کو مری بقا کا نہیں
چار دیواری ایک چھت اور میں
شام کا وقت ہے، قضا کا نہیں
پھول بھیجے مگر نہ آئے آپ
زخم دوری کا ہے دوا کا نہیں
جا مرے عشق تو بھٹکتا پھرے
مستحق تُو مری عطا کا نہیں
(حنا عنبرین۔ لیہ)
۔۔۔
غزل
آہوں کے ساتھ جب بھی کوئی مسکرائے گا
ایسا ہے شہرِ دل پہ وہ بجلی گرائے گا
مسند نشین ہو کے اگر کچھ نہ کر سکا
پھر کام سارا اپنا دعا سے چلائے گا
جب جب بھی اُس کو وقت ملااپنے واسطے
کاغذ سے کاغذی وہ لبادے بنائے گا
ٰلوگو یہ شاہ شمس ہے اب دیکھنا اِسے
دھرتی پہ آسمان سے سورج بلائے گا
اب تو مجھے نواز دے معبودِ کبریا
اب اور کتنے مجھ سے تو سجدے کرائے گا
مشکل ضرور ہو گی مگر جان جاؤ گے
چہرے سے جب وہ دوسرا چہرہ ہٹائے گا
(اسد رضا سحر۔ احمد پور سیال)
۔۔۔
غزل
ایک سے ایک شجر راہ گزر میں اس کی
مجھ سے بہتر ہیں کئی لوگ نظر میں اس کی
اس پہ اب گرد جمی ہے مگر افسوس نہیں
ویسے تصویر لگا رکھی ہے کے گھر میں اس کی
اس نے جو چاہا اسے ویسا بنایا گیا ہے
ایسے توہین نہ کر نور و بشر میںاس کی
کچھ نہیں دوست ہے بس، ماں سے کہا تھا اس نے
میں نے تو بات بھی کر رکھی تھی گھر میں اس کی
ٹوٹنے والے ستاروں کے نشاں مٹتے ہیں
میں بھی معدوم ہوا گردِ سفر میں اس کی
(شہرام رضا۔ برطانیہ)
۔۔۔
غزل
دکھ کی اس لُو کو وہ پُروا کبھی ہونے دیتا
مجھ میں بکھرے کو اکٹھا کبھی ہونے دیتا
تیری خوشیوں میں خوشی اپنی ملا دی میں نے
دور خود سے تجھے ورنہ کبھی ہونے دیتا
یہ جو قسطوں میں اذیت ہے یہ کم ہو جاتی
رنج اک بار ہی سارا کبھی ہونے دیتا
کینچلی ہے کہ وہاں سانپ ہے، کھل تو جاتا
وہ پٹاری کو تماشا کبھی ہونے دیتا
مجھ میں ہر روز خسارہ ہی نکل آتا ہے
میرے تھوڑے کو زیادہ کبھی ہونے دیتا
آنکھ چہرے پہ بنا دی ہے مگر ہونٹ نہیں
مجھ ادھورے کو وہ پورا کبھی ہونے دیتا
طیش میں آ کے گرا دیتا وہ اک دن طاہر
مجھ میں پتھر کا چھناکا کبھی ہونے دیتا
(قیوم طاہر۔ روالپنڈی)
۔۔۔
غزل
اگرچہ نغمہ سرائی کا وقت بھی نہیں ہے
زمانے دیکھ لڑائی کا وقت بھی نہیں ہے
تمہارے شہر نے پاگل بنا لیا لیکن
کسی کو راہ نمائی کا وقت بھی نہیں ہے
مرے خدا کوئی مجھ سے بچھڑ رہا ہے اور
تو جانتا ہے جدائی کا وقت بھی نہیں ہے
مگر تمہاری طرف دیکھتے مسلسل ہیں
ہمارے دل کی بھلائی کا وقت بھی نہیں ہے
کسی نے ٹھیک سے اپنا کہا نہیں ہے مجھے
کسی کے پاس جدائی کا وقت بھی نہیں ہے
یہ فیصلہ مرے غم نے غلط کیا شاید
رہا کیا ہے رہائی کا وقت بھی نہیں ہے
بس ایک رات بچھڑنے کا دکھ کریں گے ہم
پھر اس کے بعد دُہائی کا وقت بھی نہیں ہے
ثواب ہم نظر انداز کر گئے عادس
برا بنے ہیں برائی کا وقت بھی نہیں ہے
(امجد عادس، راولاکوٹ، آزاد کشمیر)
۔۔۔
غزل
نہ موم ہوں، نہ سنگ ہوں، ملنگ ہوں
میں خود سے خود کی جنگ ہوں، ملنگ ہوں
مرے بدن پہ عشق کے نشان ہیں
تری نظر میں ننگ ہوں، ملنگ ہوں
تمھیں جہانِ رنگ و بوُ کا شوق ہے
میں زندگی سے تنگ ہوں، ملنگ ہوں
چھلک پڑے ہیں جام جس کے ساز سے
میں ایسا جلترنگ ہوں، ملنگ ہوں
ترے بدن کے معجزوں کو دیکھ کر
میں عقل والا دنگ ہوں، ملنگ ہوں
نہ روک مجھ کو رقص سے میں کہہ چکا
ملنگ ہوں ملنگ ہوں ملنگ ہوں
(فیصل امام رضوی۔ مظفر گڑھ)
۔۔۔
غزل
گھنی راتوں پہ کھلتا ہے وہ در آہستہ آہستہ
تو ہونے لگتی ہے ہر جا سحر آہستہ آہستہ
میں دیتا ہوں سبھی کو پورا موقع شرمساری کا
میں کرتا ہوں سبھی کو درگزر آہستہ آہستہ
کسے دیکھوں، کسے سوچوں، کسے اپنا بنا ڈالوں
یہ سب باتیں میں سوچوں گا مگر آہستہ آہستہ
کسی دن دور سے ایسا سحابِ عشق آئے گا
جو اپنی زد میں لے لے گا نگر آہستہ آہستہ
فقط اک شخص کے جانے پہ سینے کا بھرم مت توڑ
اے میرے دل اے میرے نوحہ گر آہستہ آہستہ
(مقیل بخاری۔ فیصل آباد)
۔۔۔
غزل
کچھ آپ خواب گَر ہیں تو ارمان بیچئے
نیکی کا ہے ارادہ تو احسان بیچئے
فرقے کے نام پر ہمیں کافر بنائیے
ایماں کے نام پر ہمیں یزدان بیچئے
کیجئے زمین ہم پہ ہماری ہی آپ تنگ
پنجاب، سندھ، خیبر و بولان بیچئے
منہ کو بگاڑتے ہوئے افرنگی بولیے
اسلاف سے جو پائی تھی پہچان، بیچئے
کچھ ہے خبر میں چَھپنے کے لائق حضورِ من؟
کچھ بھی نہیں تو نت نئے بہتان بیچئے
تہذیب کا مدار ہے اردو مکالمہ
کچھ تو حضور کیجئے ہذیان بیچئے
شاعر تو آپ خوب ہیں،بندے بھی ٹھیک ہیں
لیکن عظیم حرف نہ ارزان بیچئے
(عظیم انجم ہانبھی۔ کوئٹہ)
۔۔۔
غزل
مجھے وہیں پہ اتارو میں جس زمیں سے ہوں
یہ مشت ِخاک پکارے کہ ہاں یہیں سے ہوں
ذرا بھی یاد نہیں ہے وہ عالمِ ارواح
مجھے بتایا گیا تھا کہ میں وہیں سے ہوں
یہ اضطراب، تذبذب ،یہ وسوسے ،خدشے
میں ان سے دور رہا ہوں سو اب یقیں سے ہوں
مجھے بھی ایسا کوئی گر سکھا دے اے جوگی
کہ سانپ خود ہی بتائے کس آستیں سے ہوں
یہی تو فرق ہے مسند میں اور مقتل میں
وہاں میں ہاں سے تھا زندہ یہاں نہیں سے ہوں
کوئی تو ہوگا جہاں میں جو کہہ سکے عمران
میں آخری ہوں زمانے میں اولیں سے ہوں
(علی عمران کاظمی۔ برطانیہ)
۔۔۔
غزل
میرے دل میں بھی خواہشات نہیں
یار اگر تو ہی میرے ساتھ نہیں
شعر کہنے کا شوق سب کو ہے
شاعری سب کے بس کی بات نہیں
مجھ کو لوٹا دے بس مری دنیا
ہاں! مرا حق ہے یہ ذکات نہیں
پار کرنے سے ڈر میاں کیسا
پیار کی راہ پل صراط نہیں
سچ بتانے پہ مارے جائیں گے
اس لئے کوئی سچ کے ساتھ نہیں
عشق میں نسبتیں نہیں چلتیں
حسن دیکھوں گا ذات پات نہیں
ہجر سے اب نکل زرا افنانؔ
بند کمرے میں کائنات نہیں
(حاشر افنا ن ۔ سرینگر،کشمیر)
کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم ، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں، معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے ایکسپریس) ، 5 ایکسپریس وے ، کورنگی روڈ ، کراچی