پھر اپنے ندیموں کے درمیان
پی ٹی آئی سے نکلنے اور بچھڑنے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے
پی ٹی آئی سے نکلنے اور بچھڑنے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ یوں پی ٹی آئی کی طاقت اور قوت مدہم پڑتی جا رہی ہے ۔ پچھلے ماہ ، فروری کے وسط میں، کراچی پی ٹی آئی سے سینئر وائس پریذیڈنٹ اور وائس پریذیڈنٹ ، حلیم عادل شیخ اور علی جونیجو، کا ''ذاتی وجوہ'' کی بنیاد پر پی ٹی آئی کے عہدوں سے مستعفیٰ ہونا معمولی واقعہ نہیں تھا۔ حلیم عادل شیخ سندھ اسمبلی میں ، پی ٹی آئی کی طرف سے، اپوزیشن لیڈر بھی تھے۔
پنجاب میںپی ٹی آئی کے صوبائی وزیر، عبدالعلیم خان ، کا اپنی وزارت سے مستعفیٰ ہونا بھی حکمران جماعت کو خاصا کمزور اور مشکوک بنا گیا تھا۔ اب تو علیم خان نے پی ٹی آئی اور اس کے چیئرمین پر ویسے ہی کئی قیامتیں ڈھا دی ہیں۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینئر پی ٹی آئی لیڈر، سردار یار محمد رند، بھی پی ٹی آئی کو داغِ مفارقت دے گئے ہیں۔
رند صاحب نے جاتے جاتے نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہُوئے پی ٹی آئی پر سنگین الزامات بھی لگا دیے ہیں۔ ان الزامات میں کتنی صداقت ہے ، یہ تو اللہ ہی جانتا ہے لیکن سردار یار محمد رند صاحب نے ان الزامات کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی قیادت کو جو کھلی دھمکی دی ہے ، اس کی موجودگی میں پی ٹی آئی کا خاموش رہنا اور چپ سادھنا خاصا معنی خیز ہے۔ اور اب وزیر اعظم جناب عمران خان کے سابقہ ترجمان و مشیر ، ندیم افضل چن، نے جس دھڑلے سے پیپلز پارٹی پھر سے جوائن کی ہے ، اس منظر نے پی ٹی آئی کی صفوں میں ہلچل مچا رکھی ہے۔
ندیم افضل چن بصد شوق پی ٹی آئی میں شامل تو ہو گئے تھے، حقیقت مگر یہ ہے کہ وہاں خاصے مِس فِٹ تھے۔ عمران خان کی پالیسیوں ، اقدامات اورفیصلوں کا ہمہ وقت دفاع کرنا اُن کے لیے دشوار تر ہو گیا تھا۔وہ خان صاحب کے کئی فیصلوں کا خواہ مخواہ دفاع کرنے کے بجائے خاموش رہنا بہتر سمجھتے تھے اور یہ بات پی ٹی آئی کی صفوں میں چبھتی تھی؛ چنانچہ چن صاحب نے پی ٹی آئی سے ناتا توڑنا ہی بہتر سمجھا۔پی ٹی آئی سے شریفانہ انداز میں نکلنے کے بعد وہ دھیرے دھیرے پھر پیپلز پارٹی کی جانب بڑھ رہے تھے۔
چند ہفتے پہلے انھوں نے اپنے گاؤں میں ایک ضیافت کا اہتمام کیا تھا۔ اس میں جہاں پیپلز پارٹی کے بہت سے سکہ بند اور ثقہ جیالے مدعو تھے، وہاں پیپلز پارٹی کے کئی سنیئر سیاستدان بھی شریک تھے ۔ مقصود یہ مشورہ کرنا تھا کہ آیا ندیم افضل چن کو پھر سے اپنے ندیموں کے پاس پہنچ جانا چاہیے؟ دل تو واقعی سابقہ محبتوں کی جانب کھنچتا چلا جا رہا تھا۔ پھر پتہ چلا کہ وہ اپنے کئی معتمد ساتھیوں کی معیت میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین،بلاول بھٹو زرداری،کے عشایے میں بھی شریک ہو گئے ہیں۔ یوں تصویر نکھرتی چلی گئی ، اب کوئی ابہام باقی نہیں رہ گیا تھا۔
ندیم افضل چن کا پیپلز پارٹی میں پھر شامل ہونا پنجاب میں پیپلز پارٹی کے لیے تقویت کا باعث بنا ہے کہ چن صاحب پنجاب کے ایک معروف اور موثر سیاسی خانوادے کے سپوت ہیں۔ وہ اکیلے ہی شاملِ جماعت نہیں ہُوئے ہیں بلکہ اُن کے کئی ساتھی بھی پی پی پی کے دائرے میں پھر سے داخل ہو گئے ہیں۔کیا یہ پنجاب بھر میں بدلتی سیاسی فضاؤں کا کرشمہ ہے یا بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں طویل عوامی مارچ کا نتیجہ؟ دل کی اس ''تبدیلی'' کو کوئی بھی نام دیا جا سکتا ہے۔
ندیم افضل چن پنجاب کے اُن سینئر سیاستدانوں میںسے ایک تھے جنھوں نے بدلتی ہواؤں کے دباؤ میں آ کر پیپلز پارٹی سے منہ موڑ کر ، اپریل2018 میں، پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی تھی ۔ انھیں پی ٹی آئی نے بڑی توقعات سے ٹکٹ دیا تھا تاکہ وہ سرگودھا (این اے88) سے الیکشن لڑ سکیں۔ کامیابی مگر اُن کا مقدر نہ بن سکی تھی ۔ پی ٹی آئی کی حکومت بنی تو انھیں حکومت میں اکاموڈیٹ کرنے کے لیے وزیر اعظم کا ترجمان، مشیر بنا دیا گیا تھا۔ اس کے باوصف وہاں وہ مِس فِٹ ہی رہے۔
ندیم افضل چن نے پی ٹی آئی سے پچھلے سال اُس وقت اپنی سیاسی اور فکری راہیں جدا کر لی تھیں جب کوئٹہ میں کئی بے گناہ انسانوں کے خون کی ہولی کھیلی گئی تھی اور بے محابہ قتل کیے جانے والوں کے لواحقین نے ،مقتولین کی میتوں کے ساتھ، کوئٹہ میں دھرنا دے دیا تھا۔ ساتھ ہی مطالبہ کیا گیا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان اُن کے پُرسے کے لیے آئیں گے تو وہ اپنے پیاروں کی میتیں اُٹھائیں گے۔ وزیر اعظم صاحب نے مگر یہ کہہ کر کوئٹہ جانے سے انکار کر دیا تھاکہ ''مَیں بلیک میل نہیں ہوں گا۔'' یوں ندیم افضل چن عمران خان سے دُور چلے گئے ۔یہ عمران خان کا خسارہ تھا۔
ندیم افضل چن کے ایک بھائی ، گلریز افضل چن،اب بھی پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے پی پی 68سے پنجاب اسمبلی کے ر کن ہیں ۔ گویا چن قبیلے نے ہنوز پی ٹی آئی سے ناتہ مکمل طور پر منقطع نہیں کیا ہے۔ یہ حقیقت مگر اپنی جگہ قائم ہے کہ چن قبیلے اور برادری 70ء کے عشرے سے پیپلز پارٹی سے وابستہ اور محبت و عشق نبھاتی چلی آ رہی ہے ۔ کوئی بیس، بائیس سال قبل چن صاحب ملکوال سے اِسی پارٹی کی طرف سے تحصیل ناظم منتخب ہُوئے تھے۔ 2008 کے عام انتخابات میں ندیم افضل چن پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی بنے تھے اور اُن کے برادرِ خورد، وسیم افضل چن، ایم پی اے۔ ندیم صاحب کے ایک بھائی نے اُن کے پیپلز پارٹی میں جانے کی مخالفت کی ہے۔
اُن کے دو انکلز، نذر محمد گوندل اور ذوالفقار گوندل، بھی اِسی پارٹی کے پلیٹ فارم سے ایم این اے منتخب ہُوئے تھے۔ 6مارچ2022 کوندیم افضل چن نے لاہور میں بلاول بھٹو کی موجودگی میں اپنی سابقہ ''غلطیوں'' پر معذرت کا اظہار کرتے ہُوئے پھر سے پی پی پی میں شمولیت اختیار کر لی۔گویا ندیم افضل چن پھر سے اپنے پرانے سیاسی رفیقوں اور ندیموں کی مجلس میں آ بیٹھے ہیں۔دمکتے ہُوئے چہرے کے ساتھ کہا:''مَیں پھر اپنے گھر آ گیا ہُوں۔'' چن صاحب پھر سے پیپلز پارٹی کے چن بن گئے ہیں۔ مبارکاں!
پنجاب میںپی ٹی آئی کے صوبائی وزیر، عبدالعلیم خان ، کا اپنی وزارت سے مستعفیٰ ہونا بھی حکمران جماعت کو خاصا کمزور اور مشکوک بنا گیا تھا۔ اب تو علیم خان نے پی ٹی آئی اور اس کے چیئرمین پر ویسے ہی کئی قیامتیں ڈھا دی ہیں۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینئر پی ٹی آئی لیڈر، سردار یار محمد رند، بھی پی ٹی آئی کو داغِ مفارقت دے گئے ہیں۔
رند صاحب نے جاتے جاتے نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہُوئے پی ٹی آئی پر سنگین الزامات بھی لگا دیے ہیں۔ ان الزامات میں کتنی صداقت ہے ، یہ تو اللہ ہی جانتا ہے لیکن سردار یار محمد رند صاحب نے ان الزامات کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی قیادت کو جو کھلی دھمکی دی ہے ، اس کی موجودگی میں پی ٹی آئی کا خاموش رہنا اور چپ سادھنا خاصا معنی خیز ہے۔ اور اب وزیر اعظم جناب عمران خان کے سابقہ ترجمان و مشیر ، ندیم افضل چن، نے جس دھڑلے سے پیپلز پارٹی پھر سے جوائن کی ہے ، اس منظر نے پی ٹی آئی کی صفوں میں ہلچل مچا رکھی ہے۔
ندیم افضل چن بصد شوق پی ٹی آئی میں شامل تو ہو گئے تھے، حقیقت مگر یہ ہے کہ وہاں خاصے مِس فِٹ تھے۔ عمران خان کی پالیسیوں ، اقدامات اورفیصلوں کا ہمہ وقت دفاع کرنا اُن کے لیے دشوار تر ہو گیا تھا۔وہ خان صاحب کے کئی فیصلوں کا خواہ مخواہ دفاع کرنے کے بجائے خاموش رہنا بہتر سمجھتے تھے اور یہ بات پی ٹی آئی کی صفوں میں چبھتی تھی؛ چنانچہ چن صاحب نے پی ٹی آئی سے ناتا توڑنا ہی بہتر سمجھا۔پی ٹی آئی سے شریفانہ انداز میں نکلنے کے بعد وہ دھیرے دھیرے پھر پیپلز پارٹی کی جانب بڑھ رہے تھے۔
چند ہفتے پہلے انھوں نے اپنے گاؤں میں ایک ضیافت کا اہتمام کیا تھا۔ اس میں جہاں پیپلز پارٹی کے بہت سے سکہ بند اور ثقہ جیالے مدعو تھے، وہاں پیپلز پارٹی کے کئی سنیئر سیاستدان بھی شریک تھے ۔ مقصود یہ مشورہ کرنا تھا کہ آیا ندیم افضل چن کو پھر سے اپنے ندیموں کے پاس پہنچ جانا چاہیے؟ دل تو واقعی سابقہ محبتوں کی جانب کھنچتا چلا جا رہا تھا۔ پھر پتہ چلا کہ وہ اپنے کئی معتمد ساتھیوں کی معیت میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین،بلاول بھٹو زرداری،کے عشایے میں بھی شریک ہو گئے ہیں۔ یوں تصویر نکھرتی چلی گئی ، اب کوئی ابہام باقی نہیں رہ گیا تھا۔
ندیم افضل چن کا پیپلز پارٹی میں پھر شامل ہونا پنجاب میں پیپلز پارٹی کے لیے تقویت کا باعث بنا ہے کہ چن صاحب پنجاب کے ایک معروف اور موثر سیاسی خانوادے کے سپوت ہیں۔ وہ اکیلے ہی شاملِ جماعت نہیں ہُوئے ہیں بلکہ اُن کے کئی ساتھی بھی پی پی پی کے دائرے میں پھر سے داخل ہو گئے ہیں۔کیا یہ پنجاب بھر میں بدلتی سیاسی فضاؤں کا کرشمہ ہے یا بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں طویل عوامی مارچ کا نتیجہ؟ دل کی اس ''تبدیلی'' کو کوئی بھی نام دیا جا سکتا ہے۔
ندیم افضل چن پنجاب کے اُن سینئر سیاستدانوں میںسے ایک تھے جنھوں نے بدلتی ہواؤں کے دباؤ میں آ کر پیپلز پارٹی سے منہ موڑ کر ، اپریل2018 میں، پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی تھی ۔ انھیں پی ٹی آئی نے بڑی توقعات سے ٹکٹ دیا تھا تاکہ وہ سرگودھا (این اے88) سے الیکشن لڑ سکیں۔ کامیابی مگر اُن کا مقدر نہ بن سکی تھی ۔ پی ٹی آئی کی حکومت بنی تو انھیں حکومت میں اکاموڈیٹ کرنے کے لیے وزیر اعظم کا ترجمان، مشیر بنا دیا گیا تھا۔ اس کے باوصف وہاں وہ مِس فِٹ ہی رہے۔
ندیم افضل چن نے پی ٹی آئی سے پچھلے سال اُس وقت اپنی سیاسی اور فکری راہیں جدا کر لی تھیں جب کوئٹہ میں کئی بے گناہ انسانوں کے خون کی ہولی کھیلی گئی تھی اور بے محابہ قتل کیے جانے والوں کے لواحقین نے ،مقتولین کی میتوں کے ساتھ، کوئٹہ میں دھرنا دے دیا تھا۔ ساتھ ہی مطالبہ کیا گیا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان اُن کے پُرسے کے لیے آئیں گے تو وہ اپنے پیاروں کی میتیں اُٹھائیں گے۔ وزیر اعظم صاحب نے مگر یہ کہہ کر کوئٹہ جانے سے انکار کر دیا تھاکہ ''مَیں بلیک میل نہیں ہوں گا۔'' یوں ندیم افضل چن عمران خان سے دُور چلے گئے ۔یہ عمران خان کا خسارہ تھا۔
ندیم افضل چن کے ایک بھائی ، گلریز افضل چن،اب بھی پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے پی پی 68سے پنجاب اسمبلی کے ر کن ہیں ۔ گویا چن قبیلے نے ہنوز پی ٹی آئی سے ناتہ مکمل طور پر منقطع نہیں کیا ہے۔ یہ حقیقت مگر اپنی جگہ قائم ہے کہ چن قبیلے اور برادری 70ء کے عشرے سے پیپلز پارٹی سے وابستہ اور محبت و عشق نبھاتی چلی آ رہی ہے ۔ کوئی بیس، بائیس سال قبل چن صاحب ملکوال سے اِسی پارٹی کی طرف سے تحصیل ناظم منتخب ہُوئے تھے۔ 2008 کے عام انتخابات میں ندیم افضل چن پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی بنے تھے اور اُن کے برادرِ خورد، وسیم افضل چن، ایم پی اے۔ ندیم صاحب کے ایک بھائی نے اُن کے پیپلز پارٹی میں جانے کی مخالفت کی ہے۔
اُن کے دو انکلز، نذر محمد گوندل اور ذوالفقار گوندل، بھی اِسی پارٹی کے پلیٹ فارم سے ایم این اے منتخب ہُوئے تھے۔ 6مارچ2022 کوندیم افضل چن نے لاہور میں بلاول بھٹو کی موجودگی میں اپنی سابقہ ''غلطیوں'' پر معذرت کا اظہار کرتے ہُوئے پھر سے پی پی پی میں شمولیت اختیار کر لی۔گویا ندیم افضل چن پھر سے اپنے پرانے سیاسی رفیقوں اور ندیموں کی مجلس میں آ بیٹھے ہیں۔دمکتے ہُوئے چہرے کے ساتھ کہا:''مَیں پھر اپنے گھر آ گیا ہُوں۔'' چن صاحب پھر سے پیپلز پارٹی کے چن بن گئے ہیں۔ مبارکاں!