ریاست کے بحران کے ممکنہ چیلنجز
پاکستان کے داخلی ، علاقائی یا عالمی سیاست سے جڑے مسائل کا تعلق محض کسی ایک حکومت سے نہیں
پاکستان کے داخلی ، علاقائی یا عالمی سیاست سے جڑے مسائل کا تعلق محض کسی ایک حکومت سے نہیں بلکہ اسے مجموعی طو رپر ریاست کے ایک بڑے بحران کی صورت میں دیکھا جانا چاہیے۔کیونکہ ہمارا مسئلہ ریاستی، حکومتی اور ادارہ جاتی نظام میں موجود ان بڑی خرابیوں سے ہے جو عملاً ریاستی محاذ پر ایک بڑے بحران کی کیفیت کو نمایاں کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہماری قومی سیاست پر جو غیر سنجیدہ مسائل غالب ہیں یا اہم سیاسی فریقین ایک دوسرے کی مقابلہ بازی یا سیاسی رسہ کشی میں الجھے ہوئے ہیں وہ زیادہ سنگین خطرہ ہے ۔ کیونکہ ریاست ، حکومت اور معاشرتی سطح پر بحران یا مسائل کا پیدا ہونا ایک فطری امر ہوتا ہے ۔
اس وقت قومی سیاست افراد یا شخصیات کی حمایت اور مخالفت میں گھری ہوئی ہے ۔ یہ سیاسی رنگ ہمیں میڈیا سمیت رائے عامہ تشکیل دینے والے انفرادی یا ادارہ جاتی سطح پر بھی غالب نظر آتا ہے ۔ بعض اوقات یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہم مجموعی طور پر مسائل کے حل کے بجائے مسائل کو بڑھانے والے کھیل کا حصہ بن گئے ہیں۔
یہ ہی وجہ ہے کہ ہماری سیاست، جمہوریت اور حکمرانی کے نظام میں اصلاحات کا عمل کم اور روایتی سیاست کا غلبہ زیادہ نظر آتا ہے۔ ایک طاقت ور طبقہ ہر قسم کی اصلاحات کے خلاف سرگرم نظر آتا ہے۔بنیادی نوعیت کا مسئلہ یہ ہی ہے کہ ہم اس طاقت ور گروپس کے مقابلے میں ایسی کیا حکمت عملی اختیار کریں جو واقعی ایسی اصلاحات کی طرف پیش قدمی میں مدد دے جو ہماری ضرورت بنتی ہیں۔کیونکہ روایتی اورپرانے فرسود ہ خیالات یا سوچ و فکر کی بنیاد پر موجودہ چیلنجز سے نمٹنا ممکن نہیں ہوگا۔
اس وقت ہمیں چھ بڑے قومی چیلنجز کا سامنا ہے۔ اول طرز حکمرانی یا گورننس کا بحران جو عام آدمی سمیت مجموعی ریاستی و حکومتی نظام کو متاثر کرتا ہے۔ قومی سطح پر یہ اتفاق موجود ہے کہ ہمارے گورننس کے بحران کا سامنا ہے لیکن اس بحران سے نمٹنے میں ہماری سنجیدگی وہ نہیں جو عملاً ہمیں درکار ہے۔ دوئم سیکیورٹی کا بحران جسے عملی طور پر محض باڈر سیکیورٹی تک محدود ہوکر دیکھنے کے بجائے ایک بڑے سیاسی ، سماجی ، معاشی اور قانونی دائرہ کار میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔اسی بحران میں ہمیں شدت پسندی ، انتہا پسندی او راس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے بھی بڑی حکمت عملی درکار ہے۔
سوئم معاشی بحران اور بحران کی وجہ سے جہاں ہمیں عام لوگوں کی زندگیوں میں بڑی مشکلات دیکھنے کو ملتی ہیں تو دوسری طرف اس کا ایک بڑا براہ راست اثر ہم پر غیر ملکی دباؤ کی صورت میں ملتا ہے جو قومی خود مختاری، سلامتی اور آزادانہ فیصلوں میں رکاوٹ کا سبب بنتا ہے۔
چہارم پاک بھارت تعلقات، مسئلہ کشمیر کا پرامن حل، افغانستان کا بحران، سی پیک اور امریکا چین کے درمیان جاری طاقت کی لڑائی میں توازن کو قائم کرنا، پنجم ریاستی و حکومتی اداروںکی جدیدیت کی بنیاد پر تشکیل نو اور افراد کے بجائے قانون کی حکمرانی کے نظام کو تقویت دینا اور مضبوط سیاسی نظام جو اداروں کی سیاسی مداخلت سے پاک ہو،ششم انصاف یا عدالتی نظام کی شفافیت کو یقینی بنا کر نظام میں طبقاتی تقسیم کا خاتمہ جیسے مسائل کا خاتمہ کرکے وسائل کی منصفانہ اور شفاف تقسیم کو یقینی بناکر ملک کو حقیقی معنوں میں ترقی کی جانب لے جانا ہی ہماری ترجیحات کا حصہ ہونا چاہیے ۔
مسئلہ محض ریاستی نظام ہی تک محدودنہیں بلکہ ہمارا سیاسی نظام جو جمہوریت کی بنیاد پر کھڑا ہے وہی اپنے داخلی معاملات میں لاتعداد تضادات کے ساتھ موجود ہے۔ سیاسی نظام میں بنیادی اہمیت سیاسی جماعتوں یا سول سوسائٹی سمیت اہل دانش یا میڈیا کی ہوتی ہے ۔
رائے عامہ سے جڑے یہ افراد یا ادارے عملی طو رپر ریاست یا حکومتی نظام سمیت سیاسی جماعتوں او ران کی قیادت پر دباؤ ڈال کر نظام کی سمت کو درستگی کے ساتھ آگے بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ ہی وہ افراد یا ادارے جنھوں نے عملی طو رپر تبدیلی کے تناظر میں عملاً متبادل نظام دینا تھا وہ خود بھی طاقت کی لڑائی یا کھیل میں شعوری یا غیر شعوری طور پر حصہ بن گئے ہیں۔ ہمیں حکمرانی کے نظام میں مرکزیت کے مقابلے میں عدم مرکزیت پر مبنی نظام درکار ہے۔نچلی سطح پر جتنا مضبوط حکمرانی کا نظام موجود ہوگا اتنا ہی لوگوں کی ریاست او رنظام پر یقین قائم ہوتا ہے او ران کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ نظام ان کے مفادات سے جڑا ہوا ہے ۔
یہ جو ہم علاقائی یا عالمی سطح کے مسائل سے نمٹنے کی کوشش کررہے ہیں اس کا ایک بڑا علاج جہاں مضبوط معیشت ہے وہیں بیوروکریسی ، عدالتی نظام میں بڑی تبدیلیوں کے بغیر کچھ ممکن نہیں ہوگا۔ کیونکہ بیوروکریسی او رعدالتی نظام روایتی نظام سے جڑا ہوا ہے اور وہ دنیا کے تجربات سے کچھ سیکھنے کے بجائے عوام کے مقابلے میں محض اپنی طاقت کو ہی مضبوط دیکھنا چاہتا ہے۔اسی طرح ہماری اسٹیبلیشمنٹ یا پس پردہ قوتوں کو بھی اس تاثر کی نفی کرنی ہوگی کہ سیاسی نظام پر ان کا کنٹرول ہے۔
پاکستان کا جو ریاستی بحران ہے اس کا حل سیاسی تنہائی میں ممکن نہیں اور نہ ہی کوئی ایک فریق تن تنہا جیت سکتا ہے۔ بدقسمتی سے ہماری سیاست اور ریاست کے نظام میں جو تناؤ، ٹکراؤ او ربداعتمادی کی فضا ہے اس میں سب کا مل بیٹھنا اور مل جل کر مشترکہ حکمت عملی تو ترتیب دینا ہی بڑا چیلنج ہے۔ اس وقت بھی ریاست، حکومت او رادار ہ جاتی سطح پر موجود تمام فریقین کو مشترکہ طور پر بیٹھنا ہوگا او رجو ہمیں ریاست کی سطح بحران یا چیلنجز کا سامنا ہے اس کے حل کے غیر معمولی حالات میں غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہے ۔