سانحہ پشاور مضمرات
ملک میں ایک مرتبہ پھر انتہا پسندی کے رجحانات کو فروغ مل رہا ہے
افغانستان سے امریکا کی واپسی اور وہاں طالبان حکومت کے قیام کے بعد یہ توقع کی جا رہی تھی کہ سرحد پار ہونے والی دہشت گردی کا سلسلہ اب رک جائے گا۔ بھارت کی خفیہ ایجنسی را جو افغانستان میں اپنے نیٹ ورک کے ذریعے سرحد پار کرکے بلوچستان میں دہشت گردی کی جو کارروائیاں کر رہی تھی ، طالبان حکومت کے آنے کے بعد اس کا زور ٹوٹ جائے گا۔
پاکستان کی جانب سے حکومتی سطح پر کئی مرتبہ طالبان حکومت کو یہ باور کروایا گیا کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف اب استعمال نہیں ہونی چاہیے ، لیکن توقع اور امیدوں کے برعکس ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ گزشتہ جمعہ کو پشاورکی ایک مسجد میں خودکش حملہ آور نے بم دھماکا کرکے 60 سے زائد نمازیوں کو شہید کردیا۔ دو سو کے لگ بھگ زخمی ہوگئے۔
بعض اخباری اطلاعات کے مطابق پشاور دھماکے کی ذمے داری داعش نے قبول کرلی ہے۔ ادھر حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے دہشت گردوں کے گرد گھیرا تنگ کردیا ہے اور بہت جلد وہ اصل مجرموں تک پہنچ جائیں گے۔ وزیر اعظم عمران خان، صورت حال کی نزاکت کے پیش نظر ازخود اس معاملے کی نگرانی کر رہے ہیں۔ اگر اس بات کو سچ مان لیا جائے کہ پشاور دھماکے میں افغانستان کی سرزمین کسی نہ کسی حوالے سے استعمال کی گئی ہے تو یہ پاک افغان تعلقات میں کشیدگی پیدا کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔
داعش افغانستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہے۔ کچھ بعید نہیں کہ تحریک طالبان پاکستان سے حکومت کے ہونے والے مذاکرات کی ناکامی کے بعد داعش اور ٹی ٹی پی میں کوئی ربط پیدا کرکے وطن دشمن قوتیں پاکستان میں پھر سے اپنی منفی سرگرمیوں میں تیزی پیدا کردی۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران بلوچستان میں مختلف جگہوں میں سیکیورٹی اہلکاروں اور پاک فوج کے جوانوں پر حملے کرکے امن و امان کی صورت حال کو برباد کرنے میں جو عناصر ملوث ہیں ان کا کھوج لگانا ازبس ضروری ہے۔
پاک فوج نے پوری قوم کے بھرپور تعاون سے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ دے کر ملک میں دہشت گردوں کی کمر توڑ کر امن قائم کیا ہے جسے ایک مرتبہ پھر تباہ کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔ ایک ایسے موقع پر جب آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیم طویل عرصے بعد پاکستان کے دورے پر آئی ہے۔
یہاں امن و سکون کی ضمانت انھیں دی گئی تھی تاکہ ملک میں کرکٹ کی بحالی میں آسٹریلیا اپنا کردار ادا کرسکے اور دوسرے ممالک کی ٹیمیں بھی پاکستان کے دورے پر آنے کے لیے آمادہ ہوسکیں۔ عین اس موقع پر جب پاکستان آسٹریلیا پہلا ٹیسٹ راولپنڈی میں شروع ہوا تو پشاور میں خودکش حملے نے وطن عزیز میں امن کے سوال کے آگے بڑا نشان لگا دیا۔ مقام اطمینان کہ کرکٹ میچ جاری ہے۔ آسٹریلین آفیشل نے دورہ ختم کرنے کا فی الحال کوئی عندیا نہیں دیا۔
دہشت گردی کے خلاف پاک فوج کے دو کامیاب آپریشن ضرب عضب سے رد الفساد تک ملک میں امن کے قیام میں مددگار ثابت ہوئے۔ تاہم دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو سبق سکھانے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت نیشنل ایکشن پلان پر کماحقہ عمل درآمد کرے۔ پشاور دھماکے پر وزیر اعظم سے لے کر اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف تک اور مولانا فضل الرحمن سے لے کر بلاول بھٹو زرداری تک سب ہی قومی سیاستدانوں، صاحب فہم حلقوں اور عوام الناس نے گہرے دکھ اور رنج کا اظہار کیا ہے۔
مبصرین و تجزیہ نگاروں کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ اے پی این ایس پر حملے کے بعد قوم جس طرح متحد ہوئی اور ملک کے تمام ریاستی اداروں نے مل کر دہشت گردی کی مکمل بیخ کنی کے حوالے سے جو نیشنل ایکشن پلان بنایا تھا اس پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد ازبس ضروری ہے۔ ہمیں کسی یقین دہانی پر اعتماد کرنے کے بجائے اپنی تیاری ہر صورت مکمل رکھنی چاہیے۔ وقفے وقفے سے بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیاں روکی نہ جاسکیں اور دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں ذرا بھی کوتاہی برتی گئی تو دہشت گردی کا دائرہ دوبارہ پھیل کر پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ ملک گیر سطح پر امن و امان کی تباہی کا مطلب عالمی سطح پر ہمیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔
کیوں کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) نے ایک مرتبہ پھر پاکستان کو مزید گرے لسٹ میں رکھنے کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے اگرچہ دہشت گردی کے خلاف قدم اٹھاتے ہوئے قانون سازی کی ہے تاہم مجرموں کو تفتیشی تقاضوں کے باعث عدالتوں سے ریلیف مل جاتا ہے اس خامی کو دور کیا جانا ضروری ہے۔ پاکستان پر یہ الزام بھی دھرا گیا ہے کہ فیٹف کے 27 مطالبات میں سے 26 اور 6 میں سے 5 پر عمل کیا گیا ہے جب کہ تمام مطالبات کی تکمیل ضروری ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ پاکستان کے مطابق تکنیکی بنیادوں پر بڑی پیش رفت کے باوجود محض سیاسی بنیادوں پر پاکستان کو گرے لسٹ رکھا جا رہا ہے۔ مبصرین و تجزیہ نگاروں کے مطابق نیک نیتی سے فیٹف کے مطالبات پر عمل درآمد کے باوجود پاکستان کو گرے لسٹ میں برقرار رکھنے کے فیصلے کے پس پردہ بھارت کی سیاسی چالوں کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان کو اس حوالے سے بھی آواز اٹھانا ہوگی، بھارتی سازشوں کو بے نقاب کرنا ازبس ضروری ہے۔
پشاور میں آج بھی سوگ کی فضا طاری ہے۔ ملک کے دیگر شہروں میں پشاور دھماکے کے حوالے سے مختلف سماجی، مذہبی اور سیاسی تنظیموں کی جانب سے احتجاجی مظاہرے بھی کیے جا رہے ہیں اور قاتلوں کی جلد گرفتاری اور انھیں کیفر کردار تک پہنچانے کے مطالبات کیے جا رہے ہیں۔ پشاور دھماکے کی بازگشت صرف اندرون وطن ہی نہیں بلکہ بیرون ملک بھی سنائی دے رہی ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی صدر لافاذکی نے پشاور دھماکے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے حملے کو گھناؤنا اور بزدلانہ قرار دیا ہے۔
ملک میں ایک مرتبہ پھر جس طرح انتہا پسندی کے رجحانات کو فروغ مل رہا ہے اور دہشت گرد عناصر دوبارہ سر اٹھا رہے ہیں وہ لمحہ فکریہ ہے۔ وزیر اعظم نے ایپکس کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بجا طور پر کہا ہے کہ دہشت گردی کے خطرے کو ناکام بنانے کے لیے قومی ایکشن پلان کی کثیرالجہتی نقطہ نظر کے ساتھ نفاذ کی ضرورت ہے۔ انھوں نے درست کہا کہ مختلف عناصر فرقہ واریت اور نفرت انگیز تقاریر کی بنیاد پر انتشار پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ریاست ایسے عناصر کے عزائم ناکام بنانے میں کامیاب ہوگی یا نہیں؟ اور سانحہ پشاور جیسے واقعات کی روک تھام ممکن ہو سکے گی یا قوم کو مزید لہو رنگ سانحے دیکھنا پڑیں گے؟
پاکستان کی جانب سے حکومتی سطح پر کئی مرتبہ طالبان حکومت کو یہ باور کروایا گیا کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف اب استعمال نہیں ہونی چاہیے ، لیکن توقع اور امیدوں کے برعکس ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ گزشتہ جمعہ کو پشاورکی ایک مسجد میں خودکش حملہ آور نے بم دھماکا کرکے 60 سے زائد نمازیوں کو شہید کردیا۔ دو سو کے لگ بھگ زخمی ہوگئے۔
بعض اخباری اطلاعات کے مطابق پشاور دھماکے کی ذمے داری داعش نے قبول کرلی ہے۔ ادھر حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے دہشت گردوں کے گرد گھیرا تنگ کردیا ہے اور بہت جلد وہ اصل مجرموں تک پہنچ جائیں گے۔ وزیر اعظم عمران خان، صورت حال کی نزاکت کے پیش نظر ازخود اس معاملے کی نگرانی کر رہے ہیں۔ اگر اس بات کو سچ مان لیا جائے کہ پشاور دھماکے میں افغانستان کی سرزمین کسی نہ کسی حوالے سے استعمال کی گئی ہے تو یہ پاک افغان تعلقات میں کشیدگی پیدا کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔
داعش افغانستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہے۔ کچھ بعید نہیں کہ تحریک طالبان پاکستان سے حکومت کے ہونے والے مذاکرات کی ناکامی کے بعد داعش اور ٹی ٹی پی میں کوئی ربط پیدا کرکے وطن دشمن قوتیں پاکستان میں پھر سے اپنی منفی سرگرمیوں میں تیزی پیدا کردی۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران بلوچستان میں مختلف جگہوں میں سیکیورٹی اہلکاروں اور پاک فوج کے جوانوں پر حملے کرکے امن و امان کی صورت حال کو برباد کرنے میں جو عناصر ملوث ہیں ان کا کھوج لگانا ازبس ضروری ہے۔
پاک فوج نے پوری قوم کے بھرپور تعاون سے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ دے کر ملک میں دہشت گردوں کی کمر توڑ کر امن قائم کیا ہے جسے ایک مرتبہ پھر تباہ کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔ ایک ایسے موقع پر جب آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیم طویل عرصے بعد پاکستان کے دورے پر آئی ہے۔
یہاں امن و سکون کی ضمانت انھیں دی گئی تھی تاکہ ملک میں کرکٹ کی بحالی میں آسٹریلیا اپنا کردار ادا کرسکے اور دوسرے ممالک کی ٹیمیں بھی پاکستان کے دورے پر آنے کے لیے آمادہ ہوسکیں۔ عین اس موقع پر جب پاکستان آسٹریلیا پہلا ٹیسٹ راولپنڈی میں شروع ہوا تو پشاور میں خودکش حملے نے وطن عزیز میں امن کے سوال کے آگے بڑا نشان لگا دیا۔ مقام اطمینان کہ کرکٹ میچ جاری ہے۔ آسٹریلین آفیشل نے دورہ ختم کرنے کا فی الحال کوئی عندیا نہیں دیا۔
دہشت گردی کے خلاف پاک فوج کے دو کامیاب آپریشن ضرب عضب سے رد الفساد تک ملک میں امن کے قیام میں مددگار ثابت ہوئے۔ تاہم دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو سبق سکھانے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت نیشنل ایکشن پلان پر کماحقہ عمل درآمد کرے۔ پشاور دھماکے پر وزیر اعظم سے لے کر اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف تک اور مولانا فضل الرحمن سے لے کر بلاول بھٹو زرداری تک سب ہی قومی سیاستدانوں، صاحب فہم حلقوں اور عوام الناس نے گہرے دکھ اور رنج کا اظہار کیا ہے۔
مبصرین و تجزیہ نگاروں کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ اے پی این ایس پر حملے کے بعد قوم جس طرح متحد ہوئی اور ملک کے تمام ریاستی اداروں نے مل کر دہشت گردی کی مکمل بیخ کنی کے حوالے سے جو نیشنل ایکشن پلان بنایا تھا اس پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد ازبس ضروری ہے۔ ہمیں کسی یقین دہانی پر اعتماد کرنے کے بجائے اپنی تیاری ہر صورت مکمل رکھنی چاہیے۔ وقفے وقفے سے بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیاں روکی نہ جاسکیں اور دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں ذرا بھی کوتاہی برتی گئی تو دہشت گردی کا دائرہ دوبارہ پھیل کر پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ ملک گیر سطح پر امن و امان کی تباہی کا مطلب عالمی سطح پر ہمیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔
کیوں کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) نے ایک مرتبہ پھر پاکستان کو مزید گرے لسٹ میں رکھنے کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے اگرچہ دہشت گردی کے خلاف قدم اٹھاتے ہوئے قانون سازی کی ہے تاہم مجرموں کو تفتیشی تقاضوں کے باعث عدالتوں سے ریلیف مل جاتا ہے اس خامی کو دور کیا جانا ضروری ہے۔ پاکستان پر یہ الزام بھی دھرا گیا ہے کہ فیٹف کے 27 مطالبات میں سے 26 اور 6 میں سے 5 پر عمل کیا گیا ہے جب کہ تمام مطالبات کی تکمیل ضروری ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ پاکستان کے مطابق تکنیکی بنیادوں پر بڑی پیش رفت کے باوجود محض سیاسی بنیادوں پر پاکستان کو گرے لسٹ رکھا جا رہا ہے۔ مبصرین و تجزیہ نگاروں کے مطابق نیک نیتی سے فیٹف کے مطالبات پر عمل درآمد کے باوجود پاکستان کو گرے لسٹ میں برقرار رکھنے کے فیصلے کے پس پردہ بھارت کی سیاسی چالوں کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان کو اس حوالے سے بھی آواز اٹھانا ہوگی، بھارتی سازشوں کو بے نقاب کرنا ازبس ضروری ہے۔
پشاور میں آج بھی سوگ کی فضا طاری ہے۔ ملک کے دیگر شہروں میں پشاور دھماکے کے حوالے سے مختلف سماجی، مذہبی اور سیاسی تنظیموں کی جانب سے احتجاجی مظاہرے بھی کیے جا رہے ہیں اور قاتلوں کی جلد گرفتاری اور انھیں کیفر کردار تک پہنچانے کے مطالبات کیے جا رہے ہیں۔ پشاور دھماکے کی بازگشت صرف اندرون وطن ہی نہیں بلکہ بیرون ملک بھی سنائی دے رہی ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی صدر لافاذکی نے پشاور دھماکے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے حملے کو گھناؤنا اور بزدلانہ قرار دیا ہے۔
ملک میں ایک مرتبہ پھر جس طرح انتہا پسندی کے رجحانات کو فروغ مل رہا ہے اور دہشت گرد عناصر دوبارہ سر اٹھا رہے ہیں وہ لمحہ فکریہ ہے۔ وزیر اعظم نے ایپکس کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بجا طور پر کہا ہے کہ دہشت گردی کے خطرے کو ناکام بنانے کے لیے قومی ایکشن پلان کی کثیرالجہتی نقطہ نظر کے ساتھ نفاذ کی ضرورت ہے۔ انھوں نے درست کہا کہ مختلف عناصر فرقہ واریت اور نفرت انگیز تقاریر کی بنیاد پر انتشار پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ریاست ایسے عناصر کے عزائم ناکام بنانے میں کامیاب ہوگی یا نہیں؟ اور سانحہ پشاور جیسے واقعات کی روک تھام ممکن ہو سکے گی یا قوم کو مزید لہو رنگ سانحے دیکھنا پڑیں گے؟