ایک دوسرے کے خلاف مارچ

ملک کی تاریخ میں پہلی بار دو مختلف حکومتوں نے ایک دوسرے کے خلاف لانگ مارچ کیے


Muhammad Saeed Arain March 11, 2022
[email protected]

PESHAWAR: ملک کی تاریخ میں پہلی بار دو مختلف حکومتوں نے ایک دوسرے کے خلاف لانگ مارچ کیے اور بخیریت اپنی اپنی منزلوں پر پہنچے۔ پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے جنوری میں ہی وفاقی حکومت کے خلاف مہنگائی و بے روزگاری کے نام پر کراچی سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کا اعلان کر رکھا تھا۔

پیپلز پارٹی کے جواب میں پی ٹی آئی کے صوبائی صدر اور وفاقی وزیر علی زیدی نے پی پی کی سندھ حکومت کے خلاف اوباڑو سے کراچی تک سندھ حقوق کے نام سے لانگ مارچ کا اعلان کیا اور انھوں نے اعلان کے مطابق پی پی لانگ مارچ سے ایک روز قبل پنجاب کی سرحد کے قریب سے سندھ کے دارالحکومت کراچی تک لانگ مارچ شروع کیا جب کہ پی پی کا لانگ مارچ سندھ کے دارالحکومت سے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد تک تھا۔ دونوں لانگ مارچ پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت اور پی پی کی سندھ حکومت کے خلاف سرکاری طور پر سرکاری سرپرستی میں شروع ہوئے اور کہیں بھی کسی ناخوشگوار واقعہ پیش آئے بغیر اختتام پذیر ہوئے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت ساڑھے 13 سالوں سے برسر اقتدار اور اندرون سندھ کی مقبول ترین جماعت ہے ، جس کے چیئرمین نے اپنے لانگ مارچ کی قیادت کی اور سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ ملتان تک لانگ مارچ کے ساتھ رہے۔ پیپلز پارٹی ملک میں چار بار برسر اقتدار رہنے والی وفاقی پارٹی ہے اور تجربہ کار رہنماؤں پر مشتمل ہے۔

پی ٹی آئی سندھ کے نئے نامزد صدر علی زیدی کی شناخت یہ تھی کہ وہ کراچی سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر ہیں جنھوں نے کبھی سندھ کا تفصیلی دورہ نہیں کیا تھا اور ان کا سارا انحصار اندرون سندھ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے چند اضلاع تک محدود مریدوں پر تھا۔ گھوٹکی، شکارپور، سکھر، تھرپارکر اضلاع میں شاہ محمود قریشی کے مرید زیادہ ہیں۔

جیکب آباد وفاقی وزیر محمد میاں سومرو کا حلقہ انتخاب ہے جب کہ لاڑکانہ اور دادو اضلاع میں پی ٹی آئی کے غیر منتخب رہنماؤں امیر بخش بھٹو اور لیاقت جتوئی کا سیاسی اثر و رسوخ ہے مگر دونوں کو پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت نے کبھی اہمیت نہیں دی۔ بدین وفاقی وزیر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کا علاقہ ہے جب کہ سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ ارباب غلام رحیم اور غوث علی شاہ کا تعاون بھی پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کو حاصل تھا جب کہ سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں پی ٹی آئی کا لانگ مارچ برائے نام تھا کیونکہ وزیر اعظم نے حیدرآباد کا کبھی دورہ کیا نہ کسی کو حیدرآباد سے اپنی کابینہ میں لیا جب کہ حیدرآباد سے ایم کیو ایم کو حکومت میں نمایندگی دی جاسکتی تھی کیونکہ حیدرآباد میں ایم کیو ایم شہری نمایندگی کرتی ہے۔

پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کو میڈیا نے حکومتی ہدایت پر صرف کنٹینر اور اسٹیج تک محدود رکھا کیونکہ بعض علاقوں میں شرکا کی تعداد بہت کم تھی۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشیکے جہاں مرید تھے وہاں کے جلسے ضرور کامیاب رہے۔

سابق وزیر اعلیٰ ارباب غلام رحیم خود منتخب نمایندے نہیں ہیں جنھیں وزیر اعظم نے سندھ کے لیے اپنا معاون خصوصی بنایا تھا ان کی اپنے علاقے تک اہمیت ضرور ہے۔ ارباب غلام رحیم کے اپنے علاقے اور کراچی سے پی ٹی آئی کے کارکنوں کی بڑی تعداد لانگ مارچ کے آغاز پر گھوٹکی میں ضرور نظر آئی تھی ورنہ مہروں کے ایک چھوٹے گروپ کے لوگوں کی تعداد بہت کم تھی کیونکہ اندرون سندھ پی ٹی آئی کا کوئی عملی وجود نہیں بلکہ برائے نام وہاں پی ٹی آئی نظر آتی ہے اور اندرون سندھ پیپلز پارٹی سیاسی طاقت ہے اور پی پی ہی اندرون سندھ کی نمایندہ جماعت تصور کی جاتی ہے۔

پیرپگاڑا کی جی ڈی اے چند اضلاع تک محدود ہے۔ جی ڈی اے کے سربراہ پیر پگاڑا سے وزیر اعظم کی ملاقات نہیں ہوئی تو انھوں نے کراچی کے دورے میں جی ڈی اے کے ارکان سندھ اسمبلی سے ملاقات کی جب کہ پی ٹی آئی کے بائیکاٹ کے باوجود ان کے ارکان اسمبلی نے سینیٹ الیکشن میں ووٹ دیا جو پی ٹی آئی کے اندرونی انتشار کا واضح ثبوت ہے۔ پیپلز پارٹی نے مہنگائی و بے روزگاری پر وفاقی حکومت کے خلاف اسلام آباد تک کامیاب لانگ مارچ کیا جب کہ پی ٹی آئی نے سندھ حقوق کے نام پر سندھ حکومت کے خلاف احتجاج کیا ، متعدد اضلاع سے یہ مارچ گزرا ہی نہیں اور سندھ حکومت کے مطابق وفاقی حکومت سندھ کو اس کے فنڈز اور حقوق نہیں دے رہی جس پر وہ مسلسل احتجاج بھی کر رہے ہیں۔

وفاقی حکمران قیادت کو ساڑھے 3 سال بعد اب اندرون سندھ کا خیال آیا ہے اور اس نے سندھ کو زرداری سے نجات دلانے کے لیے اندرون سندھ کے دورے کا اعلان کیا ہے جب کہ ساڑھے تین سالوں میں وفاقی حکمران قیادت نے اندرون سندھ والوں سے ان کا حال نہیں پوچھا اور کراچی آ کر ایم کیو ایم مرکز کو صرف دس منٹ کا وقت دیا جو ان کی شہری و دیہی سندھ کو اہمیت دینے کا ثبوت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔