موسیقی کے شہ سوار نثار بزمی
موسیقار نثار بزمی ایوان موسیقی کے شہزادے تھے
QUETTA:
موسیقار نثار بزمی ایوان موسیقی کے شہزادے تھے، ان کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کے پرستاروں کے دل کے نہاں خانے اداسی میں ڈوب جاتے ہیں، ان کی بے مثال خدمات کا اعتراف تو بھارتی موسیقی کے بادشاہوں نے بھی احترام سے کیا مارچ کا مہینہ ان کی یاد اور اداکار محمد علی کی یادوں کے علاوہ دیگر فنکاروں کے سوگ میں گزر جاتا ہے۔ آج بھی ان کی خوبصورت موسیقی ویران دلوں کو آباد کرتی ہے وہ موسیقی کے شہ سوار تھے فلم ''امراؤ جان ادا'' کا یہ گیت جب منظر عام پر آیا:
جو بچا تھا وہ لٹانے کے لیے آئے ہیں
آخری گیت سنانے کے لیے آئے ہیں
اس گیت پر مرحومہ اداکارہ رانی نے ہم سے کراچی کے ایک مقامی اسپتال میں کہا تھا کہ '' فلم 'امراؤ جان ادا' کی رانی اس گیت کو بہت یاد کر رہی ہے، ڈاکٹروں نے جواب دے دیا اب یہ گیت مجھے بار بار یاد آتا ہے۔'' اور اس کے بعد مرحومہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے۔ اس گیت کو سننے کے بعد بھارتی موسیقار اوپی نیر نے کہا تھا کہ '' میری برسوں کی محنت پر بزمی صاحب نے خاک ڈال دی'' آنجہانی لتا جی نے دہلی کی پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ''کاش میں یہ گیت گاتی اور موسیقار نثار بزمی بھائی ہوتے مگر افسوس کہ بزمی صاحب کی بزم سے محروم رہی۔''
میری نثار بزمی سے ان کے گھر میں اکثر ہماری ملاقاتیں ہوتی تھیں وہ کراچی میں نارتھ ناظم آباد 5 اسٹار چورنگی پر رہتے تھے روزنامہ ایکسپریس میں 2005 میں بزمی صاحب پر آرٹیکل لکھا تھا انھوں نے اسے بہت پسند کیا تھا آپ کو حیرت ہوگی کہ ان کا پسندیدہ اخبار ایکسپریس تھا جس کا وہ باقاعدگی سے روزانہ مطالعہ کرتے تھے۔
وہ بھارت کے شہر دہلی میں پیدا ہوئے انگرو اریجا اسکول سے میٹرک کیا جی یہ وہی اسکول ہے جہاں سے ضیا الحق مرحوم اور پرویز مشرف نے بھی تعلیم حاصل کی ان کے والد حیدرآباد دکن میں سروس کرتے تھے ان سے میری پہلی ملاقات گلوکارہ مہ ناز اور صحافی اسد جعفری مرحوم نے کروائی تھی الیاس رشیدی مدیرنگار اور اسد جعفری یہ شوبزنس کے بابائے صحافت تھے اور ہمارے استاد بھی تھے ان کے توسط سے فنکاروں میں بہت رسائی رہی۔
1995 میں ہم ایک بڑے مقامی روزنامے میں شوبزنس پیج کرتے تھے اکثر لاہور جانا ہوتا تھا سلطان راہی مرحوم (فن کے بادشاہ) کے کمرے میں بزمی صاحب بیٹھے تھے ہمیں دیکھا اور گلے لگا لیا راہی مرحوم بھی اپنی خوبصورت طبیعت کے حوالے سے بہت نفیس تھے۔ سلطان راہی مرحوم اور نثار بزمی بہت گہرے دوست تھے نثار بزمی کا تعلق انڈیا کے صوبہ مہاراشٹر سے تھا مگر وہ خان دیش میں بہت رہے اور صوبہ مہاراشٹر میں سلطان راہی مرحوم کے دادا کا کاروبار تھا اس وجہ سے ان دونوں میں بہت دوستی تھی۔
قدرت علی مرحوم نے نثار بزمی کو اپنے گہرے دوست رام دیال کے پاس بھجوایا جو بمبئی میں رہتے تھے بزمی صاحب نے موسیقی کی تربیت امان خان سے لی اس کے بعد انھوں نے ریڈیو کے ڈرامے فنکار، پروفیسر، میں اور تم کی خوبصورت موسیقی دی۔ بمبئی میں ہونے والا اسٹیج ڈرامہ ''تہذیب'' کی موسیقی دی جس میں دلیپ کمار اور مدھوبالا نے بھی کام کیا تھا۔ اس کی موسیقی نثار بزمی نے دی تھی بھارتی اداکار قادر خان مرحوم نے راقم کو ایک انٹرویو جو ہم نے دبئی میں کیا تھا کہا تھا کہ دلیپ کمار بزمی صاحب کو بہت پسند کرتے تھے ان دونوں کی بے مثال دوستی تھی۔
1962 اکتوبر 11 تاریخ کو بزمی پاکستان آگئے انھیں پاکستان سے بہت محبت تھی وہ مذہبی انسان تھے یہ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ وہ حافظ قرآن تھے یہ بات انھوں نے بہت اسلامی جذبے سے سرشار ہوکر ہمیں بتائی تھی وہ سید گھرانے سے تعلق رکھتے تھے ان کا پورا نام سید نثار احمد تھا۔ ان کی فیملی میں کوئی شوبزنس سے وابستہ نہیں تھا 11 اکتوبر 1942 میں آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ ہوئے وہ بہت پائے کے شاعر تھے ریڈیو سے وابستگی کے بعد اپنے نام میں بزمی کا اضافہ کیا۔
موسیقی میں وہ انجم بزمی جو انڈیا میں اسٹیج موسیقی دیا کرتے تھے سے بہت متاثر تھے اور پھر انھوں نے اپنے نام کے ساتھ بزمی کا اضافہ کیا تفصیلات تو بہت طویل ہیں مگر انھوں نے 72 فلموں میں موسیقی دی۔ رام دیال ہدایت کار فضل کریمی کے دوست تھے ان کے حوالے سے انھوں نے فلم ''ایسا بھی ہوتا ہے'' میں موسیقی دی جب کہ اس سے پہلے نذیر صوفی کی فلم ''ہیڈ کانسٹیبل'' ریلیز ہوئی 1996 میں میرے دوست چوہدری امداد علی جن کا تعلق کوئٹہ سے تھا۔
ان کے دوست حسن طارق تھے میں امداد سے ملنے ان کے اصرار پر کوئٹہ گیا حسن طارق ہدایت کار (رانی مرحومہ) کے شوہر بھی رہ چکے ہیں وہ چوہدری امداد علی کے دوست تھے اور وہاں ٹھہرے ہوئے تھے انھوں نے اپنی فلم ''انجمن'' کی موسیقی دینے کے لیے کہا میں ان دنوں بہت مصروف تھا معذرت کرلی رانی مرحومہ نفیس خاتون تھیں ان کا فون آیا بزمی صاحب انجمن میں مجھے کاسٹ کیا گیا ہے اگر آپ نے موسیقی دینے سے انکار کیا تو میں فلم میں کام نہیں کروں گی یوں میں نے فلم ''انجمن'' کی موسیقی دی، اس فلم کی موسیقی میں میرے لیے کچھ امتحان آئے۔
رانی مرحومہ کا کہنا تھا کہ آپ گیت رونا لیلی سے گوائیں جب کہ ان کی بڑی بہن وینا لیلیٰ بھی گلوکارہ تھیں جو بعد میں سندھ میں پی پی پی سے وابستہ سیاسی معزز شخصیت امین فہیم مرحوم کی اہلیہ بنیں۔ حسن طارق چاہتے تھے کہ یہ گیت نور جہاں مرحومہ گائیں اب میرے لیے امتحان تھا کہ کیا کروں رانی نے ضد کی رانی معصوم عورت تھی۔ انڈسٹری میں ان کی بہت عزت تھی اور پھر رانی کی ضد کے سامنے میں خاموش ہوگیا اور یہ گیت رونا لیلیٰ نے گایا اور کیا خوب گایا جو ہٹ ہوا گیت کے بول تھے ''آپ دل کی انجمن میں حسن بن کر آگئے'' فلم ''امراؤ جان ادا'' کا یہ گیت مجھے بہت پسند آیا ، یہ اپنے میاں مٹھو والی بات ہے کہ اس کا موسیقار میں تھا اپنی ہی تعریف کر رہا ہوں مسکرائے اور کہا کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے زندگی میں۔ چلو گیت کا بتاتا ہوں رانی مرحومہ میرے گھر (لاہور) میں آئیں اور مجھے کہا بزمی بھائی آپ جان جوکھوں میں ڈال دیں مگر اس گیت کی موسیقی تاریخی دیجیے گا اور پھر میں نے رانی مرحومہ کے کہنے پر اس گیت کی موسیقی دی گیت تھا :
جو بچا تھا وہ لٹانے کے لیے آئے ہیں
آخری گیت سنانے کے لیے آئے ہیں
اس گیت کی فلم بندی دیکھنے کے بعد میں بھی آنسو نہیں روک سکا اور میں نے رانی مرحومہ کے اعزاز میں دعوت کی جس میں حسن طارق مرحوم، محمد علی مرحوم، ایم رشید ہدایت کارہٹ فلم ''پاٹے خاں'' سلطان راہی، آسیہ، مہ ناز، اخلاق احمد اور نور جہاں قابل ذکر تھیں۔
ایک واقعہ سناتے ہوئے انھوں نے بتایا مہدی حسن نے کہا حسن طارق بحیثیت ہدایت کار فلم ''تہذیب'' شروع کر رہے ہیں مجھے اور آپ کو بلایا ہے ہم لوگ کراچی میں تھے ایک گیت ''لگا ہے مصر کا بازار دیکھو'' کی موسیقی اور آپ کو گلوکار کے لیے نامزد کیا ہے گیت مکمل ہونے کے بعد ریلیز ہوا اور سپر ہٹ ہوا مصر ایمبیسی کے ایک آفیسر انجم خان (پاکستانی) تھے انھوں نے بتایا کہ مصر نے سخت برا منایا ہے کہ آپ ''مصر کا بازار'' کے بول بدلیں اگر ایسا نہیں ہوا تو سفارتی تعلقات خراب ہو سکتے ہیں حسن طارق بہت سمجھ دار آدمی تھے انھوں نے اس کے بول بدل دیے پھر یہ گیت دوبارہ ریکارڈ ہوا اور اس کے بول تھے ''لگا ہے حسن کا بازار دیکھو'' اس گیت میں اداکار شاہد نے بہت اچھی پرفارمنس دی تھی۔
پرویز ملک مرحوم نے فلم ''پہچان'' کا آغاز کیا تو ناہید اختر نے ایک گیت گایا ''اللہ اللہ کیا کرو، دکھ نہ کسی کو دیا کرو'' جو ناہید اختر کے کیریئر میں بہت اچھا ثابت ہوا، اس گیت کے لیے صبیحہ خانم، شمیم آرا، آسیہ کے نام زیر غور تھے پھر پرویز ملک نے میرے کہنے پر یہ گیت نیئر سلطانہ مرحومہ پر فلم بند کیا، جب وہ 50 سال کے تھے تو مذہب کی طرف راغب ہوگئے تھے اور راقم کو بھی درس دیا کرتے تھے۔
کراچی کے ایک بڑے مقامی ہوٹل میں نثار بزمی ایوارڈز کا اجرا ہوا راقم کو بھی ایوارڈ سے نوازا گیا جو اس وقت کے گورنر کمال اظفر نے دیا، اسٹیج پر گورنر صاحب نے بزمی صاحب کو پیار سے گلے لگایا ان کے ہاتھوں کو اپنے سینے پر رکھا (اس وقت تو سیاست بھی قدر دانوں کی تھی) ایوارڈز لینے کے بعد بھی انھوں نے راقم کو اسلام کی دعوت دی ، وہ اللہ کے نیک بندے تھے اللہ ان کی مغفرت کرے۔ نثار بزمی 22 مارچ 2007 جمعہ کے دن 83 برس کی عمر میں رب کی طرف لوٹ گئے، رب مغفرت کرے۔