ملّی یک جہتی

اتفاق اتحاد اور یک جہتی انسانوں کی سب سے بڑی طاقت ہے

فوٹو : فائل

خود غرضی، نفرت، انتشار، قتل و غارت، لوٹ مار اور خلفشار کے شکار معاشرے کو آج پہلی ضرورت انسانی یک جہتی کی ہے۔

انسانی یک جہتی کے لیے ہم سب کو اپنے چھوٹے چھوٹے ذاتی مفاد کو بھلا کر اجتماعی ملّی مفاد کو ترجیح دینا ہوگی۔ فلاح انسانی کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ ہم اپنی چھوٹی بڑی خوشیوں میں دوسرے تمام محروم انسانوں کو شریک کریں اور دوسروں کے غموں میں باہم شریک ہوں، اور دوسروں کے لیے خوشیاں کشید کرنے اور دکھی انسانوں کے سماجی و معاشرتی مسائل کے حل میں اپنا مثبت کردار ادا کریں۔ ایک دوسرے کے ساتھ خیر خواہی کا معاملہ اپنائیں، اور جو مسائل ہمیں درپیش ہوں ان کو باہم اتفاق و یک جہتی سے حل کریں۔

بلاشبہ! اتفاق اتحاد اور یک جہتی انسانوں کی سب سے بڑی طاقت ہے اس کا مشاہدہ ہم زندگی کے ہر مرحلے میں کرتے ہیں۔ انسانوں کے زندگی گزارنے کا سماجی نظام اسی وحدت اور یک جہتی کو حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ اسی سے تہذیبیں وجود پاتی ہیں اور نئے سماجی نظام نمو پاتے ہیں۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں انسانی یک جہتی کا شدید فقدان پایا جاتا ہے۔ محروم انسانوں کے مسائل سے قطع تعلقی کی وجہ سے لوگوں میں خود غرضی اور بے حسی روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔

ہم ہر سال انسانی یک جہتی کا عالمی دن تو مناتے ہیں جس کا مقصد دنیا سے غربت اور تنگ دستی کے خاتمے اور انسانوں کی باہمی یک جہتی کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہوتا ہے۔ انسانی حقوق کی علم بردار سماجی تنظیمیں اس دن کے حوالے سے خصوصی سیمینارز، واک اور تقاریب کا اہتمام بھی کرتی ہیں۔ لیکن کیا اس کے ثمرات بھی حاصل ہوتے ہیں یا یہ بھی بس اب صرف ایک فیشن اور بے مقصد دن ہی بن کر رہ گیا ہے۔

دنیا کی تمام اقوام و مذاہب میں سب سے پہلے یک جہتی کا درس دین اسلام نے دیا ہے کہ تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں، خواہ کوئی مشرق و مغرب کا رہنے والا ہو یا شمال و جنوب کا، کوئی مسلمانوں کے علاقے میں رہتا ہو یا کفار کے علاقے میں، سب مسلمان بھائی ہیں اور بھائیوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کرنا ایک مہذب اور باکردار قوم کی پہچان ہوتی ہے۔ اسلام نے بلا تفریق مذہب و ملت انسانی برادری کا وہ نقشہ کھینچا ہے جس پر خلوص سے عمل کیا جائے تو شر و فساد، ظلم و جبر اور بے پناہ انارکی سے بھری دنیا جنّت کا منظر پیش کرنے لگے۔ محض انسانیت کی بنیاد پر تعلق و محبّت کی جو مثال اسلام نے قائم کی ہے د نیا کی کسی تعلیم، کسی مذہب اور کسی مفکّر کی وہاں تک رسائی نہیں۔


نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے کہ ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، حسد نہ کرو، ایک دوسرے سے منہ نہ پھیرو، سب مل کر خدا کے بندے اور آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ، ایک دوسرے کو دھوکا نہ دو، جو اپنے لیے پسند کرتے ہو، وہی اپنے دوسرے بھائی کے لیے بھی پسند کرو، تماری زبان اور ہاتھ سے کسی کو بھی گزند نہ پہنچے، آپس میں ایک جسم کی مانند ہوجاؤ۔ اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔ تم زمین والوں پہ رحم کرو تم پر آسمان والا رحم کرے گا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانوں کو پست اور منقسم رکھنے میں چند عالمی اجارہ دار ممالک کی مکارانہ ذہنیت، چال بازیاں، اور پوری دنیا پر بلاشرکت غیرے حکم رانی کا خواب ہے اور وہ عالم اسلام کو کسی صورت متحد نہیں دیکھنا چاہتے۔ وہ ایک ایجنڈے کے تحت عالم اسلام کو تقسیم در تقسیم کرتے چلے آرہے ہیں۔

لیکن ہمیں اس کا بھی اعتراف کرنا چاہیے کہ ہم خود بھی نادانستگی میں ہی سہی اس انتشار کو پھیلانے میں ان کے دست و بازو اور شریک کار ہیں۔ اسی باعث مسلمانوں میں اختلافات ہیں اور عالم اسلام کے ممالک اور ان کے حکم رانوں میں اتحاد نہ ہونے کے برابر ہے۔ ملک کی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کی حریف ہیں۔ حزب اقتدار اور اختلاف میں ذاتی دشمنیاں اور عناد ہیں۔ دینی اور مذہبی جماعتوں، اداروں اور ان کے راہ نماؤں میں اتنا اختلاف ہے کہ بغیر کسی دلیل کے ایک دوسرے کو منافق، ملحد اور ایجنٹ ہونے کے القاب دیتے ہیں۔

صوبائیت، لسانیت، قومیت اور وطنیت کے جھگڑے ہیں۔ سازشی عناصر ان حالات اور کم زوریوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اسلامی تعلیمات میں سب سے زیادہ زور اتفاق و ملّی یک جہتی پر دیا گیا ہے۔ آپس میں محبّت، اخوّت، بھائی چارہ، ایمان و اتحاد اور یقین مسلمانوں کا طرۂ امتیاز ہوتا ہے، جس سے ہم محروم ہوچکے ہیں۔

آپ ﷺ نے حجتہ الوداع میں فرمایا کہ دیکھو! باہمی اختلاف میں نہ پڑنا۔ قرآن کریم میں اﷲ ربّ العزت کا حکم ہے کہ تفرقہ بازی ہرگز ہرگز نہ کرو۔ تاریخ اٹھا کر دیکھیں اختلاف ہی کی وجہ سے قوموں اور ملکوں کو بڑے بڑے نقصان اٹھانا پڑے ہیں۔ اختلاف ہی کی وجہ سے مسلمان ممالک پستی اور ذلّت کا شکار ہیں۔ غربت، مہنگائی، بدامنی، لاقانونیت، بے روز گاری، جہالت، انتقام، لوٹ مار، ڈاکے، اغوا، قتل و غارت جیسے موذی امراض مسلمانوں میں باہمی اختلافات ہی کا نتیجہ ہیں۔ آج جہاں امت مسلمہ کے مسلمانوں میں مثالی اتفاق و اتحاد و یک جہتی کی ضرورت ہے وہیں ہمارے معاشرے میں انسانی یک جہتی کی شدید ضرورت ہے، دوسروں کے ساتھ خیر خواہی کرنے والے جذبے کو بیدار کرنے کی شدید ضرورت ہے۔

دوسروں کے دکھوں کو بانٹنے، نفرتوں اور بے حسی کی روش ترک کرتے ہوئے ایک دوسرے کے معاون اور مددگار بننے کی ضرورت ہے۔ آج انسان کو محبت، امن ، بھائی چارے، ملی یک جہتی کی اشد ضرورت ہے۔ بہ حیثیت مسلم ہمارے تمام سیاسی اور مذہبی راہ نماؤں کو وقت کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے اپنے تمام تر اختلافات کو پس پشت ڈال کر ملّی یک جہتی میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے کہ یہی وقت کی آواز اور ہمارا مذہبی فریضہ بھی ہے۔
Load Next Story