ٹیکس نادہندہ کھاتیدار کی ماہانہ ادائیگیاں ایف بی آر کو بتانا لازمی

بینک کریڈٹ کارڈزکے ذریعے ادائیگیوں کی تفصیلات بھی فراہم کرینگے، ایف بی آر

ترمیمی ایس آراوجاری،ایف بی آر نے اکاؤنٹس تک رسائی کیلیے طریقہ کاربھی تجویز کردیا . فوٹو : فائل

MULTAN:
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف نی آر) نے بینکوں کے لیے این ٹی این نہ رکھنے والے اکاؤنٹ ہولڈرز کی طرف سے جمع کرائی جانے والی رقوم اور کریڈٹ کارڈز کے ذریعے ادائیگیاں کرنے والوں کی تفصیلات ماہانہ بنیادوں پر ایف بی آر کو جمع کرانے کو لازمی قرار دیدیا ہے ۔


تاہم این ٹی این رکھنے والے اکاؤنٹ ہولڈرز کے بارے میں تفصیلات فراہم نہیں کرنا ہونگی۔ گزشتہ روز جاری کردہ ایس آر او نمبر 115(I)/2014 کے تحت انکم ٹیکس آرڈیننس میں ترامیم کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ بینکوں کو اکاؤنٹ ہولڈرز کی طرف سے جمع کرائی جانے والی رقوم اور کریڈٹ کارڈز کے ذریعے ادائیگیاں کرنے والوں کی تفصیلات ماہانہ بنیادوں پر ایف بی آر کو جمع کرانا ہونگی اور بینکوں کے لیے لازمی ہے کہ جن اکاؤنٹ ہولڈرز کی طرف سے اپنے اکاؤنٹس میں 10 لاکھ روپے ماہانہ یا اس سے زائد رقم جمع کرائی جاتی ہے تو ان کی تفصیلات پر مبنی اکاؤنٹ ہولڈر ڈپاذٹ اسٹیٹمنٹ ماہانہ بنیادوں پر ایف بی آر کو بھجوایا جائے، اس کے علاوہ ان اکاونٹ ہولڈرز کا اسٹیٹمنٹ بھی ماہانہ بنیادوں پر ایف بی آر کو بھجوایا جائے جن کی طرف سے کریڈٹ کارڈز کے ذریعے ماہانہ 1 لاکھ روپے یا اس سے زائد کی ادائیگیاں کی جاتی ہیں۔

اس بارے میں ایف بی آر حکام کا کہنا ہے کہ مذکورہ اقدام کا بنیادی مقصد ٹیکس چوری روکنا اور قابل ٹیکس آمدنی رکھنے والے لوگوں کا سراغ لگا کر انہیں ٹیکس نیٹ میں لانا ہے۔ حکام نے بتایا کہ ایف بی آر نے مذکورہ نوٹیفکیشن کے تحت بینکوں سے لوگوں کے بینک اکاؤنٹس تک رسائی کے حوالے سے بھی میکنزم متعارف کرادیا ہے تاہم مجوزہ میکنزم میں صرف مجاز افسران بینکوں سے رجوع کرسکیں گے اور صرف چیئرمین ایف بی آر یا انکی طرف سے مقرر کردہ کوئی مجاز افسر ان لوگوں کے بینک اکاؤنٹس کے بارے میں معلومات حاصل کرسکے گا، جو لوگ پہلے سے ٹیکس نیٹ میں ہونگے انکے اکاؤنٹس کے بارے میں معلومات حاصل نہیں کی جا سکیں گی، افسران اکاؤنٹس کے بارے میں معلومات کو خفیہ رکھیں گے اور یہ تحقیقاتی ادارے کے ساتھ اس ڈیٹا اور معلومات کو شیئر نہیں کریں گے، علاوہ ازیں یہ بھی یقینی بنانا ہوگا کہ اکاونٹ ہولڈرز کے بارے میں حاصل کردہ معلومات کو غلط استعمال نہیں کیا جائیگا اور اگر کوئی افسر اس جرم کا مرتکب پایا گیا تو اس کے خلاف کارروائی کی جائیگی۔
Load Next Story