موجودہ سیاسی منظرنامہ اور بزنس
سیاسی بزنس کے اسٹیک ہولڈرز میں جاگیردار، وڈیرے اور طاقتور افراد ہوتے ہیں
پاکستان میں سیاسی ہلچل اس وقت اپنے عروج پر ہے۔ سیاسی پنڈت اس صورتحال کو مختلف عنوان دے رہے ہیں۔ کوئی اس کو مکافاتِ عمل قرار دے رہا ہے تو کوئی بیرونی سازش۔ کسی کو حکومتی مدت پوری نہ ہونے کا غم کھائے جارہا ہے تو کسی کو اگلی باری کی پڑی ہے۔ نیز ہر ایک کو نمبر پورے کرنے کی فکر لگی ہوئی ہے۔ کچھ تو اس کو فائنل اوور سے تشبیہ دے رہے ہیں۔ حالانکہ وکٹیں گرتی جارہی ہیں اور میچ ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔
یہ پہلی ٹیم ہے جس میں تمام کھلاڑی ساٹھ سے ستر کی دہائی میں ہیں اور کوئی ریٹائر ہی نہیں ہونا چاہ رہا۔ بہرحال اس پوری صورتحال میں ایک شخص دور کھڑا مسکرا رہا ہے۔ وہ شخص کون ہے؟
وہ اس پورے سسٹم کا بنیفشری (فائدہ اٹھانے والا) یا پھر یوں کہہ لیجئے کہ بزنس مین ہے۔ اور ایک بات تو طے ہے کہ بزنس مین کبھی اپنا نقصان نہیں کرتا اور نہ ہی گھاٹے کا سودا کرتا ہے۔ یہ بزنس مین کون ہے؟ یہ وہ بزنس مین ہے جس کےلیے سیاست ہمیشہ بزنس رہی ہے اور پاکستان ایک دکان یا کمپنی اور عوام کسٹمرز۔ اس نے ہمیشہ اپنے فائدے کو ملک پر فوقیت دی ہے۔ اس کا عوامی مسائل سے کوئی لینا دینا نہیں، نہ ہی اس کو اس بات سے کوئی غرض ہے کہ وطن عزیز ترقی کرے۔ بس اس کا کاروبار چمکنا چاہیے۔
اس بزنس کے اسٹیک ہولڈرز میں جاگیردار، وڈیرے اور طاقتور افراد ہوتے ہیں۔ سیلز میں آزاد امیدوار، جو کمیشن پر کام کرتے ہیں۔ یہ لوگ ہر وقت اپنے آپ کو اپ ٹو ڈیٹ رکھتے ہیں، گروپ بندیوں میں مشغول رہتے ہیں اور مالکان سے اپنی وفاداری ثابت کرنے پر تلے رہتے ہیں۔ بزنس یونٹس مختلف پارٹیوں نے سنبھالے ہوئے ہیں اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنے علاقوں سے زیادہ سے زیادہ منافع کمایا جائے۔ بزنس کا منافع تمام اسٹیک ہولڈرز میں تقسیم ہوتا ہے۔ کبھی کیش کی صورت میں، کبھی جائیدادوں، تو کبھی قیمتی گاڑیوں کی شکل میں۔ ٹارگٹ کافی مشکل ہوتے ہیں مگر ان کو پورا کرنے کےلیے کنسلٹنٹس کی خدمات ہمہ وقت میسر ہوتی ہیں، جو عوام کا خون چوسنے کےلیے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر ریٹائرڈ افراد ہوتے ہیں۔ بعض اوقات انٹرنیشنل کنسلٹنٹس کی خدمات بھی حاصل کی جاتی ہیں۔ ہر کمپنی کی طرح اس میں بھی کچھ کام چورہوتے ہیں، جن کو کام سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی، بس یہی فکر لگی رہتی ہے کہ تنخواہ پوری ملے۔ کچھ دل جلے ہمیشہ اس کوشش میں رہتے ہیں کہ کمپنی ڈوب جائے کیوں کہ ان کو ایسا لگتا ہے کہ ان سے سوتیلے پن کا سلوک کیا جاتا ہے اور ان کی کسی بات کو اہمیت نہیں دی جاتی۔
کمپنی وقتاً فوقتاً نئے پیکیجز نکالتی ہے، جس کی پیکنگ بڑی خوشنما ہوتی ہے مگر ڈبہ اندر سے خالی۔ یہ پروڈکٹس ہر پانچ سال بعد پیش کی جاتی ہیں۔ درمیان میں مارکیٹ کی ڈیمانڈ کے اعتبار سے بھی لانچ کی جاتی ہیں۔ مارکیٹنگ کا شعبہ پروڈکٹ کی بڑھ چڑھ کر تشہیر کرتا ہے اور اس کےلیے علیحدہ سے بجٹ مختص کیا جاتا ہے اور اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ اس کی قیمت پروڈکٹ میں شامل کرکے کسٹمر یعنی عوام سے ہی وصول کی جائے۔ اگر کسٹمر شکایات کرے تو اس کو تسلی کرائی جاتی ہے کہ اگلے پیکیج میں خرابی دور کردی جائے گی اور پانچ سال انتظار کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ ساری ذمے داری پچھلی مینجمنٹ پر ڈال ڈی جاتی ہے۔
کمپنی میں باقاعدہ آڈٹ ڈپارٹمنٹ بھی ہے، جو ہمیشہ 'سب اوکے' کی رپورٹ دیتا ہے۔ مالکان اور مینجمنٹ کی ٹریننگ کا بھی انتظام کیا جاتا ہے اور ان کو بیرون ملک بھیجا جاتا ہے، جس کے تمام اخراجات کمپنی برداشت کرتی ہے۔ اس کے علاوہ خسارہ پورا کرنے کےلیے بیرونی امداد بھی لی جاتی ہے جس کے ماہرین الگ سے رکھے جاتے ہیں۔ کمپنی نے کچھ غنڈے بھی پالے ہوئے ہیں جو کسٹمر سے وقت پر وصولی ممکن بناتے ہیں۔ کچھ افراد کا کام سنسنی پھیلانا ہوتا ہے تاکہ ان کی دیہاڑی لگی رہے اور بھرم بھی قائم رہے۔ مینجمنٹ ہمیشہ افواہوں کا بازار گرم رکھتی ہے تاکہ غیر یقینی صورت حال کا تاثر پھیلا کر اپنی نوکری پکی رکھی جائے اور مالکان کا منظور نظر رہا جاسکے۔
کمپنی میں بچت کا کوئی تصور نہیں ہے۔ مال بری طرح لٹایا جاتا ہے اور تمام صلاحیتیں مالکان کو خوش کرنے میں صرف کی جاتی ہیں۔ اوپر سے نیچے تک ہر ایک کو پتہ ہے کہ اس کمپنی کا کوئی مدمقابل نہیں ہے اور سارے کا سارا فائدہ اپنا ہی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک کو 70 سال سے ایک کمپنی کی طرح ہی چلایا جارہا ہے اور عوام اس امید میں ہی رہتے ہیں کہ اب کی بار کوئی ایسا مسیحا آئے گا جو ان کے زخموں کا مرہم بنے گا۔ مگر ہر بار مایوسی ہی مقدر بنتی ہے۔ ایک وقت ایسا ضرور آئے گا کہ مینجمنٹ بھی تبدیل ہوگی اور نئے اسٹیک ہولڈرز بھی آئیں گے، جو عوام کے خیرخواہ ہوں گے اور بہترین کسٹمر سروس کو مرکوز رکھیں گے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ یہ پہیہ ایسے ہی چلتا رہے، کیوں کہ تاریخ بتاتی ہے کہ ایسا ماڈل کبھی پائیدار نہیں ہوتا جہاں عوام کے حقوق مسلسل سلب ہوتے رہیں اور عیاشی ایک طبقہ کرتا رہے۔ وہ وقت بھی انشا الله ضرور آئے گا۔
تحریک عدم اعتماد ناکام ہوتی ہے یا کامیاب؟ مگر پاکستان ضرور سرخرو ہوگا۔ عوام اس بزنس میں شراکت دار ہوں گے اور فائدہ سب کا ہوگا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
یہ پہلی ٹیم ہے جس میں تمام کھلاڑی ساٹھ سے ستر کی دہائی میں ہیں اور کوئی ریٹائر ہی نہیں ہونا چاہ رہا۔ بہرحال اس پوری صورتحال میں ایک شخص دور کھڑا مسکرا رہا ہے۔ وہ شخص کون ہے؟
وہ اس پورے سسٹم کا بنیفشری (فائدہ اٹھانے والا) یا پھر یوں کہہ لیجئے کہ بزنس مین ہے۔ اور ایک بات تو طے ہے کہ بزنس مین کبھی اپنا نقصان نہیں کرتا اور نہ ہی گھاٹے کا سودا کرتا ہے۔ یہ بزنس مین کون ہے؟ یہ وہ بزنس مین ہے جس کےلیے سیاست ہمیشہ بزنس رہی ہے اور پاکستان ایک دکان یا کمپنی اور عوام کسٹمرز۔ اس نے ہمیشہ اپنے فائدے کو ملک پر فوقیت دی ہے۔ اس کا عوامی مسائل سے کوئی لینا دینا نہیں، نہ ہی اس کو اس بات سے کوئی غرض ہے کہ وطن عزیز ترقی کرے۔ بس اس کا کاروبار چمکنا چاہیے۔
اس بزنس کے اسٹیک ہولڈرز میں جاگیردار، وڈیرے اور طاقتور افراد ہوتے ہیں۔ سیلز میں آزاد امیدوار، جو کمیشن پر کام کرتے ہیں۔ یہ لوگ ہر وقت اپنے آپ کو اپ ٹو ڈیٹ رکھتے ہیں، گروپ بندیوں میں مشغول رہتے ہیں اور مالکان سے اپنی وفاداری ثابت کرنے پر تلے رہتے ہیں۔ بزنس یونٹس مختلف پارٹیوں نے سنبھالے ہوئے ہیں اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنے علاقوں سے زیادہ سے زیادہ منافع کمایا جائے۔ بزنس کا منافع تمام اسٹیک ہولڈرز میں تقسیم ہوتا ہے۔ کبھی کیش کی صورت میں، کبھی جائیدادوں، تو کبھی قیمتی گاڑیوں کی شکل میں۔ ٹارگٹ کافی مشکل ہوتے ہیں مگر ان کو پورا کرنے کےلیے کنسلٹنٹس کی خدمات ہمہ وقت میسر ہوتی ہیں، جو عوام کا خون چوسنے کےلیے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر ریٹائرڈ افراد ہوتے ہیں۔ بعض اوقات انٹرنیشنل کنسلٹنٹس کی خدمات بھی حاصل کی جاتی ہیں۔ ہر کمپنی کی طرح اس میں بھی کچھ کام چورہوتے ہیں، جن کو کام سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی، بس یہی فکر لگی رہتی ہے کہ تنخواہ پوری ملے۔ کچھ دل جلے ہمیشہ اس کوشش میں رہتے ہیں کہ کمپنی ڈوب جائے کیوں کہ ان کو ایسا لگتا ہے کہ ان سے سوتیلے پن کا سلوک کیا جاتا ہے اور ان کی کسی بات کو اہمیت نہیں دی جاتی۔
کمپنی وقتاً فوقتاً نئے پیکیجز نکالتی ہے، جس کی پیکنگ بڑی خوشنما ہوتی ہے مگر ڈبہ اندر سے خالی۔ یہ پروڈکٹس ہر پانچ سال بعد پیش کی جاتی ہیں۔ درمیان میں مارکیٹ کی ڈیمانڈ کے اعتبار سے بھی لانچ کی جاتی ہیں۔ مارکیٹنگ کا شعبہ پروڈکٹ کی بڑھ چڑھ کر تشہیر کرتا ہے اور اس کےلیے علیحدہ سے بجٹ مختص کیا جاتا ہے اور اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ اس کی قیمت پروڈکٹ میں شامل کرکے کسٹمر یعنی عوام سے ہی وصول کی جائے۔ اگر کسٹمر شکایات کرے تو اس کو تسلی کرائی جاتی ہے کہ اگلے پیکیج میں خرابی دور کردی جائے گی اور پانچ سال انتظار کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ ساری ذمے داری پچھلی مینجمنٹ پر ڈال ڈی جاتی ہے۔
کمپنی میں باقاعدہ آڈٹ ڈپارٹمنٹ بھی ہے، جو ہمیشہ 'سب اوکے' کی رپورٹ دیتا ہے۔ مالکان اور مینجمنٹ کی ٹریننگ کا بھی انتظام کیا جاتا ہے اور ان کو بیرون ملک بھیجا جاتا ہے، جس کے تمام اخراجات کمپنی برداشت کرتی ہے۔ اس کے علاوہ خسارہ پورا کرنے کےلیے بیرونی امداد بھی لی جاتی ہے جس کے ماہرین الگ سے رکھے جاتے ہیں۔ کمپنی نے کچھ غنڈے بھی پالے ہوئے ہیں جو کسٹمر سے وقت پر وصولی ممکن بناتے ہیں۔ کچھ افراد کا کام سنسنی پھیلانا ہوتا ہے تاکہ ان کی دیہاڑی لگی رہے اور بھرم بھی قائم رہے۔ مینجمنٹ ہمیشہ افواہوں کا بازار گرم رکھتی ہے تاکہ غیر یقینی صورت حال کا تاثر پھیلا کر اپنی نوکری پکی رکھی جائے اور مالکان کا منظور نظر رہا جاسکے۔
کمپنی میں بچت کا کوئی تصور نہیں ہے۔ مال بری طرح لٹایا جاتا ہے اور تمام صلاحیتیں مالکان کو خوش کرنے میں صرف کی جاتی ہیں۔ اوپر سے نیچے تک ہر ایک کو پتہ ہے کہ اس کمپنی کا کوئی مدمقابل نہیں ہے اور سارے کا سارا فائدہ اپنا ہی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک کو 70 سال سے ایک کمپنی کی طرح ہی چلایا جارہا ہے اور عوام اس امید میں ہی رہتے ہیں کہ اب کی بار کوئی ایسا مسیحا آئے گا جو ان کے زخموں کا مرہم بنے گا۔ مگر ہر بار مایوسی ہی مقدر بنتی ہے۔ ایک وقت ایسا ضرور آئے گا کہ مینجمنٹ بھی تبدیل ہوگی اور نئے اسٹیک ہولڈرز بھی آئیں گے، جو عوام کے خیرخواہ ہوں گے اور بہترین کسٹمر سروس کو مرکوز رکھیں گے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ یہ پہیہ ایسے ہی چلتا رہے، کیوں کہ تاریخ بتاتی ہے کہ ایسا ماڈل کبھی پائیدار نہیں ہوتا جہاں عوام کے حقوق مسلسل سلب ہوتے رہیں اور عیاشی ایک طبقہ کرتا رہے۔ وہ وقت بھی انشا الله ضرور آئے گا۔
تحریک عدم اعتماد ناکام ہوتی ہے یا کامیاب؟ مگر پاکستان ضرور سرخرو ہوگا۔ عوام اس بزنس میں شراکت دار ہوں گے اور فائدہ سب کا ہوگا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔