سیاسی صورت حال مانیٹری پالیسی اور عالمی کساد بازاری

پاکستان کی موجودہ سیاسی صورت حال نے کاروبار میں زبردست مندی کو فروغ دیا ہے



آج سے تقریباً 100 سال قبل تک ملکی معاشی معاملات میں حکومتی مداخلت کی زیادہ ضرورت محسوس نہیں ہوتی تھی۔ ملکی معاشی معاملات میں نجی شعبے یا افراد فعال کردار ادا کر رہے تھے۔ اس وقت کے معاشی ماہرین کا بھی یہی خیال تھا کہ امن عامہ کے سوا تمام کام نجی افراد یا نجی شعبے کے ہاتھ میں ہوں۔

لہٰذا معاشی معاملات میں حکومتی مداخلت کا جواز پیدا نہیں ہو رہا تھا ، لیکن جنگ عظیم اول کے اختتام تک دنیا کے حالات میں بڑی تبدیلی رونما ہوئی اور 1980 تک پہنچتے پہنچتے دنیا کے بیشتر ترقی یافتہ ممالک کساد بازاری کا شکار ہوکر رہ گئے۔ افراط زر کی بڑھتی ہوئی عفریت کا مقابلہ کرنے کے لیے حکومت کو سامنے آنا پڑا۔ دنیا کے بہت سے امیر طاقتور ممالک نے ترقی پذیر غریب ممالک کو لوٹ لوٹ کر کنگال کرکے آزاد کرنا شروع کردیا۔

ایسے میں ان نوآزاد ممالک میں ترقی کرنے کا تصور شدت اختیار کرنے لگا ، لہٰذا ایسی صورت حال میں حکومتی مداخلت کا جواز کھل کر سامنے آیا اور معیشت کے نظریات پیش کرنے والے کلاسیکل ماہرین کے خیالات کی جگہ حکومتی مداخلت کے حامی معاشی ماہرین کے نظریات پر عمل کیا جانے لگا۔ حکومتوں نے ملکی معاشی معاملات میں مداخلت کے لیے جو طریقہ کار اپنایا یا جو پالیسی اختیار کی وہ مانیٹری پالیسی کہلائی اور دراصل یہ سرکاری مالیاتی پالیسی ہی اس کا نام ہے۔

لیکن اس وقت پاکستان بتدریج جس مانیٹری پالیسی کی جانب مراجعت کر رہا ہے اسے آیندہ چل کر سرکاری مانیٹری پالیسی سے زیادہ آئی ایم ایف کے زیر اثر مانیٹری پالیسی کہا جاسکتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد اب تک پون صدی میں پاکستان کے معاشی معاملات بتدریج خراب ہوتے چلے گئے۔ خاص طور پر آئی ایم ایف کی مداخلت کے بعد سے ملک میں مہنگائی، روپے کی بے قدری، بجلی نرخوں میں اضافہ در اضافہ اور یہ اضافہ ایسا ہی ہو رہا ہے جیساکہ سود در سود کی رقم سن کر قرض لینے والے کے ہوش اڑ جاتے ہیں۔ اسی طرح بجلی بل دیکھ کر بھی ہوش اڑ رہے ہیں۔

اب روس، یوکرین تنازع بھی عالمی معیشت میں اپنا اثر اس طرح ڈال رہا ہے کہ بہت سے معاشی ماہرین ایک بار پھر دنیا کو کساد بازاری کی طرف جاتا دیکھ رہے ہیں۔ پاکستانی حکام کو خاص طور پر گندم سے متعلق عالمی نرخ میں ہونے والے اضافے کو مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ گندم کی بوائی کے موقع سے لے کر جب تک کھاد کی ضرورت تھی حکومت کی کھاد پر کڑی نظر کہیں ادھر ادھر ہوگئی تھی۔ اب کہا جا رہا ہے کہ آیندہ فصل کی ضرورت کے لیے کھاد کی قیمت پر کڑی نظر رکھی جائے گی۔

اس سال گندم کی قیمت بھی بڑھے گی،کیونکہ فصل بھی کم ہونے کا خدشہ ہے اور عالمی مارکیٹ میں اجناس کے نرخ بھی بڑھ رہے ہیں اور مزید بڑھنے کا امکان بھی ہے۔ لہٰذا گندم کی قیمت بھی اس کی زد میں آئے گی۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اپنی تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ روس، یوکرین تنازع سے اجناس کی قیمتوں میں بے یقینی کی صورت حال ہے اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اور مہنگائی بڑھی تو شرح سود بدلنا پڑ سکتا ہے۔ فی الحال شرح سود 9.75 پر ہی برقرار رکھا گیا ہے۔

اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کمیٹی کے پالیسی بیان کے مطابق کمیٹی کے سابقہ فیصلوں کے سبب معاشی نمو معتدل اور پائیدار ہوئی ہے۔ جنوری اور فروری 2022 میں تجارتی خسارے میں کمی مقامی طلب میں ٹھہراؤ کا اشارہ دے رہی ہے۔ کمیٹی کے مطابق مہنگائی کی شرح 13 فیصد سے کم ہو کر 12 اعشاریہ 2 فیصد رہی۔ کمیٹی نے رواں مالی سال مہنگائی میں اضافے کی شرح 9 سے 11 فیصد رہنے کا اندازہ برقرار رکھا ہے۔

ترقی یافتہ ملکوں کے علاوہ بہت سے ترقی پذیر ملکوں نے اپنے ملک کے بہت سے معاشی مسائل کو حل کرنے کے لیے حکومتی مداخلت کی خاطر مانیٹری پالیسی کو آلہ کار بنایا ہے اور یہ پالیسی بیرونی مداخلت سے پاک ہونے کی صورت میں کامیاب نتائج دیتی رہی ہے،لیکن ایسے ممالک جہاں حکومتی مانیٹری پالیسی مختلف معاشی مسائل کے حل میں ناکام ہوئی وہاں پر معاشی معاملات بگڑتے رہے بہت سے ممالک اس کی لپیٹ میں اس طرح آتے رہے کہ وہاں کی حکومتیں ناکام ہوتی رہی ہیں۔

اس وقت تمام ترقی پذیر ممالک تیل اور فوڈ کی بڑھتی قیمتوں کے باعث سخت مالیاتی دباؤ کا شکار ہیںاور مہنگائی پوری دنیا پر طاری ہو چکی ہے۔ ساری دنیا میں مہنگائی کے ساتھ غربت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ اس وقت تیل کی بڑھتی قیمتوں کے باعث تیل برآمد کرنے والے ممالک کی پوزیشن بہتر ہے اور وہ نہیں چاہیں گے کہ تیل کی قیمت میں کمی واقع ہو۔ کورونا وبا کے باعث جب تیل کی قیمتیں کم ہو رہی تھیں ان دنوں تیل برآمد کرنے والے ملکوں نے اپنے اپنے ملکوں میں بہت سا معاشی کٹ لاگو کردیا تھا۔ اب کہیں جا کر ان کی آمدن میں اضافے کی شرح بہتر ہو رہی ہے۔

عالمی طور پر یہ ہو رہا ہے کہ روس، یوکرین تنازع کو فوری حل کرکے گیس کی سپلائی بڑھانے کی ضرورت تھی، لیکن اس بات کی کوشش ہو رہی ہے کہ ایل این جی کے استعمال کو ترجیح دی جائے۔ لہٰذا اس کی طلب میں اضافے نے ایل این جی کی قیمت کو بڑھانا شروع کردیا ہے۔ اگرچہ روس اور یوکرین سے پاکستان کی تجارت زیادہ نہیں ہے لیکن پاکستان کی کمزور معیشت کسی بھی عالمی تنازع سے متاثر ہوکر رہتی ہے۔

تیل کی قیمت بڑھے گندم، کوکنگ آئل یا پلاسٹک یا کیمیکلز یا دیگر درآمدی اشیا و مصنوعات کی قیمت میں معمولی یا زیادہ اضافہ ہو پاکستان کی کمزور ترین مالیات لرز کر رہ جاتی ہے۔ لہٰذا ہر وہ معاشی مسئلہ جوکہ حکومتیں مانیٹری پالیسی کے بل بوتے پر حل کیا کرتی ہیں ان کے حل میں پاکستان کی ہر حکومت ناکام رہی ہے نتیجہ ایک طرف مہنگائی، بے روزگاری، کاروباری مندی، غربت میں شدید اضافہ اور دیگر بہت سے معاشی مسائل شدت اختیار کرجاتے ہیں۔

پاکستان کی موجودہ سیاسی صورت حال نے کاروبار میں زبردست مندی کو فروغ دیا ہے۔ اسٹاک مارکیٹ بار بار مندی کا شکار ہو رہی ہے۔ سرمایہ کاروں کے اربوں روپے ڈوب رہے ہیں۔ تاجر کاروبار کی مندی سے پریشان اور عوام مہنگائی سے پریشان نوجوان بے روزگاری سے پریشان ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |