سیاست کے یہ ضابطے ہم نہیں مانتے

ہمارے ملک میں سیاست کے یہی ضابطے رائج ہیں جس کی ترجیحات میں عوام کے علاوہ سب کچھ شامل ہے


محبت اور جنگ کی طرح ہمارے ملک کی سیاست میں بھی سب کچھ جائز ہے۔ (فوٹو: فائل)

JAKARTA: ہم نے جب سے ہوش سنبھالا کتابی باتوں میں یہی سنتے آئے ہیں کہ ''محبت اور جنگ میں سب جائز ہے''۔ اگرچہ ہمیں اس بات سے مکمل اتفاق نہیں، لیکن ہم نے اس مقولے پر زیادہ مغز کھپانا ضروری نہیں سمجھا اور اس بات کو ہر بندے کا ذاتی معاملہ سمجھ کو اس کی فہم و فراست پر چھوڑ دیا کہ جس کو ان دونوں میں کسی ایک یا دونوں سے واسطہ پڑے گا خود ہی فیصلہ کرلے گا کہ کیا جائز ہے اور کیا نہیں۔ ویسے بھی جب سے ہمارا پالا سیاست سے پڑا ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ محبت اور جنگ اس کا عشر عشیر بھی نہیں۔ کیوں کہ ہمارے ملک کی سیاست کے ضابطے ایسے ہیں جو صبح کچھ اور شام کو کچھ ہوتے ہیں۔ اس لیے یہ لکھے جانے کے قابل ہیں اور نہ ہی پڑھائے جانے کے کیونکہ ہماری سیاست کے مضمون کا سلیبس بہت تیزی سے بدلتا ہے۔

موضوع کی تمہید پڑھ کر اگر کسی صاحب یا صاحبہ کا ماتھا شکن آلود ہوا بھی ہو تو اسے اپنی ملک کی آج کل کی سیاست کے ضابطوں کو سن اور دیکھ کر اپنی طبیعت ہماری طرح پرسکون کرلینی چاہیے اور اس سارے گند کو اپنی قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کرلینا چاہیے۔ ہمارے ان سارے قائدین کے دن رات بدلتے پینترے اور اور دوست اور دشمن بدلنے کی روش کو ملکی مفاد میں سمجھ کر صبر اور شکر کے ساتھ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرکے بیٹھ جائیے۔

جو اُن کو پیارے تھے، اب اِن کو دل و جاں سے عزیز ہوگئے ہیں اور جن کے پاس جانے سے اُن کے پاؤں جلتے تھے اب صبح و شام ان کے دیدار کو ان کی آنکھیں ترستی ہیں۔ ہماری سیاست کے ذرا ضابطے تو ملاحظہ فرمائیے کہ جو دو تین بڑی پارٹیاں ہیں وہ سب کی سب ٹانگے جتنی سواریوں والی پارٹیوں کے رحم و کرم پر آکھڑی ہوئی ہیں۔ اور اِکا دُکا یا چند سیٹوں کی مالک پارٹیاں ہیں، وہ سینہ تان کر کبھی ایک کو مل رہی ہیں اور کبھی دوسرے کو۔ اور ابھی تک اس رشتے سے انہوں نے کسی کو انکار کیا ہے اور نہ ہی ہاں کی ہے۔ اُن کی اِن ملاقاتوں نے حکومتی اور اپوزیشن دونوں اتحادوں کو اپنی حمایت کے آسرے پر رکھا ہوا ہے۔ وہ ہنستے ہیں تو یہ ہنستے ہیں۔

اسی بات سے آپ ہماری سیاسی پارٹیوں اور اُن کے قائدین کے سیاسی نظریات کی مضبوطی کا اندازہ لگالیجئے اور سوچ لیجئے کہ ان سب کو عوام کا کتنا درد ہے کہ جب سے وزیراعظم کے خلاف اپوزیشن نے عدم اعتماد کےلیے قومی اسمبلی کے اجلاس کی درخواست جمع کروائی ہے، ہمارے ہر ہر لیڈر کے جسم میں بجلی سی بھر گئی ہے اور انہوں نے ملک و عوام کی بہتری کےلیے دن رات ایک کیا ہوا ہے۔

اس عدم اعتماد کی فضا سے نتیجہ کیا نکلے گا، یہ کہنا تو ابھی قبل از وقت ہے۔ مگر اس ساری پریکٹس کا ملک کو ایک فائدہ ضرور ہوا ہے۔ جو قائدین بیمار تھے اور میڈیسن پر چل رہے تھے وہ بھی چست اور چاق و چوبند ہوکر ملک کی خدمت کرنے پر لگ گئے ہیں۔ لندن والے مختلف لوگوں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں اور ساتھ ان کی تردید بھی کررہے ہیں۔ ملک میں رہنے والے ہر آئے دن قوم کو ایک نئی خوشخبری سنا رہے ہیں کہ بس ان کا مقدر اب بدلا کہ تب بدلا۔ دوسری طرف حکومت اپنے پروں پر پانی نہیں پڑنے دے رہی اور وہ عوام کو ستے خیراں (سب ٹھیک ہے) کی گردان پہ لگائے ہوئے ہے۔

ایسے حالات میں وزیراعظم بھی اپنے روٹھے ہوئے محبوب کی مانند اتحادیوں کے پاس چکر لگا رہے ہیں اور کئی ایک کے پاس وہ اسی طرح پہلی دفعہ گئے ہیں جس طرح ن لیگ والے کسی کے پاس نہ جانے کتنے سال بعد گئے ہیں۔

اب صورتحال یہ ہے کہ دونوں اتحادوں (حکومتی اور اپوزیشن) کی رالیں ٹپک رہی ہیں اور وہ اپنے مخالف کیمپ کے لوگوں کو ابھی تک ملک کے وفادار اور محب وطن بنائے بیٹھے ہیں۔ اسی طرح حکومت بھی اپوزیشن کیمپ کے کھلاڑیوں سے رابطے میں ہے اور ان سے ملاقاتیں بھی کر رہی ہے اور ان کو ساری اپوزیشن میں صرف وہی اراکین دودھ میں دھلے نظر آرہے ہیں جو اپنی پارٹی کے مفاد کے خلاف حکومت سے مل رہے ہیں۔
دونوں طرف یہی صورتحال ہے اور یہ اس وقت تک برقرار رہے گی جب تک تانگے والی پارٹیاں عدم اعتماد کے حوالے سے اپنا واضح اعلان کرکے اپنے آپ کو حکومتی یا اپوزیشن کے جھولی میں ڈال نہیں دیتیں اور یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ جیسے ہی یہ لوگ اپنا وزن کسی ایک پلڑے میں ڈال دیں گے، پھر ہمارے قائدین کے سیاسی ضابطے بدل جائیں گے اور جن کو وہ آج ملنے کو ترس رہے ہیں اور ان کے ہنسنے کے ساتھ ہنس رہے ہیں اگر وہ ان کے مخالف کیمپ میں گئے تو وہ ان کو ضمیر فروش اور غدار کہنے میں ایک لمحہ نہیں لگائیں گے۔ اسی طرح اپوزیشن اتحاد اپنے ساتھ نہ ملنے والوں کو چور، ڈاکو اور کرپٹ کہہ کر ان سے اپنی جان چھڑا کو سرخ رو ہوجائے گا۔

اب یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے، اس میں زیادہ دن باقی نہیں ہیں۔ لیکن عوام کو زیادہ فکر کرنے کی ضرورت
نہیں کہ اس ملک میں سیاست کے یہی ضابطے رائج ہیں اور ان سب کی ترجیحات میں سب کچھ آتا ہے سوائے عوام کے۔ اس لیے دعا کیجئے کہ ملک میں امن و امان رہے اور سارا معاملہ بغیر کسی جنگ و جدل کے اپنے انجام کو پہنچ جائے۔ ورنہ محبت اور جنگ میں اگر سب جائز ہے تو ہماری سیاست تو اس سے کہیں آگے کی چیز ہے، اس میں سب کچھ سے زیادہ بھی ممکن ہے۔ بہرحال کوئی کچھ بھی سوچے یا سمجھے، سیاست کے یہ ضابطے ہم نہیں مانتے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں