سندھ بلدیاتی قانون کی شق 74 اور 75 آئین سے متصادم قرار سپریم کورٹ کا تحریری فیصلہ جاری
58 صفحات پر مشتمل فیصلہ سابق چیف جسٹس گلزار احمد نے تحریر کیا
عدالت عظمیٰ نے سندھ بلدیاتی اختیارات کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا جس میں کہا گیا کہ سندھ بلدیاتی قانون آئین کی شق 74 اور 75 سے متصادم ہیں۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق سپریم کورٹ کی جانب سے 58 صفحات پر مشتمل فیصلہ سابق چیف جسٹس گلزار احمد نے تحریر کیا تھا، جس میں کہا گیا کہ آئین پاکستان تمام قوانین سے بالاتر ہے اور اس سے متصادم ہر قانون غیرآئینی ہوگا، صوابدیدی اختیارات کا استعمال ایماندارانہ اور شفاف انداز میں ہونا چاہیے۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ آئین میں دیے گئے حقوق کو کسی قانون کے ذریعے ختم نہیں کیا جا سکتا، بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر مبنی تمام اقدامات غیرقانونی تصور ہوں گے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا کہ گورننس کے لیے مقامی حکومتوں کا خودمختار ہونا بنیادی چیز ہے، دنیا میں کئی مقامی حکومتیں اعلیٰ انتظامی اداروں سے بھی زیادہ بااختیار ہیں، بااختیار بلدیاتی حکومتیں معاشی ترقی میں اہم کردار ہوتا ہے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ جمہوریت میں مقامی حکومتوں کا کردار کلیدی نوعیت کا ہوتا ہے، مقامی حکومتیں تعلیم، صحت اور امن و امان کی ذمہ دار ہوتی ہیں، مقامی حکومت کے لیے عوام کی براہ راست منتخب اسمبلی کا ہونا ضروری ہے۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ مقامی حکومتوں پر انتظامی کنٹرول رکھنا شہریوں کے حقوق کی کھلی توہین ہے، آئین کے آرٹیکل 140 کا مقصد مقامی حکومتوں کو مکمل بااختیار بنانا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ آئین مقامی حکومتوں کو سیاسی، مالی اور انتظامی ذمہ داریاں دیتا ہے، آئین کے آرٹیکل 140 اے پر عمل درآمد میں اگر مگر کی کوئی گنجائش نہیں ہے، سندھ حکومت تمام قوانین کو آرٹیکل 140 اے کے مطابق تبدیل کرے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ آئین کے تحت ہر صوبہ بلدیاتی حکومتوں کے قیام کا پابند ہے، قانون میں سندھ حکومت کے پاس بلدیاتی اداروں کا کنٹرول سنبھالنے کے اختیارات تھے، ممکن تھا صوبائی حکومت ایک کے بعد تمام اداروں کا کنڑول سنبھال لے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق سپریم کورٹ کی جانب سے 58 صفحات پر مشتمل فیصلہ سابق چیف جسٹس گلزار احمد نے تحریر کیا تھا، جس میں کہا گیا کہ آئین پاکستان تمام قوانین سے بالاتر ہے اور اس سے متصادم ہر قانون غیرآئینی ہوگا، صوابدیدی اختیارات کا استعمال ایماندارانہ اور شفاف انداز میں ہونا چاہیے۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ آئین میں دیے گئے حقوق کو کسی قانون کے ذریعے ختم نہیں کیا جا سکتا، بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر مبنی تمام اقدامات غیرقانونی تصور ہوں گے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا کہ گورننس کے لیے مقامی حکومتوں کا خودمختار ہونا بنیادی چیز ہے، دنیا میں کئی مقامی حکومتیں اعلیٰ انتظامی اداروں سے بھی زیادہ بااختیار ہیں، بااختیار بلدیاتی حکومتیں معاشی ترقی میں اہم کردار ہوتا ہے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ جمہوریت میں مقامی حکومتوں کا کردار کلیدی نوعیت کا ہوتا ہے، مقامی حکومتیں تعلیم، صحت اور امن و امان کی ذمہ دار ہوتی ہیں، مقامی حکومت کے لیے عوام کی براہ راست منتخب اسمبلی کا ہونا ضروری ہے۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ مقامی حکومتوں پر انتظامی کنٹرول رکھنا شہریوں کے حقوق کی کھلی توہین ہے، آئین کے آرٹیکل 140 کا مقصد مقامی حکومتوں کو مکمل بااختیار بنانا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ آئین مقامی حکومتوں کو سیاسی، مالی اور انتظامی ذمہ داریاں دیتا ہے، آئین کے آرٹیکل 140 اے پر عمل درآمد میں اگر مگر کی کوئی گنجائش نہیں ہے، سندھ حکومت تمام قوانین کو آرٹیکل 140 اے کے مطابق تبدیل کرے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ آئین کے تحت ہر صوبہ بلدیاتی حکومتوں کے قیام کا پابند ہے، قانون میں سندھ حکومت کے پاس بلدیاتی اداروں کا کنٹرول سنبھالنے کے اختیارات تھے، ممکن تھا صوبائی حکومت ایک کے بعد تمام اداروں کا کنڑول سنبھال لے۔