بیانات کی سیاست
بیانات کی سیاست کے حمام میں حکومت ہو یا اپوزیشن سب ایک جیسے ہی ہیں اورعوام کے نام پراپنی اپنی سیاست زندہ رکھے ہوئے ہیں
LONDON:
موجودہ حکمران طبقے نے اپنی اور اپنی حکومت کی تشہیر اور اپوزیشن کو منہ توڑ جواب بلکہ اپنے مخالف رہنماؤں کے خلاف بڑی بڑی میڈیا ٹیمیں اور حکومتی ترجمانوں کا تقرر کر رکھا ہے۔
ماضی میں کسی بھی حکمران نے ایسا نہیں کیا تھا اور اپنے سیاسی مخالفین کی ہر بات کا جواب دینے کے لیے ایسے لوگ نہیں رکھے تھے کہ جن کا کام حکومت کی کارکردگی کی تشہیر سے زیادہ اپوزیشن رہنماؤں پر کڑی سے کڑی تنقید ، الزام تراشی اور بیانات جاری کرنا رہا ہو۔
موجودہ حکومت نے اس سلسلے میں وفاق اور پنجاب میں بڑے پیمانے پر حکومتی ترجمان اور میڈیا پرسنز مقرر کیے تھے جب کہ کے پی کے میں ایسا نہیں تھا بلکہ وہاں وزیر اطلاعات ہی اپنی صوبائی حکومت کی ترجمانی کرتے تھے۔ کے پی میں بھی وزیر اطلاعات تبدیل کیے گئے اور حکومتی ترجمانی کے لیے مشیر یا معاون خصوصی کا تقرر کیا گیا۔
وفاق اور پنجاب و کے پی میں حکومتی ترجمانوں کی کارکردگی سے وزیر اعظم مطمئن نہیں رہے اور آئے دن وہاں وزرائے اطلاعات اور ترجمان تبدیل ہوتے رہے حالانکہ یہ لوگ اپنے اصل کام حکومتوں کی ترجمانی کی بجائے اپنی حکومت کی تعریفوں اور اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف بیانات میں صبح سے ہی شروع ہو جاتے تھے۔ اپوزیشن رہنماؤں کو رگیدنے میں بھی بہت تیز تھے۔
وزرائے کرام ایسے ایسے بیانات اور تقاریر کر رہے ہیں کہ عوام سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اہم سیاسی جماعتوں نے وزیروں کو جواب دینے کے لیے اپنے اپنے ترجمان مقرر کر رکھے ہیں مگر عوام اپنی ترجمانی سے محروم ہیں اور ملکی میڈیا ہی ان کا ترجمان ہے جن کے تاثرات جب بھی میڈیا دکھاتا ہے تو وہ حکومتی حلقوں میں پسند نہیں کیے جاتے۔
ملک میں بیانات کی سیاست عروج پر ہے اور اس سلسلے میں حکومت کا پلہ بھاری اور اپوزیشن حکومت سے بہت پیچھے ہے کیونکہ کہتے ہیں کہ مارنے والے کا ہاتھ پکڑا جاسکتا ہے مگر بولنے والے کی زبان نہیں پکڑی جاسکتی۔ حکومتی حلقے تقاریر اور بیانات میں ایسی ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں جو غلط ہوتی ہیں جن کا حقائق سے واسطہ نہیں ہوتا۔
وزیر اعظم عمران خان نے ایک بار پھر کہا ہے کہ ملک میں مہنگائی 2008 اور 2013 سے کم ہے اور پاکستان اب بھی دنیا میں سستا ترین ملک ہے۔ وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ ایک تھی عدم اعتماد، پھر صبح ہوئی اور آنکھ کھل گئی، آیندہ ہفتے اپوزیشن اپنی تحریک سمیت گھروں میں واپس چلی جائے گی، وزیر خارجہ نے پی ٹی آئی کے سندھ حکومت کے خلاف ریلی کے اختتام پر کہا کہ سندھ کے لوگ پی پی سے مایوس ہوگئے ہیں سندھ میں تبدیلی دکھائی دے رہی ہے۔
سندھ کے لوگ تحریک انصاف حکومت پر اعتماد کریں، دل کو بہلانے کے لیے عدم اعتماد کا خیال اچھا ہے۔ حکومت وزیر شاید حقائق کے خلاف بیانات دینے کی ڈیوٹی پر ہیں انھوں نے کہا کہ ناصر باغ میں بلاول کا جلسہ نہیں جلسی تھی اور انھیں زندہ دلان لاہور نے مسترد کردیا ہے۔
وزیر داخلہ شیخ رشید کا کہنا ہے کہ ناکام عدم اعتماد عمران خان کے لیے تحریک اطمینان ہوگی۔ اپوزیشن تحریک عدم اعتماد سے ملک میں انتشار پھیلا رہی ہے جسے حکومت ناکام بنا دے گی۔
اپوزیشن رہنما بھی بیانات کی سیاست میں پیچھے نہیں۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کا کہنا ہے کہ نااہل حکومت عوام کی نظروں سے گر چکی اور حکومت کے جھوٹے وعدے اور اعلانات بے نقاب ہو چکے ہیں۔ مسلم لیگی رہنما خواجہ آصف کہتے ہیں کہ عمران خان جن پر تنقید کرتے تھے اب اپنا اقتدار بچانے ان کے گھر جا رہے ہیں۔
مسلم لیگی رہنما یہ بھول چکے کہ ان کے صدر شہباز شریف بھی ان کے گھر جا چکے ہیں جن پر ماضی میں وہ شدید الزامات لگایا کرتے تھے یہی حال پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کا بھی ہے اور بیانات کی سیاست کے حمام میں حکومت ہو یا اپوزیشن سب ایک جیسے ہی ہیں اور عوام کے نام پر اپنی اپنی سیاست زندہ رکھے ہوئے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ عوام ان کے بیانات پر یقین کر لیتے ہیں حالانکہ عوام اب بے شعور نہیں بلکہ پہلے سے بہت زیادہ شعور کے مالک ہیں انھیں حقائق اور بیانات کی سیاست کے لیے سب کا پتا ہے۔
موجودہ حکمران طبقے نے اپنی اور اپنی حکومت کی تشہیر اور اپوزیشن کو منہ توڑ جواب بلکہ اپنے مخالف رہنماؤں کے خلاف بڑی بڑی میڈیا ٹیمیں اور حکومتی ترجمانوں کا تقرر کر رکھا ہے۔
ماضی میں کسی بھی حکمران نے ایسا نہیں کیا تھا اور اپنے سیاسی مخالفین کی ہر بات کا جواب دینے کے لیے ایسے لوگ نہیں رکھے تھے کہ جن کا کام حکومت کی کارکردگی کی تشہیر سے زیادہ اپوزیشن رہنماؤں پر کڑی سے کڑی تنقید ، الزام تراشی اور بیانات جاری کرنا رہا ہو۔
موجودہ حکومت نے اس سلسلے میں وفاق اور پنجاب میں بڑے پیمانے پر حکومتی ترجمان اور میڈیا پرسنز مقرر کیے تھے جب کہ کے پی کے میں ایسا نہیں تھا بلکہ وہاں وزیر اطلاعات ہی اپنی صوبائی حکومت کی ترجمانی کرتے تھے۔ کے پی میں بھی وزیر اطلاعات تبدیل کیے گئے اور حکومتی ترجمانی کے لیے مشیر یا معاون خصوصی کا تقرر کیا گیا۔
وفاق اور پنجاب و کے پی میں حکومتی ترجمانوں کی کارکردگی سے وزیر اعظم مطمئن نہیں رہے اور آئے دن وہاں وزرائے اطلاعات اور ترجمان تبدیل ہوتے رہے حالانکہ یہ لوگ اپنے اصل کام حکومتوں کی ترجمانی کی بجائے اپنی حکومت کی تعریفوں اور اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف بیانات میں صبح سے ہی شروع ہو جاتے تھے۔ اپوزیشن رہنماؤں کو رگیدنے میں بھی بہت تیز تھے۔
وزرائے کرام ایسے ایسے بیانات اور تقاریر کر رہے ہیں کہ عوام سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اہم سیاسی جماعتوں نے وزیروں کو جواب دینے کے لیے اپنے اپنے ترجمان مقرر کر رکھے ہیں مگر عوام اپنی ترجمانی سے محروم ہیں اور ملکی میڈیا ہی ان کا ترجمان ہے جن کے تاثرات جب بھی میڈیا دکھاتا ہے تو وہ حکومتی حلقوں میں پسند نہیں کیے جاتے۔
ملک میں بیانات کی سیاست عروج پر ہے اور اس سلسلے میں حکومت کا پلہ بھاری اور اپوزیشن حکومت سے بہت پیچھے ہے کیونکہ کہتے ہیں کہ مارنے والے کا ہاتھ پکڑا جاسکتا ہے مگر بولنے والے کی زبان نہیں پکڑی جاسکتی۔ حکومتی حلقے تقاریر اور بیانات میں ایسی ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں جو غلط ہوتی ہیں جن کا حقائق سے واسطہ نہیں ہوتا۔
وزیر اعظم عمران خان نے ایک بار پھر کہا ہے کہ ملک میں مہنگائی 2008 اور 2013 سے کم ہے اور پاکستان اب بھی دنیا میں سستا ترین ملک ہے۔ وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ ایک تھی عدم اعتماد، پھر صبح ہوئی اور آنکھ کھل گئی، آیندہ ہفتے اپوزیشن اپنی تحریک سمیت گھروں میں واپس چلی جائے گی، وزیر خارجہ نے پی ٹی آئی کے سندھ حکومت کے خلاف ریلی کے اختتام پر کہا کہ سندھ کے لوگ پی پی سے مایوس ہوگئے ہیں سندھ میں تبدیلی دکھائی دے رہی ہے۔
سندھ کے لوگ تحریک انصاف حکومت پر اعتماد کریں، دل کو بہلانے کے لیے عدم اعتماد کا خیال اچھا ہے۔ حکومت وزیر شاید حقائق کے خلاف بیانات دینے کی ڈیوٹی پر ہیں انھوں نے کہا کہ ناصر باغ میں بلاول کا جلسہ نہیں جلسی تھی اور انھیں زندہ دلان لاہور نے مسترد کردیا ہے۔
وزیر داخلہ شیخ رشید کا کہنا ہے کہ ناکام عدم اعتماد عمران خان کے لیے تحریک اطمینان ہوگی۔ اپوزیشن تحریک عدم اعتماد سے ملک میں انتشار پھیلا رہی ہے جسے حکومت ناکام بنا دے گی۔
اپوزیشن رہنما بھی بیانات کی سیاست میں پیچھے نہیں۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کا کہنا ہے کہ نااہل حکومت عوام کی نظروں سے گر چکی اور حکومت کے جھوٹے وعدے اور اعلانات بے نقاب ہو چکے ہیں۔ مسلم لیگی رہنما خواجہ آصف کہتے ہیں کہ عمران خان جن پر تنقید کرتے تھے اب اپنا اقتدار بچانے ان کے گھر جا رہے ہیں۔
مسلم لیگی رہنما یہ بھول چکے کہ ان کے صدر شہباز شریف بھی ان کے گھر جا چکے ہیں جن پر ماضی میں وہ شدید الزامات لگایا کرتے تھے یہی حال پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کا بھی ہے اور بیانات کی سیاست کے حمام میں حکومت ہو یا اپوزیشن سب ایک جیسے ہی ہیں اور عوام کے نام پر اپنی اپنی سیاست زندہ رکھے ہوئے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ عوام ان کے بیانات پر یقین کر لیتے ہیں حالانکہ عوام اب بے شعور نہیں بلکہ پہلے سے بہت زیادہ شعور کے مالک ہیں انھیں حقائق اور بیانات کی سیاست کے لیے سب کا پتا ہے۔