گیدڑ سنگھی
وزیر اعظم کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے 2028 تک کی تیاری کر رکھی ہے
MADRID:
وفاقی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا بگل بج چکا ہے۔ اپوزیشن نے قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کے لیے سیکریٹریٹ میں ریکوزیشن اور وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرا دی ہے۔ تحریک عدم اعتماد پر اپوزیشن کے 186 ارکان کے دستخط ہیں۔
قواعد کے مطابق اسپیکر قومی اسمبلی پابند ہیں کہ وہ ریکوزیشن جمع کرائے جانے کے بعد 14 دن کے اندر قومی اسمبلی کا اجلاس بلائیں اور اگلے 7 روز کے اندر تحریک عدم اعتماد پر کارروائی کریں۔ اس قاعدے کے مطابق چوں کہ تحریک عدم اعتماد 8 مارچ کو جمع کروائی گئی ہے تو اب اسپیکر قومی اسمبلی پر لازم ہو گیا ہے کہ وہ 22 مارچ تک اجلاس طلب کریں۔
اخباری اطلاعات کے مطابق پاکستان نے ''تنظیم اسلامی کانفرنس'' کے وزرائے خارجہ کا اجلاس بھی بلا رکھا ہے جو اسلام آباد کے اسمبلی ہال میں منعقد کیا جائے گا۔ ایسی صورت حال میں حکومت کے لیے معاملات کو ترتیب دینا مشکل ہو جائے گا۔ تاہم اسپیکر اسمبلی اسد قیصر نے کہا کہ وہ تحریک عدم اعتماد پر آئین و قانون کے مطابق کارروائی کریں گے۔ وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کا یہ موقف سامنے آیا ہے کہ او آئی سی وزرائے خارجہ اجلاس کے باعث تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ 29 مارچ تک ملتوی ہو سکتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اسپیکر قومی اسمبلی درپیش صورتحال میں کیا فیصلہ کرتے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ برس مارچ ہی میں جب اس وقت کے وزیر خزانہ حفیظ شیخ سینیٹ کا الیکشن ہار گئے تھے اور پیپلز پارٹی کے یوسف رضا گیلانی ان کے مقابلے میں سینیٹر منتخب ہو گئے تھے تو قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کیا ہے۔ اس مرتبہ صورت حال ذرا مختلف ہے۔ اب اپوزیشن کو اسمبلی میں یہ ثابت کرنا ہے کہ 342 کے ایوان میں 172 سے زائد ارکان کی اکثریت وزیر اعظم عمران خان پر اعتماد نہیں کرتی۔ لہٰذا مشکل صورت حال اپوزیشن کے لیے ہوگی۔
یہ بحث بھی ہو رہی ہے کہ آئین کے آرٹیکل 63 اے کے مطابق اپنی پارٹی سے منحرف ہونے والا رکن قومی اسمبلی اپوزیشن کے حق میں اپنا ووٹ استعمال نہیں کرسکتا۔ آئین کی مذکورہ شق کا اگر اطلاق کیا جائے تو پھر وہ حکومتی ارکان قومی اسمبلی جو قیادت سے ناراض ہیں اور انھوں نے اپنے اپنے گروپ بنا رکھے ہیں وہ کس طرح ''فلور کراسنگ'' کرکے اپوزیشن کو ووٹ دے سکتے ہیں ان کی آئینی حیثیت کیا ہوگی۔ قانون ان کو کس زمرے میں لے گا۔ اخلاقی طور پر تو وہ اپنی حیثیت کھو بیٹھیں گے۔
حکومت اور اپوزیشن دونوں پر امید کہ کامیابی کا سہرا ان کے سر سجے گا۔ اپوزیشن رہنما آصف زرداری، میاں شہباز شریف، مولانا فضل الرحمن روزانہ ایک سے زائد مرتبہ آپس میں ملاقاتیں کرکے تحریک عدم اعتماد پر اپنے نمبر گیم پورے کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ حکومت کے اتحادی مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم سے بھی اپوزیشن رہنماؤں کی ملاقاتوں و مشاورت کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک دوسرے کو یقین دہانیاں کرائی جا رہی ہیں۔ پی ٹی آئی کے ناراض ارکان کے دو گروپ ترین گروپ اور علیم خان گروپ سے اپوزیشن کی بھرپور مشاورت کا سلسلہ جاری ہے۔
جہانگیر اور علیم خان لندن میں ہیں جہاں مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف سے ملاقات کرکے کچھ یقین دہانیاں حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ پہلے مولانا فضل الرحمن مسلم لیگ (ن) کے چوہدریوں کے گھر گئے، آصف زرداری اور میاں شہباز شریف بھی ایک مدت کے بعد چوہدری شجاعت کی ''عیادت'' کے بہانے (ق) لیگ سے تحریک عدم اعتماد پر ان کی حمایت حاصل کرنے ان کے گھر گئے، بعدازاں چوہدری شجاعت کو مولانا کی دہلیز پر قدم رکھنا پڑا۔
مبصرین و تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ (ق) لیگ تحریک عدم اعتماد پر کامیابی کی صورت میں پنجاب میں چوہدری پرویز کو اسپیکر برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) پی ٹی آئی کے ناراض ارکان کو تحریک عدم اعتماد پر ساتھ دینے کے بدلے میں آیندہ انتخابات میں انھیں ٹکٹ دینے کی آفر کر رہی ہے۔ سندھ میں ایم کیو ایم کو راضی رکھنا پیپلز پارٹی کے لیے بڑا چیلنج ہے۔ دونوں جماعتیں ماضی میں مرکز اور صوبوں میں اتحادی بھی رہی ہیں اور مخالف بھی، سو کچھ لو اور کچھ دو پر معاملات طے کرنے پڑیں گے۔
اپوزیشن رہنما ہمالیائی اعتماد کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ وہ ایوان میں 172 سے بھی زیادہ ارکان شو کریں گے۔ اپوزیشن کو یقین ہے کہ ''امپائر'' نیوٹرل ہو چکے ہیں۔ عمران خان پر سے ان کا ''دست شفقت'' ہٹ چکا ہے۔ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی سو فیصد یقینی ہے۔
ادھر وزیر اعظم عمران خان کا اعتماد بھی آسمان کی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ وہ اور ان کے وزرا کرام بلند و باند دعوے کر رہے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد ہر صورت ناکام ہوگی۔ اپوزیشن 172 ممبران کسی صورت پورے نہیں کرسکے گی۔ وزیر اعظم عمران خان نے بھی حمایت کی یقین دہانی کے لیے اپنے اتحادی (ق) لیگ کی دہلیز پر قدم رکھا اور کراچی میں ایم کیو ایم کے مرکز بہادر آباد بھی انھیں آنا پڑا۔
حکومت کے مذکورہ دونوں اتحادیوں کے رہنماؤں کے انٹرویوز اور بیانات میں کہیں یہ تاثر نہیں ابھرا کہ وہ غیر مشروط طور پر حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں اور تحریک عدم اعتماد میں حکومت کا بھرپور ساتھ دیں گے۔ دونوں اتحادیوں نے اپنے آپشن کھلے رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ اسی طرح پی ٹی آئی کے ناراض ارکان کے جہانگیر ترین اور علیم ڈار گروپ نے بھی کھل کر حکومت کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کرنے سے گریز کیا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن ہر دو فریق کے دعوؤں کو دیکھیں دونوں کو اپنی اپنی کامیابی کا یقین ہے۔
مبصرین و تجزیہ نگاروں کے مطابق عمران خان اس وقت مشکل صورت حال سے دوچار ہیں۔ امپائر کے نیوٹرل ہونے کے بڑھتے ہوئے تاثر نے وزیر اعظم کے راستے میں بڑی رکاوٹیں کھڑی کردی ہیں۔ ان حالات میں وہ کوئی غیر معمولی اور بڑا فیصلہ بھی کرسکتے ہیں۔
وزیر اعظم کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے 2028 تک کی تیاری کر رکھی ہے، عدم اتحاد پیش کرکے اپوزیشن پھنس گئی ہے، تحریک کی ناکامی کے بعد میں ان کے (اپوزیشن) ساتھ جو سلوک کروں گا اس کا انھیں پتا ہی نہیں وغیرہ وغیرہ۔ نہیں معلوم کہ ان کے پاس کون سی گیدڑ سنگھی ہے کہ وہ 2028 تک خود کو وزیر اعظم دیکھ رہے ہیں اور اپوزیشن کا حشر نشر کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔
وفاقی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا بگل بج چکا ہے۔ اپوزیشن نے قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کے لیے سیکریٹریٹ میں ریکوزیشن اور وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرا دی ہے۔ تحریک عدم اعتماد پر اپوزیشن کے 186 ارکان کے دستخط ہیں۔
قواعد کے مطابق اسپیکر قومی اسمبلی پابند ہیں کہ وہ ریکوزیشن جمع کرائے جانے کے بعد 14 دن کے اندر قومی اسمبلی کا اجلاس بلائیں اور اگلے 7 روز کے اندر تحریک عدم اعتماد پر کارروائی کریں۔ اس قاعدے کے مطابق چوں کہ تحریک عدم اعتماد 8 مارچ کو جمع کروائی گئی ہے تو اب اسپیکر قومی اسمبلی پر لازم ہو گیا ہے کہ وہ 22 مارچ تک اجلاس طلب کریں۔
اخباری اطلاعات کے مطابق پاکستان نے ''تنظیم اسلامی کانفرنس'' کے وزرائے خارجہ کا اجلاس بھی بلا رکھا ہے جو اسلام آباد کے اسمبلی ہال میں منعقد کیا جائے گا۔ ایسی صورت حال میں حکومت کے لیے معاملات کو ترتیب دینا مشکل ہو جائے گا۔ تاہم اسپیکر اسمبلی اسد قیصر نے کہا کہ وہ تحریک عدم اعتماد پر آئین و قانون کے مطابق کارروائی کریں گے۔ وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کا یہ موقف سامنے آیا ہے کہ او آئی سی وزرائے خارجہ اجلاس کے باعث تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ 29 مارچ تک ملتوی ہو سکتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اسپیکر قومی اسمبلی درپیش صورتحال میں کیا فیصلہ کرتے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ برس مارچ ہی میں جب اس وقت کے وزیر خزانہ حفیظ شیخ سینیٹ کا الیکشن ہار گئے تھے اور پیپلز پارٹی کے یوسف رضا گیلانی ان کے مقابلے میں سینیٹر منتخب ہو گئے تھے تو قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کیا ہے۔ اس مرتبہ صورت حال ذرا مختلف ہے۔ اب اپوزیشن کو اسمبلی میں یہ ثابت کرنا ہے کہ 342 کے ایوان میں 172 سے زائد ارکان کی اکثریت وزیر اعظم عمران خان پر اعتماد نہیں کرتی۔ لہٰذا مشکل صورت حال اپوزیشن کے لیے ہوگی۔
یہ بحث بھی ہو رہی ہے کہ آئین کے آرٹیکل 63 اے کے مطابق اپنی پارٹی سے منحرف ہونے والا رکن قومی اسمبلی اپوزیشن کے حق میں اپنا ووٹ استعمال نہیں کرسکتا۔ آئین کی مذکورہ شق کا اگر اطلاق کیا جائے تو پھر وہ حکومتی ارکان قومی اسمبلی جو قیادت سے ناراض ہیں اور انھوں نے اپنے اپنے گروپ بنا رکھے ہیں وہ کس طرح ''فلور کراسنگ'' کرکے اپوزیشن کو ووٹ دے سکتے ہیں ان کی آئینی حیثیت کیا ہوگی۔ قانون ان کو کس زمرے میں لے گا۔ اخلاقی طور پر تو وہ اپنی حیثیت کھو بیٹھیں گے۔
حکومت اور اپوزیشن دونوں پر امید کہ کامیابی کا سہرا ان کے سر سجے گا۔ اپوزیشن رہنما آصف زرداری، میاں شہباز شریف، مولانا فضل الرحمن روزانہ ایک سے زائد مرتبہ آپس میں ملاقاتیں کرکے تحریک عدم اعتماد پر اپنے نمبر گیم پورے کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ حکومت کے اتحادی مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم سے بھی اپوزیشن رہنماؤں کی ملاقاتوں و مشاورت کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک دوسرے کو یقین دہانیاں کرائی جا رہی ہیں۔ پی ٹی آئی کے ناراض ارکان کے دو گروپ ترین گروپ اور علیم خان گروپ سے اپوزیشن کی بھرپور مشاورت کا سلسلہ جاری ہے۔
جہانگیر اور علیم خان لندن میں ہیں جہاں مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف سے ملاقات کرکے کچھ یقین دہانیاں حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ پہلے مولانا فضل الرحمن مسلم لیگ (ن) کے چوہدریوں کے گھر گئے، آصف زرداری اور میاں شہباز شریف بھی ایک مدت کے بعد چوہدری شجاعت کی ''عیادت'' کے بہانے (ق) لیگ سے تحریک عدم اعتماد پر ان کی حمایت حاصل کرنے ان کے گھر گئے، بعدازاں چوہدری شجاعت کو مولانا کی دہلیز پر قدم رکھنا پڑا۔
مبصرین و تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ (ق) لیگ تحریک عدم اعتماد پر کامیابی کی صورت میں پنجاب میں چوہدری پرویز کو اسپیکر برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) پی ٹی آئی کے ناراض ارکان کو تحریک عدم اعتماد پر ساتھ دینے کے بدلے میں آیندہ انتخابات میں انھیں ٹکٹ دینے کی آفر کر رہی ہے۔ سندھ میں ایم کیو ایم کو راضی رکھنا پیپلز پارٹی کے لیے بڑا چیلنج ہے۔ دونوں جماعتیں ماضی میں مرکز اور صوبوں میں اتحادی بھی رہی ہیں اور مخالف بھی، سو کچھ لو اور کچھ دو پر معاملات طے کرنے پڑیں گے۔
اپوزیشن رہنما ہمالیائی اعتماد کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ وہ ایوان میں 172 سے بھی زیادہ ارکان شو کریں گے۔ اپوزیشن کو یقین ہے کہ ''امپائر'' نیوٹرل ہو چکے ہیں۔ عمران خان پر سے ان کا ''دست شفقت'' ہٹ چکا ہے۔ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی سو فیصد یقینی ہے۔
ادھر وزیر اعظم عمران خان کا اعتماد بھی آسمان کی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ وہ اور ان کے وزرا کرام بلند و باند دعوے کر رہے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد ہر صورت ناکام ہوگی۔ اپوزیشن 172 ممبران کسی صورت پورے نہیں کرسکے گی۔ وزیر اعظم عمران خان نے بھی حمایت کی یقین دہانی کے لیے اپنے اتحادی (ق) لیگ کی دہلیز پر قدم رکھا اور کراچی میں ایم کیو ایم کے مرکز بہادر آباد بھی انھیں آنا پڑا۔
حکومت کے مذکورہ دونوں اتحادیوں کے رہنماؤں کے انٹرویوز اور بیانات میں کہیں یہ تاثر نہیں ابھرا کہ وہ غیر مشروط طور پر حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں اور تحریک عدم اعتماد میں حکومت کا بھرپور ساتھ دیں گے۔ دونوں اتحادیوں نے اپنے آپشن کھلے رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ اسی طرح پی ٹی آئی کے ناراض ارکان کے جہانگیر ترین اور علیم ڈار گروپ نے بھی کھل کر حکومت کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کرنے سے گریز کیا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن ہر دو فریق کے دعوؤں کو دیکھیں دونوں کو اپنی اپنی کامیابی کا یقین ہے۔
مبصرین و تجزیہ نگاروں کے مطابق عمران خان اس وقت مشکل صورت حال سے دوچار ہیں۔ امپائر کے نیوٹرل ہونے کے بڑھتے ہوئے تاثر نے وزیر اعظم کے راستے میں بڑی رکاوٹیں کھڑی کردی ہیں۔ ان حالات میں وہ کوئی غیر معمولی اور بڑا فیصلہ بھی کرسکتے ہیں۔
وزیر اعظم کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے 2028 تک کی تیاری کر رکھی ہے، عدم اتحاد پیش کرکے اپوزیشن پھنس گئی ہے، تحریک کی ناکامی کے بعد میں ان کے (اپوزیشن) ساتھ جو سلوک کروں گا اس کا انھیں پتا ہی نہیں وغیرہ وغیرہ۔ نہیں معلوم کہ ان کے پاس کون سی گیدڑ سنگھی ہے کہ وہ 2028 تک خود کو وزیر اعظم دیکھ رہے ہیں اور اپوزیشن کا حشر نشر کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔